بسم الله الرحمن الرحيم
اداریہ: اختلافِ مطالع یا وحدتِ مطامع؟!
تحریر: خلیفہ محمد
جب سے ریاستِ خلافت کو منہدم کیا گیا، اور مسلمانوں کے ممالک میں اللہ کا قانون حکمرانی سے دور ہو گیا؛ اور ان کے ممالک کمزور اکائیوں میں بٹ گئے، جن کی سرحدیں کافر استعمار نے کھینچی تھیں۔ ان ایکائیوں پر ایسے حکمران مسلط ہیں جو اپنے آقاؤں کے مفادات کو پورا کرتے ہیں تاکہ اپنی ڈگمگاتی کرسیوں کو بچا سکیں۔ اس وقت سے امت مسلمہ کا حقیقی نگہبان غیر موجود ہے۔ وہ نگہبان جو اس وقت تک سیر نہیں ہوتا جب تک مسلمان سیر نہ ہو جائیں، اور اس وقت تک نہیں سوتا جب تک مسلمان امن و اطمینان سے نہ سو جائیں، اور اس وقت سے کافر استعمار، مسلمانوں کے ممالک اور ان کے وسائل پر قابض ہے۔ وہ بحران پیدا کرتا ہے اور مسائل پیدا کرتا ہے۔
اور سالانہ مسائل میں سے، جو بار بار پیش آتا ہے، وہ رمضان کے مہینے میں ہر سال مسلمانوں میں پایا جانے والا اختلاف ہے، یعنی رمضان کے پہلے دن کا تعین اور عید کے دن کا تعین۔ حکمرانوں نے ان دونوں مسائل کو اپنی مرضی کے تابع کر دیا ہے، تاکہ تمام مسلمان ایک دن میں روزہ نہ رکھیں، اور نہ ہی ایک دن میں افطار کریں، اور نہ ہی ایک دن میں اپنی عید کی خوشی منائیں، اور اس کے لیے ایسے ذرائع کا استعمال کرتے ہیں جن کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی؛ جیسے مطالع کا اختلاف، اور فلکیاتی حسابات پر انحصار کرنا۔
بے شک اسلام نے انسانوں کے چھوٹے یا بڑے، کسی بھی فعل کو، اس سے متعلق حکم بیان کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللهُ﴾
"بے شک ہم نے قرآن حق کے ساتھ نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اللہ کی دی ہوئی بصیرت کے مطابق فیصلہ کریں" (سورۃ النساء : آیت 105)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آغاز اور شوال کے آغاز کے تعین میں مسلمانوں کے لیے شرعی حکم بیان کر دیا ہے جس کی پیروی کرنا واجب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں فرمایا:
«إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا»
"جب تم (چاند کو) دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم (چاند کو) دیکھو تو افطار کرو"
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح متفق علیہ حدیث میں فرمایا:
«صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ»
"(چاند) دیکھ کر روزہ رکھو اور (چاند) دیکھ کر افطار کرو اور اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (30) کی تعداد پوری کرو"
بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ رؤیت ثابت ہو جائے، اور اگر ثابت نہ ہو تو پچھلے مہینے یعنی شعبان کی گنتی پوری کرنا واجب ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلَالَ، أَوْ تُكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ»
"روزہ نہ رکھو، یہاں تک کہ یا تو چاند دیکھ لو یا پھر تیس (30) کی گنتی پوری کر لو"
اور اگر رؤیت کے علاوہ کوئی اور شرعی طریقہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرماتے، اور رؤیت نہ ہونے کی صورت میں شعبان کے مہینے کی گنتی تیس دن پوری کرنا واجب ہے، اور یہی جمہور علماء امت کا مذہب ہے، اور فلکیاتی حساب کا قول رد ہے کیونکہ صحیحین اور ان کے علاؤہ سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ، الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا»
"ہم ایک ان پڑھ قوم ہیں، نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے (یعنی انتیس کا یا تیس کا)"
اسی طرح اس قول کا بھی یہی حکم ہے جسے وہ "اختلافِ مطالع" کا نام دیتے ہیں۔ جب تک چاند تمام مسلمانوں کے لیے ایک ہے، اور سورج ایک ہے، اور زمین ایک ہے؛ تو چاند کے مطالع کے زمانی یا مکانی اختلاف کی کوئی قیمت نہیں ہے؛ کیونکہ ہر قمری مہینے کے آغاز میں اس کی پیدائش ایک بار ہوتی ہے، اور اس کے باوجود شریعت نے اس کی پیدائش کو روزے کے شروع ہونے کا سبب نہیں بنایا، اور نہ ہی اس کے مطلع (زمانی یا مکانی) کو روزے کے شروع ہونے کا سبب بنایا ہے، بلکہ شرعی سبب جس پر صحیح شرعی نصوص دلالت کرتی ہیں وہ صرف چاند کو دیکھنا ہے۔
مذکورہ بالا سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی ممالک میں روزے اور افطار میں اختلاف محض سیاسی اختلاف ہے جو حکمرانوں کی مرضی کے تابع ہے، اور یہ کوئی فقہی اختلاف نہیں ہے، اور یہ اختلاف سائیکس پیکو کی حدود سے جڑا ہوا ہے نہ کہ چاند سے، تو کیا کوئی عقلمند یہ تصور کر سکتا ہے کہ رمثا (اردن) میں شام کی سرحد پر موجود مسلمان روزہ رکھیں، اور درعا (شام) کے لوگ اردن کی سرحد پر افطار کریں، یا اس کے برعکس، اور ان کے درمیان صرف ایک نقطے جتنی سرحد ہے جو کافر استعمار کی جانب سے، خلافت کے انہدام کے بعد، مسلمانوں پر مسلط کردہ حدود کا نتیجہ ہے؟ یا یہ کہ العین (امارات) کے لوگ روزہ رکھیں اور البریمی (عمان) کے لوگ افطار کریں، یا اس کے برعکس، اور ان کے درمیان صرف ایک تار کی باڑ ہے جس کے سوراخوں سے دونوں طرف کے مسلمان مصافحہ کر سکتے ہیں، اور ان میں سے ایک روزہ دار ہو اور دوسرا افطار کرنے والا؟! وہ کس چاند کی بات کرتے ہیں؟! اور وہ چاند کے مطلع میں کس اختلاف کی بات کرتے ہیں؟! اور اسی پر مسلمانوں کے ممالک کے درمیان باقی سرحدی علاقوں کو بھی قیاس کر لیں، یہ وہ سرحدیں ہیں جو کافر استعمار نے مسلط کی ہیں، اور حکمرانوں کو ان کی حفاظت کے لیے ایجاد کیا ہے، اور وہ لوگوں کو وطن اور قومیت کے نام پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ محض ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی!
مسلمانوں کا ایک دن میں روزہ رکھنا، اور ایک دن میں عید الفطر کی خوشی منانا؛ یہ امت مسلمہ کے اہم ترین مظاہر میں سے ایک ہے، وہ اپنے قمری سال کا آغاز ایک دن میں کرتے ہیں، اور ایک دن میں عرفات میں قیام کرتے ہیں، اور ایک دن میں عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں، یہ سب کچھ اس طرح ہے جیسے ان پر ایک خلیفہ حکمرانی کرتا ہے جس کے پیچھے سے وہ لڑتے ہیں اور اس کے ذریعے سے بچاؤ کرتے ہیں، اور جس طرح ان پر ایک نظام حکومت نافذ ہوتا ہے، اور ان پر ایک شرعی حکم نافذ ہوتا ہے جسے ریاستِ خلافت اختیار کرتی ہے، اور ان کا خلیفہ ریاست کے تمام حصوں سے ایک دن میں زکوٰۃ جمع کرنا شروع کرتا ہے۔ اسلام کے احکام تمام مسلمانوں کے لیے آئے ہیں، اور ہم نے بہت سے احکام کے نفاذ میں ایک ملک اور دوسرے ملک کے درمیان اختلاف نہیں دیکھا مگر ریاستِ خلافت کے انہدام کے بعد، اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان جنگیں بھڑکانے کے بعد، تو ہم نے مسلمانوں کے بہت سے حکمران دیکھے، اور ہم نے ان کے مختلف جھنڈے اور نشان دیکھے، اور ہر ملک کی کرنسی دوسرے اسلامی ممالک سے مختلف ہے، اور ہر ملک کا اپنا نظام اور اپنی عیدیں ہیں۔
مسلمانوں کے ممالک میں حکمرانوں کی سب سے بڑی فکر کافر استعماری آقاؤں کے احکامات کو نافذ کرتے ہوئے، امت کو تقسیم رکھنے اور اس کے اتحاد کو روکنے کی ہے، چنانچہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی تہواروں میں خوشی کو کمزور بہانوں سے خراب کریں، پس وہ ان کے روزے کے شروع ہونے میں اور ان کے عید کے دن میں ان میں تفرقہ ڈالتے ہیں، جس طرح انہوں نے ان کی وفاداری میں تفرقہ ڈالا، چنانچہ انہوں نے ان کے لیے "وطن سے وفاداری" کا خیال ایجاد کیا جو حقیقت میں اس حکمران سے وفاداری ہے جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکومت نہیں کرتا، اور انہوں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہر ملک اپنے مطلع کے مطابق روزہ رکھے اور افطار کرے، جس کا مطلب حکمران کی خواہش کے مطابق روزہ رکھنا اور افطار کرنا ہے جو اپنے استعماری آقاؤں کی مرضی کو نافذ کرتا ہے، اور اس نے ان علماء کو اپنا رکھا ہے جو اس کی مرضی کے مطابق فتوے جاری کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنی بُری صورتحال کی حقیقت کو سمجھیں جس میں وہ زندگی گزار رہے ہیں، اور اس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنائیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام کو نافذ کرتے ہوئے، اس کی رضا کو طلب کرتے ہوئے، اور مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے جو ایک رب کی عبادت کرتے ہیں، ایک رسول کی پیروی کرتے ہیں، اور ایک قرآن پڑھتے ہیں، تاکہ ان پر ایک حاکم ایک نظام کے تحت حکومت کرے یعنی نبوت کے نقشِ قدم پر قائم خلافت میں ایک خلیفہ، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے۔
اور جس کے قیام کے لیے حزب التحریر کام کر رہی ہے، تو اے مسلمانو! اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دو تاکہ ہم امت کو اس کی وحدت کے تمام مظاہر لوٹائیں، جن میں سے روزے اور عید کے دن کو متحد کرنا بھی ہے۔