الإثنين، 02 شوال 1446| 2025/03/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

کولوزیم (رومی اکھاڑے )سے چیمپئنز ٹرافی تک؛ عوام الناس کی اصل افیون

 

 

خبر؛

 

چیمپیئنز ٹرافی میں بھارت کے خلاف پاکستان کی شکست کے بعد شائقین، سابقہ کھلاڑیوں اور کرکٹ کے تجزیہ کاروں کی جانب سے پاکستان بھر میں شدید تنقید کا آغاز ہوگیا۔ (Heralgoa)

 

 

تبصرہ؛

 

آج کے دور میں “کرکٹ” نامی کھیل کسی نہ کسی طرح برصغیر کے عوام کے لیے  طاقت اور عزت کی علامت بن گیا ہے۔ یہی معاملہ ان تمام ممالک کا ہے جن پر براہ راست انگریزوں کی حکومت رہ چکی ہے۔ چنانچہ جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ ہوتا ہے تو جنوبی ایشیا کے لوگوں کا تناؤ اور جوش آسمان کو جا چھوتا ہے۔  دونوں ٹیمیں کھیلتی تو ایک میدان ہی میں ہیں لیکن تصور یہ کیا جاتا ہے کہ وہ جنگی جذبے کے ساتھ میدان میں اتریں گی۔  ساتھ ہی دونوں ملکوں کے تماشائیوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ آگ جسے اس کھیل کے بانی نے 150سےزائد سال پہلے لگایا تھا۔  دراصل، اس کھیل کے ذریعے ہم  سرمایہ دارانہ سیاسی معیشت کی تاریخ، ترقی، ضروریات اور تضادات کوبہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہمیں ایک منفرد زاویہ اورعینک فراہم کرتا ہے۔  بھارت ہمیشہ سے پاکستان کا سب سے بڑا حریف رہا ہے۔ لیکن بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال  کے ساتھ ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی کارکردگی زوال پذیر ہے ؛ جبکہ بھارت نہ صرف کرکٹ کی دنیا میں عروج پر ہے، بلکہ ایک علاقائی اقتصادی طاقت بن کر ابھرا ہے۔  دریں اثناء، افغان کرکٹ ٹیم بھارت کے متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کے استعماری مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے۔

 

بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور غیرحل شدہ تنازعات کے باعث 3 بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں ۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ موجودہ عالمی نظام کے مطابق قوم پرستانہ نظریات کو برقرار رکھنے کے لیے ان تنازعات کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے دونوں ممالک کی ٹیمیں ایک دہائی سے زائدعرصے سے دو طرفہ سیریز کے لیے ایک دوسرے کے ملک کا سفر نہیں کر سکی ہیں۔

 

پاکستانی عوام ہمیشہ اپنی تاریخی اور شاندار فتوحات پر نازاں رہے ہیں ؛ لیکن یہ شان و شوکت اور فتح کا زمانہ جلد ہی اختتام پذیر ہو گیا ۔ اور چونکہ بین الاقوامی منظر نامے میں کھیل و سیاست کا آپس میں گہرا تعلق ہے، لہذٰا اس کے بعد شکست اور ذلت کا دور آیا۔  کرکٹ برطانوی استعماری حکومت کے لیے شرافت و تہذیب کی علامت اور تمدن کی علمبردار تھی۔  برطانیہ نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی اولین شکل متعارف کرائی، جس کی بنیاد حکمرانوں اورعوام کے درمیان کاروباری شراکت داری پر رکھی گئی ۔ اور اس کے لیے اس نے سب سے پہلے قومی ریاستیں تشکیل دیں۔  اس نے وکٹورین معاشرے کے کچھ بنیادی پہلوؤں کو مجسم کیا جیسےخوش دلی سے کھیلنا ( سپورٹس مین شپ)اور خوش مزاجی۔  گویا یہ ایک “ شریف“ آدمی کا کھیل تھا۔ پس کھیل تیار کیا گیا ۔ جس کا مقصد “غیر مہذب” لوگوں کو مہذب اقدار سے روشناس کرانا تھا۔  بالآخر یہ ہندوستان کی اشرافیہ (سپر ایلیٹ کلاس) تھی, جس کے شہزادوں  نے اس کھیل کو طبقاتی خطوط سے آگے بڑھنے میں مدد  فراہم کی۔ اور کیوں نہ کرتے؟ آخر وہ وہی حکمران تھے جو انگریزوں کے عطا کردہ اصولوں کو نافذ کررہے تھے اور انہیں پھیلا رہے تھے۔

 

اسلام اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ افراد صحت مند و توانا ہوں۔ کیونکہ اپنے خالق کی عبادت کمال خوبی سے کرنے کے لیے ایک مسلمان کا تندرست ہونا ضروری ہے۔  ایک صحت مند معاشرے سے لے کر ایک فعال میدان جنگ تک،  ہر چیز عوام کی ذہنی اور جسمانی تندرستی کا تقاضا کرتی ہے۔  اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مثالی کردار بنا کر بھیجا ہے۔ اور آپ ﷺ نے اپنی زندگی ہمارے لیے عملی مثال پیش کرنے اور ہمارا راستہ آسان کرنے کے لیے بسر کی۔ پس، اسلام میں کھیلوں کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کھیل لوگوں کی جسمانی اور ذہنی تندرستی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن جدید سرمایہ دارانہ کھیل، درحقیقت قدیم لامذہبیت اور کافرانہ سرگرمیوں کی طرز پر ترتیب دیئے جاتے ہیں۔  جن کا مقصد لوگوں کو ان معاملات میں مصروف کرنا اورایسا الجھانا تھا کہ ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے۔ توعوام مصروف رہیں گے اور حکمران حکومت کرتے رہیں گے۔  کھیل کو توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کرنے کا یہ رواج 58 عیسوی میں شروع کیا گیا۔  جب رومی شہنشاہ نے سونے سے لدا ایک جہاز مصر بھیجا تاکہ وہ کولوزیم ؛جہاں گلیڈی ایٹر گیمز منعقد ہوتی تھیں؛ اس کو بھرنے کے لیے ریت لائی جا سکے۔

 

ابھی یہ بحری جہاز سمندر میں ہی تھے تو روم میں شدید مظاہرے شروع ہو گئے، کیونکہ روم ایک بڑے قحط کا سامنا کررہا تھا۔  جب بحری جہاز مصر پہنچے تو قافلے کے انچارج چیف آفیسر کو معلوم ہوا کہ کیا ہوا ہے۔  مصر کے رومی حکمران نے اس سے پوچھا کہ اب وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ روم کو بچانے کے لیے پیسے دے کر گندم خریدے گا ؟ یا ریت لے کر واپس چلا جائے گا۔ پھر  گورنر نے اسے ریت کے ساتھ واپس آنے کا مشورہ دیا۔  یہ مشورہ نتیجہ خیز نکلا کیونکہ ایک بار پھر کھیل شروع ہو گئے اور بغاوت ختم ہوگئی۔  گلیڈی ایٹر گیمز کا مقصد لوگوں میں اپنی ریاست کے لیے جوش و جذبہ پیدا کرنا تھا۔  اور ہم دیکھتے ہیں کہ جدید دور میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔  چنانچہ کھیل سے محض ایک تفریحی یا صحت افزا سرگرمی کے طور پر لطف اندوز ہونے کی بجائے معاشرے اس کے نشے کا شکار ہو جاتے ہیں۔  کھیل، تقریبات، جشن اور کھیلوں کی خبریں ایسے آلات ہیں جن کا استعمال کرکے ناظرین کو اپنی طرف کھینچا جاتا ہے۔ اس کے لیے تعلقات اور معاشرتی روابط کی فطری انسانی خواہش پر انحصار کیا جاتا ہے۔ پس، فتح اجتماعی فخر کا مقام بن جاتی ہے اور شکست اجتماعی شرم کا باعث ٹھہرتی ہے۔  اس جذباتی سرمایہ کاری سے سرمایہ دار فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جواباً ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل اور مساجد کے انہدام پر میڈیا مجرمانہ خاموشی اختیار کرتا ہے ۔  ولیم ریک (آسٹرین ڈاکٹر آف میڈیسن اور سائیکو اینالسٹ) کا کہنا ہے کہ ’’اگر فٹ بال کا کھیل یا میوزیکل کامیڈی دیکھنے والے عام لوگوں کی نفسیاتی توانائیوں کا رخ  تحریکِ آزادی کے ہوش مندانہ راستے کی جانب موڑ دیا جائے تو وہ ناقابل تسخیر ہو جائیں گے‘‘۔

 

یہ وہ ہوش مندانہ اور معقول راستہ ہے جس سے روکنے کے لیے سرمایہ دارانہ پروپیگنڈہ لوگوں کو فضول کاموں میں مصروف رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی ریاست کے تحت انسان کو صرف مادی ترقی اور پیداوار کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا ۔ بلکہ ان کا کردار یہ ہے کہ وہ ایک مثالی زندگی گزاریں تاکہ پوری دنیا  اسلام کی طرف راغب ہو۔  ایک مخلص حکمران ، بحیثیت خلیفہ مسلمانوں کو ان گھٹیا اور عارضی لذتوں سے بچانے کا ذمہ دار ہو گا جو پسِ پردہ بہت بڑا نقصان پہنچاتی ہیں۔   نتیجتاً ، مخلص امت کو معلوم ہو جائے گا کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد وقتی طور پر ڈوپامین ( ایک ہارمون) میں اضافہ کرنا نہیں ، جس کی خاطر کسی کھیل میں لاتعداد گھنٹے اور دن ضائع کردئیے جائیں ۔  ریاست خلافت کے تحت کھیلوں کی سرگرمیوں کے مقاصد کو نئے سرے سے متعین کیا جائے گا ۔ اور مسلمانوں کی طاقت و قوت ان شاءاللہ دلوں پر گہرے اثرات مرتب کرےگی۔

 

﴿ لَّـقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَـرَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا

"بلاشبہ تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے"(سورۃ الاحزاب:21)

 

 

تحریر برائے مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر

 

اخلاق جہاں

 

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک