بسم الله الرحمن الرحيم
مسلم ممالک میں اسلام اور سیکولر ازم کے بارے میں سفید جھوٹ
(ترجمہ)
ڈاکٹر یحییٰ حسن – یمن
سیاسی حلقوں اور میڈیا میں سب سے زیادہ پھیلائے جانے والے اور مقبول جھوٹوں میں سے ایک وہ ہے جو اسلامی گروپوں اور دینی شخصیات پر مسلم ممالک میں موجود غربت اور جہالت کا الزام ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جھوٹ بہت سے دانشوروں اور میڈیا کے افراد کی جانب سے پھیلایا جاتا ہے تاکہ اسلام کی تصویر کو مسخ کیا جائے اور اس تاریک حقیقت کو جواز فراہم کیا جائے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ وہ یہ اصرار کرتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل "سیکولر" نظام کو نافذ کرنے میں ہے جو مذہب اور ریاست کو الگ کرتا ہے، اور یہ بیانیہ ان جماعتوں کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے جو موجودہ حالت کو برقرار رکھنے سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
تاہم، وہ سچائی جو سیکولر ازم کے حامی نظر انداز کرتے ہیں، اور حتی کہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ہے کہ عرب دنیا میں پچھلے سو سال سے سیکولر حکومتیں ہی حکمرانی کر رہی ہیں، ترکی اور مصر سے شروع ہو کر شام، لبنان، تیونس، مراکش، سوڈان، یمن، اور خلیج تک۔ ان تمام ممالک نے اپنے داخلی معاملات میں سیکولر آئین اپنائے ، چاہے انہوں نے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں اسلام کا نعرا لگایا ۔ یہ دوہرا معیار ہے جو اس سفید جھوٹ کو تقویت دیتا ہے: عرب ممالک کی حکومتیں اپنے آپ کو اسلامی کہتی ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ عرب حکومتیں مکمل طور پر سیکولر ہیں اور آج بھی امت کی باگ ڈور ان کے اختیار میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عرب یا اسلامی دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جو اپنے نظام میں مکمل طور پر اسلامی شریعت کے قوانین کو نافذ کرتا ہو، چاہے وہ "اسلام حل ہے" کا نعرہ ہی کیوں نا لگاتا ہو۔ یہ ممالک جو مسلسل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلامی آئین اپنایا ہے، حقیقت میں اسلامی شریعت کے قوانین کو مغربی سیکولر نظاموں سے بدل چکے ہیں، جس نے بدعنوانی، غربت اور جہالت میں صرف اضافہ ہی کیا ہے، جبکہ ان کے حکمران قوم کی دولت کا اپنے فائدے کے لیے اور مغرب کے مفاد میں استحصال کرتے ہیں، جو کہ ان کی حکمرانی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
جو لوگ اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اصرار کرتے ہیں کہ سیکولرازم ہی حل ہے، وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ اگر کسی بھی ملک میں اسلام نافذ کیا جائے تو وہ انصاف اور خوشحالی لے کر آئے گا۔ اسلام انفرادی عبادات تک محدود نہیں ہے۔ اسلام ایک مکمل طرز زندگی ہے جس میں سیاست، معیشت اور معاشرت شامل ہے۔ اگر مسلم ممالک میں چھوٹی ریاستوں کے حکمران ناکام ہوئے ہیں تو وہ اسلام کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ ان کی ذاتی بدعنوانی اور نوآبادیاتی نظام کے سامنے جھکنے کی وجہ سے ہے جو ان کی عوام پر ظلم کرتا ہے اور ان کے ممالک کے وسائل کو لوٹتا ہے۔ آج جو حقیقت مسلمانوں کو درپیش ہے، وہ سیکولر نظام کا براہ راست نتیجہ ہے، جس نے امت کو ہر شعبے میں زوال کی طرف دھکیل دیا ہے، بشمول تعلیم، معیشت اور سیاست۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ کوئی اسلامی ریاست ایسی نہیں گزری جس نے اسلامی قانون کو بطور مکمل حکومتی نظام کےنافذ کیا ہو اور اس طرح کے مسائل کا سامنا کیا ہو جن سے ہم آج دوچار ہیں۔ اسلام سچا دین ہے اور یہ انسانی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ جب خلافت نے اسلام کو نافذ کیا تو اس سے حقیقی خوشحالی اور ترقی حاصل ہوئی، اور اس نے امن اور انصاف کو فروغ دیا۔
یہ دعویٰ کہ "اسلام حکمرانی میں ناکام ہو گیا ہے" مکمل طور پر جھوٹا اور ناقابل قبول ہے۔ اگر ہم اس ناکامی کی حقیقت دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان سیکولر حکومتوں کو دیکھنا ہوگا جو اس وقت عرب ممالک میں حکمرانی کر رہی ہیں، جو کہ اکثر لوگوں کی زندگیوں کی بدولت ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنتی ہیں ۔ یہ حکومتیں اسلام کے ذریعہ لائے گئے انصاف کے تصور پر یقین نہیں رکھتیں، نہ ہی وہ عوام کی فلاح کے لیے کام کرتی ہیں یا ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔ اسس کے برعکس، وہ ظلم و فساد کو پسند کرتی ہیں بجائے اس کے کہ وہ اسلامی قانون پر مبنی ایک منصفانہ ریاست قائم کریں۔
آخر میں، ہم ان افراد سے جو اس بیانیے کو فروغ دیتے ہیں یہ کہتے ہیں:
آپ امت کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اسلام ان تمام ناکامیوں سے بری ہے جن کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو کبھی بھی سیکولرازم یا سرمایہ داریت کی ضرورت نہیں رہی۔ بلکہ انہیں اسلامی شریعت کے قانون کو جیسے وہ حقیقتاً ہے ویسا ہی نافذ کرنے کی ضرورت ہے، جو سیاسی سیاسی جوڑ توڑ سے دور ہو اور اس کے ساتھ اسلام کی لائی ہوئی اقدار کو ترک کرنے سے بچا جائے۔ اسلام کو لوگوں پر نافذ کیا جائے، اور جب ہم سچے دل اور عزم کے ساتھ اسلام کی طرف واپس لوٹیں گے تو اسلامی امت ترقی اور خوشحالی کی راہ پر درست طریقے سے گامزن ہوگی۔
جو لوگ یہ جھوٹ پھیلاتے ہیں، ہم ان سے کہتے ہیں:
ہمیں ایسی اسلامی ریاست کی مثال لا کر دو جس نے شریعت کے قانون کو نافذ کیا ہو لیکن انصاف اور خوشحالی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہو، تاکہ یہ ثابت ہوسکے کہ اسلام حکمرانی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہم جواب کا انتظار کریں گے۔ تاہم، سچ یہ ہے کہ اسلام، اگر صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے تو وہ انصاف کو اس کے مستحقین تک پہنچائے گا اور دنیا میں بھلا ئی پھیلائے گا، جب کہ وہ ظلم اور جبر سے بھری ہوئی تھی۔ اسلامی ریاست تیرہ صدیوں تک قائم رہی، اور یہ کوئی راز نہیں ہے۔ یہ جلد واپس آئے گی، ان شاء اللہ، ایک خلافت راشدہ کی صورت میں جو نبی اکرم (صلى الله عليه وسلم) کے طریقہ پر مبنی ہوگی، جیسے کہ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے بشارت دی تھی، اس جابرانہ حکمرانی کے بعد جو ہم پر لوہے کی گرفت سے حکمرانی کر رہی ہے، اور ان سیکولر نظریات کے بعد جو انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔
ہم اللہ (سبحانہ وتعالیٰ) سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں سچائی پر ثابت قدم رکھے اور یہ جلد ہو۔