بسم الله الرحمن الرحيم
الرایہ ایڈیٹوریل: اے مختلف گروہو!
یہی وقت ہے کہ آپ تمام غداروں سے منہ موڑ لیں کیونکہ اب آپ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
استاد خالد سعید
آپریشن "طوفان الاقصیٰ" کے ابتدائی دنوں سے ہی یہ واضح تھا کہ غزہ کے عوام کے ساتھ ہر حکمران غداری کر چکا ہے۔ کچھ حکمران اپنی شرمناک بے عملی پر بھی مطمئن نہ تھے، پس وہ جنگ میں دشمن کی طرف سے شریک ہونے، سازش کرنے اور دشمن کو تعاون فراہم کرنے کی طرف لپکے، جیسے مصر، قطر، اردن، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے حکمرانوں نے کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ حکمران اس موقع کو استعمال کرکے، اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کے طور پر، فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے، جدوجہد کرنے والی ہر پاکیزہ اور قیمتی جان کو مٹا دینے، اور باعزت و پر وقار طرز عمل کی ہر علامت کو مٹا دینے کے درپے ہیں کہ جو ان کی سازش اور غداری کو بے نقاب کرے۔ وہ فلسطین کے مسئلے کو صرف اس طریقے سے نمٹتے ہیں جیسے ان کے نوآبادیاتی آقا ان سے مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں شرم نہیں آتی جب وہ غزہ کی سرزمین پر ہونے والی نسل کشی اور تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے کانوں سے سنتے ہیں، جبکہ یہ حکمران ایک انگلی ہلانا بھی گوارا نہیں کرتے۔ وہ افواج کو روکے رکھتے ہیں اور انہیں متحرک ہونے سے منع کرتے ہیں۔ وہ ہر ایسی کوشش کے خلاف لڑتے ہیں جو افواج کو اسلامی شریعت کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے حرکت میں آنے کی خاطر کی جائے۔ وہ اپنی اس غداری پر ڈٹے رہتے ہیں جب وہ نشانہ بننے والوں اور ان کے قاتلوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ وہ کافر ممالک کے حکم پر فلسطینی عوام اور یہودیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتے ہیں، اس کے مطابق کہ جس کا فیصلہ یہ کافر ممالک خود کرتے ہیں۔ اپنے موقف اور ثالثی میں وہ یہودیوں کے قریب ہیں، کیونکہ وہ فلسطینی عوام کے خون اور طاقت کی سودے بازی کرتے ہیں تاکہ انہیں یہودیوں کے حق میں مقدس سرزمین اور مسجد الاقصیٰ سے دستبردار ہونے پر مجبور کریں۔ دباؤ اور سودے بازی کے تناظر میں "قاہرہ مذاکرات" PLO اور فلسطینی اتھارٹی اور باقی فریقوں کے درمیان، غزہ انتظامیہ کے بندوبست کے بہانے ہوئے۔ یہ سب کچھ امریکی حل کے وژن کے تحت ہے، اور اس کا مقصد مسلم ممالک میں عوام کو گمراہ کرنا اور فلسطینی بھائیوں کے لیے ان کے ہمدردی کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ مسلم دنیا کے یہ حکمران صرف انسانی امداد کے دائرے میں متحرک ہوتے ہیں، جیسے غزہ کے عوام کو صرف کھانا اور دوا کی ضرورت ہو۔ اگر وہ کچھ فراہم کرتے بھی ہیں تو وہ صرف اس حد تک ہوتا ہے جس کی یہودی اجازت دیتے ہیں، اللہ ان کو مارے، یہ کیسے دغا کرتے ہیں!
جب "مزاحمت کے محور" (Axis of Resistance) نے "میدان جنگ کے محاذوں کا اتحاد" کا نعرہ بلند کیا، جس کا ہوّا سالوں سال بڑھتا جا رہا تھا، تو کچھ لوگ یہ تصور کرنے لگے کہ اس نے اپنے معاملات ترتیب دے لیے ہیں اور اپنے ساز و سامان کو تیار کیا ہے تاکہ ان کے ذریعے یہودی وجود پر حملہ کر کے اسے مکمل طور پر مٹا دیا جائے۔ یہودی وجود ایک مدھم ہوتا نشان بن جائے، اور پلک جھپکتے مٹ جائے اور ایک بھولی بسری شے بن جائے۔ تاہم، مزاحمت کا محور پہلی آزمائش میں ہی زمین بوس ہو گیا۔ اس کی اصلیت کا پتہ پہلی حقیقی آزمائش میں ہی چل گیا، جب آپریشن "طوفان الاقصیٰ" کے بعد اس نے غزہ کو یہودیوں کی تکبر اور ان کی قاتل اور تباہ کن فوجی مشینری کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا، جنہیں کافر مغرب کی جانب سے ہر ممکن طاقت اور بغیر کسی حد کے مدد حاصل تھی۔ یہاں تک کہ "مزاحمت کے محور" کی مختلف گروہوں کی جانب سے غزہ پر جنگ کے 14 مہینوں کے دوران کیے جانے والی اقدام اور کاروائیاں، یہودی وجود کے خلاف محض محدود انتقامی کاروائیاں تھیں،چاہے یہ لبنان میں ایران کی حزب ہو، یا یمن میں حوثی ہوں، یا عراق کے گروہ۔ انہوں نے یہودی وجود کے خاتمے اور فلسطین کی آزادی کے لیے بھرپور فیصلہ کن جنگ نہیں کی۔ سب حملے حساب کتاب سے کیے گئے۔ اہداف کا بغور جائزہ لیا گیا تاکہ یہ حملے یہودیوں پر دباؤ ڈالنے اور انہیں امریکی منصوبے اور علاقے کے لیے اس کے وژن کے مطابق رہنے پر مجبور کرنے تک ہی محدود ہوں۔ یہ امریکہ ہی تھا جس نے پہلے دن سے غزہ کے خلاف نسل کشی کی جنگ کی قیادت کی۔ "مزاحمت کے محور" کی کاروائیاں صرف امت کے عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے تھیں، وہ عوام جو مقدس سرزمین کو مدد فراہم کرنے کے لیے بے چین ہیں، اور یہودیوں کے خلاف جہاد اور لڑائی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ مزید یہ کہ یہودیوں سے لڑنا صرف تنظیموں اور گروہوں تک محدود کیوں ہے، جب کہ مسلمانوں کی افواج موجود ہیں؟!
امریکہ کے حکم اور ایران کی رضا مندی کے ساتھ، لبنان میں ایران کی حزب اور یہودی وجود کے درمیان یہودی وجود کی حفاظت اور سیکیورٹی کی ضمانت دینے کے معاہدے پر دستخط کے بعد،
اب کوئی شک نہیں رہا کہ "مزاحمت کا محور" صرف ایک جھوٹ تھا۔ "میدان جنگ کے محاذوں کا اتحاد" محض ایک سراب تھا، جسے نادانوں نے پانی سمجھا تھا۔ اس نے انہیں شدید مایوس کیا۔ تاہم، ایسا ہونے پر تعجب کیوں؟! یہ ایجنٹ حکومتوں پر انحصار کرنے اور ان کے ساتھ اتحاد کا لازمی نتیجہ ہے، خواہ یہ وہ حکومتیں ہو جو یہودی وجود کے ساتھ تعلقات نارملائز کرنے کی بات کرتی ہیں یا جو مزاحمت اور مخالفت کا دعویٰ کرتی ہیں، جن کے بارے میں ہم بار بار خبردار کر چکے ہیں۔ ہم تمام سچے لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان حکومتوں سے دور رہیں جو استعمار کی تخلیق ہیں، ہمارے ممالک میں ان کی مداخلت کا وسیلہ ہیں، اور استعماری طاقتوں کے مفادات کی وفادار محافظ ہیں۔
بغیر کسی مبالغے کے، جو کچھ ہوا ہے اور جو کچھ ابھی غزہ میں ہو رہا ہے، وہ بلا شبہ ہر معنوں میں جہاد کے کاز اور مجاہدین کا خاتمہ ہے۔ اس کا کسی خاص گروہ یا شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تباہی کی وسعت اور جرم کی شدت کے باوجود، ہم نے آج تک غزہ کے عوام کی طرف سے دی گئی عظیم قربانیوں کی مثال نہیں دیکھی۔ ان جرائم کی طرف نام نہاد مزاحمتی گروہوں کا طرز عمل اپنی روایتی ذہنیت اور طریقوں پر مشتمل تھا۔ گویافلسطینی عوام کی تمام صلاحیتوں کو نشانہ بنانے، قتل، تباہی، مٹانے، کچلنے اور پیس ڈالنے نے اس مزاحمتی گروہ کے اندر کچھ بھی تبدیل نہیں کیا۔ یہ انہیں اپنی صورتحال پر نظر ثانی کرنے پر مجبور نہیں کر سکا۔ یہ انہیں اپنے تعلقات کو ان مجرم حکومتوں کے ساتھ دوبارہ پرکھنے پر مجبور نہیں کر سکا، اور نہ ہی یہ دیکھنے پر مجبور کر سکا کہ ان تعلقات کے نتیجے میں فلسطین اور اس کے عوام کے اوپر کیا آفات واقع ہوئی ہیں، فلسطینی عوام کی قربانیوں، جہاد اور خون کا کس قدر استحصال ہوا ہے، اور پھر یہ حکومتیں اپنی غداری کو فتح کے طور پر پیش کرتی ہیں! فلسطین کے مسئلے کی پورے عرصے کے دوران ان کی یہی عادت رہی ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ یہ گروہ ان ایجنٹ حکومتوں سے اپنے تعلقات کو ختم کریں، اور امت کے سامنے ان کے ایجنٹوں کے سیاہ صفحات کو سفید بنا کر پیش کرنے سے باز آ جائیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ تعلق امت کو مفلوج کرنے اور اس کے طاقتور اور پرعزم لوگوں کی توانائی کو ختم کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب خون بہ رہا ہے اور جسموں کے ٹکڑے بکھر رہے ہیں، جب مساجد نماز کے دوران بمباری سے مسمار ہو رہی ہیں، جب گھروں کو ان کے مکینوں کے سروں پر گرایا جا رہا ہے جبکہ انہیں کوئی بھی مدد دینے والا نہیں ہے، اور ان پر گرنے والی قتل اور جرم کی مشینری کو روکنے کے لیے کوئی نہیں آ رہا۔ فلسطین میں جس ناکامی کی حالت کا ہم گلہ کرتے ہیں وہ ان حکومتوں پر شرمناک انحصار کی وجہ سے ہے۔ اور یہ کہ ان گروہوں کا امت کو ایسے خطاب نہ کرنا کہ جس سے ان کا ایمان بیدار ہو، اور امت کو اپنے آپ کو آزاد کرنے اور شرمناک اور ذلت آمیز حکمرانوں کو ہٹانے کی تحریک نہ دینا۔
اے گروہو! یہ وقت ہے کہ آپ تمام ایجنٹوں اور غداروں کی طرف اپنی پشت کر لیں، کیونکہ ان سب نے ایک ہی غداری کے ذریعے آپ کو اور فلسطین کے عوام کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے۔ جو شخص یہودی وجود کے ساتھ تعلقات کے قیام کا حامی ہے اور جو شخص محض مذمت کرتا ہے، ان میں کوئی حقیقی فرق نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ بازی کو ان حکمرانوں کی سروں پر پلٹ دیں، کیونکہ اب آپ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ وقت ہے کہ آپ اپنی امت کے سامنے اس کے حکمرانوں کے بارے میں سچائی کھول کر رکھیں۔ یہ وقت ہے کہ آپ مصلحت پر مبنی الفاظ بولنا بند کردیں کہ جس کے آپ عادی ہیں۔ ان حکومتوں سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مزید یہ کہ جتنا خون بہہ چکا ہے وہ کسی بھی مادی مفاد سے بڑا ہے۔
ہماری باتوں سےکسی کو بھی یہ تاثر نہ جائے کہ یہ ذمہ داری صرف گروہوں پر ہے۔ دراصل، ہمیشہ اور ہمیشہ کے لیے یہ ذمہ داری مجموعی طور پر اسلامی امت پر ہے۔ اسلامی امت پر یہ فرض ہے کہ وہ اقدام کرے اور فلسطین اور اس کے عوام کی طرف اپنے شرعی فرض کو پورا کرے۔ مسئلہ تمام جماعتوں سے بڑھ کر ہے، چاہے وہ سب متحد ہو جائیں۔
امت کو ہر سطح پر اٹھنا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فلسطین کی آزادی کا راستہ ایجنٹ حکمرانوں سے امت کی آزادی سے شروع ہوتا ہے، یوں امت کو اپنی صفوں کو یکجا کرنا ہوگا، اور اپنے وجود کو ایک بنانا ہو گا، خلافت راشدہ ثانیہ کی شکل میں، جو نبوت کے نقش قدم پر ہو۔ خلافت راشدہ ہی کے ذریعے یہودی وجود کا خاتمہ ہوگا، اور نوآبادیاتی کفار کی جڑوں کو اکھاڑا جائے گا۔ ورنہ ہماری امت کا دکھ جاری رہے گا، اور فلسطین اور اس کے عوام کا المیہ ختم نہیں ہوگا۔ جب تک غداری اور دھوکے پر مبنی حکومتی ڈھانچے موجود ہیں، یہ ختم نہیں ہوگا۔
ممبر میڈیا آفس، حزب التحریر ارضِ مبارك فلسطین