بسم الله الرحمن الرحيم
امریکہ اور چین کی ایک دوسرے پر پابندیاں
(ترجمہ)
تحریر: ڈاکٹر محمد جیلانی
ٹرمپ کی صدارت کی پہلی مدت 2018 سے 2022 کے دوران، چین اور امریکہ کے تعلقات میں قابل ذکر تناو دیکھنے میں آیا، یہ مختلف پہلووں میں نظر آیا، جن میں سے ایک ٹرمپ کی جانب سے کوویڈ-۱۹ کو چینی وائرس کہنے پر اصرار تھا، ٹرمپ نے چین پر وائرس کے پھیلاو کی پشت پناہی کا الزام لگایا، اسی طرح آبنائے تائیوان Strait of Taiwan میں کشیدگی میں اضافہ جو تقریبا 110 میل (تقریباً 180 کلومیٹر) لمبا ہے اور چین کو تائیوان سے الگ کرتا ہے، اسی طرح ٹرمپ نے امریکہ کی طرف آنے والی چینی برآمداد پر بھاری ٹیکس لگایا۔ شاید دونوں ملکوں کے درمیان سب سے اہم کشیدگی وہ ہے جس کا ذکر چینی عہدہ داروں نے کیا کہ امریکہ چین کو ایک ایسی سرد جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہا جس میں چین کو دلچسپی نہیں۔ چینی صدر 'شی' نے کہا جیسا کہ رائٹر نیوز ایجنسی نے 2022-11-15 کو بتایا کہ سرد جنگ کی سوچ ختم ہو جانی چاہیے، دنیا سرد جنگ کی متحمل بالکل بھی نہیں ہو سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سے امریکہ نے سوویت یونین، جس کو بنیاد بنا کر امریکہ دنیا کے مختلف خطوں میں اپنا اثرورسوخ وسیع کرتا تھا، کو مقابلہ کرنے والے شراکت دار کے طور پر کھو دیا ہے، تب سے اس نے یورپ کو اپنی چھتری تلے رکھنے کا سب سے اہم سبب کھونا شروع کر دیا ہے۔ اسی لیے اس نے ایسے متبادل کی تلاش شروع کی جس کے ذریعے وہ اپنی بالادستی کو جاری رکھے، خاص طور پر یورپ کے اپنے جگری دوستوں پر۔
جب 2018 میں ٹرمپ نے پہلی دفعہ امریکہ کے صدر کا منصب سنبھالا تو اس کی اہم ترین عالمی ترجیح، چین کو بین الاقوامی کھلاڑی بننے پر اکسانا اور دنیا پر اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لیے اس کو استعمال کرنا تھا، خاص طور پر یورپ کو امریکہ کے دائرہ اثر سے نکلنے سے روکنا تھا۔ یورپ، امریکہ کےدائرہ اثر سے نکلنے کے لیے بڑے قدم اٹھا چکا تھا، اور یہی چیز یورپ کو ایک متحدہ دستور کے ذریعے اپنی وحدت کو مکمل کرنے، ایک یورپی سیکورٹی فورس بننے اور نیٹو سے الگ ہونے کی طرف لے جارہی تھی۔
چین نے امریکہ کے ساتھ کسی قسم کی مہم جوئی میں مشغولیت سے قطعی طور پر انکار کر دیا۔ اس سے قبل سوویت یونین کے ساتھ جو کچھ ہوا چین اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا، جو کہ امریکہ کے ساتھ سرد جنگ کے کھیل میں شرکت کی وجہ سے کوئی کامیابی حاصل کیے بغیر ڈھیر ہو گیا تھا۔
یہ بعید از امکان نہیں کہ پہلی مدت کے بعد ٹرمپ کو، صدارت کے منصب سے دور رکھنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ سرد جنگ کی شکل میں چین کو بین الاقوامی رسہ کشی میں کھینچ لانے میں ناکام رہا۔ چینی صدر نے چین کی پالیسی کے لیے واضح لائن کھینچ رکھی تھی، اور بقول رائٹر نیوز ایجنسی کے یہ پالیسی خاص طور پر اٹلانٹک ایشیا اور بین الاقوامی تعقات میں سیاسی اور عسکری تنازعات سے دور رہتے ہوئے ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی تجارت میں پیش رفت پر مبنی تھی۔
بائڈن کی صدارت کے دوران امریکہ روس کی طرف متوجہ ہوا اور اس کو یوکرین کے ساتھ ایک طویل مدتی جنگ میں پھنسا دیا، جس کے مختلف اسباب تھے، جن میں سے ممکنہ طور پر اہم ترین سبب یورپ پر امریکی بالادستی کو پائیدار بنانا، نیٹو کو تقویت دینا اور یورپ کو نیٹو سے نکلنے سے روکنا تھا، جس کے بارے میں فرانس کے صدر میکرون نے کہا تھا کہ نیٹو وینٹی لیٹر پر موت وحیات کی کشمکش میں ہے۔
اب چونکہ ٹرمپ دوبارہ امریکہ کا صدر بن گیا ہے، تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ایک بار پھر چین کو تجارت سے بڑھ کر سرد جنگ میں کھینچ لانے پر کام کرے گا۔ چین کو ٹرمپ کی پالیسی اور رجحان کا پہلے سے علم ہے کہ وہ چین کو امریکہ کے ساتھ سرد جنگ پر مجبور کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ اس بار چین ٹرمپ کی جانب سے سرد جنگ میں کھینچے جانے کو قبول کرے گا۔
لہذا، زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ چین نے امریکی عسکری کمپنیوں پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ صرف پیشگی اقدامات کا حصہ ہیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ امریکہ اور چین کے درمیان رسہ کشی صرف تجارت کے میدان تک محدود ہے، اور اس کا بین الاقوامی بالادستی کے لیے جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا، چین کی جانب سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں پر پابندی کا تعلق دونوں ملکوں کے درمیان علاقائی کشیدگی سے ہے، خاص کر تائیوان کے مسئلے کے حوالے سے۔ یہ بات عالمی صورت حال سے توجہ، علاقائی صورت حال کی طرف مبذول کرتی ہے جو کہ چین دکھانا چاہتا ہے کہ معاملہ صرف علاقائی ہے۔
چین تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی دوسرا ملک بشمول امریکہ، تائیوان کو کسی قسم کی عسکری یا سیاسی معاونت کرے۔ یوں امریکہ کی جانب سے تائیوان کو اسلحے کی فروخت کو چین اپنی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کی کشیدگی ایشیائی بحیرہ روم کے علاقے تک محدود ہے اور یہ عالمی نہیں ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے رویے پر اثر انداز ہونے کے لیے مختلف اسالیب استعمال کرتے ہیں، اور اقتصادی پابندیاں انہی اسالیب میں سے ہیں۔ امریکی کمپنیوں پر حالیہ چینی پابندیاں، امریکہ کی جانب سے چینی کمپنیوں پر پابندی اور چینی برآمدات پر ٹیکس میں اضافے کا ردعمل ہیں۔ چین ان پابندیوں کے ذریعے امریکہ کو واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا سخت رد عمل ہو گا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے پر پابندیاں ان پیچیدہ معاملات کا حصہ ہیں جن کو امریکہ یا تو چین پر حقیقی دباو ڈالنے کے لیے استعمال کرے گا جس سے بالآخر چین عالمی سطح پر اپنے بڑھتے اثرورسوخ سے پسپائی اختیار کرے گا، یا اس کے نتیجے میں دونوں ممالک متفق ہو جائیں گے، جس کے عالمی نظام پر دور رس اثرات ہوں گے، یہ اتفاق سرد جنگ کی شکل میں ہو گا، جس سے، اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے اور یورپ میں اپنے حقیقی حریفوں پر اپنی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے، امریکہ کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔