بسم الله الرحمن الرحيم
جلد!
ہم اپنے آپ سے اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ کفار اپنی زندگی کیسے بسر کرتے ہونگے، حالانکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی معرفت سے ناواقف ہیں؟ وہ اپنی پریشانیاں، تشویش اور غم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے بیان کرنے کی نعمت سے محروم کیوں ہیں؟ وہ یہ بھروسہ کیوں نہیں کر سکتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کوئی چیز رائیگاں جانے نہیں دیں گے؟ وہ اس سکون کے بغیر کیسے زندگی گزار سکتے ہیں کہ ان کی حفاظت کرنے والا کوئی ہے؟ رات کو آنکھیں بند کرتے وقت انہیں یہ یقین کیوں حاصل نہیں ہوتا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، اللہ انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا؟ جبکہ حَقِیقَتاً اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے، اور وہی ان کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا ہے۔
اکثر ہم ایک مسلم خاندان میں پرورش پانے کی وجہ سے، ہم کچھ مخصوص الفاظ کے عادی ہو جاتے ہیں جو ہم بار بار سنتے رہتے ہیں۔ ہم ان الفاظ کے معنی پر غور نہیں کرتے جو ہم اکثر استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان باتوں کو گہرائی سے نہیں سوچتے۔ ہمیں کہا جاتا ہے، "صبر کرو"، لیکن کیا ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ
:﴿إِنَّمَا يُوَفَّى ٱلصَّـٰبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍۢ﴾
"صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔"
(سورة الزمر:10)
جب ہم مسلمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، "السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاته"، تو ہم اس خوبصورت دعا کے پیچھے موجود معانی پر غور نہیں کرتے۔ اس دعا میں اللہ ﷻ کی رحمت اور برکت کی طلب موجود ہے۔ ہم اس کے اثرات کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ یہ رحمت اور برکت ہماری زندگیوں کو کیسے تبدیل کر سکتی ہے؟ تصور کریں کہ ہم ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے ملتے ہیں، دعا دیتے ہیں اور لیتے ہیں۔ یہ کتنا مضبوط رشتہ پیدا کرتا ہے! سبحان اللہ
!
اسی طرح، ہم سورة الفاتحہ کو روزانہ کم از کم سترہ بار دہراتے ہیں، لیکن کیا ہم غور کرتے ہیں کہ ہم اللہ ﷻ سے کیا مانگ رہے ہیں؟ کیا ہم سوچتے ہیں کہ صراط المستقیم پر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا ہم اللہ ﷻ کا شکر ادا کرتے ہیں، چاہے اس نے ہمیں عطا کیا ہو یا ہم سے کچھ واپس لے لیا ہو، اور کیا ہم دل سے کہتے بھی ہیں: "الحمدلله رب العالمين"؟
ہم کئی بار دعا کرتے ہیں، لیکن شاید یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر یا زمین پر سجدے میں گر کر اللہ ﷻ سے اپنے دل کی خواہشات مانگ رہے ہیں، یا امت کی مظلومیت کے خاتمے کی التجا کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی ہمارے دل و دماغ کے کسی گوشے میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ غزہ میں ظلم و ستم جاری ہے، اور ہماری افواج حرکت میں نہیں آتیں۔ کیا ہم سوچتے ہیں، یہ سب کیسے اور کیوں ہو رہا ہے؟!
جب ہم دعا کرتے ہیں، تو اکثر ہم اپنے اردگرد کی حقیقتوں پر انحصار کرتے ہیں—جو ہم دیکھتے اور سنتے ہیں، اور اپنی عقل کے مطابق حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ ﷻ نے اپنے تمام وعدوں کو پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے؟
﴿وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا﴾
"اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستہ نکال دیتا ہے۔"
(سورة الطلاق:2)
﴿أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيبٌۭ﴾
"یقیناً، اللہ کی مدد قریب ہے۔"
(سورة البقرہ:214)
﴿وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُۥٓ﴾
"اور جو اللہ پر بھروسہ کرے، اللہ اسے کافی ہے۔"
(سورة الطلاق:3)
کیا ہم ان خوبصورت آیات کو محض سننے کے عادی ہو چکے ہیں، بغیر یہ کہ ان کے معانی کو اپنے دلوں میں محسوس کریں اور اپنی زندگیوں میں ان کی تاثیر کو پہچانیں؟ کیا ہم دنیا کی چکاچوند میں اس قدر کھو گئے ہیں کہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، صرف اسی کو دیکھتے ہیں، اور جو خاموشی ہمیں سنائی دیتی ہے، اس کے پیچھے کے پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہیں؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ ﷻ دیکھ رہا ہے، اور اس نے ہمیں فتح کا وعدہ کیا ہے۔ کیا ہم یہ یقین نہیں رکھتے کہ اللہ ﷻ کا منصوبہ کامل ہے؟ وہ جانتا ہے کہ کب اور کہاں تبدیلی آئے گی، اور یہ تبدیلی ان تمام لوگوں کے سامنے آئے گی جو اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ "پھر ایک جابرانہ حکمرانی ہوگی، اور یہ اتنی دیر رہے گی جتنا اللہ چاہے۔ پھر اللہ اسے ختم کر دے گا جب وہ چاہے گا۔ پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی۔" (مسند احمد)
ہم دعا کرتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، لیکن نتائج کی فکر نہیں کرتے، کیونکہ وہ مکمل طور پر اللہ ﷻ کے اختیار میں ہیں۔ جب ہم دعا کرتے ہیں، ہمارے الفاظ اللہ ﷻ تک پہنچتے ہیں، اور اللہ ﷻ جو چاہے کرتا ہے، کیونکہ اللہ ﷻ کے فیصلہ ہمیشہ بہترین اور حکمت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس سے پریشان ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ ﷻ ہر بات دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے، اور ہر چیز اللہ ﷻ کے کامل منصوبے کے مطابق ہو رہی ہے۔
ہمیں اکثر رک کر اپنی توجہ دوبارہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ان باتوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کے بارے میں ہم عادی ہو چکے ہیں، تاکہ دنیاوی خیالات اور جذبات کے بھنور سے نکل سکیں، اپنی سمت درست کر سکیں، اور اپنا ایمان مضبوط کر سکیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ فتح قریب ہے، اور وہ جلد آئے گی۔
مصدر: Ummah Voice Podcast