
بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه17)
"قرآن کے اللہ کی طرف سے ہونے کا ثبوت (حصہ سوم)"
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ سترہویں قسط ہے، جس کا عنوان ہے " قرآن کے اللہ کی طرف سے ہونے کا ثبوت " ۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ 13پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
شیخ نبہانی، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: "جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن اللہ جل جلاله کی طرف سے ہے ، یہ بات معروف ہے کہ قرآن ایک عربی کتاب ہے جو محمد صلى الله عليه وسلم کے ذریعے لائی گئی ہے۔ اس لیے یہ یا تو عربوں کی طرف سے ہے، یا محمد صلى الله عليه وسلم کی طرف سے، یا پھر اللہ جل جلاله کی طرف سے۔ یہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ زبان اور طرز دونوں میں عربی ہے۔
ہم اللہ کی مغفرت، رحمت، رضا، اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
آئیے ہمارے ساتھ اور سنیں کہ قریش کے سرداروں نے رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا کہا۔
انہوں نے آپ ﷺ کو مال، مرتبہ، طاقت، عورتیں، اور علاج کی پیشکش کی۔
تو محمد ﷺ نے انہیں کیا پیش کیا؟ کیا انہوں نے انہیں دولت، عزت، اور اقتدار پیش کیا؟
یا انہوں نے انہیں یہ قرآن پیش کیا؟
یقیناً، محمد ﷺ نے اپنا معجزہ پیش کیا اور اللہ کے کچھ آیات پیش کیں۔
تو کیا وہ اپنی پیشکش میں کامیاب ہوئے؟
ہم کہتے ہیں: جی ہاں، محمد ﷺ اپنی معجزاتی پیشکش میں کامیاب ہوئے۔
ابن اسحاق، جو سیرت النبی ﷺ کے اولین اور مستند مصنف ہیں، روایت کرتے ہیں کہ اہل قریش کا ایک سردار، عتبہ بن ربیعہ ایک معزز اور بردبار شخص تھا۔ ایک دن، جب وہ قریش کی مجلس میں بیٹھا تھا اور اللہ کے رسول ﷺ اکیلے مسجد حرام میں بیٹھے تھے، اس نے کہا:
"اے قریش کے لوگو! کیا میں ان کے پاس نہ جاؤں اور ان سے گفتگو نہ کروں، انہیں کچھ ایسی باتوں کی پیشکش کروں جو شاید وہ قبول کر لیں، تاکہ ہم انہیں وہ دے دیں جو وہ چاہتے ہیں اور وہ ہم پر اپنی کاروائی بند کر دیں؟"
یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ نے اسلام قبول کیا تھا، اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں کی تعداد بڑھتے دیکھ رہے تھے۔ قریش نے کہا: "ہاں، ابو الولید، ان سے بات کرو۔"
چنانچہ عتبہ اٹھا اور اللہ کے رسول ﷺ کے پاس جا کر بیٹھا اور کہا:
"اے میرے بھائی، آپ ہماری قوم میں اپنی حیثیت اور نسب کے اعتبار سے نمایاں ہیں۔ آپ اپنی قوم کے لیے ایک ایسا معاملہ لے کر آئے ہیں جس نے انہیں تقسیم کر دیا ہے، ان کے خوابوں کا مذاق اڑایا ہے، ان کے معبودوں اور ان کے دین پر تنقید کی ہے، اور ان کے آبا و اجداد کے عقیدے کو مسترد کیا ہے۔ تو میری بات سنیں، میں آپ کو کچھ چیزیں پیش کرتا ہوں جن پر آپ غور کریں، شاید آپ ان میں سے کچھ کو قبول کر لیں۔"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کہیں، اے ابو الولید، سن رہا ہوں۔" عتبہ نے جواب دیا: "
"اے میرے بھائی، اگر جو چیز آپ لے کر آئے ہیں اس سے آپ کا مقصد صرف مال کی طلب ہے، تو ہم اپنا مال اکٹھا کرکے آپ کو اتنا دیں گے کہ آپ ہم سب میں سب سے زیادہ مالدار ہو جائیں۔ اگر آپ عزت چاہتے ہیں، تو ہم آپ کو اپنے اوپر سربلند کردیں گے تاکہ کوئی فیصلہ آپ کی شرکت کے بغیر نہ کیا جائے۔ اگر آپ بادشاہت کے خواہشمند ہیں، تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنا دیں گے۔ اور اگر آپ پر کوئی ایسی حالت طاری ہے جو آپ کے قابو سے باہر ہے، تو ہم آپ کا علاج کرانے کے لیے تیار ہیں اور اس پر اپنا مال خرچ کریں گے، کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کسی آزمائش کا شکار ہوں اور آپ کو شفا کی ضرورت ہو۔ بے شک، اے عبدالمطلب کے بیٹے، آپ وہ کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو کوئی اور نہیں کر سکتا۔"
جب عتبہ اپنی بات مکمل کر چکا اور رسول اللہ ﷺ اس کی بات توجہ سے سن رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا آپ اپنی بات مکمل کر چکے، اے ابو الولید؟"
"جی ہاں۔" عتبہ نے جواب دیا:
پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تو اب میری بات سنیں"۔
عتبہ نے کہا: "میں سنوں گا۔"
رسول اللہ ﷺ نے تلاوت شروع کی:
"بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ * حَم * تَنزِیلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ * کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ"
"اللہ کے نام سے جو نہایت رحم والا، بے حد مہربان ہے۔ * حم۔ * یہ رحمان و رحیم کی جانب سے اتاری گئی کتاب ہے۔ * ایک کتاب جس کی آیات تفصیل سے بیان کی گئی ہیں، ایک قرآن عربی زبان میں ان لوگوں کے لیے جو سمجھتے ہیں" (سورة فصلت: 1-3) ۔
رسول اللہ ﷺ کی تلاوت جاری رہی، اور عتبہ اسے دھیان سے سن رہا تھا، وہ پیچھے کی طرف جھک کر اپنے ہاتھوں پر ٹیک لگا کر سن رہا تھا۔ آپ ﷺ کی تلاوت اس آیت تک پہنچی:
"فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُکُمْ صَاعِقَةً مِّثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ"
"اگر وہ منہ موڑ لیں تو کہہ دو کہ میں نے تمہیں ایک ایسی آفت سے ڈرایا ہے جیسی عاد اور ثمود کی قوم پر آئی تھی" (سورة فصلت: 13)۔
عتبہ نے رسول اللہ ﷺ کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، اور کہا:
"رکو میرے بھتیجے، شاید تم جو کہتے ہو اس میں سے کچھ ہمارے ساتھ ہو جائے"۔
پھر رسول اللہ ﷺ سجدہ کرنے والے مقام پر پہنچے اور سجدہ کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:
"تم نے سن لیا، اے ابو الولید، جو کچھ تم نے سنا، اب تم خود فیصلہ کرو!"۔
ابو الولید اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آیا، معجزے سے حیران و پریشان، اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اس نے جو کچھ سنا تھا، اس کا جواب دینے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ جب اللہ کے دشمن ابو جہل نے اسے دیکھا، تو کہا، "اللہ کی قسم، ابو الولید تمہاری حالت مختلف ہے، تم اب ویسے نہیں لگ رہے ہو جیسے تم گئے تھے۔" جب وہ ان کے ساتھ بیٹھا، تو انہوں نے پوچھا، "کیا ہوا، ابو الولید؟" اس نے جواب دیا، "اللہ کی قسم، میں نے ایسی باتیں سنی ہیں جو پہلے کبھی نہیں سنی! یہ نہ تو شاعری ہے، نہ جادوگری، اور نہ ہی کسی نجومی کے الفاظ! اے قریش، میری بات سنو اور اس شخص کو اس کے کام میں رکاوٹ نہ ڈالو۔ اُسے آزاد چھوڑ دو، کیونکہ اللہ کی قسم، جو میں نے سنا ہے، اس کا اثر بہت گہرا ہوگا۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے، تو تم اس سے نبٹنے سے بچ جاؤ گے، اور اگر وہ عربوں پر غالب آ گیا، تو اس کی حکمرانی تمہاری حکمرانی بن جائے گی، اور اس کی عزت تمہاری عزت ہو گی۔ تم اس کی وجہ سے سب سے زیادہ خوش قسمت لوگ بن جاؤ گے!"
انہوں نے کہا، "اللہ کی قسم ابو الولید، تم اس کے کلمات سے جادو کا شکار ہوگئے ہو!" اس نے جواب دیا، "میں جادو کا شکار نہیں ہوا، جو کچھ میں نے کہا وہ میرا اپنا خیال ہے، تم جیسے چاہو ویسا کرو!" ۔ اس کے بعد جب عتبہ سے اس بارے میں گفتگو کی جاتی تو وہ کہتا : "میں نے محمد کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور ان کو صلہ رحمی کا واسطہ دیا کہ وہ آگے نہ بڑھیں اور کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ جب محمد کوئی بات کہتا ہے تو وہ ہو کر رہتی ہے اس لئے میں ڈر گیا تھا کہ کہیں تم پر بھی عذاب نازل نہ ہوجائے" ۔
ایک اور مستند روایت ہے کہ ولید ابن مغیرہ کے پاس قریش کے کچھ زعماء جمع ہوئے ۔ ولید ابن مغیرہ ان میں ایک معمر دانشور تھا۔ زمانہ حج کا تھا۔ قریش کے سردار اس کو اپنا گرُو مانتے تھے، انہوں نے پوچھا، "اے ابو الشمس، ہمیں کیا کہنا چاہیے جب عرب کے وفود حج کے لیے آئیں گے، کیونکہ ہمارے لیے ایک دوسرے سے اختلاف کرنا مناسب نہیں ہوگا؟" اس نے کہا، "تم مجھے بتاؤ، تم کیا سمجھتے ہو؟" انہوں نے کہا، "کیا ہم کہیں کہ وہ شاعر ہے؟" اس نے جواب دیا، "نہیں، میں شاعری اور نثر دونوں جانتا ہوں؛ میں اس کے پیمانے اور اس کی صورتیں جانتا ہوں، اور محمد کی بات شاعری جیسی نہیں ہے۔" انہوں نے پوچھا، "کیا ہم کہیں کہ وہ کاہن ہے؟" اس نے جواب دیا، "نہیں، کیونکہ محمد کی باتیں کاہنوں کی باتوں سے میل نہیں کھاتی ہیں۔" انہوں نے کہا، "کیا ہم کہیں کہ وہ پاگل ہے؟" اس نے جواب دیا، "نہیں، کیونکہ محمد میں پاگلوں کی علامات نہیں ہیں۔" انہوں نے پوچھا، "تو پھر ہمیں کیا کہنا چاہیے؟" اس نے جواب دیا، "اس کے بارے میں سب سے مناسب بات یہ ہے کہ وہ ایک فریب دینے والا جادوگر ہے جو فصاحت سے بات کرتا ہے۔" اسی پر اللہ کی یہ آیات نازل ہوئیں:
إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ 0 فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 0 ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ 0 ثُمَّ نَظَرَ 0 ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ 0 ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ 0 فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ 0 إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ 0 سَأُصْلِيهِ سَقَرَ
"اس نے سوچا اور تدبیر کی۔ * تو وہ مارا جائے، کیسے اس نے تدبیر کی! * پھر وہ مارا جائے، کیسے اس نے تدبیر کی! * پھر اس نے نظر ڈالی۔ * پھر اس نے تیوری چڑھائی اور منہ بنایا۔ * پھر پیٹھ پھیر لی اور تکبر کیا ۔ * پھر کہا یہ تو ایک جادو ہے جو پہلے سے چلا آتا ہے ۔ * یہ تو ہو نہ ہو آدمی کا کلام ہے ۔ * عنقریب اس کو دوزخ میں ڈالوں گا ۔'" (سورة المدثر:18-26)
ان روایات میں ہم چند نکات دیکھتے ہیں جو ہمارے موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ قرآن اللہ کی طرف سے ہے!
پہلا نکتہ یہ ہے کہ ابو الولید نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے منہ پر ہاتھ رکھا، جو اس پیغام کی سچائی اور اس پیغام کی معجزاتی نوعیت کو تسلیم کرنے اور پہچاننے کا مظہر ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ابو الولید نے اپنی قوم کو محمد ﷺ کی دعوت کی مخالفت نہ کرنے کی ترغیب دی۔ یہ پیغام کی اہمیت اور اس کی طاقت کو تسلیم کرنے کا دوسرا اظہار ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ابو الولید نے نبی صلى الله عليه وسلم اور ان کی باتوں کو شاعری، نثر یا کہانت کے طور پر بیان کرنے سے انکار کیا، اور قرآن کو انسانوں کی باتوں سے مختلف قرار دیا۔ اس نے قرآن کے سامع پر گہرے اثرات کو تسلیم کیا اور کہا کہ اس کا اثر ایسا جادوئی دھوکہ ہے جو انسان کے احساسات کو متاثر کرتا ہے۔ قرآن سامع کے کان کو اس طرح متاثر کرتا ہے کہ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے بغیر کسی تردد کے قبول کرتا ہے، جبکہ نظر فریب کا شکار ہو سکتی ہے۔
نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "بیشک کچھ بیان جادو کی طرح ہوتا ہے۔" اگر یہ بات محمد صلى الله عليه وسلم سے منسوب کی جائے تو، پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے اس بات کو رسول اللہ ﷺ کے خلاف کوئی رکاوٹ کیوں نہیں بنایا، حالانکہ وہ ایک طویل عرصے، چالیس سال تک ان کے درمیان رہ کر بات کرتے رہے تھے اور اُن عربوں میں انہیں "صادق و امین" کے طور پر جانا جاتا تھا - ان کے علم میں کوئی ایک چھوٹا سا واقعہ بھی نہ تھا جس میں آپ ﷺنے جھوٹ بولا ہو۔ چونکہ قرآن عربی میں ہے، ان کی اپنی زبان میں، اور اس کا بیان بھی ان کے جیسا ہی ہے، تو پھر الزامات اور بہتان کیوں؟ قرآن کے جواب میں ایسی ہی باتیں، جملے اور آیات کیوں نہیں پیش کردی گئیں؟ کیا یہ ان عربوں کی شکست خوردگی اور کمزور ہوجانے کی حالت کا ثبوت نہیں ہے؟ کیا یہ صورتحال قرآن کی معجزاتی نوعیت کا اعتراف نہیں ہے ؟ جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہ نہ تو اُن عربوں سے ہے، نہ ہی عام عربوں سے؟ اگر ان کے پاس یہ صلاحیت ہوتی کہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ یہ قرآن معجزہ نہیں ہے، تو پھر وہ مختلف الزامات کیوں لگاتے ہیں؟ کیا اس کا جواب صرف قرآن جیسا کچھ پیش کرنا کافی نہیں ہوتا؟ لیکن وہ قرآن جیسا کچھ کیسے پیش کر سکتے ہیں جب کہ وہ ایسا کرنے میں بے بس ہوگئے ہیں؟
مزید یہ کہ تاریخ میں ہمیں کوئی ایسی کتاب نہیں ملتی جس کا نام قرآن ہو، جس میں عربوں نے اللہ کے قرآن کی مخالفت کی ہو۔ دروازہ ابھی تک کھلا ہے ہر کسی کے لیے جو اس جیسا کچھ پیش کرنا چاہتا ہے، اور یہ چیلنج آج بھی قائم ہے۔ کوئی بھی اس میں کامیاب نہیں ہو سکا، اور اگر زبان کے ابتدائی دور کے وہ ماہرین اس میں ناکام ہو گئے تھے تو بعد کی نسلیں اس کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں؟
اگر قرآن عربوں کا ہوتا تو یہ شاعری اور نثر سے مختلف نہ ہوتا۔ اس میں وہ مردہ اور قدیم الفاظ اور اصطلاحات شامل ہوتیں جو اب استعمال میں نہیں ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کے تمام الفاظ زندہ اور استعمال میں ہیں، اس کے برعکس قدیم عربوں کی زبان، خواہ وہ شاعری ہو یا نثر، میں ایسے الفاظ ہیں جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر دو ایسے الفاظ ہیں: پہلا "السَّجَنْجَل" ہے، جس کا مطلب ہے آئینہ، اور دوسرا "وج العسل" ہے، جو ایک درخت کی پتلی شاخ کو ظاہر کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پیش کردہ تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن عربوں کی تخلیق نہیں ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کہاں سے آیا؟ کیا یہ غیر عربوں کی طرف سے آیا ہے؟
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔