الأربعاء، 06 شعبان 1446| 2025/02/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

*دنیا بھر سے مسلمانوں کی خبریں* 

(عربی سے ترجمہ)

 

الواعی میگزین شمارہ نمبر 461 -460

39 انتالیسواں سال

جمادی الاول - جمادی الثانی 1446 ہجری،

بمطابق دسمبر - جنوری 2025 عیسوی

 

*’’اسرائیل‘‘ تاریخ میں امریکی فوجی امداد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے*

 

غزہ پر ’’اسرائیل‘‘ کی طرف سے جاری جارحانہ جنگ کے دوران، امریکہ مسلسل اپنے اتحادی ’’اسرائیل‘‘ پر مالی اور فوجی امداد نچھاور کرتا رہا ہے۔ امریکہ یہ سب ایسے انداز میں کرتا ہے کہ گویا امریکہ مشرق وسطیٰ کو اپنے مفادات کے مطابق دوبارہ ترتیب دینے کے لیے ایک پراکسی جنگ لڑ رہا ہو۔ امریکہ کی طرف سے یہودی وجود کو دی جانے والی امداد کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی میں ’’جنگ کے منصوبے کے اخراجات‘‘ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق، امریکہ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے آغاز کے بعد سے ایک سال کے عرصے میں اسرائیل کو 17.9 بلین ڈالر کی فوجی امداد دے چکا ہے۔ ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ ویب سائٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل تاریخ میں امریکی فوجی امداد حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جسے 1959ء سے اب تک 251.2 بلین ڈالر کی امداد مل چکی ہے۔ حسبِ معمول، براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور عوامی امور نے سب سے پہلے ایک رپورٹ جاری کی جس کا عنوان تھا: ’’امریکہ کی اسرائیل اور خطے میں متعلقہ امریکی فوجی کارروائیوں پر اخراجات: 7 اکتوبر 2023ء سے 30 ستمبر 2024ء‘‘۔ بائیڈن انتظامیہ نے ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ کم از کم 100 اسلحے کے معاہدے کیے ہیں۔ یمن اور بحیرۂ احمر کے علاقے میں حوثی حملوں کے ردعمل میں غزہ میں نسل کشی کی جنگ سے منسلک امریکی دفاعی اور جارحانہ کارروائیوں پر ہونے والا خرچ 4.86 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ 13 اگست 2024ء کو وائٹ ہاؤس نے یہودی وجود کے لئے مزید اضافی ہتھیاروں کے معاہدے کا اعلان کیا، جن کی مالیت 20.3 بلین ڈالر ہے اور جو آئندہ سالوں میں امریکی کانگریس کی منظوری کے بعد عمل پذیر ہوں گے۔ یہ معاہدے غیر ملکی عسکری فروخت پروگرام کے تحت آتے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت، ’’اسرائیل‘‘ کو 50 بوئنگ ایف-15 جنگی طیارے 18.8 بلین ڈالر کی لاگت سے فراہم کیے جانا متوقع ہے۔ امریکہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے ’’اسرائیل‘‘ کا سب سے بڑا اسلحہ سپلائر رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک پر یہودی وجود کی فوجی برتری برقرار رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، ’’اسرائیل‘‘ مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جو جدید ترین امریکی جنگی طیارے، جیسے ایف-35، استعمال کرتا ہے۔ اور معاملہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں آگے تک ہے۔ ’’اسرائیل‘‘ واحد ملک ہے جسے امریکی فوجی ساز و سامان کی وصولی سے متعلق ادائیگیاں آئندہ برسوں تک مؤخر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مزید برآں، ’’اسرائیل‘‘ کو یہ استثنیٰ بھی حاصل ہے کہ وہ امریکہ سے حاصل ہونے والی سالانہ فوجی امداد کے 25 فیصد سے خود اپنے ہتھیاروں کی تیاری اور ترقی پر خرچ کر سکتا ہے، جبکہ یہ استثنیٰ دنیا کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں ہے۔

 

الوعی تبصرہ :

 

امریکہ صہیونی وجود کی حمایت اور حفاظت ایک ایسے آلۂ کار کے طور پر کرتا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں اپنی حکمت عملیوں کو نافذ کر سکے، اور دوسری جانب ان علاقائی طاقتوں کو روک سکے جو اس کی پالیسیوں کی مخالف ہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ بیان ہے: ’’اگر اسرائیل موجود نہ ہوتا، تو ہمیں اسے ایجاد کرنا پڑتا‘‘۔

 

 

*یاعلون اپنے اس الزام پر قائم ہے کہ ’’اسرائیل‘‘ نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے*

 

سابق ’’اسرائیلی" وزیر دفاع موشے یاعلون نے ’’اسرائیل‘‘ پر غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم اور نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے، اس الزام کی حکومت نے سختی سے مذمت کی ہے۔ انتہاپسند سابق جنرل نے ’’اسرائیلی‘‘ میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے انتہاپسند عناصر فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے نکال دینا چاہتے ہیں اور وہاں یہودی بستیاں دوبارہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یاعلون نے ’’اسرائیلی‘‘ پبلک براڈ کاسٹر، کان (Kan) کو بتایا، ’’میرا فرض ہے کہ آپ کو اس حقیقت سے آگاہ کروں جو کچھ وہاں پر برپا ہو رہا ہے اور ہم سے چھپایا جا رہا ہے۔ مکمل طور پر، وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے‘‘۔ یاعلون، جو 2013ء سے 2016ء تک نیتن یاہو کی حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور آئی ڈی ایف کے چیف آف اسٹاف بھی رہ چکے ہیں، بعد ازاں نیتن یاہو کے مخالفین میں شامل ہو گئے۔ نیتن یاہو کی لیکود پارٹی نے یاعلون پر ’’جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی الزامات‘‘ لگانے کا الزام عائد کیا تھا۔ یاعلون نے، جو فوج کے چیف آف اسٹاف کے عہدے پر بھی فائز رہے، اس نے غزہ کی پٹی میں اپنے ملک پر نسلی قتل عام کے الزامات سے متعلق سخت بیانات واپس لینے سے انکار کر دیا تھا، اور بعد میں اس نے مزید نیا بیان دیا جس میں اس نے کہا کہ ’’اسرائیلی‘‘ فوج اب ’’دنیا کی سب سے زیادہ غیر اخلاقی فوج ہے‘‘ جو انسانیت کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہو چکی ہے۔ اسی دوران، فوج کے چیف آف اسٹاف ہرزی ہالوی نے یاعلون کو کسی بھی سکیورٹی اجلاس میں شرکت کرنے یا فوجیوں کو لیکچر دینے سے روکنے کا فیصلہ کر دیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’’اسرائیلی‘‘ اپوزیشن، جس کے ساتھ مل کر یاعلون نیتن یاہو کے خلاف کام کر رہے تھے، وہ اپوزیشن بھی غزہ میں جنگ کو ’’نسلی قتل عام‘‘ قرار دینے والے اس کے بیان کو قبول نہ کر سکی۔ اپوزیشن ان کے اس بیان پر شدید حیرت میں مبتلا ہوئی کہ فوج وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے، جس کے بعد ان پر سخت تنقید اور حملے شروع ہو گئے۔ اس پس منظر میں، یاعلون کے بیانات پر غصے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بات ایک ’’اندرونی گواہ‘‘ کی حیثیت سے سامنے آئی۔

 

 

الوعی تبصرہ :

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ نیتن یاہو جو غزہ، مغربی کنارے اور لبنان کے لوگوں کے خلاف قتلِ عام کر رہا ہے، اور اس میں یہودیوں کی اکثریت اسے حمایت دے رہی ہے، اور یہ اقدام انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ اسی بنیاد پر، اسے اس انداز میں بیان کرنے پر مشتعل کیا گیا ...کہ (اسرائیل) بالآخر امت کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’یہود تم سے لڑیں گے اور تم انہیں قتل کرو گے‘‘۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے... اور پھر ظالم جان لیں گے کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوں گے۔

 

 

*رائٹرز: ترکی نے یہودی راہب، کوگان کے قتل کے مشتبہ افراد کو متحدہ عرب امارات کے حوالے کر دیا*

 

ترکی کے ایک سکیورٹی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ تین مشتبہ افراد، جن پر متحدہ عرب امارات میں ’’اسرائیلی ‘‘ راہب، زوی کوگان کے قتل کا الزام ہے، اس ہفتے ترک انٹیلیجنس اور پولیس کی ایک خفیہ کارروائی کے دوران استنبول میں گرفتار کر لئے گئے۔  ذرائع نے مزید کہا کہ یہ مشتبہ افراد، جو ازبکستان کے شہری ہیں، اماراتی حکومت کی درخواست پر متحدہ عرب امارات کے حوالے کر دئیے گئے۔ اماراتی وزارتِ خارجہ نے X پلیٹ فارم پر اپنے اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ میں ترک حکام کا ’’مجرموں کی گرفتاری میں تعاون‘‘ پر شکریہ ادا کیا۔ اماراتی وزارتِ داخلہ نے انکشاف کیا کہ مالدووا علاقے سے تعلق رکھنے والے ’’اسرائیلی‘‘ راہب، زوی کوگان کے قتل کے الزام میں گرفتار تین مشتبہ افراد اولمپی توہرووچ (28)، محمود جان عبد الرحیم (28)، اور عزیزبیک کاملووچ (33) ہیں، اور یہ تینوں ازبک شہریت رکھتے ہیں۔ وزارت نے مزید کہا کہ ماہرین سکیورٹی حکام نے ابتدائی تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ انہیں عوامی استغاثہ کے حوالے کیا جا سکے اور تحقیقات مکمل کی جا سکیں، تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ وزارت نے اعلان کیا کہ مجرموں کو ’’ریکارڈ وقت‘‘ میں گرفتار کیا گیا۔ کوگان کو متحدہ عرب امارات میں یہودی ’’چاباد‘‘ تحریک کے نمائندوں میں شمار کیا جاتا تھا، اور اس کے پاس مولدووان کے ساتھ ساتھ ’’اسرائیلی‘‘ شہریت تھی۔ وہ باضابطہ طور پر امارات میں ابوظہبی کے چیف ربی کے معاون کے طور پر مقیم تھا، جیسا کہ ’’اسرائیلی‘‘ اخبار یدیوت آحرونوٹ نے رپورٹ کیا۔

 

الوعی تبصرہ :

 

یہ ہے اردگان اور یہ ہے اس کا خستہ حال ’’معتدل اسلامی‘‘ نظام... یہ اس کی غداریوں کی ایک مثال ہے، جو اگر ایک جگہ جمع کی جائیں تو گندگی کا ایسا پہاڑ بن جائے گا جو تعفن سے بھرا ہوتا ہے... یہ ظالمانہ اور جابرانہ حکمرانوں کی ایک مثال ہے، جن سے امت کو کوئی سکون کا سانس حاصل نہیں، سوائےاس کے کہ انہیں جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے۔ جبکہ ان کے لیے جہنم کافی ہے، اور وہ کیا ہی برا انجام ہے۔

 

 

*ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ ٹیم... ’’اسرائیل کے دوست‘‘ جو اپنی جانبداری کو نہیں چھپاتے*

 

کوئی بھی نومنتخب امریکی صدر کیا پالیسی اختیار کرے گا، اس کی پالیسی کا اندازہ صدر کے عہدہ سنبھالنے سے قبل اس کے منتخب کردہ معاونین کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ کے خارجہ پالیسی کے منتخب کردہ حکام کی رائے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ ان معاملات میں ایک انتہا پسندانہ رویہ اپنائیں گے جو ’’اسرائیل‘‘ اور اس کے اسٹریٹجک مفادات سے متعلق ہیں۔ ان کی حکومت میں ایسے انتہاپسند افراد شامل ہیں جن کی سوچ ’’اسرائیل‘‘ کے حق میں انتہائی مضبوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہاپسند ’’اسرائیلی‘‘ وزیر بیتزالیل سموتریچ نے اعلان کیا کہ 2025ء ’’یہودیہ اور سامریہ‘‘ پر ’’اسرائیلی‘‘ خودمختاری کا سال ہوگا اور اس نے مزید کہا کہ انہوں نے ’’اسرائیلی‘‘ حکام کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے لیے ابتدائی کام شروع کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔

 

·       ٹرمپ نے ’’اسرائیل‘‘ کے لیے اپنے ملک کے سفیر کے طور پر سابق آرکنساس گورنر مائیک ہکابی کو منتخب کیا، جو فلسطینیوں اور ان کے مقبوضہ علاقوں کے خلاف انتہائی دائیں بازو کے موقف کے لیے مشہور ہیں۔ وہ ٹرمپ کی اعلیٰ عہدوں کے لیے امیدواروں کی پہلی فہرست میں شامل تھے۔ ہکابی کا انتخاب امریکی انتخابی نتائج کے اعلان کے صرف تین ہی دن بعد ہو گیا۔ ’’اسرائیلی‘‘ اخبار ہاریٹز کے مطابق، ہکابی یہودی دفاعی لیگ کے فعال رکن تھے، جو انتہائی دائیں بازو کے راہب، میر کہانے نے امریکہ میں قائم کی تھی۔ اس تقرری کا استقبال نیتن یاہو کی حکومت کے دو انتہائی دائیں بازو کے وزراء،  انتہاپسند وزیر خزانہ بیتزالیل سموتریچ اور  انتہاپسند وزیر قومی سلامتی اتمار بن گویر نے خوشی کے ساتھ کیا۔ ہکابی نے ’’ابراہم معاہدوں (Abraham Accords)‘‘ کی حمایت کی، جنہوں نے ’’اسرائیل‘‘ اور متعدد عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی ٹرمپ کی کوششوں کو مکمل کیا۔ وہ ایک عیسائی (Baptist) پادری ہیں جنہوں نے ’’اسرائیل‘‘ کے درجنوں دورے کیے ہیں، جن میں 2017ء میں مغربی کنارے میں ایک بڑی ’’اسرائیلی‘‘ آبادکاری کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب بھی شامل ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا، ’’مغربی کنارہ جیسی کوئی چیز نہیں ہے – یہ یہودیہ اور سامریہ ہے۔ آبادکاری جیسی کوئی چیز نہیں ہے – یہ کمیونٹیز، محلے اور شہر ہیں۔ قبضے جیسی کوئی چیز نہیں ہے‘‘۔ اس عیسائی پادری نے کہا کہ ’’اسرائیل‘‘ کو ’’یہودیہ اور سامریہ‘‘، جو کہ مغربی کنارہ ہے اور جسے ’’اسرائیل‘‘ نے 1967ء کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضے میں لیا تھا، اس علاقے پر ابراہم  کے وارثین کی حیثیت سے خدا کی طرف سے حق حاصل ہے‘‘۔

 

·       ٹرمپ نے ’’اسرائیل‘‘ کی ایک اور حامی، نیویارک کی ریپبلکن نمائندہ ایلس اسٹیفانک کو اقوام متحدہ میں امریکہ کا مستقل نمائندہ منتخب کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو غزہ کے اطراف  میں ’’اسرائیلی‘‘ قبضے اور (اسرائیل کی) کیبٹزیم کمیونٹی پر حماس کے حملے کے بعد، اسٹیفانک نے اقوام متحدہ کے جنگی معاملات سے نمٹنے کے طریقہ کار پر کھل کر تنقید کی تھی۔ وہ خبروں کی شہ سُرخیوں میں بھی رہی۔

 

·       ایک حیرت انگیز موڑ یہ بھی تھا کہ ٹرمپ نے سینیٹر مارکو روبیو کو امریکی سیکرٹری خارجہ کے طور پر نامزد کرنے سے قبل ہکابی کو ’’اسرائیل‘‘ کے لیے سفیر اور رئیل اسٹیٹ ڈویلپر اسٹیون وٹکوف کو مشرق وسطیٰ کے لیے اپنا خصوصی ایلچی نامزد کیا۔ وٹکوف، جو طویل عرصے سے ٹرمپ کے گالف ساتھی ہیں اور وہ ستمبر میں ٹرمپ پر ہونے والے دوسرے قاتلانہ حملے میں بھی ان کے ساتھ موجود تھے، وہ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی خصوصی ایلچی کے طور پر کام کریں گے۔ وٹکوف کے پاس خارجہ پالیسی کا کوئی واضح تجربہ نہیں ہے لیکن وہ ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ ٹرمپ کے معاملات کی مسلسل تعریفیں کرتے رہے ہیں۔ مارکو روبیو، جنہیں ٹرمپ نے امریکی سیکرٹری خارجہ مقرر کیا، نے کہا کہ وہ غزہ میں ’’اسرائیلی‘‘ جنگ کی حمایت کرتے ہیں، اوراس نے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں کا الزام حماس پر عائد کیا، جس کے بارے میں اس نے کہا،  کہ وہ ’’انسانی ڈھال‘‘ کے طور پر شہریوں کا استعمال کرتی ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کی بین الاقوامی فیلوشپ کے ساتھ ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ ’’نازی جتنے خوفناک تھے، وہ اپنی بربریت کو سوشل میڈیا پر نہیں دکھاتے تھے اور دنیا کو دکھانے کے لیے اس پر فخر نہیں کرتے تھے، جیسے کہ حماس کر رہی ہے، جو اس معاملے کو میرے لیے اور بھی زیادہ بدتر بنا دیتا ہے‘‘۔ روبیو نے زور دیا کہ وہ یہاں پالیسی بنانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ صدر کے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لیے ہیں۔ ہکابی نے بھی یہی دعویٰ کیا کہ وہ پالیسی مرتب نہیں کریں گے بلکہ صدر کی پالیسی پر عملدرآمد کریں گے۔

 

 

الوعی تبصرہ :

 

یہ تقرریاں ٹرمپ کے آنے والے دور میں مسلمانوں کے لیے ایک تاریک منظر پیش کرتی ہیں۔ تاہم، امت اپنے رب کے ساتھ مخلص رہے گی اور فتح کی امید صرف اسی واحد ذات، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے رکھے گی۔

 

Last modified onمنگل, 04 فروری 2025 20:58

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک