بسم الله الرحمن الرحيم
’’دین ایک طرزِ حیات کا نام ہے جو خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کو منظم کرتا ہے‘‘
الواعی میگزین شمارہ نمبر 461 -460، انتالیسواں سال،
جمادی الاول - جمادی الثانی 1446 ہجری، بمطابق دسمبر - جنوری 2025 عیسوی
حوالہ جات :
اگر ہم لفظ ’’دین“ اور اس سے اخذ شدہ مختلف الفاظ کے لفظی معانی کا جائزہ لیں [1] تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس کے معانی تین حوالے سے ہیں جو کہ ملتے جلتے ہیں۔ ان تین معانی میں معمولی سا فرق ہے جو اصل میں اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے کہ جس لفظ کی وضاحت کی جا رہی ہے وہ صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ تین الفاظ ہیں، یا زیادہ واضح طور پر یہ کہ اس میں تین متبادل فعل شامل ہیں:
اس کو مزید وضاحت سے ایسے بیان کیا جا سکتا ہے : لفظ 'دین' کبھی کسی حرف جار کے بغیر فعل سے ماخوذ ہوتا ہے (دانه یدینه)، اور کبھی فعل سے حرف جر "ل" کے ساتھ جو ’’کے لئے" کا مفہوم دیتا ہے (دان له)، اور کبھی فعل سے حرف جر "ب" کے ساتھ جو "کے ساتھ" کا مفہوم دیتا ہے (دان به)۔ اور انہی ماخذ کے مطابق، تفہیمی صورت میں تبدیلی آتی ہے:
1- جب ہم کہتے ہیں، (دانه ديًنا)، تو اس کا مطلب ہے: اس نے اس پر حکمرانی کی، اس پر حکومت کی، اس کا انتظام کیا، اور اس کا احتساب کیا۔ اس استعمال میں، دین کا مفہوم ملکیت، دسترس، اور اتھارٹی کے گرد گھومتا ہے، جیسا کہ حکمرانی، حکومت، انتظام، اور احتساب سے متعلق ہے۔ مثال کے طور پر، ﴿مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ﴾ ’’یوم جزا کے دن کا مالک“ سے مراد وہ دن ہے جب سزا و جزا کا حساب ہو گا۔ اسی طرح، حدیث میں، «الكيس من دان نفسه» کا مطلب ہے ’’دانا وہ (شخص) ہے جو اپنے آپ کا محاسبہ کرتا ہے“، یہ خود پر حکمرانی اور اپنے آپ کو روکے رکھنے کے مفہوم میں آتا ہے۔
2- جب ہم حرف جر’ل‘ کے ساتھ کہتے ہیں (دان له)، تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اس کی اطاعت کی اور اس کے سامنے تسلیم ہوا۔ یہاں، دین اطاعت، تسلیم اور عبادت کو ظاہر کرتا ہے۔ عبارت ”(الدین لله)“ کو اس طرح سے تشریح کیا جا سکتا ہے: یا تو ”حکمرانی اللہ کی ہے“یا ”اطاعت اللہ ہی کے لئے ہے“۔
3- جب ہم کہتے ہیں، (دان بالشيء)، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس نے اسے دین یا عقیدہ کے طور پر اختیار کیا، یعنی وہ اس پر ایمان لایا، اس کے ساتھ استوار ہو گیا، یا اس پر قائم رہنے لگا۔ اس سیاق میں، 'دین' سے مراد وہ عقیدہ یا زندگی کا طریقہ ہے جسے کوئی شخص اختیار کرتا ہے، چاہے وہ نظریاتی طور پر ہو یا عملی طور پر۔
لغوی معانی کا خلاصہ :
عربی زبان میں، لفظ ’’دین“ دو فریقوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے، جن میں سے ایک فریق عزت و تعظیم اور اختیار کا مقام رکھتا ہے، جبکہ دوسرا فریق اس اختیار کے سامنے تسلیم خم ہوتا ہے اور اس کی تعظیم بجا لاتا ہے۔ اگر یہ اصطلاح پہلے فریق کو بیان کرے، تو اس کا مطلب حکم، ممانعت، اختیار، فیصلہ، اور نفاذ ہوتا ہے۔ اگر یہ اصطلاح دوسرے فریق کو بیان کرے، تو اس کا مطلب تسلیم کر لینا اور اطاعت کرنا ہے۔ اگر اس اصطلاح کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلق کے طور پر دیکھا جائے، تو یہ اس تعلق کو منظم کرنے والا نظام یا اس کا اظہار کرنے والا مظہر بن جاتا ہے۔ بہرحال اس کے بنیادی معنی اطاعت کرنے کے تقاضے کے تصور کو ہی سموئے ہوئے ہیں: اصطلاح کے اول استعمال میں، دین کا مطلب ہے اطاعت کا نافذ کرنا (إلزام الانقياد)۔ اور ثانوی استعمال میں یہ معنی (التزام النقیاد) اطاعت کی طرف پابند ہونے کے مطلب میں ہیں۔ اور تیسرے استعمال میں یہ اس اصول سے مراد ہے جس کے تحت ایک شخص اطاعت کے لئے پابند ہوتا ہے (المبدأ الذي يلتزم الإنسان الانقياد له) [2]۔
نتیجتاً، یہ دو فریق ہیں: جن میں سے ایک انتہائی عظمت، اعلیٰ مقام، اور اختیار کا حامل ہے، اور دوسرا انتہائی عاجزی، اطاعت، اور پہلے فریق کی خدمت میں ہے۔ اور وہ تعلق یا نظام جو ان فریقین کے تعلق کو منظم کرتا ہے، اسے ہم ’’دین“ کہتے ہیں [3[۔
ابو حیان اندلسی کی تفسیر البحر المحیط میں، انہوں نے اس آیت کی وضاحت کی ہے، ﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسْلَامُ﴾ ’’بے شک اللہ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہی ہے“۔ لغوی معانی کے مطابق، دین اسم فاعل کے طور پر ’’دانا“ (یعنی تسلیم کرنا) سے ماخوذ ہے۔ اسم کے طور پر، یہ حکمرانی اور قانون کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دین کا لفظ اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ اختیار اور حکومت سے متعلق ہے، جیسا کہ آیت ﴿وَقٰتِلُوْھُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ﴾ ’’اور ان سے تب تک قتال کرو جب تک کہ فتنہ ختم نہ ہو جائے اور دین سارے کا سارا، صرف اللہ کا ہی ہو جائے“۔ ابن علان صدیقی، دلائل الفالحین میں، الکشاف سے اس آیت کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ ﴿أَءِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ﴾ ’’کیا ہمیں واقعی صلہ دیا جائے گا“ (مدینون) (الصٰفٰت:53)۔ اس کا مطلب ہو سکتا ہے "حکومت کے تابع ہونا" یا "حکومت کے زیر اثر ہونا"، اور اس میں "دین" کو سیاست (سیاسہ) اور حکمرانی سے اخذ کیا گیا ہے۔ اسی طرح حدیث، "الکیس من دان نفسہ" "عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ پر حکمرانی کرے"، یہ حدیث دین کے فہم کو جواب دہی، حکمرانی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عطاکردہ شرعی احکامات کی اطاعت سے منسلک کرتی ہے [4]۔ یوں اس طرح، عربوں نے محمد ﷺ کے دین کو ایک جامع نظامِ زندگی کے طور پر سمجھا جس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سامنے خود کو سرِ تسلیم خم کرنا، اُس کے احکامات کی پابندی کرنا اور فرائض کی ادائیگی کے لئے جواب دہ ہونا شامل تھا۔ دین نے قبل از اسلام کے قوانین کو آفاقی حکمرانی سے بدل دیا، جو فطری طور پر ایک ایسے نظام کو تشکیل دیتا ہے جو فرد کے رویے کو منظم کرتا ہے اور سماجی زندگی کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ترتیب دیتا ہے۔ تکلیف (جواب دہی کی بنیاد ہی شرعی ذمہ داری ہے) اور اس کے بنیادی ارکان اسلامی احکامات کے نظام کی بنیاد کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ارکان دین کی جامعیت اور تکمیل، شریعت کی وسعت، تنبیہ کو وحی کے ساتھ مخصوص کرنا، سنت کی حفاظت اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اجماع کی قطعیت کی تصدیق کو یقینی بناتے ہیں۔
اسلامی قانون سازی ’’شرعی احکام“ کے فہم پر مبنی ہے، جو تکلیف (شرعی فرائض پر جواب دہ ہونا) کے تصور پر انحصار کرتی ہے۔ شریعت کے مطابق انسان جوابدہ ہوتا ہے، اور اسے اپنے تمام معاملات میں تکلیف کی پابندی کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔
(والتكليف مأخوذ من الکلفۃ على وجه التفعيل، ومعناه الحمل على ما فیی فعله مشقة، ويندرج تحته الإيجاب والحظر، لا وفق ما يتشَّوف إليه الطبع وما ینبو عنہ )، اور ’’تکلیف کو لفظی طور پر جوابدہی کے مفہوم سے لیا گیا ہے، اور اس کا مطلب ہے کسی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرنا جو کہ مشقت طلب ہو۔ تکلیف میں واجب (فرض) اور حرام (ممنوع) شامل ہیں، نہ کہ نفسانی خواہشات یا وہ جنہیں طبع منع کرتی ہو“ ] [5۔
یہ سوال کرنے سے قبل، کہ جواب دہی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم، ہم التکلیف (جوابدہی)کی حقیقت اور اس کے افراد، معاشرے اور ریاستوں کے طرزِ حیات کو منظم کرنے میں اس کے کردار کو وضاحت سے بیان کریں گے۔ یہ بحث چار اہم نکات پر مرکوز ہوگی:
- اول، تکلیف کی شرعی حقیقت (تشریع)
- دوئم ، شرع کی حفاظت
- سوئم، شرع کی جامعیت اور استحکام، اور اس کے اندر یہ قابلیت ہونا کہ وہ قیامت تک آنے والی تمام نوعِ انسانی کے ہر مسئلے کا حل کر سکتی ہے۔
- چہارم، شرع کے مصادر سے حکم لینے کا طریقۂ کار، یعنی حقیقت اور شرعی احکام کے درمیان تعلق کی یقین دہانی کر لینا تا کہ طرزِ عمل کو منظم کیا جائے یا معاشرتی مسائل کو حل کیا جا سکے۔
اس کی تفصیل ذیل میں ہے :
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے وجودِ عالم کے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے اور ظلم سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ ابوذر جندب ابن جندہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیثِ قدسی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا پیغام دیتے ہوئے فرمایا، »یا عبادی إنی حرمت الظلم علی نفسي وجعلتہ بینکم محرَّماً فلا تظالموا« ’’اے میرے بندو، میں نے اپنے اوپر بھی ظلم کو حرام ٹھہرایا اور تم پر بھی، لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو“۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود اپنی ذات پر بھی ظلم کو حرام کر دیا اور اپنے بندوں کو بھی ظلم کرنے سے منع کیا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شریعت اور اس کا نظام ہی ہیں جو اس بات کی یقین دہانی کرتے ہیں کہ کوئی بھی ناانصافی آسمانوں (بہشت) اور زمین کے دائرۂ عمل میں داخل نہ ہونے پائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نوعِ انسان کو اپنا خلیفہ بنایا تا کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جو انصاف کو مقدم رکھے اور ظلم کو روکتا ہو، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے، ﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَألْمِیزَانَ لِیَقُومَ الْنَاسُ بِالْقِسْطِۗ ﴾ ’’بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تا کہ لوگ انصاف پر قائم ہوں“ (الحدید : 25)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسانیت پر اصلاح کی ذمہ داری عائد کی اور یہ کہ فساد نہ پھیلائیں۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق کی تنظیم کرنے، انصاف قائم کرنے، ظلم کی روک تھام، اصلاح کی جانب رہنمائی کرنے والے طرزِ عمل کے ضابطے، باہمی تنازعات کے حل کا حکم دیا، اور انسانیت کی بھلائی کے لئے درست نظام کی تلاش میں نفسانی خواہشات کے تابع ہو جانے کے لئے بھٹکتا نہیں چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان معاملات کو منظم کرنے اور ضابطہ بندی کے لیے ایک الہامی رہنمائی فراہم کی ہے، اور مخلوق کے لئے دلائل و ثبوت مقرر کئے، اور انہیں شرعی طور پر مکلف اور جوابدہ ٹھہرایا۔
جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ﴿إِنِّي جَاعِلٞ فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةٗۖ ﴾ "میں زمین پر اپنا ایک نائب مقرر کرنے لگا ہوں"، تو فرشتوں نے نوعِ انسان کو زمین میں نائب مقرر کرنے پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فیصلے پر عرض کیا اور پوچھا، ﴿قَالُوٓاْ أَتَجۡعَلُ فِيهَا مَن يُفۡسِدُ فِيهَا وَيَسۡفِكُ ٱلدِّمَآءَ﴾ "کیا آپ اس کو نائب مقرر کریں گے جو اس (زمین ) میں فساد برپا کرے گا اور خون بہائے گا ؟ "، تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جواب دیا، ﴿قَالَ إِنِّيٓ أَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُونَ﴾ "بے شک، میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے"۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے یہ جواب یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نوعِ انسانی کو نائب مقرر کرنا فساد یا خون بہانے کے لئے ہرگزنہیں تھا۔ لہذٰا، وہ لوگ جو ان نظاموں کی پیروی کرتے ہیں جو شروفساد اور خون خرابے کی طرف لے کر جاتا ہے تو وہ لوگ اس نائب کے عہدے سے بَری ہیں۔ انسانی خواہشات اور قوانین کی بنیاد پر استوار کردہ نظام اکثر ناانصافی اور ابتری کی طرف لے کر جاتا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَلَوِ ٱتَّبَعَ ٱلۡحَقُّ أَهۡوَآءَهُمۡ لَفَسَدَتِ ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلۡأَرۡضُ وَمَن فِيهِنَّۚ﴾ ’’اور اگر حق ان کی خواہشوں کی اتباع کرنے لگے تو آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ بھی ان میں ہے، اس میں فساد پھیل جائے“ (سورۃ المؤمنون؛ 23:71)۔ اور اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ﴿ثُمَّ جَعَلۡنَٰكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٖ مِّنَ ٱلۡأَمۡرِ فَٱتَّبِعۡهَا وَلَا تَتَّبِعۡ أَهۡوَآءَ ٱلَّذِينَ لَا يَعۡلَمُونَ﴾ ’’پھر ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک کھلے راستے پر قائم کر دیا تو تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے“ (الجاثیہ؛ 45:18)، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطاکردہ شریعت کے علاوہ کسی اور کی پیروی کرنے کا مطلب خود کو انسانی خواہشات کے تابع کرنا ہے، جس کا نتیجہ لامحالہ طور پر شر و فساد، ناانصافی اور ظلم کی صورت میں نکلتا ہے۔
پس اسی لئے خلافت کا نظام ہی وہ نظام ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کو قائم کرتا ہے، عدل کی بالادستی کو مقدم رکھتا ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کا نفاذ کرتا ہے۔ یہ نظام، مؤمنین پر نافذ ہوتا ہے جو اپنی زندگیوں کے تمام پہلوؤں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطاکردہ رہنمائی کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک ایسے قائد کو اطاعت کی بیعت دیتے ہیں جو معاشرے کے تمام تعلقات میں ان آفاقی اصولوں کو نافذ کرتا ہے۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں، (هذه الآية أصلٌ في نَصْب إمامٍ وخليفة يُسْمَع له ويطاع؛ لتجتمع به الكلمة، وتنفذ به أحكام الخليفة. ولا خلاف في وجوب ذلك بين الأمة ولا بين الأئمة إلا ما رُوي عن الأصَمّ؛ حيث كان عن الشريعة أصَمَّ) "یہ آیت ایک ایسے واحد امام اور خلیفہ کو مقرر کرنے کی بنیاد ہے، جس کی اطاعت کی جائے تاکہ وہ اس کلمہ گو امت کو متحد کرے اور ریاستِ خلافت کے احکامات قائم کرے۔ (خلافت کی واجبیت کے لئے) امت میں اور آئمہ کرام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، سوائے اس کے کہ جو الاصم سے روایت کردہ ہے، جو کہ خود شریعت سے بے بہرہ تھا“۔ اسلام میں اتھارٹی امت کے پاس ہوتی ہے جو اپنے لئے ایک حکمران مقرر کرتی ہے تاکہ وہ ان پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت کے مطابق حکومت کرے۔ اور یہ فہم اسلامی حکمرانی کے اصولوں سے ہی اخذ کردہ ہے، جہاں ایک حقیقی خلیفہ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں اور معاشرے میں اللہ کے احکامات کو نافذ کرے[6]۔ اجتماعی طور پر اس نظام کا نفاذ کئے بغیر، عدل وانصاف اور اللہ کے احکامات کی پابندی ممکن نہیں ہو سکتی۔ ریاستِ خلافت ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے یہ اصول منطبق ہوتے ہیں، جو کہ خلافت کے قیام کا بنیادی مقصد ہے جیسا کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، ﴿ثُمَّ جَعَلۡنَٰكُمۡ خَلَٰٓئِفَ فِي ٱلۡأَرۡضِ مِنۢ بَعۡدِهِمۡ لِنَنظُرَ كَيۡفَ تَعۡمَلُونَ﴾ "ہم نے تمہیں زمین میں ان کے بعد جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے کام کرتے ہو“ (یونس؛ 10:14) [7]۔ اس تفویض کردہ نائب کے لئے لازم ہے کہ تمام معاملات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکام کا نفاذ کرے، خصوصاً حکمرانی کے حوالے سے، اور حق اور باطل کے مابین تفریق کرے، وہ باطل کہ جس نے فساد اور خون بہا برپا کیا ہے۔اللہ کے اس نظام کو غالب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ معاشرے میں ایک ریاست کے ذریعے نافذ ہو نہ کہ معاشرے میں موجود محض چند افراد کے ذریعے جن پر مخالف نظام حاوی ہو۔ لہٰذا خلافت کا وقار ہی اس میں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نظام نافذ ہو، اور وہ سب ذلیل و خوار ہوں جو شر وفساد اور خون خرابہ پھیلاتے ہیں۔
اسی لئے، وحی کا ہونا نہایت ضروری ہے، جو کہ ایک معجزہ (پیغام) ہے اور حکم ہے۔ وحی کے پیغام کو اس بات کے تعین کے لئے حتمی حوالہ کے طور پر لینا لازم ہے کہ غیبی معاملات کے بارے میں کیا یقین کیا جانا چاہئے جو حسی ادراک یا ان کے اثرات سے باہر ہوں۔ وحی کے پیغام کے لئے لازم ہے کہ ایک نظام قائم ہو جس کے ذریعے نظام ہائے حیات منظم ہوں، اور انسانیت کے لئے ممکن ہو سکے کہ وہ زمین پر باقاعدہ طریقے سے نائب کے طور پر اپنے کردار کو ادا کرے۔ یہ رہنمائی ایک ایسے فلسفہ کی موجودگی مہیا کرتی ہے جو اطمینان کا باعث ہو اور لوگوں کو ایک واضح راہ اختیار کرتے ہوئے پُرامن زندگی فراہم کرے۔ شریعت عدل کی بنیاد پر ظلم کا ہاتھ روکتے ہوئے، توازن، درستگی اور نظم کو قائم کرتے ہوئے کائنات کے نظم و نسق کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ شریعت کی بنیاد روشنی، حق اور رہنمائی پر مبنی ہے، جو باطل سے، خطا سے اور تاریکی سے دور لے جاتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قانون سازی کا حق صرف اپنے لئے مخصوص رکھا ہے [8]، جسے "حاکمیتِ اعلیٰ" کہا جاتا ہے [9]۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے (شریعت کو) کتاب اور سنت کی صورت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا اور کسی بھی اور کو اس منصب کے لئے روک دیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿إِنِ ٱلۡحُكۡمُ إِلَّا لِلَّهِۖ﴾ "بے شک حکم صرف اللہ ہی کا ہے" (یوسف؛ 12:40)۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مزید فرمایا، ﴿وَمَا ٱخۡتَلَفۡتُمۡ فِيهِ مِن شَيۡءٖ فَحُكۡمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۚ﴾ "اور جس بات میں بھی تمہارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے" (الشوریٰ؛ 42:10)۔ لغوی طور پر لفظ "حکم" کا معنی روکنے کا ہے، اور قانونی فیصلہ کو "حکم" اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کسی بھی امر کو اس مقررہ فیصلہ سے باہر جانے سے روک دیتا ہے۔ اس لئے، صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی شریعت کے مطابق عمل کرنے کے سوا کسی بھی اور عمل سے روکیں، کیونکہ شرعی قانون سازی اللہ کی عبادت و بندگی کو منظم کرتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کو اپنے الفاظ میں فصاحت سے بیان کرنے کے لئے الہامی رہنمائی دی، تاکہ شرعی احکام کے معانی کی وضاحت ہو سکے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی تاکہ تم لوگوں کے لئے اس کی وضاحت کر سکو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے، اور تاکہ وہ غور و فکر کریں“ (النحل؛ 16:44)۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ حق عطا کیا گیا کہ وہ ان معانی کو جو وحی کے ذریعے ان پر نازل ہوئے ہیں، ان کو شرعی حکم میں ڈھالیں۔ اسی لئے، سنتِ مبارکہ میں جو کچھ بھی احکام بیان کئے گئے ہیں، وہ قرآن کے شرعی احکام کے عین مساوی ہیں، کیونکہ یہ دونوں ہی وحی سے اخذ ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ کے اقوال وحی کے ذریعے ہدایت یافتہ ہیں اور اللہ کے ارادے کو بالکل درست طریقے سے بیان کرنے میں انتہائی دقیق ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ ﷺ کو کسی بھی غلطی سے محفوظ رکھا، تاکہ سنت کے الفاظ وحی کی حفاظت میں مرتب ہوں اور وہ معانی جو آپ پر نازل ہوئے تھے، ان کی صحیح ترجمانی ہو سکے۔
عقل قانون سازی کا ماخذ نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿أَمۡ لَهُمۡ شُرَكَٰٓؤُاْ شَرَعُواْ لَهُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا لَمۡ يَأۡذَنۢ بِهِ﴾ ”کیا ان کے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟“ (الشورٰی؛ 42:21)۔ اور مزید فرمایا، ﴿وَمَا ٱخۡتَلَفۡتُمۡ فِيهِ مِن شَيۡءٖ فَحُكۡمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۚ﴾ "اور جس بات میں بھی تمہارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے" (الشوریٰ؛ 42:10)۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکام زمین پر عدل کو قائم کرنے اور انصاف کے ترازو کو قائم کرنے کے ضامن ہیں۔ اگر کسی معاملے میں الہامی حکم نہ ہو، تو یہ ظلم یا فیصلے میں غلطی کے دروازے کو کھول دے گا، جو اس معاملے میں انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے جڑا ہوگا۔ لہذا، یہ نہایت ضروری ہے کہ شریعت، یعنی قرآن اور سنت، کو محفوظ رکھا جائے تاکہ قیامت کے دن تک مخلوق کے درمیان عدل و انصاف کے قیام کی نعمت کو مکمل کیا جا سکے۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ سنتِ مبارکہ قرآن کے عمومی معانی کی وضاحت کرتی ہے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، (فالسُّنَّةُ مُبَيِّنَةٌ وَمُوَضِّحَةٌ وَشَارِحَةٌ للقرآن وملحقةٌ الفروعَ بأصولِها ومشرعةٌ أحكامًا جديدة ليس لها في القرآن أصول) "لہٰذا، سنت قرآن کی وضاحت کرنے والی، تشریح کرنے والی اور تفصیل سے بیان کرنے والی ہے۔ اس کے علاوہ، سنت فروعی احکام کو ان کے اصولوں سے جوڑتی ہے اور نئے احکام متعارف کراتی ہے جو قرآن میں صراحتاً ذکر نہیں ہیں" [11]۔ لہٰذا، سنت کے کسی بھی حصہ کے ضائع ہو جانے کا مطلب شریعت کے اہم پہلوؤں کا ضیاع ہوگا [12]۔
ربِ کائنات ، اللہ ذوالجلال نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صرف شریعت کی ہی پیروی کریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿ٱتَّبِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكُم مِّن رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوۡلِيَآءَۗ قَلِيلٗا مَّا تَذَكَّرُونَ﴾ "اے لوگو! تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ، تم بہت ہی کم سمجھتے ہو" (الاعراف؛ 7:3)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مزید ارشاد فرماتے ہیں، ﴿قُلۡ إِنَّمَآ أُنذِرُكُم بِٱلۡوَحۡيِۚ وَلَا يَسۡمَعُ ٱلصُّمُّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا مَا يُنذَرُونَ﴾ "(اے نبی) کہہ دو ! میں تم کو صرف وحی کے ذریعے ڈراتا ہوں اور بہرے پکار نہیں سنتے جب ان کو ڈرایا جائے" (الانبیاء؛ 21:45)۔ مزید ارشاد ہے، ﴿وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُواْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ﴾ "اور رسول ﷺ جو کچھ بھی تم کو عطا کر دیں اسے لے لو، اور وہ جس سے منع کر دیں، تو اس سے رُک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ شدید پکڑ کرنے والا ہے" (الحشر؛ 59:7)۔ یہ حکمِ الہٰی متعدد آیات میں دہرایا گیا ہے جس میں یہ بھی شامل ہے، ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی بھی۔ اور اگر کسی بات تم میں اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دو“ (النساء؛ 4:59)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مزید تاکید کرتے ہیں، ﴿إِنِ ٱلۡحُكۡمُ إِلَّا لِلَّهِۖ﴾’’بے شک حکم صرف اللہ ہی کا ہے“ (الانعام: 57، یوسف: 40، یوسف:67) اور مزید فرمایا، ﴿ وَمَا ٱخۡتَلَفۡتُمۡ فِيهِ مِن شَيۡءٖ فَحُكۡمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۚ﴾ ’’اور جس بات میں بھی تمہارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے“ (الشوریٰ؛ 42:10)۔ یہ آیات بارہا تصدیق کرتی ہیں کہ شریعت کے وحی کردہ احکام ہی حکمرانی کے لئے واحد ذریعہ ہیں ، عدل کے ضامن ہیں اور کسی بھی بے ضابطگی کو روکتے ہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ﴾ ”اور اگر کسی بات تم میں اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دو“ (النساء؛ 4:59)، اور مزید فرمایا، ﴿وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ تِبۡيَٰنٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ﴾ ”اور ہم نے آپ پر کتاب (قرآن) نازل کیا، جو ہر شے کا مفصل بیان ہے“ (النحل؛ 16:89)۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا، كل أمرٍ ليس عليه أمرُنا فهو رَدّ ”ہر وہ امر جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہو، پس وہ رَد ہے“۔ یہ نصوص ظاہر کرتے ہیں کہ بنیاد ہی شریعت کی پابندی کرنے میں اور شریعت سے جُڑے رہنے میں ہے۔ انسان اپنے کئے کا ذمہ دار (مکلف) ہے اور شرعی تکلیف میں فرد کو وہی کام کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے جو شریعت نے لازم کیا ہے، یعنی جوابدہ ہونے کی بنیاد پر (فرض) ادا کرنا، (منع کئے گئے سے) رکنا، یا کسی عمل کی اجازت ہونا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حکم دیا کہ، ﴿فَٱسۡتَقِمۡ كَمَآ أُمِرۡتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطۡغَوۡاْۚ إِنَّهُۥ بِمَا تَعۡمَلُونَ بَصِيرٞ﴾ ”پس تم اسی طرح قائم رہو جیسے تمہیں حکم دیا گیا ہے، اور وہ بھی جس نے تمہارے ساتھ توبہ کی، اور سرکشی نہ کرو۔ بے شک جو تم کر رہے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے“ (ھود؛ 11:112)۔ بیان ہے کہ، ولا حكم قبل ورود الشرع ”شریعت کے ورود (آنے سے پہلے) کوئی حکم نہیں ہے“۔ الشوکانیؒ اپنی تصنیف ارشاد الفحول (صفحہ 6) میں بیان کرتے ہیں، ولا خلاف في كون الحاكم هو الشرع؛ وذلك بعد البعثة وبلوغ الدعوة ”اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ بالادستی شریعت ہی کی ہے؛ اور یہ (رسول اللہ ﷺ کی) بعثت اور پیغام آنے کے بعد سے ہے“۔ امام غزالیؒ، تصنیف المستصفیٰ (صفحہ 40) میں بیان کرتے ہیں، والمحكوم فيه هو فعل المكلّف، ولا حكم قبل ورود الشرع. والعقل معرِّف للحكم وليس بحاكم) ”جس پر حکم لاگو ہوتا ہے وہ مکلف کا عمل ہے۔ شریعت کے ورود (آنے) سے پہلے کوئی حکم نہیں ہے۔ عقل حکم کا ادراک تو کرتی ہے لیکن وہ حاکم نہیں ہے“۔ اسی طرح امام نوویؒ نے بھی المجموع (شرح المھذب) میں بیان کیا ہے، وَكُتُبِ الْمَذْهَبِ أَنَّ أَصْلَ الْأَشْيَاءِ قَبْلَ وُرُودِ الشَّرْعِ عَلَى الْإِبَاحَةِ أَمْ التَّحْرِيمِ أَمْ لَا حُكْمَ قَبْلَ وُرُودِ الشَّرْعِ؟ وَفِيهِ ثَلَاثَةُ أَوْجُهٍ مَشْهُورَةٍ الصَّحِيحُ مِنْهَا عِنْدَ الْمُحَقِّقِينَ لَا حُكْمَ قَبْلَ وُرُودِ الشَّرْعِ، وَلَا يُحْكَمُ عَلَى الْإِنْسَانِ فِي شَيْءٍ يَفْعَلُهُ بِتَحْرِيمٍ وَلَا حَرَجٍ، وَلَا نُسَمِّيهِ مُبَاحًا لِأَنَّ الْحُكْمَ بِالتَّحْرِيمِ وَالْإِبَاحَةِ مِنْ أَحْكَامِ الشَّرْعِ، فَكَيْفَ يَدَّعِي ذَلِكَ قَبْلَ الشَّرْعِ. وَمَذْهَبُنَا وَمَذْهَبُ سَائِرِ أَهْلِ السُّنَّةِ أَنَّ الْأَحْكَامَ لَا تَثْبُتُ إلَّا بِالشَّرْعِ، وَأَنَّ الْعَقْلَ لَا يُثْبِتُ شَيْئًا ”اور مکاتب فکر کی کتابوں میں یہ ہے کہ اشیاء (چیزوں ) کا اصل حکم شریعت کے وارد (آنے) سے قبل مباح ہے یا حرام ہے، یا شریعت کے آنے سے پہلے کوئی حکم نہیں ہوتا؟ اس میں تین مشہور آراء ہیں جن میں سے صحیح قول محققین کے نزدیک یہ ہے کہ شریعت کے وارد ہونے سے پہلے کوئی حکم نہیں ہوتا۔ اور انسان پر، جو عمل بھی وہ کرے، نہ تو حرام کا حکم لگایا جائے گا اور نہ ہی اس پر کوئی تنگی لگائی جائے گی اور نہ ہی اسے مباح کہا جائے گا،کیونکہ حرام اور مباح کا حکم شریعت کے احکام میں سے ہی اخذ کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا شریعت سے پہلے اس عمل کے بارے میں وہ یہ دعویٰ کیسے کر سکتا ہے ؟ ہمارے مکتبۂ فکر اور تمام اہل سنت کا مؤقف یہ ہے کہ احکام صرف شریعت کے ذریعے سے ہی ثابت ہوتے ہیں، اور عقل کسی بھی چیز کو ثابت نہیں کر سکتی“۔ الشاطبیؒ اپنی تصنیف الموافقات (4/200) میں توثیق کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں، والأصل في الأعمال قبل ورود الشرائع سقوط التكليف؛ إذ لا حكم عليه قبل العلم بالحكم؛ إذ شرط التكليف عند الأصوليين العلم بالمكلف به؛ ”اور اعمال کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ شریعت کے وارد (آنے) ہونے سے قبل تکلیف (ذمہ داری) ساقط ہوتی ہے؛ کیونکہ کسی حکم سے آگہی کے بغیر اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا؛ اور علمائے اصول کے مطابق شرعی ذمہ داری (تکلیف) کا تقاضا یہ ہے کہ ذمہ دار کو اپنی ذمہ داری کا علم ہو“۔
اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اس دنیا میں ہماری موجودگی اور زندگی و موت کا تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں آزمایا جائے کہ ہم میں سے کون بہترین اعمال کرتا ہے۔ اعمال کے اچھا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں اور شریعت کی ہدایات کے مطابق ہوں۔ یہ فہم اسلاف کے اقوال میں بھی نظر آتا ہے، جیسے الفضیل بن عیاض کی اس آیت پر تفسیر میں ہے کہ، ﴿لِيَبۡلُوَكُمۡ أَيُّكُمۡ أَحۡسَنُ عَمَلٗاۚ﴾”تاکہ وہ تمہیں آزما سکے کہ تم میں سے کون اعمال میں بہترین ہے“ (سورۃ الملک : 2)۔ تفسیر میں یہ بیان کیا گیا کہ، قال، أخلصه وأصوبه، فقيل، يا أبا علي، ما أخلصه وأصوبه؟ فقال: إن العمل إذا كان صوابًا ولم يكن خالصًا لم يقبل، وإذا كان خالصًا ولم يكن صوابًا لم يقبل، حتى يكون خالصًا صوابًا، والخالص أن يكون لله، والصواب أن يكون على السنة ”آپ نے فرمایا، ”اس کا مطلب ہے کہ سب سے زیادہ خالص اور سب سے صحیح (عمل)“۔ جب اس کی وضاحت کے لئے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر کوئی عمل درست ہو مگر نیت میں خلوص نہ ہو تو وہ قبول نہیں ہوتا، اور اگر عمل میں خلوص ہو مگر وہ عمل ہی صحیح نہ ہو تو وہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ (عمل کے لئے) اس کا خالص ہونا، یعنی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو، اور عمل کا درست ہونا یعنی کہ وہ سنت کے مطابق ہو، تو یہ دونوں شرائط لازمی ہیں“۔ آزمائش اور تکلیف تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب اعمال کے لیے رہنمائی موجود ہو، اور یہ اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ شریعت کی حفاظت ضروری ہے، جو ہر تکلیف کے عمل کے لئے دلیل فراہم کرتی ہے۔ [13]
تکلیف (ذمہ دار ہونا) شرعی احکام کا جزوِ لازم ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حتیٰ کہ ذرہ برابر کئے ہوئے عمل کے بدلہ کا بھی وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿فَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرٗا يَرَهُۥ ٧ وَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٖ شَرّٗا يَرَهُۥ ٨﴾ ”پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا“ (الزلزال؛ 99:7،8)۔ اس حکم کا تقاضا یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کے خیر یا شر ہونے کا تعین بھی وحی کی رہنمائی کے ذریعے سے منظم ہونا چاہئے۔ محض عقل سے کئے جانے والے فیصلے شریعت کے احکام نہیں ہوتے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی کو شخصی آراء یا مروجہ خود ساختہ آراء کی خلاف ورزی پر ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔ یہ آیات اس بات کی اہمیت پر زور دیتی ہیں کہ شرعی قوانین ہی احکامات اور ممانعت کے ساتھ ایک ذرہ برابر عمل کا بھی احاطہ کرتے ہوئے تمام انسانی مسائل کو جامع انداز میں حل کرتے ہیں۔ یہ آیات اس بات کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہیں کہ شرعی دلائل کی حفاظت ضروری ہے، تاکہ مومن ان سے احکام اخذ کر سکیں اور اعمال کے خیر ہونے یا شر ہونے کا تعین کرتے ہوئے ان پر عمل کر سکیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت کو کسی ایک رَتی برابر معاملے میں بھی احکام اور ممانعت کے بغیر یونہی نہیں چھوڑ دیا کہ جس پر انہیں حساب دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿أَيَحۡسَبُ ٱلۡإِنسَٰنُ أَن يُتۡرَكَ سُدًى﴾ ”کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟“ (القیٰمۃ؛ 75:36)۔ اگر کسی ایک معاملے میں بھی رہنمائی نہ کی گئی ہوتی، تو انسانیت اس معاملے میں گمراہ ہو جاتی اور یوں اس معاملے میں تکلیف (ذمہ دار ہونا) ممکن نہ ہوتی۔ اگر وحی کی بنیاد پر خیر یا شر کا تعین نہ کیا جاتا تو کوئی حکم درست نہ ہو پاتا، جو کہ واضح آیات کے خلاف ہوتا، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ ہر معاملے کا ایک حکم ہے، اور ہر عمل کو وحی کی رہنمائی کے مطابق پرکھا جائے گا۔ وحی نے بعض احکام کو ظنی(غیر قطعی) دلائل پر مبنی ہونے کی اجازت دی ہے، اور مستند طریقہ کار کی بنیاد پر فقہی فہم میں اختلافات دین کا ہی حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک مجتہد نصوص سے یہ اخذ کر سکتا ہے کہ عورت کو چُھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جبکہ دوسرا مجتہد اس کے برعکس نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ دونوں ہی احکام شریعت پر مبنی ہیں، کیونکہ ہر مجتہد اپنے بہترین فہم کے مطابق شریعت کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ تفہیم پر امکانات کی اس راہ نے، جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قصد سے ہی ممکن ہے، اس نے نصوص کو متعدد مفاہیم کے مطابق ڈھالنے کے قابل بنا دیا ہے جس سے فقہ کی گہرائی کو مزید فروغ ملا ہے۔ پس مجتہد اپنے ذہن کو استعمال کرتے ہوئے نصوص اور ان کے معانی کو سمجھتا ہے اور ایک فہم تک پہنچتا ہے جسے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے، اور وہ اس پر عمل کرنے پر مکلف ٹھہرایا جائے گا جو اس نے اجتہاد کے ذریعے اخذ کیا ہوگا [14]۔ ہم پہلے ہی اس حکیم و خبیر شارع کی حکمت پر غور کر چکے ہیں کہ اس نے مجتہد کو نصوص کا مطالعہ کرنے اور ان کا فہم حاصل کرنے کے لئے عملی طریقہ کار پر عمل کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ نصوص کا فہم حاصل کرتے ہوئے نفسانی خواہشات اور میلانات کے اثرات کے باعث خلل کو روکا جائے۔ جب نفسانی خواہشات سے پاک ایک مجتہد درست لغوی اور فقہی اصولوں کے مطابق نصوص پر غور کرتا ہے، تو اس کا اخذ کردہ نتیجہ شریعت کے مطابق ہوتا ہے۔ نصوص کی یہ خصوصیت کہ وہ وسیع معانی کو جامع الفاظ میں سمو لیں، یہ خصوصیت ہی اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ یہ نصوص قیامت تک انسانیت کی ضروریات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے فرمایا، «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد» ”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ مسترد ہے“ (صحیح مسلم)۔ امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں، وفي الرواية الثانية: «من عمل عملًا ليس عليه أمرنا فهو رد» قال أهل العربية: (الرد) هنا بمعنى المردود، ومعناه: فهو باطل غير معتدٍّ به، وهذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الإسلام، وهو من جوامع كلمه صلى الله عليه وسلم، فإنه صريح في رد كل البدع والمخترعات، وفي الرواية الثانية زيادة وهي أنه قد يعاند بعض الفاعلين في بدعة سبق إليها، فإذا احتج عليه بالرواية الأولى يقول: أنا ما أحدثت شيئًا فيحتج عليه بالثانية التي فيها التصريح برد كل المحدثات، سواء أحدثها الفاعل، أو سبق بإحداثها… وهذا الحديث مما ينبغي حفظه واستعماله في إبطال المنكرات، وإشاعة الاستدلال به ”اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «من عمل عملًا ليس عليه أمرنا فهو رد» ”جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے دین کے مطابق نہیں، تو وہ (عمل) مردود ہے“۔ اہل زبان کے مطابق، یہاں ”مردود“ کا مطلب ”باطل اور ناقابل قبول“ ہے۔ یہ حدیث اسلامی اصولوں میں سے ایک عظیم اصول ہے اور نبی کریمﷺ کے جامع اقوال میں سے ہے۔ یہ حدیث دین میں ہر بدعت اور نئی اختراع کو واضح طور پر مسترد کر دیتی ہے۔ دوسری روایت ان لوگوں پر حجت قائم کرتی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی بدعت کے موجد نہیں بلکہ اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ دین میں ہر نئی چیز، چاہے اسے ایجاد کیا گیا ہو یا اس پر عمل کیا جا رہا ہو، ناقابل قبول ہے۔ یہ حدیث غلط اعمال کے رد اور دین میں بے بنیاد چیزوں کو مسترد کرنے کے لیے بہت اہم ہے اور اسے بدعات کے خلاف دلیل کے طور پر کثرت سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
لہٰذا، کوئی بھی ایسا حکم جو محض عقل پر مبنی ہو اور شریعت کے دلائل و اصولوں سے منقطع ہو، تو وہ حکم مسترد ہے کیونکہ یہ اسلام میں بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے احکام وحی سے اخذ کردہ نہیں ہیں، اور ان کی بنیاد پر کئے جانے والے تمام اعمال بھی ناقابل قبول اور مردود ہیں۔ یہ ایک قطعی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ممنوعات کی تنبیہ کئے بغیر اور واضح کئے بغیر سزا نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيُضِلَّ قَوۡمًا بَعۡدَ إِذۡ هَدَىٰهُمۡ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَۚ﴾ ”اور اللہ ایسا نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد انہیں گمراہ کر دے جب تک کہ ان پر واضح نہ کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے“ (التوبہ؛ 9:115)۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبۡعَثَ رَسُولًا﴾ ”اور ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں“ (بنی اسرائیل؛ 17:15)۔ یہ آیات اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ تنبیہ اور رہنمائی کا بنیادی ذریعہ وحی ہے، اور اس کے احکام ان لوگوں پر لازم ہیں جنہیں وہ واضح طور پر پہنچ چکے ہیں۔ اسلام کے احکام کو مسترد کرنا یا ان کی جگہ دیگر قوانین نافذ کرنا دین کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے اور اللہ کی ہدایت کی جامعیت کو کمزور کرتا ہے۔
تنبیہ اور رہنمائی صرف وحی کے ساتھ خاص ہے، اور اس کے علاوہ کسی اور ذریعے کی پیروی سے ممانعت قطعی ہے۔ شریعت کی بنیاد پر حساب و کتاب کو یقینی بنانے اور دیگر قانونی نظاموں پر انحصار سے بچنے کے لئے وحی کی حفاظت ضروری ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، ﴿ٱتَّبِعۡ مَآ أُوحِيَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَ ﴾"جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل (وحی) کیا گیا ہے، اسی کی پیروی کرو" (الانعام؛ 6:106) اور مزید فرمایا، ﴿ٱتَّبِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكُم مِّن رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوۡلِيَآءَۗ " جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا کسی کو ولی نہ بنا لو" (الأعراف؛ 7:3)۔ وحی میں قرآن اور سنت، دونوں شامل ہیں، جو مکمل اور قطعی ہیں۔ وحی کے اختتام کے ساتھ، رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نئی شریعت نہیں آ سکتی، کیونکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٖ مِّن رِّجَالِكُمۡ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّۧنَۗ ﴾"محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں" (الاحزاب؛ 33:40)۔ یہ اس امر کو لازم قرار دیتا ہے کہ اسلام کے مکمل اور واضح دلائل ہر نسل کے لئے محفوظ رکھے جائیں۔
اسلام کا جامع نظام، جو عقیدہ اور شریعت دونوں کو شامل کرتا ہے، کامل ہے اور اس میں وحی سے ماخوذ کسی بھی حکم کا کوئی پہلو نامکمل نہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی بھی انسانی ساختہ قانون کسی بھی معاملے میں ناانصافی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ شریعت کی مکمل حفاظت، یعنی قرآن و سنت کا محفوظ رہنا، اللہ کی نعمت کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری ہے تاکہ قیامت تک مخلوق میں عدل و انصاف قائم رہے۔
امام ابن حزم اندلسی رحمتہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کرتے ہوئے فرمایا، ﴿ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ﴾ ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا“ (المائدۃ؛ 5:3) امام ابن حزمؒ نے فرمایا، (فنقول لمن جوَّز أن يكون ما أمر الله به نبيه من بيان شريعة الإسلام لنا غير محفوظ، وأنه يجوز فيه التبديل، وأن يختلط بالكذب الموضوع اختلاطًا لا يتميز أبدًا: أخبرونا عن إكمال الله -عز وجل- لنا ديننا، ورضاه الإسلام لنا دينًا، ومنعه تعالى من قبول كل دين حاشى الإسلام. أكل ذلك باق علينا ولنا إلى يوم القيامة؟ أم إنما كان للصحابة – رضي الله عنهم – فقط؟ أم لا للصحابة ولا لنا؟ ولا بد من أحد هذه الوجوه … فإذا كانت الإجابة بالضرورة: كل ذلك باق لنا وعلينا إلى يوم القيامة، صحَّ أن شرائع الإسلام كلها كاملة، والنعمة بذلك علينا تامة، وهذا برهان ضروري وقاطع على أن كل ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم في الدين، وفي بيان ما يلزمنا محفوظٌ لا يختلط به أبدًا ما لم يكن منه) ”ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں جو یہ بات کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو جو شریعت اسلام ہم تک پہنچانے کا حکم دیا تھا، وہ محفوظ نہیں رہی، بلکہ اس میں تبدیلی کا گمان ممکن ہے، اور اس میں جھوٹ اس طرح سے مل سکتا ہے کہ اصل اور تحریف میں فرق کرنا مشکل ہو جائے: تو ہمیں بتاؤ، جب اللہ عز و جل نے ہمارے لئے دین کو مکمل کر دیا، اسلام کو ہمارے لئے دین کے طور پر پسند فرما لیا، اور اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو قبول کرنے سے منع کر دیا، تو کیا یہ تکمیل صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تک کے لئے تھی؟ یا یہ قیامت تک ہمارے لئے بھی باقی ہے؟ تو اگر جواب یقیناً یہ ہے کہ یہ قیامت تک ہمارے لئے باقی ہے، تو لازم آتا ہے کہ اسلام کے تمام احکام مکمل ہیں اور اللہ کی نعمت ہم پر پوری ہو چکی ہے۔ یہ ایک قطعی اور حتمی دلیل ہے کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے دین کے متعلق بیان فرمایا اور جو کچھ ہمارے لئے واجب قرار پایا، وہ سب محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کے باطل کی آمیزش ممکن نہیں“ (اقتباس کا اختتام) [15]۔
اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الأعراف، آیت 3 میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ صرف اسی کی وحی کی پیروی کرنا لازم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے قرآنِ کریم میں فرمایا، ﴿ إِنۡ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَيَّ وَمَآ أَنَا۠ إِلَّا نَذِيرٞ مُّبِينٞ ﴾ ”میں صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، اور میں تو محض واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں“ (الاحقاف؛ 46:9)، اور اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا، ﴿وَٱتَّبِعۡ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَۚ﴾ ”اور اُس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے“ (الأحزاب؛ 33:2)۔ اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے ساتھ تنبیہ کو وحی کے ساتھ خاص کیا اور فرمایا، ﴿ قُلۡ إِنَّمَآ أُنذِرُكُم بِٱلۡوَحۡيِۚ ﴾ ”کہہ دو کہ میں تمہیں صرف وحی کے ذریعے خبردار کرتا ہوں“۔ یہ واضح کرتا ہے کہ وعظ و نصیحت اور گفتار و کردار میں پیروی اور اطاعت کا دائرہ وحی کے ساتھ خاص ہے، جس پر زور دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے کو لازم قرار دیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے احکام اور ممانعتیں اس کا حصہ ہیں جو اللہ نے نازل کیا ہے، یعنی یہ وحی کا ہی حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ﴿ ٱتَّبِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكُم مِّن رَّبِّكُمۡ وَلَا تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِۦٓ أَوۡلِيَآءَۗ قَلِيلٗا مَّا تَذَكَّرُونَ٣ ﴾ ”اُس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی پیروی نہ کرو، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو“ (الاعراف؛ 7:3)۔ آیت میں الفاظ، ﴿ٱتَّبِعُواْ مَآ أُنزِلَ إِلَيۡكُم﴾ ”اُس چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے“ جامع حد بندی کا کام کرتے ہیں، اور یہ الفاظ وَلَا تَتَّبِعُواْ ”اور کسی اور کی پیروی نہ کرو“ ایک کڑی حد مقرر کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے حکم میں یہ دلیل ہے کہ ان کے اقوال، اعمال، احکام اور ممانعتیں سب وحی کا حصہ ہیں۔
دین خود مکمل ہے، جو ہر چیز کی وضاحت فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو کامل کیا، مسلمانوں پر اپنی نعمت پوری کی، اور کفار کو اس سے مایوس کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ﴿ ٱلۡيَوۡمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡهُمۡ وَٱخۡشَوۡنِۚ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ ﴾ ”آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا“ (المائدۃ؛ 5:3)۔
جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دین کے طور پر قبول فرمایا، تو اس نے یہ وعدہ کیا، اور اس کا وعدہ سچا ہے کہ وہ اسلام کے علاوہ کسی دین کو قبول نہیں کرے گا، اور وہ جو کسی اور طریقے کی پیروی کریں گے، وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں شامل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ﴿ وَمَن يَبۡتَغِ غَيۡرَ ٱلۡإِسۡلَٰمِ دِينٗا فَلَن يُقۡبَلَ مِنۡهُ وَهُوَ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ مِنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ ٨٥ ﴾ ”اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا، تو وہ ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا“ (آل عمران؛ 3:85)۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ عقیدہ اور شریعت کے لحاظ سے اسلام، جو کہ ایک مکمل طرزِ حیات ہے، اس کے سوا کسی بھی دوسرے دین کو قبول نہیں کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے شریعت کو مکمل کر دیا ہے، جس میں ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کے بارے میں کوئی حکم نہ ہو جو اچھائی اور برائی کے درمیان فرق کو واضح کرے اور لازمی اطاعت کا تقاضا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ﴿أَيَحۡسَبُ ٱلۡإِنسَٰنُ أَن يُتۡرَكَ سُدًى ٣٦ ﴾ ”کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟“ (القیٰمۃ؛ 75:36)، یعنی کیا اسے کسی بھی معاملے میں احکام اور ممنوعات کے بغیر چھوڑ دیا جائے گا؟اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ﴿ فَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرٗا يَرَهُۥ ٧ وَمَن يَعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٖ شَرّٗا يَرَهُۥ ٨ ﴾ ”پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا“ (الزلزال؛ 99:7،8)۔ لہٰذا، لازم ہے کہ وحی ہر عمل میں خیر اور شر کے درمیان وضاحت فراہم کرے تاکہ اسی بنیاد پر حکم لاگو ہوں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿ وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ تِبۡيَٰنٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ وَهُدٗى وَرَحۡمَةٗ وَبُشۡرَىٰ لِلۡمُسۡلِمِينَ ﴾ ”اور ہم نے آپ پر کتاب (قرآن) نازل کیا، جو ہر شے کا مفصل بیان ہے، اور ہدایت و رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کےلئے“ (النحل؛ 16:89)۔ اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے، ﴿ وَمَا ٱخۡتَلَفۡتُمۡ فِيهِ مِن شَيۡءٖ فَحُكۡمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۚ﴾ "اور جس بات میں بھی تمہارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے" (الشوریٰ؛ 42:10)۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا، ﴿ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ﴾ "اور اگر کسی بات تم میں اختلاف ہو جائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دو“ (النساء؛ 4:59)۔ یہ تمام دلائل ظاہر کرتے ہیں کہ دین مکمل طور پر وحی پر مبنی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر اختلاف کو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے، یعنی قرآن اور سنت کی طرف، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی حکم قرآن اور سنت میں لازمی موجود ہے۔ اور چونکہ، اللہ تعالیٰ نے قانون سازی کے حق کو صرف اپنے لئے مخصوص کیا ہے، اور ہر اختلاف کو اللہ کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے، تو اس امر کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں حکم کو قرآن اور سنت میں بیان کر دیا ہو۔
ان آیات میں صیغۃ العموم (عمومی الفاظ) استعمال کئے گئےہیں، جیسے، ﴿وَمَا﴾ "اور جو کچھ بھی"، ﴿مِن شَىْءٍۢ﴾ "کسی بھی شے کے بارے میں"، ﴿لِّكُلِّ شَىْءٍۢ﴾ "ہر شے کے لئے" اور ﴿فِى شَىْءٍۢ﴾ "ہر چیز میں"۔ یہ تمام الفاظ عمومیت کو ظاہر کرتے ہیں، یعنی ہر مسئلے کے لیے ایک حکم موجود ہے جو اس پر واضح مؤقف فراہم کرتا ہے۔
شرعی حوالے سے ایسا نہیں کہ کسی بھی انسان کے عمل کے بارے میں کوئی شرعی دلیل یا اشارہ موجود نہ ہو کیونکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس عمومی بیان کی روشنی میں ہے کہ ﴿تِبْيَٰنًۭا لِّكُلِّ شَىْءٍۢ﴾ "ہر چیز کی وضاحت کے لئے" اور قرآن کی اس صریح تصدیق کی روشنی میں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ بعض واقعات میں شرعی حکم کا فقدان ہے، یعنی یہ کہ افراد کے بعض اعمال ایسے ہیں جن کو شریعت نے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے،اور نہ تو کوئی دلیل فراہم کی ہے اور نہ ہی ذمہ دار شخص کو اس کے ارادے کے بارے میں رہنمائی کرنے کے لئے کوئی اشارہ پیش کیا ہے، تو اس دعوے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں ایسے معاملات ہیں جن کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، اور یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس دین کو مکمل نہیں کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسے اعمال موجود ہیں جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ دین ادھورا ہے [16]۔ اس طرح کا دعوی قرآنِ کریم کی صریح نصوص کی منافی کرتا ہے اور اس لئے باطل ہے [17]۔ یہ آیات اس حقیقت کی بھی ضمانت دیتی ہیں کہ قرآن اور سنت محفوظ ہیں، تاکہ مجتہدین ان سے شرعی احکام اخذ کر سکیں اور وہ احکام اللہ کی منشاء کے قریب تر ہوں۔ اگر وحی محفوظ نہ ہوتی، تو احکام کی وضاحت اور شریعت کا واضح فہم ہی ختم ہو جاتا۔
بے شک، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن اور سنت کو لوگوں کے لئے اس بنیاد کے طور پر نازل کیا ہے تاکہ وہ ان کے ذریعے اپنے تمام معاملات میں فیصلے کریں، اختلافات کو حل کریں اور ہر مسئلے اور تنازعے کا حکم معلوم کریں۔ نتیجتاً، دنیا و آخرت میں انسانوں کا حساب ان احکام کے مطابق کیا جائے گا، اور ان کی اطاعت اور نافرمانی کی بنیاد پر ان کا درجہ مقرر ہوگا، جس کا نتیجہ جزا یا سزا کی صورت میں نکلے گا۔ اگر موجودہ دور میں لوگوں تک پہنچنے سے پہلے ان احکام کا تحفظ نہ کیا گیا ہوتا، تو ان کی کیا اہمیت ہوتی؟ اور کسی شخص کا کسی ایسے حکم کی خلاف ورزی پر کیسے مؤاخذہ ہو سکتا تھا جو کبھی اس تک پہنچا ہی نہ ہو؟ کیا ان (احکام) کا کھو جانا اس جگہ ناانصافی کو متعارف نہیں کر دے گا جہاں انصاف کا قصد کیا گیا ہو؟ کیا اس کا نتیجہ یہ نہیں نکلے گا کہ کچھ لوگ تو ہدایت حاصل کر لیں گے، جبکہ وہ لوگ جن تک احکام ہی نہیں پہنچے، وہ گمراہ رہ جائیں گے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں کے جن معاملات تک یہ احکام نہیں پہنچے وہ شریعت کے دائرہ کار سے باہر ہو جائیں گے؟ کیا اس بات کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ وہ افراد اللہ کے حکم کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، اور اس نقصان کی وجہ سے شریعت کا مقصد ہی پورا نہ پائے گا؟ مزید برآں، کیا یہ احکام جو عمومی طور پر نازل کئے گئے تھے، سنت کی تفصیلی وضاحت کے بغیر ناقابل فہم نہیں ہو جائیں گے؟ کیا یہ انہیں حقیقت سے الگ اور عملی طور پر ناقابلِ نفاذ نہیں بنا دے گا؟اگر ایسا ہو تو قرآن اپنی وہ خصوصیت کھو دے گا جس میں اسے "ہر چیز کی وضاحت" کہا گیا ہے۔ لہٰذا، سنت کا محفوظ ہونا بعینہٖ ویسے ہی لازم ہے جیسے قرآن محفوظ ہے، تاکہ دونوں مل کر اللہ کی مخلوق پر اس کی نعمت کو اسلام کے ذریعے مکمل کریں، یعنی وہ دینِ اسلام کہ جسے اللہ نے پسند کیا ہے۔ قرآن و سنت کے ذریعے ہی دین کو زمین پر خلافت کے دوران وہ طاقت و قوت ملتی ہے جو اللہ نے امت کے لئے پسند کی ہے۔
امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، (قلت: والفرض علينا وعلى من هو من قبلنا ومن بعدنا واحد؟ قال: نعم، قلت: فإن كان ذلك علينا فرضًا في اتباع أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنحيط به إذا فَرَضَ علينا شيئًا: فقد دلنا على الأمر الذي يؤخذ به فرضه؟ قال: نعم، قلت: فهل تجد السبيل إلى تأدية فرض الله عز وجل في اتباع أوامر رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أحد قبلك أو بعدك ممن لم يشاهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بالخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وإن في أن لا آخذ ذلك إلا بالخبر، لما دلني على أن الله أوجب عليّ أن أقبل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم) " میں نے پوچھا: "کیا ہم پر، اور ہم سے پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں پر فرائض یکساں ہیں ؟"انہوں نے جواب دیا: "ہاں"میں نے پوچھا: "اگر ہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی فرض ہے، تو کیا اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انہوں نے ہم پر فرض کی ہیں؟ کیا انہوں نے ہمیں وہ طریقہ بتایا ہے جس سے ان کے احکامات کو ہم پر لازم قرار دیا گیا؟"انہوں نے جواب دیا: "ہاں"، تو میں نے پھر پوچھا: "کیا آپ، یا آپ سے پہلے یا بعد میں آنے وال کوئی ایسا شخص جس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا نہ ہو، کیا وہ اللہ کے عائد کردہ ان فرائض یعنی رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی پیروی کو پورا کرنے کا کوئی راستہ جان سکتا ہے، سوائے اس کے کہ اس نے انہیں روایتوں کے ذریعے حاصل کیا ہو؟ کیونکہ اگر میں ان کو صرف روایتوں کے ذریعے قبول نہ کروں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ نے مجھے رسول اللہ ﷺ سے منقول اقوال کا قبول کرنا واجب قرار دیا ہے“۔ [18]
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے دینِ اسلام کو تمام انسانیت کے لئے نازل فرمایا ہے[19]، اور رسالت (پیغام) کو صرف نبوت کے دور تک ہی محدود نہیں رکھا۔ جو کچھ بھی وحی میں بیان ہوا، چاہے وہ عقائد ہوں، قوانین، واقعات یا خطابات، یہ سب پوری انسانیت پر لاگو ہوتے ہیں۔ وحی کا خطاب تمام انسانوں کے لئے ہے، رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے دور سے لے کر قیامت کے روز تک۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿ وَمَآ أَرۡسَلۡنَٰكَ إِلَّا كَآفَّةٗ لِّلنَّاسِ بَشِيرٗا وَنَذِيرٗا وَلَٰكِنَّ أَكۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ٢٨ ﴾ "اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے" (سبأ؛ 34:28)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿قُلۡ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيۡكُمۡ جَمِيعًا نِٱلَّذِي لَهُۥ مُلۡكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۖ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحۡيِۦ وَيُمِيتُۖ فََٔامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِيِّ ٱلۡأُمِّيِّ ٱلَّذِي يُؤۡمِنُ بِٱللَّهِ وَكَلِمَٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُونَ١٥٨﴾ "آپ ﷺ کہہ دیں، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، وہی اللہ جس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین میں ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے، تو تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول، نبی اُمّی پر، اور وہ جو اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ“ (الأعراف؛ 7:158) [20]۔
یہ عالمگیر خطاب اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے ظاہر ہوتا ہے، ﴿قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ﴾"آپؐ کہہ دیجئے، اے لوگو!" یہ لفظ "الناس" (تمام انسانوں) کو شامل کرتا ہے، یعنی جب سے یہ جامع خطاب نازل ہوا، اس وقت سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو تمام انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہے۔ اور اس خطاب کی عالمگیریت کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس کلام سے مزید تقویت دی گئی ہے، ﴿إِنِّي رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ﴾"بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں"۔ یہاں﴿ إِنِّي ﴾ "بے شک میں" پر زور دیا گیا، کیونکہ اس خطاب کے مخاطب لوگوں میں انکار کرنے والے اور شکوک رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ اور یہ بھی واضح کیا گیا کہ خطاب سب کے لیے ہے، جیسا کہ اللہ کے الفاظ، ﴿جَمِيعًا ﴾ "تم سب کی طرف" نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ پیغام کسی خاص قوم یا دور تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے۔
انسانیت کے لئے دلیل (حجت) قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے لوگوں کے پاس کوئی عذر نہ رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تصدیقی استدلال قیامت تک قائم رہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ رُّسُلٗا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حُجَّةُۢ بَعۡدَ ٱلرُّسُلِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمٗا١٦٥﴾ "رسول خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے سامنے کوئی حجت (عذر) باقی نہ رہے، اور اللہ زبردست غالب، حکمت والا ہے" (النساء؛ 4:165)۔ اگر دین کا کوئی حصہ کھو جاتا، تو ان امور میں حجت باقی نہ رہتی،اور ان پر مؤاخذہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
سنت کا کوئی بھی حصہ کھو جانے کا مطلب یہ ہوتا کہ دین کے وہ پہلو جو قرآن میں وضاحت طلب تھے، ان کی تشریح ختم ہو جاتی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن اب مفصل نہیں رہا، کیونکہ اس نے سنت کو اپنی وضاحت کے طور پر مقرر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿ قُلۡ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَۖ فَإِن تَوَلَّوۡاْ فَإِنَّمَا عَلَيۡهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيۡكُم مَّا حُمِّلۡتُمۡۖ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهۡتَدُواْۚ وَمَا عَلَى ٱلرَّسُولِ إِلَّا ٱلۡبَلَٰغُ ٱلۡمُبِينُ ﴾"آپ ﷺ فرما دیں، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم منہ موڑ لو، تو (رسول پر) صرف وہی ذمہ داری ہے جو ان کے ذمہ کیا گیا ہے، اور تم پر وہی (ذمہ داری) ہے جو تم پر ڈالی گئی۔ اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے، اور رسول پر صرف صاف صاف پیغام پہنچا دینا ہے" (النور؛ 24:54)۔ یہاں لفظ (المبين) (واضح) کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ پیغام مکمل طور پر وضاحت کے ساتھ پہنچایا گیا ہے۔ سنت کی فراہم کردہ وضاحت کے بغیر، پیغام ”واضح“ نہیں ہو سکتا تھا، اور ہدایت کے ذرائع نامکمل ہوتے۔ ان تفصیلات کے بغیر جو سنت سے حاصل ہوتے ہیں، ان کے بغیر صرف قرآن کے عمومی یا مبہم پہلوؤں تک خود کو محدود کر لینا، ہدایت کو مکمل طور پر سمجھنے میں ناکامی کا باعث بنے گا۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے، اور اسی طرح سنت بھی محفوظ ہے، کیونکہ سنت ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے دین کی وضاحت کی گئی، قرآن کے عمومی احکامات کو خاص کیا گیا، اس کے الفاظ کی تشریح کی گئی، اور اس کے احکام اور معانی کو فصاحت سے بیان کیا گیا۔ سنت کے ذریعے ہی دین مکمل ہوا، اور ہمارا کام یہ ہے کہ اس کے قطعی اور ظنی حصوں میں فرق کریں، کیونکہ شریعت کے بیشتر احکام سنت سے اخذ کیے گئے ہیں۔ سنت قرآن کی وضاحت کرنے والی، اس کے احکام کو تفصیل سے بیان کرنے والی، اور دین کے اصول و فروع میں ربط پیدا کرنے والی ہے۔ بعض ایسے احکام بھی سنت سے ثابت ہیں جو قرآن میں براہ راست مذکور نہیں۔ قرآن اور سنت دونوں کے ذریعے دین مکمل ہوا، اللہ کی نعمت کی تکمیل ہوئی، اوراس نے اسلام کو ہمارا دین بنا کر پسند کیا، جس میں تمام احکام شامل ہیں۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں، ﴿وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی تاکہ تم لوگوں کے لئے اس کی وضاحت کر سکو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے، اور تاکہ وہ غور و فکر کریں“ (النحل؛ 16:44)، اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا، ﴿وَمَآ أَنزَلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ ٱلَّذِي ٱخۡتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدٗى وَرَحۡمَةٗ لِّقَوۡمٖ يُؤۡمِنُونَ﴾ " اس کتاب کو ہم نے آپ پر اس لئے اتارا ہے کہ آپ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کر دیں جس میں وه اختلاف کر رہے ہیں اور ہدایت و رحمت ان کے لئے ہے جو ایمان لائے ہیں“ (النحل؛ 16:64)۔ چونکہ شریعت کے قانونی احکام تک پہنچنے کے لئے درست اور دقیق اصول موجود ہیں، اس نے شرعی احکام تک پہنچنے میں ظنی غلبے (غلبۃ الظن) کے ذریعے حکم نکالنے کا ایک طریقہ فراہم کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ اس نے سنت سے ماخوذ انفرادی (آحاد) دلائل کی صحت یا دلالت میں ظن (غیر قطعی) ہونے کو قبول کیا، جیسا کہ اس نے بعض قرآنی آیات کی دلالت کی تعبیر میں ظن (غیر قطعی) کو بھی تسلیم کیا۔ چنانچہ دین اپنے تمام تر اجزاء میں، اصول فقہ (فقہ کے اصول) کے ذریعے، ہر عمل، معاملے اور مسئلے کے لئے اللہ کے احکامات اور ممنوعات کو فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کرتا ہے، یہاں تک کہ ذرہ برابر کے عمل کے بھی حساب کتاب کو یقینی بناتا ہے، اور خیر کو شر سے ممتاز کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اس دین کو منتقل کیا، انہوں نے لازماً اسے قطعی اجماع کے ساتھ منتقل کیا ہے، کیونکہ ان کی دیانت داری پر کسی بھی قسم کے شک و شبہ سے دین کی تکمیل، اس کے ہر معاملے پر مفصل ہونے، اور اس کے مواخذہ کرنے کی صلاحیت پر اثر پڑتا۔ لہٰذا، جن لوگوں نے دین کو محفوظ کیا اور ہم تک پہنچایا، ان کے اجماع کو یقینی طور پر ثابت شدہ مانا جاتا ہے۔
ہم نے اپنی کتاب "البرہان المبین" میں سنت کو بطور وحی سے علم حدیث کے درست اور تفصیلی طریقوں کے ذریعے سنت کے تحفظ، اس کی حفاظت، اس کی حاکمیت اور دین کے بنیادی ماخذ کے طور پر اس کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ لہٰذا اس ذمہ داری میں اس عمل کو سمجھنا شامل ہے جس کے ذریعے مخصوص واقعات پر شرعی احکام کا اطلاق کیا جاتا ہے، جو ہر صورت حال کے لئے ایک حکم فراہم کرتا ہے جو طرزِ حیات میں انسانی برتاؤ کو منظم کرتا ہے، مکلف (ذمہ دار) کے اعمال کو حل کرتا ہے، انسانی معاملات کے احکام کی وضاحت کرتا ہے، اور ریاست، زندگی اور معاشرے کے نظام کو چلانے والے قوانین کی وضاحت کرتا ہے۔
حوالہ جات :
[1] شیخ صالح الشامی کی تصنیف "میں مطمئن ہوں کہ اسلام میرا دین ہے" میں فقیہ ڈاکٹر محمد عبداللہ دراز کی تصنیف "دین" سے اقتباس کرتے ہوئے دین کی تعریف پیش کی گئی ہے۔
[2] شیخ صالح الشامی کی تصنیف "میں مطمئن ہوں کہ اسلام میرا دین ہے" (صفحہ 15-17) میں ڈاکٹر محمد عبداللہ دراز کی تصنیف "دین" سے واضح کردہ اختصار، صفحات 30-52
[3] شیخ صالح الشامی کی تصنیف "میں مطمئن ہوں کہ اسلام میرا دین ہے" (صفحہ 15-17)
[4] بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے "خود اپنا محاسبہ کرنا"۔ تاہم، اس کا زیادہ درست مفہوم یہ ہے کہ خود کو اس طرح منظم کرنا کہ وہ ایسے افعال سے بچتا رہے جن کی وجہ سے محاسبہ ہو۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی حدیث مبارکہ میں اس کی مزید وضاحت کی، « الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت، والفاجر من يُتبع نفسه هواها ويتمنى على الله عز وجل » ’’دانا وہ (شخص) ہے جو اپنے آپ کا محاسبہ کرتا ہے اور موت کے بعد کی تیاری کرتا ہے، اور غافل وہ ہے جو اپنے نفس کی پیروی کرتا رہتا ہے اور اللہ عزوجل سے بے سود امیدیں لگاتا ہے"۔ پس، جاہل شخص اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے، جبکہ عقلمند شخص اللہ کے احکام کے مطابق اپنے آپ کو منظم کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے۔
الازہریؒ نے "تہذیب اللغۃ" میں بیان کیا ہےکہ ابو عبید نے کہا: "جملہ دان نفسه کا مطلب ہے اپنے آپ کو عاجز رکھنا اور بندگی میں لانا..." اور یہ جملہ "دین اللہ کے لئے ہے" اسی سے آتا ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے اللہ کی اطاعت اور بندگی کرنا۔ اس کے علاوہ، اس جملہ "عقلمند وہ ہے جو دان نفسه کرتا ہے" کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے وہ اپنے آپ کا محاسبہ کرتا ہے"۔ اقتباس ختم۔
[5] امام ابو حامد الغزالیؒ کی تصنیف "المنقول من تعلیقات الاصول" سے اقتباس ، صفحہ 21۔
[6] ایک معاشرے کی شناخت کی بنیاد اس بات پر ہے کہ باہمی تعلقات کس طرح منظم کئے جاتے ہیں، اور ان تعلقات کو چلانے والے نظام کیا ہیں۔ مثلاً، سودی (ربا) تعلقات ایک سرمایہ دارانہ نظام کے نفاذ کا نتیجہ ہیں۔ جب تک کوئی معاشرہ سرمایہ دارانہ رہے گا، اس میں یہ سودی تعلقات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ مغربی معاشروں میں یا حتیٰ کہ اسلامی ممالک میں جہاں سودی نظام عام ہے، لاکھوں مسلمانوں کا ربا سے خود کو بچا کر رکھنے سے اس سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کی تبدیلی کے لئے کوئی اثر نہیں پڑتا۔
درحقیقت، ان مسلمانوں کا مال لازماً بینکوں میں جائے گا اور بینک اسے اپنی مرضی کے مطابق قانونی طور پر سرمایہ کاری کرتے رہیں گے۔ مسلمانوں کا پیسہ رِبا، شراب کی تجارت، اور بینکوں کی نائٹ کلبوں میں کی جانے والی سرمایہ کاریوں کے ساتھ ملتا رہے گا، چاہے مسلمانوں کو یہ پسند ہو یا نہ ہو۔ مزید برآں، وہ ریاستی قوانین جیسے لازمی انشورنس، ٹیکس، اور دیگر ایسے نظاموں کے تابع ہوں گے جو اسلام میں ممنوع ہیں۔
اس لئے، اصل توجہ تعلقات اور نظاموں پر ہونی چاہیے، نہ کہ صرف افراد کے انفرادی عقائد پر۔
[7] اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے، ﴿وَهُوَ ٱلَّذِي جَعَلَكُمۡ خَلَٰٓئِفَ ٱلۡأَرۡضِ وَرَفَعَ بَعۡضَكُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٖ دَرَجَٰتٖ لِّيَبۡلُوَكُمۡ﴾ ”اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ تمہیں اس کے ذریعے آزما سکے جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔ یقیناً تمہارا رب جلد سزا دینے والا ہے؛ اور بے شک وہ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے“ (الأنعام؛ 6:165)۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا مزید ارشاد ہے، ﴿هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـٰٓئِفَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ﴾ ”وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر جانشین بنایا ہے“ )فاطر؛ 35:39)۔
[8] قانون سازی کا حق صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے، ﴿إِنِ ٱلۡحُكۡمُ إِلَّا لِلَّهِۖ﴾ ’’بے شک حکم صرف اللہ ہی کا ہے“ (الانعام: 57، یوسف: 40، یوسف:67)۔
حوالہ کی تفصیل کے لئے باب: دوسرا حصہ : اللہ القوی العزیز ہی سب سے بڑھ کر عدل کرنے والا ہے: قانون سازی کا حق صرف اور صرف اللہ کے لئے ہے۔
[9] اقتدارِ اعلیٰ (حاکمیت) ربِ کائنات کی ربوبیت کی ایک صفت ہے، جو اللہ کے پاس ہی حقِ قانون سازی کے ذریعے سے ہے، اور شانِ خداوندی، الوہیہ کی ایک صفت ہے، جو عبادت اور تقدیس میں یکتا ہے اور یہ صرف اللہ کے لئے ہے، اور اس میں یہ شامل ہے کہ اللہ نے جو بھی احکام دیئے ہیں، اس پر عمل کیا جائے اور ان لوگوں کو آقا نہ بنایا جائے جو دین کے معاملات میں اللہ کی اجازت کے بغیر قانون سازی کرتے ہیں یا اس کے فیصلوں کو بدلتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے، ﴿إِنِ ٱلۡحُكۡمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعۡبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلۡقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكۡثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعۡلَمُونَ﴾ "حکم تو صرف اللہ کا ہے، اس نے حکم دیا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے، لیکن بیشتر لوگ نہیں جانتے“ (يوسف؛ 12:40)۔ یہ آیت اطاعت کے حق اور عبادت کے حق کو یکجا کرتی ہے۔ بندوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کریں اور صرف اسی کی بندگی کریں۔ ربوبیت بذاتِ خود شرعی حاکمیت کو شامل کرتی ہے۔
جو کوئی بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے سوا کسی دوسرے قانون کے تحت حکمرانی کرتا ہے، وہ ایک طرف تو اللہ کی ربوبیت اور اس کی صفات کو مسترد کرتا ہے، جبکہ دوسری طرف خود کے لئے ربوبیت اور اس کی صفات کا دعویٰ کرتا ہے۔
[10] اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب انسان ایک دوسرے کے لئے قانون سازی کرتے ہیں، تو وہ حقیقت میں ایک دوسرے کو اللہ کے سوا معبود بنا رہے ہوتے ہیں۔
[11] اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ تِبۡيَٰنٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ وَهُدٗى وَرَحۡمَةٗ وَبُشۡرَىٰ لِلۡمُسۡلِمِينَ﴾ ”اور ہم نے آپ پر کتاب (قرآن) نازل کیا، جو ہر شے کا مفصل بیان ہے، اور ہدایت و رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کےلئے“ (النحل؛ 16:89)۔ قرآن میں وہ وضاحت موجود ہے جو اس ہدایت (ذکر) کے ذریعے آئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعے نازل ہوا ہے، اور یہ ہدایت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے اور ان احکامات پر عمل کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ (وضاحت) اس (ہدایت) کا حصہ ہے، کیونکہ یہ وضاحت بھی سنت ہی کے ذریعے سے پہنچی ہے، جس کی بنیاد قرآن میں ہے، ﴿وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ﴾ ’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی تاکہ تم لوگوں کے لئے اس کی وضاحت کر سکو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے، اور تاکہ وہ غور و فکر کریں“ (النحل؛ 16:44)۔
[12] ہم نے اپنی کتاب "واضح دلیل کہ سنتِ مبارکہ وحی ہی ہے، اور یہ محفوظ ہے، مستند ہے، اور دین کا ایک بنیادی ماخذ ہے" میں سنت کی اتھارٹی کے لئے دلائل" کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔
[13] امام النبھانی رحمتہ اللہ علیہ اصول الفقہ کی اپنی تصنیف "الشخصیۃ الاسلامیہ" جلد سوئم میں فرماتے ہیں: "یہ نہیں کہا جا سکتا کہ افعال اور اشیاء کے بارے میں طے شدہ اصول ان کا جائز ہونا ہے، اور یہ اس دلیل کی بنیاد پر کہ یہ فائدے کی چیزیں ہیں جو مالک کے لئے کسی ضرر یا نقصان کی کوئی بات نہیں رکھتیں، لہٰذا یہ جائز ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نوعِ انسان اس سب کی پابند ہیں جو کچھ رسول اللہ ﷺ لے کر آئے ہیں، کیونکہ ان کی نافرمانی پر انہیں سزا ملے گی۔ اس لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی جائے اور ان کے پیغام کے احکام پر عمل کیا جائے، نہ کہ ہر عمل کا جائز ہونا یا فرض سے آزاد ہونا۔
آیات کی عمومیت کے بارے میں دئیے گئے احکام اس بات کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں کہ شریعت کی طرف رجوع کیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مزید فرمایا، ﴿وَمَا ٱخۡتَلَفۡتُمۡ فِيهِ مِن شَيۡءٖ فَحُكۡمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِۚ﴾ "اور جس بات میں بھی تمہارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے" (الشوریٰ؛ 42:10)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ﴿فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ﴾ ’’ اور اگر کسی بات تم میں اختلاف ہو جائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دو“ (النساء؛ 4:59)۔ اور مزید فرمایا، ﴿وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ تِبۡيَٰنٗا لِّكُلِّ شَيۡءٖ﴾ ”اور ہم نے آپ پر کتاب (قرآن) نازل کیا، جو ہر شے کا مفصل بیان ہے“ (النحل؛ 16:89)۔ مزید یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، كل أمرٍ ليس عليه أمرُنا فهو رَدّ ”ہر وہ امر جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہو، پس وہ رَد ہے“۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بنیادی طے شدہ اصول یہ ہے کہ شریعت کی ہی پیروی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔
مزید یہ کہ، شریعت کے وارد ہونے کے ساتھ ہی افعال اور اشیاء کے بارے میں احکام متعین کئے گئے۔ اس لئے، بنیادی اصول یہ ہے کہ شریعت میں تلاش کیا جائے کہ افعال یا اشیاء (مقاصد) پر کوئی حکم ہے یا نہیں، نہ کہ انہیں بنیادی طور پر جائز قرار دیا جائے یا عقل کی بنیاد پر جائز ہونے کا حکم دے دیا جائے جبکہ شریعت موجود ہے۔
اسی طرح یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اعمال کے بارے میں بنیادی اصول انہیں روک دینا یا حکم سے گریز کرنا ہے۔ روک دینے کا مطلب ہے یا تو اس عمل کو روکنا یا شریعت کے احکام کو مؤخر کرنا، جو کہ ناجائز ہے۔ قرآن اور حدیث میں یہ ثابت ہے کہ کسی امر کے بارے میں لاعلمی کے بارے میں، حکم سے بچنے کے بجائے، اس کے بارے میں پوچھنا ضروری ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، ﴿فَسَۡٔلُوٓاْ أَهۡلَ ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ﴾ ”تو تم اہلِ ذکر سے پوچھو، اگر تم نہیں جانتے“(النحل؛ 16:43)۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی کھلے زخم پر تیمم کے بارے میں فرمایا، ألاسألوا إذا لم يعلموا، فإنّما شفاء العيّ السؤال ”اگر انہیں معلوم نہیں تھا تو انہوں نے کیوں نہیں پوچھا؟ بے شک، لاعلمی کا علاج سوال کر لینا ہے“۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی اصول یہ ہے کہ شریعت سے احکام طلب کیے جائیں، نہ کہ حکم دینے یا فیصلہ کرنے سے بچا جائے۔
لہٰذا، رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد سے احکام شریعت سے ہی اخذ کئے جاتے ہیں، اور شریعت کے آنے سے قبل کوئی حکم نہیں ہوتا۔ اس لئے، فیصلہ شریعت کے آنے کے بعد ہی پر منحصر ہے، یعنی ہر معاملے کے لئے مخصوص شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ نتیجتاً، کوئی بھی حکم دلیل کے بغیر نہیں ہوتا، اور کوئی حکم شریعت کے بغیر نہیں ہوتا۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ شریعت میں حکم تلاش کیا جائے، یعنی کسی بھی حکم کے لئے شرعی دلیل کی تلاش بھی خود شریعت سے ہی ہونی چاہئے۔
یہ اصول اعمال کے لئے لاگو ہوتا ہے۔ جہاں تک اشیاء (چیزوں) کی بات ہے، جو کہ افعال کا موضوع ہوتی ہیں، تو ان کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ جائز ہیں، جب تک کہ ان کی ممانعت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔
اشیاء کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ ان کی اجازت دی گئی ہے اور انہیں ممنوع نہیں سمجھا جائے گا، جب تک کہ ان کی ممانعت کے بارے میں کوئی واضح شرعی دلیل موجود نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی نصوص نے تمام اشیاء کو جائز قرار دیا ہے، اور یہ نصوص عمومی ہیں، جس میں ہر شے شامل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے، ﴿أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ﴾ ”کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا؟“ (الحج؛ 22:65)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے زمین کی تمام چیزوں کو انسانیت کے لئے تابع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین کی تمام چیزوں کو انسان کے استعمال کے لئے جائز قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا، ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِي ٱلۡأَرۡضِ حَلَٰلٗا طَيِّبٗا﴾ ”اے لوگو، جو کچھ زمین پر ہے، اس میں سے حلال اور طیب کھاؤ“ (البقرة؛ 2:168)۔ مزید ارشاد ہے کہ، ﴿يَٰبَنِيٓ ءَادَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمۡ عِندَ كُلِّ مَسۡجِدٖ وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُوا﴾ ”اے اولادِ آدم، اپنی زینت ہر نماز کے وقت اختیار کرو اور کھاؤ اور پیو“ (الأعراف؛ 7:31)۔ اور مزید فرمایا، ﴿هُوَ ٱلَّذِي جَعَلَ لَكُمُ ٱلۡأَرۡضَ ذَلُولٗا فَٱمۡشُواْ فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُواْ مِن رِّزۡقِهِۦۖ﴾ ”وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، تاکہ تم اس کے راستوں میں چلو اور اس کے رزق میں سے کھاؤ“ (الملك؛ 67:15)۔ یہ تمام آیات اور دیگر جو اشیاء کو جائز قرار دیتی ہیں، عام ہیں، جو تمام اشیاء کے جائز ہونے کو ظاہر کرتی ہیں۔ لہٰذا، تمام چیزوں کی اجازت کا استنباط شریعت کے عمومی خطاب سے ہوتا ہے۔ اس لئے ان کی اجازت کا ثبوت شرعی نصوص میں سے ہے جو ہر شے کو جائز قرار دیتی ہیں۔
البتہ اگر کسی شے سے منع کیا گیا ہے، تو اس عمومی اجازت کو محدود کرنے والی اور اس مخصوص شے کو عمومی اجازت سے علیحٰدہ کرنے والی کوئی خاص نص موجود ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اشیاء کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ اجازت دی گئی ہیں۔ اور اس کے مطابق، جو اشیاء منع کی گئی ہیں تو شرعی نصوص خاص طور پر ان چیزوں کی ممانعت کی نشاندہی کرتے ہیں جو کہ عمومی نصوص کے علاوہ ہیں۔ مثلاً، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ﴿حُرِّمت عليكم المَيْتَة والدم ولحم الخنزير ”تم پر مردار، خون اور خنزیر کے گوشت کو حرام کیا گیا ہے“(المائدة؛ 5:3)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، « حُرِّمت الخمرة لعينها » ”شراب اپنی اصل کے اعتبار سے حرام ہے“۔ اس طرح، وہ چیزیں جو شریعت میں خاص طور پر حرام قرار دی گئی ہیں وہ عمومی نصوص کے علاوہ ہیں، جو انہیں بنیادی اصول کے برعکس قرار دیتی ہیں۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام اشیاء جائز ہیں۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ شریعت کے آنے سے پہلے کوئی حکم نہیں ہوتا۔ شریعت کے معاملات میں عقل کی بنیاد پر کوئی بھی حکم جس کے لئے کوئی دلیل نہ ہو، وہ مسترد ہے"۔ اختتام اقتباس۔
[14] حوالہ کی تفصیل کے لئے ہماری کتاب "واضح دلیل کہ سنتِ مبارکہ وحی ہی ہے، اور یہ محفوظ ہے، مستند ہے، اور دین کا ایک بنیادی ماخذ ہے" کے باب "ظنی دلائل کی بنیاد پر عمل شرعی احکام کا تعین" سے رجوع کریں۔
[15] ابن حزم الاندلسی کی تصنیف "الاحکام فی اصول الاحکام"، جلد 1، صفحہ 122-123، دار الکتب العلمیہ، بیروت، پہلا ایڈیشن، 1405ھ / 1985 عیسوی
[16] حوالہ کی تفصیل کے لئے ہماری کتاب کے باب "کوئی شرعی خلا نہیں ہے" کو ملاحظہ کریں، جس میں اس آیت مبارکہ کے حوالہ سے بیان ہے، ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ "آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے" (المائدۃ؛ 5:3)۔
[17] حوالہ کی تفصیل کے لئے تقی الدین النبہانی رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف الشخصیۃ الاسلامیہ، حصہ سوئم: (اصول الفقہ)" کو ملاحظہ کریں۔
أ) الام، جلد 7، صفحہ 251
ب) امام الشافعیؒ کی تصنیف جمع العلم، صفحہ نمبر 21-22
ج) ڈاکٹر عبدالغنی عبد الخالق کی تصنیف حجیت السنت ، دار العلمیۃ للکتاب الاسلامی / بین الاقوامی ادارہ برائے اسلامی فکر، 1995 ایڈیشن، صفحہ نمبر 262-263
[19] امام ابن حزمؒ نے تصنیف "الاحکام" جلد 1، صفحہ 97 میں اس آیت میں "رجوع کرنا" کے معنی پر بیان کیا ہے: ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا ٥٩﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی بھی۔ اور اگر کسی بات تم میں اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کر دو، یہ بہتر ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے“ (النساء؛ 4:59)، وہ فرماتے ہیں (والبرهان على أن المراد بهذا الرد: إنما هو إلى القرآن والخبر عن رسول الله صلى الله عليه و سلم، أن الأمة مجمعة على أن هذا الخطاب متوجه إلينا، وإلى كل من يُخلَقُ وتُركَّب روحه في جسده إلى يوم القيامة، من الجنة والناس كتوجهه إلى من كان على عهد رسول الله صلى عليه و سلم، وكل من أتى بعده عليه السلام وقبلنا، ولا فرق) "اور برہان (ثابت شدہ دلیل) یہ ہے کہ اس ’رجوع کرنے‘ کا مطلب بالخصوص قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی طرف ہے، یہ امت کا اجماع ہے کہ یہ خطاب ہم سے متعلق ہے اور قیامت تک کے لئے ہر اُس آنے والی تخلیق کے لئے ہے جو اس دنیا میں آئے گا اور جس کی روح اس کے بدن میں ڈالی جائے گی، جنات اور انسان دونوں سے، بالکل ویسے ہی جیسے کہ یہ خطاب رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں رہنے والوں کے لئے بھی تھا، اور جیسے یہ خطاب ان ک لئے بھی تھا جو آپ ﷺ کے بعد آئے اور ہم سے پہلے آئے۔ اس حکم کے اطلاق میں کوئی فرق نہیں ہے“۔
حوالہ : ڈاکٹر عبدالغنی عبد الخالق کی تصنیف حجیت السنت ، دار العلمیۃ للکتاب الاسلامی / بین الاقوامی ادارہ برائے اسلامی فکر، 1995 ایڈیشن، صفحہ نمبر 263۔
[20] الالوسی، الرازی، ابن عاشور کی تفسیر اور الشعراوی کی رائے سے ڈاکٹر فاضل السامرائی نے کہا، 'یہ صفات یہود کو یاد دہانی اور نصیحت دینے کے لئے ذکر کی گئیں، کیونکہ انہوں نے محمد ﷺ کی نبوت کو مسترد کر دیا اور یہ دعویٰ کیا کہ موسیٰ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انہوں نے محمد ﷺ کے مشن کو ناقابلِ یقین سمجھا اور یقین کیا کہ کوئی نبی موسیٰ کی طرح نہیں ہو سکتا۔ لہذا، اللہ نے انہیں یاد دلایا کہ وہ اکیلا ہی تمام زمین و آسمان کا مالک ہے اور وہی تمام نعمتیں عطا کرنے والا ہے۔ اس لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ وہ (اللہ) ایک پیغمبر بھیجتا ہے اور پھر اس کے بعد دوسرا پیغمبر بھیجتا ہے، کیونکہ بادشاہی تو صرف اسی اللہ کے لئے ہی ہے۔
زندگی اور موت دینے کا ذکر یہود کو یاد دہانی کے طور پر ہے کہ اللہ ایک قانون کو زندہ کرتا ہے اور پھر دوسرے کو۔ لہٰذا، انہیں اس پر حیران نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صفات اس سیاق و سباق میں ذکر کی گئی ہیں، کیونکہ یہ گہری فکر کا معاملہ ہے“۔
Latest from
- ٹرمپ کے طرف سے لگائے گئے ٹیرف...
- بے بس انسان سے بھی کمزور شخص وہ ہے، جو کسی ایسے فرض سے بھاگنے کے لیے بے بسی کا ڈھونگ رچائے جس سے وہ ڈرتا ہو،...
- غزہ کی حمایت میں مسلم افواج کی پیش قدمی کو یقینی بنانے کے لیے آخر ہم رسک کیوں لیں؟
- اداریہ: مصر اور یہودی وجود کے درمیان تعلقات کی حقیقت
- شام میں نئی حکومت کی تشکیل: ...