بسم الله الرحمن الرحيم
اردن کے بادشاہ کا امریکہ کا ذلت آمیز دورہ
تحریر: استاد خالد الحکیم
اس سے پہلے کہ اردن کے بادشاہ عبداللہ جمعرات، 6 فروری 2025 کو برطانیہ اور امریکہ کے دورۂ کے لیے روانہ ہوتے، ٹرمپ نے ایک فون کال کے دوران ان پر دباؤ ڈالنے کا اعادہ کیا کہ وہ مزید فلسطینیوں کو قبول کریں۔ ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا، "میں نے اردن کے بادشاہ عبداللہ سے کہا ہے کہ میں چاہوں گا کہ وہ مزید فلسطینیوں کو لے، کیونکہ میں اس وقت پورے غزہ پٹی کو دیکھ رہا ہوں، اور یہ ایک تباہ حال منظر کی طرح افراتفری کا شکار ہے"۔یہ دورہ اس سلسلے کی کڑی تھا جس میں اردنی بادشاہ نے کئی عرب رہنماؤں اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بات چیت کی، جس کے دوران انہوں نے فلسطینیوں کی بے دخلی کو مسترد کرنے اور انہیں اپنی سرزمین پر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سے قبل انہوں نے اس معاملے پر مصر کے صدر السیسی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بھی مشاورت کی تھی۔ دوسری جانب، ٹرمپ پہلے ہی اردن کی امریکی امداد معطل کر چکے تھے اور ملک میں یو ایس ایڈ (USAID) کے منصوبوں کی فنڈنگ بھی معطل کر دی تھی۔
چونکہ یہ دورہ اور ٹرمپ سے ملاقات، جو خطرات سے بھرپور تھی، اردن کی حکومت کی بقا کے لیے فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے، اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ اردن کے بادشاہ کے سرپرست، برطانیہ، کا ایک مشاورتی اور تیاری کے طور پر کیا جانے والا دورہ ہو۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ بادشاہ عبداللہ محض تین ماہ قبل ہی برطانیہ کا دورہ کر چکے تھے، جہاں انہوں نے دونوں مواقع پر بادشاہ چارلس، وزیر اعظم سٹارمر اور دیگر شخصیات سے ملاقات کی تھی۔ ہمیشہ کی طرح، ان دوروں کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں، کیونکہ برطانیہ، جو اردن کے قیام سے ہی ایک طرح سے اس کا "قبلہ" رہا ہے، کی جانب ایسے دورے عموماً نئی ہدایات لینے اور تازہ ترین اہم امور سے متعلق ہوتے ہیں، بالخصوص اہم ترین معاملات کے لیے جو فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔
عبد اللہ نے منگل، 11 فروری 2025 کو وائٹ ہاؤس کے دروازے پر ٹرمپ کا پرتپاک مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا، اس سے قبل کہ وہ اپنی گفتگو کا آغاز کرتے۔انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے گریز کرنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ کسی قسم کی شرمندگی سے بچا جا سکے۔ تاہم، ٹرمپ، جو عبداللہ کی برطانیہ کے آگے تابع داری اور اس کے وہاں کے حالیہ دورے سے مکمل طور پر آگاہ تھا، نے صحافیوں اور فوٹوگرافروں کے لیے دروازے کھول دیے تاکہ وہ ملاقات کے کمرے میں داخل ہوں اور ایسے سوالات کریں جو بادشاہ کے لیے شرمندگی کا باعث بنیں۔یہ سوالات اس حقیقت کو آشکار کر رہے تھے کہ امریکی قیادت کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے اس کا مؤقف کس قدر کمزور تھا، جو اس کے عوام اور میڈیا کے سامنے ظاہر کیے گئے مؤقف سے یکسر مختلف تھا—اور بالکل ایسا ہی ہوا۔
یہ مضمون میڈیا میں ہونے والے تمام تبادلہ خیال کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتا، خاص طور پر اردن کے سرکاری میڈیا کی ان کوششوں کا، جو بادشاہ کے مؤقف کو سنوارنے اور اس کی مرمت کرنے میں مصروف رہا۔ تاہم، یہ کچھ غیر متنازعہ بیانات کو اجاگر کرنے کے قابل ہے جو بادشاہ اور ٹرمپ کے درمیان گفتگو کے دوران سامنے آئے:
ٹرمپ: ہم نے ابھی کچھ مختصر بات چیت کی ہے، اور بعد میں ہم مزید تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ آج آپ اور آپ کے بیٹے ہمارے ساتھ ہیں۔ اگر آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو آپ کا بہت شکریہ۔
شاہ عبداللہ: جناب صدر، میں مخلصانہ طور پر یقین رکھتا ہوں کہ، تمام تر مشکلات کے باوجود، میں بالآخر ایسے رہنما کو دیکھ رہا ہوں جو مشرق وسطیٰ میں استحکام، امن اور خوشحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے، جو ہم سب کے لیے سودمند ہوگا۔
رپوٹر: جناب صدر، بادشاہ کو فلسطینیوں کو کیوں قبول کرنا چاہیے؟ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایسا نہیں چاہتے۔
ٹرمپ: مجھے نہیں معلوم، لیکن شاید ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہو کیونکہ ہم نے اس پر مختصراً بات کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اب آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟
بادشاہ: بہت خوب، جناب صدر، میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ ذکر کرنا چاہیے کہ مصر اور عرب ممالک کی طرف سے ایک منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔ ہمیں محمد بن سلمان نے ریاض میں ہونے والی بات چیت میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ اس معاملے کو کیسے آگے بڑھایا جائے جو سب کے لیے فائدہ مند ہو۔ ظاہر ہے کہ ہمیں امریکہ کے بہترین مفادات، خطے کے لوگوں، اور خاص طور پر اپنے عوام، یعنی اردن کے عوام کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ جو ایک کام ہم فوراً کر سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم 2000 بچوں کو، جو کینسر یا کسی سنگین طبی حالت میں مبتلا ہیں، جتنا جلدی ممکن ہو، اردن میں علاج کے لیے لے آئیں، اور پھر انتظار کریں کہ مصر غزہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے صدر کے ساتھ مل کر کیا منصوبہ پیش کرتا ہے۔
ٹرمپ: اور یہ واقعی ایک خوبصورت اقدام ہے، یہ بہت شاندار بات ہے، اور ہم باقی معاملات پر مصر کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بڑی پیش رفت دیکھیں گے۔ میرا ماننا ہے کہ اردن کے حوالے سے بھی آپ بڑی پیش رفت دیکھیں گے، اور جہاں تک فلسطینیوں یا ان لوگوں کا تعلق ہے جو اب غزہ میں رہ رہے ہیں، تو وہ کسی اور جگہ پرسکون انداز میں رہ سکیں گے۔ وہ محفوظ زندگی گزاریں گے۔
رپوٹر: جناب صدر، آپ نے کہا کہ فلسطینی کسی اور محفوظ جگہ پر رہیں گے۔ وہ کونسی خاص جگہ ہے جہاں آپ چاہتے ہیں کہ وہ رہیں؟
ٹرمپ: دیکھیں، یہ اس بارے میں نہیں ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں رہیں، یہ وہ جگہ ہوگی جس کا ہم سب مل کر انتخاب کریں گے۔ اور میرا خیال ہے کہ ہمارے لیے ایک زمین کا ٹکڑا اردن میں ہوگا، اور دوسرا مصر میں۔
رپوٹر: کیا اردن میں کوئی زمین ہے جسے آپ فلسطینیوں کے لیے مختص کرنا چاہتے ہیں؟
بادشاہ: جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک کے مفاد کو دیکھنا ہوگا، اور میں ایک بار پھر سمجھتا ہوں کہ صدر عرب رہنماؤں کے ایک گروپ کو مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جامع منصوبے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
یوں یہ کھلی ملاقات اختتام پذیر ہوئی، جس کے بعد اسی پس منظر میں طویل مشاورت جاری رہی، جس نے بادشاہ پر چھائی بے چینی اور صدمے کو واضح کر دیا جو ٹرمپ کے اچانک اقدام کے باعث پیدا ہوا تھا، خاص طور پر اس لمحے میں جب ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس اردن میں ایک جگہ ہوگی جہاں غزہ کے لوگوں کو منتقل کیا جائے گا۔ اس وقت بادشاہ کی زبان کو مضبوطی سے کہنا چاہیے تھا: ‘نہیں، یہ نہیں ہوگا’، لیکن وہ ایسا کیسے کہہ سکتا تھا جبکہ وہ ٹرمپ کی خوشامد میں مصروف تھا اور اسے امن قائم کرنے والا کہہ رہا تھا، اور اپنے ملک کے مفادات پر امریکہ کے مفادات کو ترجیح دے رہا تھا؟
بادشاہ کے لیے جو استقبالیہ پیغامات کچھ اردنیوں کی جانب سے دیے گئے، جو درحقیقت ریاستی اداروں کی نگرانی اور ترغیب کے تحت ترتیب دیے گئے تھے، ان کے پس پردہ ایک بنیادی پیغام چھپا تھا: کہ "اگر آپ واقعی اپنے بیان میں سچے ہیں کہ آپ کے لیے اپنے عوام کا مفاد سب سے پہلے ہے، تو اس کا تقاضا ہے کہ حقیقی عملی اقدامات کیے جائیں۔ خاص طور پر جب یہ واضح ہو چکا ہے کہ امریکہ اردن، فلسطین اور پورے خطے کے عوام کا بڑا دشمن ہے۔ اہلِ اردن کے مفاد کا تقاضا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ ختم کیا جائے، اس کے فوجی اڈے بند کیے جائیں اور اس کے فوجیوں کو نکالا جائے، اور اس کی استعماری امداد کو مسترد کر دیا جائے، اور اس کے بجائے اردن کے وسیع وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ اسی طرح، اگر واقعی اردن کے عوام کے مفاد میں کام کرنا ہے تو وادی عربہ معاہدہ اور یہودی وجود کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدے ختم کیے جائیں، بلکہ اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا جائے۔ کیونکہ اردن کے عوام اس بات پر یقین رکھنے لگے ہیں کہ یہودیوں سے قتال اور انہیں فلسطین سے نکالنا ہی فلسطین کے مسئلے کا واحد عملی اور شرعی حل ہے، نہ کہ کسی بھی حصے پر ان کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ خاص طور پر جب انہوں نے غزہ میں مجاہدین کی بہادری اور ان کے صبر و استقامت کو دیکھا، جس نے یہودی وجود کو ذلیل کیا اور اس کی طاقت کے سراب کو چکنا چور کر دیا۔
ٹرمپ سے مذاکرات میں مصر اور سعودی عرب کے حکمرانوں پر انحصار کرنا اور مشترکہ عرب منصوبے کا حوالہ دینا، درحقیقت امریکہ کی سازشوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ شاید یہی وہ چیز ہے جو امریکہ چاہتا ہے— جبری منتقلی کی مسترد شدہ کہانی اور غیر معقول مطالبات کی حد بڑھانے کے ذریعے— تاکہ اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں، یعنی مصر، سعودی عرب اور خطے کے دیگر حکمرانوں کے ذریعے، ایک نئے امریکی منصوبے کے تحت مسئلہ فلسطین کو ختم کر دیا جائے۔
عرب حکمران کبھی اکٹھے نہیں ہوتے، سوائے اس کے کہ وہ اپنی ہی عوام کے خلاف سازش کریں۔ انہیں تو درحقیقت اس بات کے لیے متحد ہونا چاہیے تھا کہ وہ مغربی استعماری زنجیروں سے آزادی حاصل کریں اور اپنی غلامی کو ختم کریں۔ جو انہیں سائیکس-پیکو معاہدے کے تحت تقسیم کر کے اس یا اُس استعماری قوت کا تابع بنا چکی ہے۔ مگر وہ اپنے پیش رو جابروں کے انجام سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
خلاصہ: ہماری عزت کی بحالی، جسے اردن کے بادشاہ اور اس کے سابقہ و موجودہ ساتھیوں نے پامال کیا، خلافت کی بحالی میں مضمر ہے—وہ خلافت جس نے دنیا پر اپنے عدل و رحمت کے ساتھ حکمرانی کی۔ اس خلافت کے خلیفہ نے لکھا تھا: "بسم الله الرحمن الرحيم، امیر المؤمنین ہارون کی جانب سے روم کے کتے نیسیفورس، کے نام؛ میں نے تیرا خط پڑھا، اے کافر عورت کے بیٹے! جواب وہ ہوگا جو تم سنو گے نہیں بلکہ دیکھو گے، والسلام!"۔ مسلم امت اپنے آنے والے خلیفہ سے اسی طرح کے خطاب کی منتظر ہے، جو جلد ہی، ان شاء اللہ، ٹرمپ اور یہود کے حکمرانوں کے لیے ہوگا:
﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللهِ﴾
"اس دن مومنین اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے" [سورة الروم:4-5]۔