الثلاثاء، 04 رمضان 1446| 2025/03/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

خصوصی مضمون: شامی انقلاب دوبارہ اپنی عظمت بحال کر رہا ہے،

جبکہ اس کے دشمن اسے سمجھوتے کے جال میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 

(ترجمہ)

 

پانچ سال تک محاذوں پر جمود جاری رہنے کے بعد، 27 نومبر 2024ء کو شام کی مجرمانہ حکومت کے خلاف ایک فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا، جس میں متعدد فوجی تشکیلیں دینا بھی شامل ہے۔ یہ کارروائی مغربی حلب کے دیہی علاقے سے شروع کی گئی، جو کہ حیات التحریر الشام کے کنٹرول میں ہے، اور اس کارروائی کا نام  "ردع العدوان" (جارحیت کی روک تھام) رکھا گیا۔ اس کارروائی کے مقاصد کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے: "مجرمانہ حکومت کے حملوں کو روکنا، آزاد کردہ علاقوں سے ایرانی ملیشیاؤں کے خطرے کو ختم کرنا، اور عوام کی اپنی زمینوں پر واپسی کے لیے موزوں حالات پیدا کرنا"۔ اس کاروائی کے چند دن بعد، شمالی حلب کے دیہی علاقے میں، جو کہ ریاست کی فوج کے کنٹرول میں ہے، ایک نئی کارروائی کا آغاز کیا گیا، جس کا عنوان "فجر الحرية" (آزادی کی صبح) رکھا گیا۔

 

جیسے ہی لڑائیوں کا آغاز ہوا، عوام میں پہلے جیسے انقلاب کا جوش و جذبہ دوبارہ زندہ ہو گیا، اور "اللہ اکبر" کے نعرے فضاؤں میں گونجنے لگے۔ مخلص انقلابیوں اور مجاہدین نے غیر متزلزل عزم اور بلند حوصلے کے ساتھ، مجرمانہ حکومت کے قبضے سے علاقے، دیہات، اور قصبے آزاد کرانے کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ یہ خاص طور پر اس شرف کے ساتھ ہوا جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان پر نازل کیا، اور ان کے لیے دشمن کے مال غنیمت اور ہر قسم کے ہتھیاروں کے دروازے کھول دیے۔ عوام نے مختلف سطحوں پر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے حلب شہر کو آزاد کرایا اور اس کے بعد سراقب، معرۃ النعمان، خان شیخون، اور حلب و ادلب کے دیہی علاقوں میں بے شمار شہروں اور قصبوں کو آزاد کرایا، جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے لیے کھول دیا۔ علاقے ایک کے بعد ایک ان کے سامنے گرنے لگے، یہاں تک کہ اس مضمون کے لکھنے کے وقت، وہ حماۃ شہر کے مضافات تک پہنچ چکے تھے، جہاں انہوں نے دیہی علاقوں کے کئی دیہات اور قصبوں کو آزاد کرایا۔ یہ سب حمص اور درعا کے بہادر مجاہدین کی جدوجہد اور قوت کے نتیجے میں ممکن ہوا، جنہوں نے مجرمانہ حکومت کے غرور و تکبر کو خاک میں ملا دیا، جب انہوں نے اس کی سکیورٹی چیک پوسٹس اور فوجی چھاؤنیوں پر کامیاب حملے کیے۔ مجرمانہ حکومت کے برج، اس کے فوجی اور شبیحہ ملیشیا کے کارندے، شدید خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہو گئے۔

 

اس کے نتیجے میں، یہ تمام عوامل امریکہ اور اس کے آلہ کاروں، یعنی ہمارے علاقوں میں موجود غدار حکومتوں کے لیے خوف کا باعث بن گئے، جنہوں نے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام پر مجرمانہ حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہوا تھا اور ان غدار حکومتوں نے شام کی سرزمین کے ایک اکائی ہونے اور فیصلے کی خودمختاری کو برقرار رکھنے کی بات کی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت کہ امریکہ بطور مرکزی ٹھیکیدار ہوتے ہوئے چھوٹے کھلاڑیوں کو ان کے گندے کردار سونپ رہا ہے، 01 دسمبر 2024ء کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کا دیا گیا بیان ہے۔ انہوں نے کہا: "یہ ایک پیچیدہ صورتحال ہے۔ ہم اسے قریب سے مانیٹر کر رہے ہیں اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں"۔ اسی دوران، ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ "شام میں جھڑپیں ایک غیر مطلوبہ کشیدگی کا سبب ہیں"۔ ترک وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب سے کہا: "ہم شام کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان امن کی بحالی کے لیے ایک سیاسی عمل کا مطالبہ کرتے ہیں"۔ یہ مجرموں کی سازشیں ہیں، مگر اللہ کی تدبیر ان سے زیادہ بڑی اور قوی ہے۔

 

امت کی مبارک تحریک اور اس کے نتائج اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ہے، اور یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ انقلابیوں اور مجاہدین کی حقیقی فطرت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سپاہی ہیں، جو ظلم کے خلاف کبھی خاموش نہیں رہتے۔ یہ اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ امت کے دشمن، شام کی انقلابی عوام کی قوتِ ارادی اور ان کے یقین کو توڑنے میں ناکام ہیں، جو تبدیلی لانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ واقعات کی تیز رفتاری، تجزیوں کی کثرت، اور ان کے بہاؤ کے باوجود، ایک بات جو بالکل واضح اور ایک روشن سیاسی حقیقت ہے: وہ یہ ہے کہ مجرمانہ حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، اس کے ستون اور ڈھانچے میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، اور یہ مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے، چاہے وہ اسد کی جھوٹی طاقت کا کتنا ہی ڈھنڈورا کیوں نہ پیٹ لیں۔ اگر امریکہ اپنے آلہ کاروں، دشمنوں اور نام نہاد دوستوں کو استعمال کرتے ہوئے سازشوں اور کانفرنسوں کے فیصلوں کے ذریعے اس حکومت کو سہارا نہ دیتا، تو یہ حکومت بہت پہلے ختم ہو چکی ہوتی۔

 

 

ان تمام حالات کے پیش نظر یہ لازم ہے کہ مخلص انقلابی اور آزاد مجاہدین اپنے راستے پر بغیر کسی توقف کے ثابت قدم رہیں، تاکہ اس خستہ حال حکومت کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ اس کے کمزور ساحلی حصے اور اس کے مرکز دمشق کو نشانہ بنایا جائے، جہاں ان شاء اللہ آخری فیصلہ اور حتمی معرکہ ہوگا۔

 

تاہم، فتح کے اس ماحول کے درمیان، اور جنگوں کے آغاز کے صرف دو دن بعد، ایک حیران کن بیان جاری کیا گیا جسے نام نہاد "سیاسی امور کی انتظامیہ برائے آزاد علاقے (“Political Affairs Administration in the Liberated Areas)" نے جاری کیا، جو "حکومتِ نجات (Salvation Government)" سے وابستہ ہے۔ اس حیران کن بیان میں صلیبی روس، جو اہلِ شام کا خون بہا رہا ہے، انہیں قتل اور بے دخل کر رہا ہے اور جبری نقل مکانی کر رہا ہے، اس کو "روشن مستقبل کی تعمیر میں ممکنہ شراکت دار" قرار دیا گیا اور روس سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے مفادات کو اسد حکومت یا بشار کے ساتھ مشروط نہ کرے!

 

تو اس حیران کن بیان کے لکھنے والوں کا اُن خون کے دھبوں، کٹے ہوئے اعضا، پامال عزتوں، اور تباہ شدہ بازاروں، ہسپتالوں اور اسکولوں کے بارے میں کیا موقف ہے؟ حیرت کی کوئی بات نہیں، کیونکہ چند ہفتے قبل قازقستان کے دارالحکومت، آستانہ میں نام نہاد "اپوزیشن" کے مذاکراتی وفد کے سربراہ احمد طعمة نے اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز رویہ اپنایا، جب انہوں نے روس سے "اپوزیشن اور حکومت کے نقطہ نظر کو قریب لانے میں زیادہ بڑا کردار ادا کرنے" کی درخواست کی!

 

عوام، تجزیہ کاروں اور مبصرین کے درمیان اس جنگ کی نوعیت کے حوالے سے کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ ایک مخلص اور خودمختار کوشش ہے یا یہ امریکہ-ترکی کے گرین سگنل کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد امریکی منصوبے کے تحت سیاسی حل کی طرف پیش رفت کرنا ہے تاکہ سیکولر مجرمانہ حکومت کو محفوظ رکھا جا سکے اور انقلاب کو کچلا جا سکے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ چند تجزیہ کار، جنہوں نے "گرین لائٹ" کا حوالہ دیا، ان کا کہنا ہے کہ جنہوں نے یہ اجازت دی تھی، وہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ معاملات اس طرح قابو سے باہر ہو جائیں گے اور حکومت کی دفاعی لائنز اس قدر تیزی سے منہدم ہو جائیں گی، خاص طور پر انقلابیوں کے بھرپور عزم و ولولہ، صلاحیتوں اور حالات کے پیش نظر جو ان کے حق میں ہیں اور ان کے دشمن کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔

 

مختصر یہ کہ یہ بات واضح ہے کہ یہ جنگ انقلاب کی گود سے اُٹھنے والی عوامی رائے کے دباؤ کے نتیجے میں شروع ہوئی، تاکہ محاذوں کو کھولا جا سکے اور سیاسی و عسکری قیادت کو واپس حاصل کیا جا سکے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب حکومت کے حالات ہر سطح پر بگڑ رہے تھے اور اس کے اتحادی، یعنی روس، ایران اور لبنان میں حزب اللہ، اپنی اپنی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔

 

ہمارے دشمنوں کی جانب سے ہمارے اس انقلاب کے خلاف کی جانے والی کسی بھی سازش کو عوامی آگاہی اور عوامی تحریک کے ذریعے ناکام بنا دینا چاہیے۔

 

شام کی انقلابی اور جہادی عوام آج جس قدر صبر، استقامت، بہادری، قربانیاں، اور جان ومال کے نذرانے شام کی سرزمین پر پیش کر رہے ہیں، وہ اسلام کی فلاح کے لیے ہونے چاہئیں، نہ کہ اس کے دشمنوں کی خدمت کے لیے۔ اس قربانی کا پھل اسی مقصد کے تحت ہونا چاہیے کہ مجرمانہ حکومت کو گرا دیا جائے، نہ کہ اس کے ساتھ گندے سیاسی تصفیوں میں شریک ہونے کے لیے، جنہیں امریکہ اپنی مصلحت کے تحت نافذ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے اپنی طاقت، وسائل اور اثر و رسوخ کا استعمال کر رہا ہے، جن کی قیادت ترک حکومت کر رہی ہے، جو ظالم بشار کے ساتھ مفاہمتوں کی سرپرستی میں پیش پیش ہے۔ امت کے آزاد لوگ اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں اور ان کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے کہ وہ حکومت کا مقابلہ کرنے میں رکے بغیر اس پر کاری ضرب لگائیں، تاکہ مجرمانہ حکومت کو سانس لینے کا موقع ہی نہ مل پائے، اور اس کے کاغذ کے بنے قلعوں کو ہلا کر اس کو زمین  بوس کر دیا جائے۔ وقت کا تقاضا یقیناً یہ نہیں ہے کہ ہم اس مجرمانہ حکومت کو ذلت اور شرمندگی کے ساتھ اپنی دستاویزات پیش کریں۔ حقیقتاً یہ تمام ملک، حکومتیں اور عالمی تنظیمیں اسلام سے اور شام کے انقلاب سے نفرت کرتی ہیں۔ یہ رات دن سازشیں کر رہی ہیں تاکہ ہمیں مجرمانہ حکومت کے پاس واپس لے آئیں، اور شام کے انقلاب پر مہلک بین الاقوامی حل مسلط کر کے ہمیں اس کے سامنے جھکنے پر مجبور کریں۔

 

ہم اپنے انقلابی عوام اور آزاد مجاہدین سے کہتے ہیں: ہوشیار رہیں اور اس بات کا ادراک کریں کہ اس انقلاب اور آپ کی جہاد کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو دبانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں، کیونکہ آپ اسلام کے محافظ ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد انقلاب کی امید ہیں۔ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی برکت سے اپنے راستے پر ثابت قدم رہیں، جو جنوب کی طرف، دارالحکومت دمشق کی جانب ہے۔ یہ سازشیوں کے خلاف ان کی سازشوں کو پلٹا دینے اور مجرمانہ حکومت کے خلاف ماضی کی بات بنا دینے کا عظیم موقع ہے۔ شاید اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اس کمزور اور غیر مستحکم حکومت کے کھنڈرات پر اسلام اور اس کی ریاست، خلافت علیٰ منہاج النبوة کے ذریعے عزت دے، اور یقیناً یہی وہ چیز ہے جو شام کے عوام اور ان کی قربانیوں کا صلہ دے گی، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی اس کا محافظ ہے اور اس کے لیے مکمل طور پر قادر ہے۔

 

استاد ناصر شیخ عبدالحئی، ولایہ شام میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے رکن

 

Last modified onجمعرات, 06 فروری 2025 23:53

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک