بسم الله الرحمن الرحيم
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول
(حلقه18)
"قرآن کے اللہ کی طرف سے ہونے کا ثبوت (حصہ چہارم)"
کتاب "نظامِ اسلام" سے
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہی وہ بنیاد ہےجسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت ہےجسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، جو تمام انسانوں میں بہترین فرد ہیں، عظیم رسولوں کی مُہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) پر، اور اُن کے ان عظیم پیروکاروں پرجو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان میں شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہو گا۔
اے مسلمانو:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
" بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام " کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ، ہم آپ کے ساتھ کئی نشستیں کریں گے۔ ہماری یہ اٹھارہویں قسط ہے، جس کا عنوان ہے " قرآن کے اللہ کی طرف سے ہونے کا ثبوت " ۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب ' نظام اسلام ' کے صفحہ 13، 14 اور 15پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی ؒنے بیان کی ہے۔
شیخ نبہانی، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: "جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قرآن اللہ جل جلاله کی طرف سے ہے ، یہ بات معروف ہے کہ قرآن ایک عربی کتاب ہے جو محمد صلى الله عليه وسلم کے ذریعے لائی گئی ہے۔ اس لیے یہ یا تو عربوں کی طرف سے ہے، یا محمد صلى الله عليه وسلم کی طرف سے، یا پھر اللہ جل جلاله کی طرف سے۔ یہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ زبان اور طرز دونوں میں عربی ہے۔اور ہم اللہ کی مغفرت، رحمت، رضا اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
جب ہم نے مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کر دیا کہ قرآن عربوں کی طرف سے نہیں ہے، تو ہم اس دعوے کی طرف بڑھتے ہیں کہ قرآن غیر عربوں کی طرف سے بھی نہیں ہے:
دوسرا: یہ دعویٰ کہ قرآن غیر عربوں کی طرف سے ہے، کا بطلان:
مجھے یقین ہے کہ یہ دعویٰ کہ قرآن غیر عربوں کی طرف سے نہیں آیا، کسی ثبوت کا محتاج نہیں ہے۔ غیر عرب وہ ہیں جن کی زبان عربی نہیں ہے۔ وہ قرآنِ عربی کے خلاف کوئی ایسی کتاب پیش نہیں کر سکتے جو زبان میں ان کی کمزوری کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے۔ مزید یہ کہ قرآن نے عربی زبان اور فصاحت کے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ غیر عرب جو عربی زبان میں مہارت حاصل کر چکے ہیں، وہ بھی اس چیلنج میں شامل ہیں۔ انہیں زبان کے لحاظ سے عرب سمجھا جاتا ہے، نسل یا قومیت کے لحاظ سے نہیں۔
قرآن کا چیلنج نسل یا قومیت پر مبنی نہیں ہے بلکہ زبان اور فصاحت پر مبنی ہے۔ اس کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ بعض غیر عرب عربی علوم، تفسیر، فقہ اور حدیث میں اتنے ماہر ہو گئے کہ وہ ان شعبوں میں نمایاں علماء بن گئے۔ ان میں سے ایک سیبویہ ہیں، جو مشہور نحوی ہیں، اور دوسرے طبرٰی ہیں، جو عظیم مفسر ہیں۔
یہ مختلف معتبر ذرائع میں ذکر کیا گیا ہے کہ اسلامی فقہ کے چار بڑے ائمہ میں سے تین، یعنی امام ابو حنیفہ، امام محمد بن ادریس الشافعی، اور امام مالک بن انس غیر عرب ہیں۔ صرف امام احمد بن حنبل ایسے ہیں جو عرب پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بکر بن وائل قبیلے سے ہیں۔
کچھ کفار نے یہ دعویٰ کیا کہ محمد ﷺ کو قرآن سکھانے والا مکہ میں ایک غیر عرب نوجوان تھا جس کا نام ’جبر‘ تھا۔ یہ دعویٰ باطل ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اسے اپنے فرمان میں رد کر دیا ہے:
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِّسَانُ ٱلَّذِى يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِىٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِىٌّ مُّبِينٌ
"اور بلاشبہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں: ’اسے تو ایک بشر ہی سکھاتا ہے۔‘ جس کی طرف وہ اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے، جبکہ یہ (قرآن) واضح عربی زبان ہے۔"
(سورۃ النحل: 103)
کفار کی یہ الزام تراشی سب سے زیادہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز قسم کے الزامات میں سے ہے، جو معمولی سی عقلی جانچ پرکھ کے دوران ہی باطل ہو جاتی ہے۔ جو شخص کسی چیز سے محروم ہو، وہ اسے فراہم نہیں کر سکتا!
ایک دفعہ میری ملاقات ایک غیر عرب شخص سے ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا، "لفظ 'مرغ' کی تثنیہ کیا ہے؟" وہ سوال سمجھ نہ سکا، اس لیے میں نے اسے دوبارہ یوں بیان کیا: "یہ ایک مرغ ہے" اور "یہ دوسرا مرغ ہے۔" پھر میں نے اس سے پوچھا، اب ہمارے پاس کتنے مرغ ہیں؟ اس نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں جواب دیا اور اسم سے پہلے عدد لگا دیا، جو عربی ساخت کے خلاف ہے۔ اس نے کہا: " اتنِينْ دِيك " (دو مرغ)۔
جبکہ اسے یوں کہنا چاہیے تھا: " صَارَ لَدَينَا دِيكَانِ اثنَانِ! " (ہمارے پاس دو مرغ ہیں)
میں نے ایک اور غیر عرب سے سوال کیا، جو پورا قرآن حفظ کر چکا تھا اور نماز کی امامت بھی کرتا تھا، کہ "اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (کہو: وہ اللہ ایک ہے)؟"
اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا، جیسے کھانے کا اشارہ کر رہا ہو، اور اس نے مجھے کچھ اس انداز میں جواب دیا جو بھارتی لوگ ٹوٹی پھوٹی عربی بولتے وقت استعمال کرتے ہیں، ہر لفظ کے درمیان غیر ضروری طور پر حرف جر ‘فی’ (ف) شامل کر کے۔ اس نے کہا:" اللهْ في أَكِلْ " (اللہ کھاتا ہے!)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سمجھتا تھا کہ اللہ کھاتا ہے، حالانکہ اللہ اس سے پاک ہے!
یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ وہ حرف ‘کاف’ (ك) کو جو لفظ ‘کُل’ یعنی "کھاؤ" میں آتا ہے، اور حرف ‘قاف’ (ق) کو جو لفظ ‘قُل’ یعنی "کہو" میں آتا ہے، میں فرق نہ کر سکا۔
تو کیا ایسے دو غیر عرب قرآن جیسا کچھ پیش کر سکتے ہیں؟ بالکل نہیں!
تیسرا: یہ دعویٰ کہ قرآن محمد ﷺ کا تصنیف کردہ ہے، کی تردید:
اگر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن عربوں کا کلام نہیں ہے، کیونکہ وہ اس جیسا کچھ پیش کرنے سے عاجز رہے ہیں، تو اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ یہ محمد ﷺ کا کلام ہے۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ محمد ﷺ کا کلام ہے، کیونکہ وہ عرب ہیں اور انہی میں سے ہیں۔
کوئی بھی انسان چاہے کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو، وہ اپنے وقت اور حالات سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا، اگر مجموعی طور پر عربوں کی عاجزی ثابت ہو چکی ہے، تو یہ محمد ﷺ کے لیے بھی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ آپ ﷺ انہی کی نسل سے ہیں اور انہی میں سے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ قرآن کی آیات تلاوت فرماتے اور احادیث بھی بیان کرتے تھے، اور دونوں کے اسلوب میں نمایاں فرق واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات محمد ﷺ کے بارے میں کثرتِ روایت (التَّوَاتُر) سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کا کلام، جب قرآن کے ساتھ موازنہ کیا جائے، دونوں میں کوئی مشابہت نظر نہیں آتی۔
کسی بھی شخص کا کلام اس کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے اور چاہے وہ اسے کتنا ہی مختلف بنانے کی کوشش کرے، اس کے انداز میں ایک تسلسل برقرار رہتا ہے۔ یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن محمد ﷺ کا کلام نہیں ہے۔ یہ مزید اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن اللہ جل جلالہ کا کلام ہے۔
مزید برآں، کوئی بھی مصنف بعض پہلوؤں میں مہارت حاصل کر سکتا ہے لیکن یہ عموماً دیگر پہلوؤں کی قیمت پر ہوتا ہے۔ لیکن یہ چیز قرآن میں بالکل نظر نہیں آتی! تمام شاعروں، مصنفوں، ادیبوں، مفکرین، اور فلسفیوں کے کاموں میں عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ابتدا میں ایسے انداز سے لکھتے ہیں جس میں کچھ کمزوری ہوتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کے عروج تک پہنچتے ہیں۔
یہ ترقی ان کے اسلوب میں قوت و کمزوری کے فرق کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے، اور ان کے ابتدائی کاموں میں ایسے ناپختہ خیالات اور غیر موزوں اظہار شامل ہو سکتے ہیں، جن پر وہ بعد میں شرمندہ ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن میں ایسا کچھ بھی نہیں پایا جاتا۔
قرآن کا اسلوب ابتدا سے لے کر آخری آیت تک ہر مقام پر مضبوط، واضح، اعلیٰ مفاہیم اور زبردست اظہار سے بھرپور ہے۔ اس میں نہ کوئی کمزور اظہار ہے، نہ کوئی بے معنی خیال۔ بلکہ یہ ایک مربوط کلام ہے جو اپنے عمومی اور تفصیلی پہلوؤں میں مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے، گویا یہ ایک ہی بیان ہو۔
یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انسانی کلام سے بلند ہے، جو عام طور پر اظہار اور معانی میں تغیرات کا شکار ہوتا ہے۔ یہ اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ یہ واقعی رب العالمین کا کلام ہے۔
اگر قرآن محمد ﷺ کا کلام ہوتا تو وہ خود کو ان حالات میں نہ ڈالتے جن سے وہ آسانی سے بچ سکتے تھے! اگر قرآن ان کے اپنے الفاظ ہوتے، تو وہ نابینا شخص کے بارے میں اپنے آپ کو ملامت نہ کرتے، جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے:
﴿عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ * أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ * وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ * أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ﴾
"اس نے تیوری چڑھائی اور منہ موڑ لیا، کہ اس کے پاس نابینا آیا۔ اور تمہیں کیا خبر؟ شاید وہ سنور جائے۔ یا نصیحت پکڑے اور نصیحت اس کے لیے فائدہ مند ہو"(سورۃ عبس 1-4)۔
اسی طرح وہ اپنے آپ کو شدید دھمکی بھی نہ دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا * إِذًا لَأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا﴾
"اور اگر ہم نے تمہیں ثابت قدم نہ رکھا ہوتا، تو تم قریب تھے کہ ان کی طرف کچھ تھوڑا سا جھک جاتے۔ اس وقت ہم تمہیں دنیا میں بھی دوہرا عذاب چکھاتے اور موت کے بعد بھی دوہرا، پھر تم ہمارے مقابلے میں اپنے لیے کوئی مددگار نہ پاتے" (سورۃ الاسراء 74-75)۔
مزید برآں، خود عربوں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ قرآن محمد ﷺ کا کلام ہے۔ ان کا واحد الزام یہ تھا کہ وہ ایک عیسائی لڑکے، جبر، سے یہ کلام حاصل کر رہے ہیں، جس دعوے کو ہم پہلے ہی رد کر چکے ہیں۔
قرآن مجید ایک فطری طرز پر مبنی ہے اور لوگوں کو ان کی سمجھ کے مطابق مخاطب کرتا ہے؛ کیونکہ ان میں عالم اور جاہل، ذہین اور سادہ سبھی شامل ہیں۔ ان سب کو اللہ جل جلالہ پر عقلی ایمان کے ساتھ ایمان لانے اور قرآن کو عقل کے ذریعے قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن میں ماضی کے واقعات کے بارے میں معلومات موجود ہیں، ساتھ ہی غیب کے متعلق خبریں بھی ہیں، اور واقعات بالکل اسی طرح پیش آئے جیسا قرآن نے پہلے سے بتایا تھا۔
اگر یہ محمد ﷺ کا کلام ہوتا، تو حقیقت ان کے بیانات سے ہم آہنگ نہ ہوتی، کیونکہ محمد ﷺ ایک انسان تھے، اور تمام انسان غیب کا علم نہیں رکھتے۔ محمد ﷺ کو یہ علم کہاں سے ملتا؟
مزید برآں، قرآن ہمیں بعض کائناتی قوانین کے بارے میں بھی آگاہ کرتا ہے، جنہیں بعد میں سائنس نے دریافت کیا۔ سائنس، اپنے طریقہ کار، خصوصیات، وسائل، اور تجربہ گاہوں کے ساتھ، ان حقائق کو آشکار کر چکی ہے۔ تو محمد ﷺ نے یہ معلومات کہاں سے حاصل کیں؟ کیا ان کے پاس تجربہ گاہیں تھیں؟ کیا وہ ان ماہرین کے وسائل رکھتے تھے جو ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں؟
چوتھا: قرآن اللہ جل جلالہ کا کلام ہے:
ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ چونکہ قرآن نہ تو عربوں کا کلام ہے، نہ محمد ﷺ کا (جو خود ان میں سے ہیں)، اور نہ ہی غیر عربوں کا، تو یقیناً یہ اللہ کا کلام ہے، جو کائنات، انسانیت، اور زندگی کا خالق ہے اور ان کے تمام باطل دعووں سے مبراہے۔
جب تک قرآن انسانیت کے لیے ایک ایسا چیلنج بنا ہوا ہے جسے پورا نہیں کیا جا سکتا، تو اسے لانے والا ایک سچا نبی اور رسول ﷺ ہے۔ چونکہ قرآن اپنی معجزانہ فطرت کے ساتھ انسانیت کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے، یہ ایک دائمی معجزہ ہے۔
لہٰذا، محمد ﷺ قیامت کے دن تک تمام انسانوں کے لیے نبی ہیں اور وہ انبیاء اور رسولوں کے سلسلے کی مہر ہیں۔ آپ ﷺ اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ آپ کی نبوت ہمیشہ کے لیے ہے، اور آپ کا پیغام ہر زمانے کے لیے جامع ہے۔
اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ ملیں، آپ اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں مستقبل قریب میں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔