بسم الله الرحمن الرحيم
امریکی استثنیٰ(ایکسپشنل ازم) دراصل استعماری نظام کی توسیع ہے،
جسے مسلم حکمرانوں کی غداری نےممکن بنایا ہے ۔
مریم انصاری
ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان کہ "امریکہ غزہ کی پٹی پر قابض ہو جائے گا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک اور کام بھی کریں گے… ایک ایسی اقتصادی ترقی وجود میں لائیں گے جو علاقے کے لوگوں کے لیے لامحدود تعداد میں ملازمتیں اور رہائش فراہم کرے، ہم ایک حقیقی کام کریں گے، کچھ مختلف کریں گے۔" یہ بیان اسی قدیم استعماری ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے جو پچھلی کئی صدیوں سے امریکی خارجہ پالیسی کو تشکیل دے رہی ہے۔ یہ بیانات امریکی استثنیٰ کے ایک ایسے چہرے کی عکاسی کرتے ہیں، جس کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکہ دیگر اقوام کے مقابلے میں منفرد اور مثالی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس نظریے نے دنیا کو "امن اور آزادی" دلانے کے جھوٹے بہانے کی آڑ میں نسل کشی، استعماری توسیع، اور عالمی استعماری تسلط کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا ہے۔
مقامی امریکیوں ( ریڈ انڈین ) کے خاتمے سے لے کر متعدد ممالک پر حملے تک امریکہ نے ہمیشہ اس دھوکے پر مبنی"امریکی استثنیٰ( ایکسپشنل ازم)" کو استعمال کیا ۔اور اپنے استعماری مقاصد کواس کے پردے میں حاصل کیا۔ اسی نظریے کے تحت امریکہ نے خود کو ایک "چنی ہوئی قوم" کے طور پر پیش کیا جسے علاقے فتح کرنے کا حق حاصل ہے اور "نوشتہ دیوار"( manifest destiny) کے فریب کے تحت اپنی حکومت دوسروں پرمسلط کرنے کا بھی حق ہے۔ تاہم، یہ توسیع پسندی کی طویل تاریخ کا محض پہلا باب تھا جس میں نسل کشی کے ذریعے "عظیم" امریکی سلطنت کی تعمیر کی گئی۔ پھر چاہے ویتنام سے عراق تک کی کہانی ہویا افغانستان سے فلسطین تک کی داستان، امریکی خارجہ پالیسی نے ہمیشہ بڑے پیمانے پر قتل عام کیا، اور یہ جوازگھڑا کہ یہ قتل عام تو "آزادی" اور "جمہوریت" کے حصول کےلئے ناگزیر تھا ۔ غزہ کے لیے ٹرمپ کا وژن اسی بلیو پرنٹ کی عملی تصویر کشی کرتا ہے، جہاں تباہ شدہ علاقے پر امریکی قبضے کو ایک حل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، جبکہ وہ تو اسی جبر و ظلم کا تسلسل ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔"(البقرۃ، 2:11)
دوسری جنگ عظیم کے بعد، امریکہ نے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے بڑی دقیق حکمت عملی کے ساتھ عالمی نظام کو نئی شکل دی۔ اقوام متحدہ ( یو این) ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف)، اور ورلڈ بینک کو عالمی امن اور اقتصادی استحکام کے عملی طریقہ کار کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ لیکن درحقیقت ان اداروں نے امریکی تسلط ہی کو مضبوط کیا۔ جنگ عظیم کے نتیجے میں برطانیہ اور فرانس کے کمزور ہونے کے بعد، امریکہ نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی اپنی استعماری سلطنتوں سے باہر نکلیں، اور یورپی غلبہ کی جگہ امریکی غلبے اور کنٹرول کو قائم کریں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعے دیگر ممالک میں اپنی مداخلتوں کو قانونی حیثیت دے دی۔ جبکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے انہی اقوام کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر معاشی انحصارو تابعداری پر مجبور کردیا۔ جنگ کے بعد نئے ورلڈ آرڈر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ امریکی فوجی، سیاسی اور مالیاتی طاقت کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، اور اسے "جمہوریت" اور "بین الاقوامی تعاون" کے بہانے بین الاقوامی معاملات پر حکم چلانے کی اجازت دے دی گئی۔ پس جو کبھی یورپی استعماری نظام ہوا کرتا تھا، اب سفارت کاری اور ترقی کے بھیس میں امریکی استعماری نظام بن گیا۔
غزہ کے بارے میں ٹرمپ کا وژن صرف فوجی تسلط سے متعلق نہیں بلکہ معاشی غلامی کا روڈ میپ بھی ہے۔ چنانچہ ایک ایسی سرزمین جو اپنے عوام کے لہو سے سرخ ہے، اسے مغربی اشرافیہ کے لیے کھیل کے میدان میں تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ فلسطینی مزاحمت کی تاریخ کو مٹانے اور ایک ایسا نظام مسلط کرنے کی دانستہ کوشش ہے جس سے فلسطینی عوام کوتو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کار مالا مال ہوجائیں گے۔ یہ نمونہ ہم اس سے پیشتر دیگر جنگ زدہ علاقوں میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ جہاں سرمایہ دارانہ تعمیر نو کے منصوبے تعمیر و ترقی کی مخلصانہ کوشش ہوں، دراصل طویل مدتی قبضے کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔جیسا کہ 2003 میں عراق پر امریکی اور برطانوی قبضے کے بعد کیا گیا۔
اگرچہ امریکی استثنیٰ( ایکسپشنل ازم)عالمی استعماری نظام کو تقویت دیتا ہے، لیکن مسلمانوں کے حکمرانوں کی غداری کے بغیر اسے برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ پوری مسلم دنیا میں، نام نہاد رہنماؤں نے محض مغربی طاقتوں کے دست و بازو کے طور پر کام کیا ہے۔ وہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسلم علاقے کمزور، منقسم اور غیر ملکی کنٹرول میں رہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف امریکی نسل کشی کی مہم کے باوجود وہ "اسرائیل" کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاتے ہیں ۔ وہی مقدس اسلامی سرزمین پر مغربی فوجی اڈوں کی اجازت دیتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے بارہا امریکی مفادات کو امت کی بھلائی پر ترجیح دی ہے۔ وہ قبضے کو ممکن بناتے ہیں، مزاحمتی تحریکوں کو مجرم قرار دیتے ہیں جبکہ مغربی کمپنیوں کو مسلمانوں کے وسائل لوٹنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ان حکمرانوں کی امریکی اثر و رسوخ کو مسترد کرنے میں ناکامی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مغربی مفادات کے محافظ کے طور پر کردارادا کر رہے ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمانوں کو امریکی استثنیٰ ( ایکسپشنل ازم) کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے۔ یہ صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی اسلامی جدوجہد ہے۔ مسلمانوں کو اس نظریے اور سوچ کو رد کردینا چاہیے کہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی حکمرانی کے ماڈل ان کے مسائل کا حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بجائے ہدایت کے سرچشمے یعنی وحی پرمبنی اپنے نظام حکومت اور معیشت کو دوبارہ قائم کرنا چاہیے۔ امت مسلمہ کو ان رہنماؤں اور قیادتوں کو پہچاننا اور ان کا مقابلہ کرنا چاہیے؛ جو استعمارکے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں اور اپنے عوام کے دفاع میں ناکام ہیں۔ امت کو مغربی سیکولر ماڈل کو مسترد کرنا چاہیے اور ایک ایسے اسلامی ڈھانچے کی طرف لوٹنا چاہیے جو خلافت کے تجربہ کار اور آزمودہ نظام کے ذریعے قیادت، عدل اور وحدت کو مقدم رکھتا ہے۔
کسی بھی غیر ملکی طاقت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی مسلم ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ مسلم دنیا کو مغربی معاشی اور فوجی تسلط سے آزاد ہوکر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم کرنی چاہیے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور امریکی استثنیٰ ( ایکسپشنل ازم) کو مسترد کرنا ہر مسلمان کا شرعی فریضہ ہے، کیونکہ یہ نظامِ کفر و استبداد ہیں۔ امت کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حقیقی انصاف اور آزادی مغربی نظاموں کے ذریعے نہیں ملے گی، بلکہ اس کا راستہ ایک زندہ وجاوید ، وحدت پر مبنی مسلم قوم سے وابستہ ہے جو فیصلہ سازی میں آزاد ہو، اور جو استعماری مفادات کے سامنے جھکنے سے انکار کردے۔ پس آگے کا راستہ واضح ہے: مغرب پرانحصار اور تابعداری کی زنجیروں کو توڑ دیا جائے؛ مغربی تسلط کو مسترد کردیا جائے، اور قیامِ خلافت کے ذریعے اس طاقت و قوت کو دوبارہ حاصل کیا جائے جس کی امت مسلمہ حقدار ہے۔
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْۖ وَاللّـٰهُ مُتِمُّ نُـوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ *هُوَ الَّـذِىٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـهٝ بِالْـهُـدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٝ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّـهٖۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُـوْنَ؛
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔وہی تو ہے جس نے اپنا رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو سب دینوں پر غالب کرے، اگرچہ مشرک نا پسند کریں۔" ( سورۃ الصف: 8-9)