الإثنين، 03 رمضان 1446| 2025/03/03
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية
نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول- حلقه 20

بسم الله الرحمن الرحيم

 

نظامِ اسلام سے مقاصد کے حصول

 

(حلقه20)

 

" اسلام کی  بنیادی اساس  (فکر اور طریقہ) عقیدہ ہے"

 

(عربی سے ترجمہ)

 

کتاب "نظامِ اسلام" سے  

 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عظیم فضل اور برکتوں کا مالک ہے، جو عزت اور شرف عطا فرماتا ہے، وہ بنیاد جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، وہ عظمت جسے کوئی حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد پر، جو بنی نوع انسان میں بہترین ہیں، عظیم رسولوں کی مہر ہیں، اور ان کے خاندان (رضی اللہ عنہم اجمعین) اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) پر، جو اسلام کے نظام پر عمل پیرا ہوئے اور اس کے احکام پر پوری پابندی سے عمل کرتے رہے۔ اے اللہ! ہمیں بھی ان کے ساتھ شامل فرما، ہمیں ان کی صحبت میں جمع فرما، اور ہمیں طاقت عطا فرما یہاں تک کہ ہم اس دن آپ سے ملاقات کریں جب قدم پھسل جائیں گے، اور وہ دن بڑا ہولناک ہوگا۔

 

اے مسلمانو: 

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  

 

"بلوغ المرام من کتاب نظام الاسلام" کے عنوان کی اس کتاب میں جتنی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے، ہم آپ کے ساتھ کئی سیشنز کریں گے۔ ہماری یہ بیسویں قسط ہے، جس کا عنوان ہے "اسلام کی بنیادی اساس (فکر اور طریقہ) عقیدہ ہے"۔ اس قسط میں ہم اس بات پر غور کریں گے جو کتاب 'نظام اسلام' کے صفحہ بارہ اور تیرا پر عالم اور سیاسی مفکر شیخ تقی الدین النبہانی نے بیان کی ہے۔

 

شیخ نباہانی، اللہ ان پر رحم فرمائے، نے فرمایا: " جب انسان اس حل تک پہنچ جاتا ہے، تو وہ اس کے بعد اس دنیا کی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے اور اس کے بارے میں سچے اور مفید تصورات پیدا کرتا ہے۔ یہ حل وہ بنیاد ہے جس پر ایک نظریہ (فکر) قائم کیا جاتا ہے، جسے اصلاح (نہضہ) کے لیے طریقہ کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ یہ وہ اساس ہے جس پر اس نظریہ کی تہذیب (حضارت) قائم کی جاتی ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس سے اس کے نظام پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وہ اساس ہے جس پر اس کی ریاست قائم ہوتی ہے۔ اس طرح، اسلام کی بنیاد، چاہے وہ فکر (فکرہ) ہو یا طریقہ، اسلامی عقیدہ پر استوار ہے۔"

 

اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ مِن قَبْلِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا﴾

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے اس سے پہلے (رسولوں) پر نازل کی۔ اور جو شخص اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت کا انکار کرے، وہ بہت بڑی گمراہی میں جاپڑتا ہے۔" [النساء 4:136]

 

جب یہ اس طرح ثابت ہو جائے کہ اس پر ایمان لانا ایک لازمی امر بن جائے، تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اسلامی شریعت پر مکمل ایمان رکھے، کیونکہ یہ یا تو قرآنِ کریم میں نازل ہوئی ہے یا رسول اسے لے کر آئے ہیں۔ لہٰذا، شریعت کے احکام کا انکار، چاہے وہ مجموعی طور پر (مجمل) ہو یا کسی مخصوص حکم کا، خواہ اجمالی ہو یا تفصیلی، کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ احکام چاہے عبادات، معاہدات (معاملات)، سزاؤں (عقوبات) یا کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق ہوں، ہر صورت میں ان کا انکار کفر شمار ہوگا۔ اس لیے، سورۃ البقرۃ کی آیت ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ"اور نماز قائم کرو" کا انکار اسی طرح کفر ہے جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ "اللہ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام کیا" کے انکار کا کفر۔

 

اور یہ اسی طرح کا کفر ہے جیسے ان آیات کا کفر ہے،

 

﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾

"چور مرد ہو یا عورت، ان کے ہاتھ کاٹ دو" [سورۃ المائدة 5:38]،

 

اور

 

﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أَهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾

"تم پر مردار، خون، سؤر کا گوشت اور وہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا گیا ہے" [سورۃ المائدة 5:3]۔

 

شریعت پر ایمان عقل کے تابع نہیں ہے۔ اس کے بجائے، جو کچھ بھی اللہ جل جلالہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، اس پر مکمل طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:

 

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾

"نہیں، تمہارے رب کی قسم، وہ (سچے) ایمان والے نہیں ہو سکتے، جب تک کہ وہ تمہیں اپنے درمیان کے تمام جھگڑوں میں فیصلہ کرنے والا نہ بنا لیں، پھر اپنے دلوں میں تمہارے فیصلے کے خلاف کوئی تنگی نہ پائیں اور انہیں مکمل تسلیم کر لیں" [القرآن، سورۃ النساء 4:65]۔

 

Picture 21

 

اور ہم اللہ کی بخشش، رحمت، رضا، اور جنت کی امید رکھتے ہوئے کہتے ہیں: ایک انسان، چاہے اس کا رنگ، نسل، زبان یا قومیت کچھ بھی ہو، جب وہ بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے اور کچھ لمحوں کے لیے اکیلا اپنے آپ سے سوچتا ہے، جیسے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں کیا، تو وہ اپنے بارے میں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے: وہ اور وہ سب اس زندگی سے پہلے کہاں سے آئے؟ وہ یہاں کیوں آئے؟ ان کا اور ان کے ہمراہیوں کا انجام کیا ہوگا؟ وہ اپنی اندرونی زندگی کے بارے میں سوچتا ہے، اور ان تمام جانداروں کے بارے میں سوچتا ہے جیسے جانور، پرندے، کیڑے اور درخت جو بڑھتے ہیں اور نسل پیدا کرتے ہیں۔ وہ اس کائنات کے بارے میں سوچتا ہے جس میں وہ رہتا ہے، اور ان تمام مخلوقوں کے بارے میں جو اس میں ہیں: ان سب کو کس نے پیدا کیا؟ انھیں کب اور کیوں پیدا کیا؟ ان کا انجام کیا ہوگا؟ کیا یہ سب باقی رہے گا یا فنا ہو جائے گا؟ یہ تمام سوالات انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بناتی ہیں، اور اس مسئلے کا حل صرف وہ تسلی بخش، جامع اور قائل کرنے والے جوابات دے سکتا ہے جو انسان کی فطرت سے ہم آہنگ ہوں، اس کی عقل کو سمجھائیں اور اس کے دل کو سکون دیں۔ اور یہی حل انسان میں ایک پختہ ایمان پیدا کرتا ہے، جو اتنا مضبوط ہو کہ وہ دنیا کی کسی بھی طاقت کے سامنے نہ جھکے۔ جیسے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کی قسم، اگر وہ میری دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں، تو بھی میں اس کام کو نہیں چھوڑوں گا، جب تک اللہ اسے ظاہر نہ کرے، یا میں اس کی راہ میں جان نہ دے دوں۔"

 

جب ایک شخص اسلامی عقیدہ سے سب سے بڑے مسئلے کو حل کر لیتا ہے، تو وہ دنیاوی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کر سکتا ہے اور اس سے نکلنے والے حقیقی اسلامی تصورات کو تلاش کر سکتا ہے۔ یہی حل وہ بنیاد تھی جس پر اسلامی نظریہ قائم ہوا، جو نشاط ثانیہ حاصل کرنے کے طریقے کے طور پر اپنایا گیا۔ یہ وہ بنیاد تھی جس پر اسلامی تہذیب قائم ہوئی، وہ بنیاد جس سے اسلامی نظامات نکلے، اور وہ بنیاد جس پر اسلامی ریاست قائم ہوئی۔

 

اور مبدأ ایک عقلی عقیدہ ہے جس سے ایک نظام نکلتا ہے جو زندگی کے تمام معاملات کو حل کرتا ہے۔ رہا عقیدہ، تو یہ - جیسا کہ ہم نے جانا - کائنات، انسان، زندگی اور اس سے پہلے اور بعد کی زندگی کے بارے میں ایک کلی فکر ہے، اور اس کی اس سے پہلے اور بعد کی زندگی کے ساتھ تعلق کے بارے میں ہے۔ اور جو نظام اس عقیدہ سے نکلتا ہے، وہ انسان کے مسائل کا حل ہے، اور ان حلوں کو عملی طور پر نافذ کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے، اور عقیدہ کی حفاظت اور مبدأ کو دنیا کے سامنے پیغام کے طور پر پیش کرنے کا طریقہ بھی واضح کرتا ہے۔ تو مسائل کا حل کو نافذ کرنے کے طریقہ کار، عقیدہ کی حفاظت، اور مبدأ کی دعوت کو پھیلانے کا طریقہ ایک طریقہ ہے، اور اس کے علاوہ، عقیدہ اور مسائل کا حل فکر ہیں، اور لہذامبدأ ایک فکر اور طریقہ ہے۔

 

Picture 22

 

جب یہ اس طرح ثابت ہو جائے کہ اس پر ایمان لانا ایک لازمی امر بن جائے، تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اسلامی شریعت پر مکمل ایمان رکھے، کیونکہ یہ یا تو قرآنِ کریم میں نازل ہوئی ہے یا رسول اسے لے کر آئے ہیں۔ لہٰذا، شریعت کے احکام کا انکار، چاہے وہ مجموعی طور پر (مجمل) ہو یا کسی مخصوص حکم کا، خواہ اجمالی ہو یا تفصیلی، کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ احکام چاہے عبادات، معاہدات (معاملات)، سزاؤں (عقوبات) یا کھانے پینے کی چیزوں سے متعلق ہوں، ہر صورت میں ان کا انکار کفر شمار ہوگا۔ اس لیے، سورۃ البقرۃ کی آیت ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ"اور نماز قائم کرو" کا انکار اسی طرح کفر ہے جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ "اللہ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام کیا" کے انکار کا کفر۔

 

اور یہ اسی طرح کا کفر ہے جیسے ان آیات کا کفر ہے، ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا﴾ "چور مرد ہو یا عورت، ان کے ہاتھ کاٹ دو" [سورۃ المائدة 5:38]، اور ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أَهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ﴾ "تم پر مردار، خون، سؤر کا گوشت اور وہ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو، حرام کیا گیا ہے" [سورۃ المائدة 5:3]۔ شریعت پر ایمان عقل کے تابع نہیں ہے۔ اس کے بجائے، جو کچھ بھی اللہ جل جلالہ کی طرف سے نازل ہوا ہے، اس پر مکمل طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اللہ جل جلالہ فرماتے ہیں:

 

﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾

"نہیں، تمہارے رب کی قسم، وہ (سچے) ایمان والے نہیں ہو سکتے، جب تک کہ وہ تمہیں اپنے درمیان کے تمام جھگڑوں میں فیصلہ کرنے والا نہ بنا لیں، پھر اپنے دلوں میں تمہارے فیصلے کے خلاف کوئی تنگی نہ پائیں اور انہیں مکمل تسلیم کر لیں" [القرآن، سورۃ النساء 4:65]۔

 

اے مومنو!
ہم اس قسط کو یہاں ختم کرتے ہیں۔ آپ سے ہماری اگلی ملاقات ان شاء اللہ اگلی قسط میں ہوگی۔ تب تک، اور جب تک ہم آپ سے دوبارہ نہ ملیں، اللہ کی حفاظت، سلامتی اور امان میں رہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشے، اسلام کو ہمارے ذریعے عزت عطا کرے، ہمیں اپنی مدد عطا کرے، ہمیں خلافت کے قیام کا مشاہدہ کرنے کی خوشی عطا کرے، اور ہمیں اس کے سپاہیوں، گواہوں اور شہداء میں شامل کرے۔ بے شک وہی محافظ اور اس پر قادر ہے۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔

 

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک