بسم الله الرحمن الرحيم
امت اسلامیہ امریکہ کی سازشوں کو ناکام بنانے اور خلافت کے قیام میں کامیاب ہو سکتی ہے
مشرق وسطیٰ کی حالت یہ بتاتی ہے کہ یہ حقیقت میں مقبوضہ زمین ہے، اور یہ استعماری طاقتوں کے درمیان ایک جنگ کا میدان ہے، اور امت اسلامی اس سے غافل ہے، اور اسے بیدار کرنے والے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اسے استعماری پالیسیوں سے بنائی گئی اس غفلت سے جگایا جا سکے، جو ثقافت کی شکل میں، جس سے وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے دنیا کو چکرا دیا ہے، میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے، مسلمانوں کو غریب کرنے کے لیے اقتصادی تسلط کی وجہ سے، اور دیگر بہت سی ایسی چیزیں جو امت کو بے حس کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، کی وجہ سے ہے۔ یہ تمام آلات ان ریاستوں کے حکمران استعمال کرتے ہیں جو اسلامی سرزمین میں موجود ہیں اور جو کہ امریکہ، برطانیہ اور ان جیسے استعماری ریاستوں کے ایجنٹس ہیں۔
ان حالات اور غفلت کے درمیان، کچھ واقعات اور حالات امت کو حرکت میں لاتے ہیں اور اسے بیدار کرتے ہیں، جن میں ڈونلڈ ٹرمپ کا ظاہری رویہ، چیلنج اور غرور، اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے والے اقدامات شامل ہیں۔ اور سب سے زیادہ پریشان کن مسلمانوں کے حکمرانوں کا مکمل سرنگوں ہونا اور ان کی غداری، اور امت کے مفادات کے خلاف ان کے اقدامات ہیں۔ یہ صورتحال یقیناً مسلمانوں کو تبدیلی کی تلاش میں لگا دیتی ہے، اور وہ سچی قیادت کو تلاش کرتے ہیں جو ان ہی میں سے ہو تاکہ انہیں امن کی طرف رہنمائی دے سکے۔ ایک ایسی قیادت جو امت کے امور کی دیکھ بھال کرے اور اس کے اقتصادی، فوجی اور انسانی وسائل کا تحفظ کرے۔ اور ان سب سے پہلے اور ان سے زیادہ اس کی فکری صلاحیتوں کا تحفظ کرے۔ جہاں یہ قیادت رضامندی سے منتخب کی جاتی ہے اور اس پر بیعت کی جاتی ہے تاکہ امت اسلام کے نفاذ اور اس کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے فرض کو پورا کر سکے۔
اس قیادت کا فرض یہ ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق امت کے داخلی امور کی دیکھ بھال کرے اور اس کی بنیادی اور اضافی ضروریات کو پورا کرے۔ اسی طرح اس کے خارجی امور کی نگرانی کرے تاکہ اسلام کو ایک عالمی پیغام کے طور پر پھیلایا جائے، لوگوں کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر سرمایہ داری کے ظلم و جبر سے آزاد کرایا جائے، اور ان کی اسلام کی روشنی اور عدل کی طرف رہنمائی کی جائے۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا امت اسلامی، ان تباہ کن حالات کے باوجود، اس کی تکمیل کر سکتی ہے، اور اس امریکی عیاشی اور تکبر کی سیاست کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
اس سوال اور اس طرح کے دیگر سوالات کا جواب دینے کے لیے، یہ جاننا ضروری ہے کہ امت اسلامی کی کیا طاقتیں اور صلاحیتیں ہیں، اور اس بات کو واضح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ کے علاقے کی استعماری دلچسپی کے اسباب کو سمجھا جائے۔
مشرق وسطیٰ عالمی سیاست میں ایک اہم مسئلہ ہے جسے "مسئلہ مشرق وسطیٰ" کہا جاتا ہے. اس کا تعلق اسلام سے ہے اور اس کا استعمار کے لیے بحیصیت خطرہ ہونا ہے- اس کے علاوہ اس کا جغرافیائی مقام، بڑے براعظموں کے درمیان نقل و حمل پر اس کا کنٹرول، اور یہودی وجود کا ہونا ہے۔ یہ مغربی مفادات کے لیے اولین دفاعی لائن ہے اور اس سے استعماری فائدے وابستہ ہیں۔ یہ مسئلہ یقیناً انتہائی اہمیت کا حامل ہے، نہ صرف اس علاقے کے لوگوں کے لیے، بلکہ دنیا کے لیے بھی۔
امت کی آزادی (تحریر) اور نشاۃ ثانیہ کے لیے اس کی طاقت کے اجزاء میں سے ایک مسلمانوں کی کثیر افرادی قوت ہے جو کہ دنیا میں تقریباً دو ارب ہے، جن میں سے 80% لوگ عمر کے اس حصے میں ہیں جو پیداوار اور جدوجہد کے لیے موزوں ہے، یعنی ان کی عمر 15 سے 45 سال کے درمیان ہے۔
اسی طرح، اس کی طاقت کا ایک اور اہم جزو اس کی بڑی تعداد میں فوجیں ہیں جو امریکہ اور یورپ کی تمام فوجوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
اس کے علاوہ، اس کا جغرافیائی مقام اور نقل و حمل پر کنٹرول ہے، کیونکہ اس کا علاقہ قدیم براعظموں کو کاٹتا ہے اور اس کے پاس اہم بحری راستوں اور گرم پانیوں پر بھی کنٹرول ہے۔
اس کے علاوہ اس کی سرزمین خام معدنیات، تیل، قدرتی گیس، وسیع زرعی اراضی، مویشیوں اور مرغیوں کی بے شمار پیداوار سے مالا مال ہے۔
سب سے اہم طاقت جو ان تمام اجزاء اور ان کے علاوہ کو یکجا کرتی ہے، وہ ہے اسلامی عقیدہ پر مبنی فکری طاقت جو امت کی تمام توانائیوں کو یکجا کرتی ہے اور ان کی سرحدوں کو ختم کر کے انہیں ایک جگہ جمع کرتی ہے، جو کہ استعمار کی طرف سے بنائی گئی سیاسی سرحدوں کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ یہ تمام طاقتیں اور اجزاء امت اسلامی کو ایک مضبوط ترین امت اور اس کی ریاست کو بلامقابلہ اول ترین ریاست بنا سکتے ہیں۔
امت اسلامی کی ایک اور طاقت یہ ہے کہ نوآبادیاتی طاقتیں کمزور ہو چکی ہیں، جو اس کے لیے بین الاقوامی حالات کو سازگار بناتی ہے۔ کیونکہ روس بوڑھا ہو چکا ہے، اور یورپ دو محاذوں پر تقسیم ہے۔ ایک برطانیہ کے ذریعے اور دوسرا فرانس کے ذریعے جو شعور یا حکمت کے بغیر قیادت کی خواہش رکھتے ہیں، اور اس وجہ سے دونوں آپس میں نہیں مل پاتے، اور ملنے میں ناکامی ان کی سازشوں کو کمزور کرتی ہے اور اس طرح پورے یورپ کو کمزور کر دیتی ہے۔
اور امریکہ، جو ان طاقتوں میں سب سے بڑا ہے، اپنے تکبر کی وجہ سے خود کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے، اپنی سوچ کھو رہا ہے، اور نظم و نسق کے فقدان سے تباہ ہو رہا ہے۔ اور یہ بات ان طاغوتی حکمرانوں پر صدق آتی ہے جو اپنے آپ کو خدائی طاقت سمجھتے ہیں۔ یہی فرعون کا حال تھا؛ اس کا تکبر اسے سوچنے سے روکتا تھا کہ سمندر میں قدم نہیں رکھا جا سکتا جب تک کہ اللہ سبحانہ وتعلیٰ کی مدد نہ ہو، اور اسی تکبر نے اسے سمندر میں غرق کر دیا۔ اسی طرح کا حال ہٹلر کا تھا، اور اب امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں بھی اپنے تکبر کی وجہ سے یہ نہیں سمجھ رہا کہ امت اسلامی کے پاس ایک طاقتور ہتھیار ہے؛ اور وہ ہے ایک زندہ اور سچا عقیدہ جو اس کی جنگی توانائی کو طاقت فراہم کرتا ہے جسے طاغوتی حکمران نہیں سمجھ سکتے، اور جن میں سرفہرست امریکہ ہے۔
لہٰذا امریکہ اپنے ظلم کی بدولت اپنی موت کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے، کیوں کہ تکبر اپنے حامل کو مار ڈالتا ہے، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ پس اے مسلمانوں، ان پر فتح اور اپنی ریاست کی واپسی کی بشارت پر خوشی مناؤ، یہی وہ ریاست ہے جو پوری دنیا میں حق و انصاف کو پھیلاتی ہےاور اس طرح ایک نئی بین الاقوامی صورتحال کی تشکیل کرتی ہے۔
امت اسلامی دنیا کی تمام برائیوں سے زیادہ طاقتور ہے، اور اس کی بنیاد دو چیزوں پر ہے:
پہلی، وہ کائنات، انسان اور حیات کے بارے میں ایک مکمل نظریہ رکھتی ہے، جو کسی اور کے پاس نہیں ہے، یہ ایک طاقتور نظریہ ہے جو دنیا، لوگوں، ریاستوں اور معاشروں کی حقیقت کو پیش کرتا ہے، اور ساتھ ہی کفر کی ریاستوں کو شکست دینے کے لیے صحیح طریقہ بھی رکھتا ہے، چاہے وہ ریاست کتنی ہی طاقتور ہو۔
دوسری، یہ وہ مادی طاقت رکھتی ہے جو کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی طاقت ہے کہ کوئی دوسری طاقت اس کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی اور یہ اس کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔
ان تمام باتوں سے ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امت اسلامی باِذن اللہ اسلام کو نافذ کرنے اور کفار کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، کیونکہ یہ بنی نوع انسان کے لیے اٹھائی گئی بہترین امت ہے۔
اے مسلمانو! حزب التحریر آپ کے ساتھ اور آپ کے درمیان موجود ہے، اور اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عہد کیا ہے اور آپ سے بھی کہ وہ اسلامی طرز زندگی کو دوبارہ سے خلافت کی شکل میں قائم کرنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے گی، جو نبی ﷺ کے منہج پر ہو گی اور جس کی، موجودہ جبر کی حکمرانی کے بعد واپسی کی بشارت آپ ﷺ نے خود دی ہے۔
اور خیر خواہی سے آپ کو اپنی صف میں شامل ہونے کی دعوت دیتی ہے اس سے پہلے کہ آپ اس منائے جانے والے دن کو کھو بیٹھیں۔ تاکہ آپ اس کے ساتھ اس کے قیام میں حصہ لے سکیں اور نیکی اور اجر حاصل کر سکیں، کیونکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے فریضہ ہے ، آپ کی عزت کا راستہ ہے اور آپ کے دین کی نصرت ہے۔
تحریر: استاد فقیر حاج محمد احمد، وکیل - ولایہ سوڈان