بسم الله الرحمن الرحيم
الوعی شمارہ 462 - 464: اداریہ: منفرد پیش رفت
(ترجمہ)
اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے چاہا کہ گزشتہ چند مہینے دنیا بھر میں، اور خاص طور پر اُمّت اور عرب خطے میں، غیر معمولی واقعات اور اہم تبدیلیوں سے بھرپور ہوں، جنہوں نے ایک نئی حقیقت کو جنم دیا اور ایسی تبدیلیاں مسلط کر دیں جو بلا شبہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں۔
ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک نیا عالمی نظام مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔ اس مقصد کے تحت اس نے مختلف خطوں میں نئے مسائل کو ہوا دی ہے، کئی دہائیوں پرانے اتحادوں کو توڑا ہے، امریکہ کے اندرونی معاملات میں تبدیلیاں کی ہیں، اپنے براعظمی پڑوسیوں اور یورپ میں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دی ہے۔ وہ روس کے خلاف یوکرین کی جنگ، چین کے بڑھتے ہوئے خطرے، اور اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے متعلق نئی حکمتِ عملی ترتیب دے رہا ہے، جس نے دنیا کو بین الاقوامی تعلقات اور طاقت کے توازن کے ایک نئے دور کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
دوسری جانب، امت مسلمہ ایسے واقعات کی زد میں آئی جنہوں نے اسے اپنے تمام اندازے اور حساب کتاب پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیا، جبکہ اُمّت ایک ہانڈی میں کھولتے پانی کی مانند جوش میں ہے۔ طوفان الاقصیٰ اور غزہ کی جنگ ایسے واقعات تھے جو عبرتوں اور اسباق سے بھرپور تھے، جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے تنازع کو ایک غیر متوقع انداز میں شدت دے دی۔ ان سے جڑے واقعات تیزی سے آگے بڑھے: فلسطین سے، جہاں غزہ کے عوام کے غیر متزلزل صبر اور استقامت نے یہودیوں کی دھاک اور امریکہ کے غرور کو پاش پاش کر دیا؛ لبنان تک، جہاں ایران کے حزب کی عسکری قوت چند دنوں میں مٹی میں مل گئی؛ ایران تک، جو نہایت کم وقت میں مایوسی کی دم گھسیٹتا ہوا پیچھے ہٹ گیا؛ شام تک، جہاں کا پرانا نظامِ حکومت مکمل طور پر ختم ہو گیا؛ اردن تک، جس کا تخت اب دن رات لرز رہا ہے؛ اور مصر تک، جو اپنے نظام کے خلاف پھٹنے کے دہانے پر ہے۔ اسی وقت، اُمّت شام میں ایک ایسی حرکت و بیداری کا مشاہدہ کر رہی ہے جو یہ امید پیدا کرتی ہے کہ یہ تحریک یا تو اسلام کی طرف خطے کی راہنمائی کرے گی یا اُمّت کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی پہلی خوشخبری ثابت ہوگی۔
ان نہایت کٹھن اور اذیت ناک وقت میں، اُمّت اپنے رب سے نصرۃ اور اُس کے وعدے کی تکمیل کی امید رکھتی ہے — اُس وعدے کی جو خلافتِ راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام، اور یہودیوں سے جنگ و قتال سے متعلق ہے۔ منبر گونج اٹھے، اور آوازیں بلند ہوئیں جو اُمّت کی افواج، افسران اور جرنیلوں کو ان کے دین، اُمّت اور مسائل کی نصرت کے لیے پکارتی ہیں۔ اُمّت کی نظریں اپنے علماء اور داعیوں پر جم گئیں، اُن کے کردار اور اُس امانت پر سوال اٹھاتے ہوئے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن کے کندھوں پر رکھی ہے۔ واقعی یہ مہینے بڑی تبدیلیوں سے لبریز تھے۔
اسی لیے ہم نے اس خاص اشاعت کی تیاری میں محنت کی، تاکہ ان اہم خیالات اور موضوعات کو پیش کیا جا سکے جو قارئین کے لیے رہنمائی فراہم کریں، اور ان بہت سے لوگوں کے سوالات کا جواب بنیں جو بدلتے حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور کسی کی طرف سے اپنے خیالات و نظریات کی تصدیق کے منتظر ہیں۔
میگزین کا عمومی حصہ وہ ہے جس میں ہم نے شام (الشام) کے مسئلے اور وہاں جاری تحریک، سیکولر نظریات اور ان کے اسلام سے تصادم، اور مخلص مسلمانوں کی شریعت نافذ کرنے کی صلاحیت جیسے موضوعات پر بات کی۔ ہم نے ایک خصوصی حصہ اسلامی نظامِ حکومت کے لیے مختص کیا، جس میں اس کے احکام، اس کا طریقۂ کار اور اس کے نفاذ کی عملی ممکنات کو بیان کیا گیا۔ ایک اور حصہ فلسطین، غزہ، اور "طوفان الاقصیٰ" کے اثرات اور اس نسل کشی کی جنگ کے پورے امت پر پڑنے والے اثرات پر مرکوز ہے۔ ایک اور اہم حصہ علمائے کرام کی حیثیت اور ان کے مطلوبہ کردار پر روشنی ڈالتا ہے تاکہ انہیں اُمّت اور دین کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کے سامنے لا کھڑا کیا جا سکے۔ ہم نے میڈیا پر بھی ایک خاص حصہ مختص کیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پر مبنی ابھرتے ہوئے میڈیا کو، جس کی اہمیت حالیہ واقعات میں واضح طور پر سامنے آئی ہے، اور ہم نے اُمّت کے منصوبے کی خدمت کے لیے میڈیا کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالی ہے۔ پھر ہم نے اس اشاعت کا اختتام ایک ایسے روشن مستقبل کے بیان پر کیا ہے جو ہمیں بہت قریب دکھائی دے رہا ہے، تاکہ قاری کو اُن علامات اور حقائق کی ایک واضح تصویر دی جا سکے جو اب خود کو منوا رہی ہیں اور وہ تبدیلی لا رہی ہیں جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔
ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ اس خاص اشاعت کی تیاری میں حصہ لینے والے تمام افراد کو بہترین اجر عطا فرمائے، اور اسے امت کی بیداری اور تبدیلی کے عظیم منصوبے میں ایک مؤثر قدم بنائے۔