الجمعة، 16 محرّم 1447| 2025/07/11
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

طالبان تحریک اور خلافت کے قیام کا موقع

 

(ترجمہ)

 

الوعی میگزین –شمارہ نمبر 465

 

انتالیسواں سال، شوال 1446ھ، بمطابق اپریل 2025ء

 

تحریر: یوسف ارسلان – افغانستان

 

دنیاوی زندگی خسارے سے بھرے ہوئے ایک حوض کی مانند ہے، جس سے صرف وہی لوگ نجات پا سکیں گے جو مواقع کو پہچاننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اسی وجہ سے قیامت کے دن کو ”پچھتاوے کا دن“ کہا گیا ہے، کیونکہ بہت سے لوگ دنیاوی نقصان میں ہی غرق ہو کر رہ گئے اور زندگی میں دیے گئے قیمتی مواقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے ان سنہری لمحوں کو ضائع کر دیا جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امت کی نشاۃ ثانیہ اور عظمت کے لئے عطا فرمائے تھے۔ اس کے برعکس، جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے، وہ آخرت میں بلند مقام سے سرفراز ہوں گے، کیونکہ ان کی سب سے نمایاں خوبی یہ تھی کہ وہ بروقت مواقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور انہیں ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔

 

مواقع ایسے گزرتے ہوئے بادلوں کی مانند ہوتے ہیں جو پلک جھپکتے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں، یا جیسے ایک سُبک رفتار ہرن، جسے پکڑنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ مومن کو ایک چوکنا شکاری کی مانند ہونا چاہئے، جو مسلسل مواقع کی تلاش میں رہے اور انہیں بروقت پہچان کر فائدہ اٹھائے۔ اسی لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں وقتاً فوقتاً قیمتی مواقع عطا کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکیں، روحانی درجے بلند کریں، یا اللہ کی نصرۃ اور ہدایت کے مستحق بن جائیں۔ کتنی خوبصورت ہے یہ بات: ”تمہارے رب کی طرف سے تمہاری زندگیوں میں کچھ خاص جھونکے (مواقع) آتے ہیں، پس تم ان کے لئے خود کو پیش کرو۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے ایک جھونکا تم تک پہنچ جائے اور اس کے بعد تم ہمیشہ کے لئے محرومی سے بچ جاؤ“۔

 

ہم ایک ایسی امت ہیں جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانیت کے لئے بہترین امت قرار دیا ہے، تاکہ ہم انسانوں کی رہنمائی اسلام کے احکام کے مطابق کریں اور انہیں حق کی طرف لے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے، بشرطیکہ ہم اس پر عمل پیرا ہوں اور ایک خلیفہ کے ہاتھ پر اپنی بیعت کو پورا کریں، تاکہ اس عالمگیر رسالت کے پیغام کو مکمل طور پر نافذ کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عظیم موقع سے نوازا ہے کہ ہم اس دنیا میں اس امتِ مصطفیٰ ﷺ کا حصہ بنیں، اس عظیم مشن کی ذمہ داری اٹھائیں اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

 

لیکن آج ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جب اسلامی امت ایک خلیفہ کے بغیر ہے، انتشار اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ 1924ء میں خلافتِ عثمانیہ کے انہدام کے بعد سے اب تک امت کو کئی ایسے مواقع میسر آئے کہ وہ خلافت کو دوبارہ قائم کرے۔ گزشتہ سو سالوں میں، کئی سیاسی اور عسکری تحریکیں جو اسلام سے وابستگی کا دعویٰ کرتی تھیں، اقتدار میں آئیں۔ لیکن اقتدار ملتے ہی وہ دوسرے حکمرانوں کی طرح اسلام کے نفاذ سے ہٹ گئے۔ انہوں نے مفاد، مصلحت، حقیقت یا استطاعت جیسے بہانوں کے پیچھے چھپ کر رسالت کےپیغام سے روگردانی کی، اور سیکولر عالمی نظام کے سامنے جھک گئے۔ نتیجتاً، یا تو وہ اقتدار سے محروم ہو گئے، یا ان کے دلوں میں اسلام کی چنگاری بجھ گئی۔

 

یہ جماعتیں جب بھی اقتدار تک پہنچیں، انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قیمتی مواقع کو آسانی سے گنوا دیا۔

 

اس دوران گزشتہ صدی میں افغانوں کے لئے اپنے ایمان کی سربلندی اور خلافت کے قیام کے لئے کام کرنے کے خاص مواقع میسر آئے۔ذیل میں ہم مختصراً افغانستان کی جدید تاریخ کے تین اہم مواقع کا جائزہ پیش کرتے ہیں، جن کے ذریعے افغان قوم کے لئے خلافت کے قیام کی سمت میں عملی اقدام کرنا ممکن تھا، لیکن وہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

 

اگرچہ افغانستان صدیوں تک باضابطہ طور پر خلافتِ اسلامیہ کے زیرِ حکومت نہیں رہا، تاہم اس سرزمین اور خلافت کے درمیان ہمیشہ ایک مثبت تعلق موجود رہا ہے۔ جس دور میں خلافتِ عثمانیہ،  جسے ”یورپ کا مردِ بیمار“ (Sick Man of Europe) کہا جانے لگا تھا، مختلف بحرانوں سے دوچار تھی، اُس وقت افغانستان برطانوی سامراج کے اثر و رسوخ میں تھا۔ اس مشکل وقت میں، سلطان عبد الحمیدؒ ثانی نے بڑی بصیرت اور محنت سے خلافت کو اس نازک صورتحال سے بچانے کی کوشش کی، مگر بالآخر وہ تنہا رہ گئے۔ انہوں نے پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک عام جہاد کی دعوت دی، تاکہ  خلافت کے مرکز کو باقی رکھا جا سکے۔

 

اُس وقت کے حالات میں افغانستان نے سیاسی اور جغرافیائی بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے کوئی عملی اقدام کرنے سے گریز کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کے افغان حکمران بھی وہی پرانے جواز دہرا رہے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ برِصغیر بھی اُس وقت برطانوی تسلط میں تھا اور جغرافیائی طور پر خلافت کی سرزمین سے افغانستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ دور تھا، مگر وہاں کے مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے۔ انہوں نے تحریکِ خلافت کے نام سے ایک عظیم تحریک کا آغاز کیا، اور خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں مالی اور انفرادی طور پر قابلِ ذکر اقدامات کئے۔

 

جب پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی، تو خلافتِ عثمانیہ نے اپنی بقا کے لئےجنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور جرمنی کا ساتھ دیا۔ 1915ء میں خلافتِ عثمانیہ اور جرمنی کا ایک مشترکہ وفد کابل پہنچا تاکہ امیر حبیب اللہ خان کو برطانیہ اور سلطنت ِ روس کے خلاف جہاد کے اعلان پر آمادہ کیا جا سکے۔ تاہم، امیر حبیب اللہ خان نے کسی عملی قدم سے گریز کیا، کیونکہ وہ برطانوی اثر و رسوخ اور دباؤ میں تھا۔ اگرچہ اُس نے بھی آج کے حکمرانوں کی طرح جغرافیائی محلِ وقوع اور جنگ کے قابل نہ ہونے جیسے عذر پیش کیے، لیکن اس کے اس فیصلے کے پیچھے اصل وجہ برطانیہ کی خوشنودی حاصل کرنا تھی۔ درحقیقت، برطانیہ نے اسے غیر جانبدار رہنے کی صورت میں 6 کروڑ روپے مالی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، یہ وعدہ بھی کبھی پورا نہ ہوا۔

 

اُس وقت ہندوستان کے مسلمان افغانوں سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے، چنانچہ ان میں سے کئی گروہ افغانستان ہجرت کر گئے، اس اُمید کے ساتھ کہ افغان ان کی مدد کریں گے اور برطانیہ کے خلاف جہاد کا اعلان کریں گے۔ دوسری طرف، افغان عوام کی ایک بڑی تعداد، امیر حبیب اللہ خان کے سرکاری مؤقف کے برعکس، خلافتِ عثمانیہ اور برصغیر کے مسلمانوں کی حمایت کے حق میں تھی۔ وہ برطانیہ کی پہلی عالمی جنگ میں مداخلت کو ایک سنہری موقع سمجھتے تھے، جس کے ذریعے آزادی کی طرف پیش قدمی کی جا سکتی تھی۔

 

لیکن حبیب اللہ خان نے عوام کے اندر موجود اسلامی جذبات کو دبانے اور کسی بھی ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لئے درباری علماء کا سہارا لیا، تاکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے لوگوں کو پرسکون رکھیں۔ چنانچہ ان علماء نے 'اطاعتِ امیر' کے عنوان سے ایک پیغام تیار کیا، جسے مساجد اور فوجی بیرکوں میں تقسیم کیا گیا، تاکہ لوگوں کو امیر کی پالیسیوں پر عمل کرنے اور اس کی حمایت پر آمادہ کیا جائے۔

 

اسی دوران، برصغیرہند سے عبید اللہ سندھی کی قیادت میں ایک وفد کابل پہنچا، جو وہاں اس امید کے ساتھ مقیم ہوا کہ جہاد اور اسلامی اتحاد کی شمع دوبارہ روشن کی جا سکے۔ جب امان اللہ خان نے اقتدار سنبھالا اور افغانستان کی آزادی کی جنگ کا آغاز کیا، تو ان ہندوستانی مہاجرین نے اس جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا اور آزادی کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔

 

برطانیہ کی شکست اور افغانستان کی آزادی کے بعد، دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک نئی امید جاگ اُٹھی۔ اُس وقت خلافتِ عثمانیہ اور افغانستان کے سوا کوئی اسلامی سرزمین آزاد نہیں بچی تھی۔ چونکہ افغانستان نے اُس برطانیہ کو شکست دی تھی جو بیشتر مسلم ممالک پر قابض تھی اور خلافتِ عثمانیہ کے زوال میں بھی اس کا بڑا ہاتھ تھا، اس لیے مسلمانوں کی نظریں افغانستان پر جم گئیں اور اُن کی اُمیدیں اس ملک سے وابستہ ہونے لگیں کہ یہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ایک اہم نکتہ بن سکتا ہے۔

 

یہ افغانوں کے لئے خلافت قائم کرنے کا پہلا تاریخی موقع تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو امید تھی کہ افغان جہاد جاری رہے گا، اور مسلمان فوج مقبوضہ ہند کی طرف پیش قدمی کرے گی۔ انہوں نے امان اللہ خان سے یہاں تک درخواست کی کہ وہ مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں اور امتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور اس کے اتحاد کی ذمہ داری اٹھائیں۔

 

لیکن ان مسلم مہاجرین کو ایک بار پھر شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ امان اللہ خان نے ”آئینی“ طرزِ تعلیم حاصل کی تھی اور وہ مصطفیٰ کمال کی پالیسیوں کو اپنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس کے باوجود، امان اللہ خان عوامی مطالبات کو مکمل طور پر مسترد کرنے سے ہچکچا رہا تھا، خاص طور پر جب افغانستان کے اندر خلافت کے اعلان کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔

 

1924ء میں باغمان (Baghman) میں منعقدہ لویہ جرگہ کے اجلاس میں خلافت کے خاتمے اور نئے ترکی کے ساتھ افغانستان کے تعلقات کا معاملہ اہم موضوعات میں شامل تھا۔ علماء اور امان اللہ خان نے خلافت کے موضوع پر ایک مکمل دن بحث میں صرف کیا، مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ یہ بحث دوسرے دن بھی جاری رہی۔ ان دو دنوں کے دوران، علماء نے خلافت کے خاتمے کو ایک نہایت دردناک واقعہ قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ خلیفہ کا تقرر شرعی فریضہ ہے۔ بلکہ بعض علماء نے امان اللہ خان سے یہاں تک مطالبہ کیا کہ وہ خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیں۔

 

ملا ترکستانی نے خلافت کی اہمیت پر ایک مفصل بیان میں کہا: ”ہر مکتب اور مرتبے کے اسلامی علماء شاہی خاندان کو خلافت کے لائق اور اس کے مستحق سمجھتے ہیں، اور آپ کو اس بلند منصب کو قبول کرنا چاہیے“۔ تاہم، امان اللہ خان اپنی ذہنیت اور نظریاتی رجحان کے مطابق ایک قوم پرست ریاست قائم کرنا چاہتا تھا، اور وہ برطانیہ سمیت بڑی عالمی طاقتوں، سے تعلقات قائم کرنے کا خواہاں تھا، حالانکہ وہ اسی کے خلاف جنگ لڑ چکا تھا۔

 

امان اللہ خان نے یہ مطالبہ سفارتی انداز میں رد کر دیا، اور اور اس کے لیے غیر حقیقت پسندی، عدمِ استطاعت، اور حتیٰ کہ خلافت کو بے فائدہ قرار دینے جیسے بہانے پیش کیے۔ ملا ترکستانی کے جواب میں امان اللہ خان نے کہا: ”آپ کی اور دوسروں کی باتوں پر غور کرنے کے بعد، میں اس بھاری بوجھ کو اٹھانے سے قاصر ہوں، کیونکہ اس راستے میں مجھے نہ ختم ہونے والی رکاوٹیں نظر آتی ہیں، اور میں عالمِ اسلام کی تقسیم کا ذمہ دار نہیں بننا چاہتا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، ہمیں پہلے خلافت کے وجود یا عدم وجود کے فوائد و نقصانات پر غور کرنا چاہیے؛ اور اس کے بعد، اس کا حتمی فیصلہ صرف علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے“۔

 

اب تک جو بھی اسلام پسند حکمران اقتدار میں آئے ہیں، جو خود کو فکری اور سیاسی طور پر مصطفیٰ کمال، رضا شاہ، امان اللہ خان، شریف حسین اور دیگر سیکولر اور قوم پرست رہنماؤں سے مختلف سمجھتے ہیں، درحقیقت ان سے کوئی خاص فرق ثابت نہیں کر پائے ہیں۔ بلکہ انہوں نے بھی بڑی حد تک اسی طرح کی پالیسیاں اپنائی ہیں۔

 

امان اللہ خان کی سیکولر، قوم پرستانہ، موقع پرستانہ، اور معیشت پر مبنی پالیسیوں نے اُس وقت کے مسلمانوں کو جس طرح مایوس کیا تھا، آج موجودہ ان حکمرانوں کا ویسا ہی طرزِ عمل مسلمانوں کو مایوس کر رہا ہے جو خود کو ”اسلامی“ کہلوانے پر مُصر ہیں۔

 

برصغیر سے افغانستان ہجرت کرنے والے وفد کی امیدیں بتدریج دم توڑنے لگیں، اور بالآخر وہ افغانستان چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ مایوسی خاص طور پر اُس وقت شدید ہو گئی جب امان اللہ خان نے برطانیہ کے ساتھ کابل اور راولپنڈی میں امن معاہدے پر دستخط کر دئیے، جن میں اس نے وعدہ کیا کہ افغانستان، برطانیہ کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے برطانیہ کے ساتھ سیاسی و اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا، جس نے ہندوستان اور دیگر مسلم ممالک کے مسلمانوں کو مزید مایوس کر دیا۔

 

یوں یہ موقع ضائع ہو گیا۔ لیکن جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو افغان عوام نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اور عوام کی قربانیوں سے فتح حاصل ہوئی، اور مجاہدین کو ایک طاقتور ریاست ملی جو جدید عسکری ساز و سامان سے لیس تھی۔ ایک بار پھر، دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظریں اُمید کے ساتھ افغانستان کی جانب اُٹھنے لگیں۔

 

مجاہدین، جو مختلف اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین تھے اور جنہوں نے افغانوں کے شانہ بشانہ جہاد کیا تھا، اس امید میں تھے کہ ایک دن افغانستان سیاسی طاقت اور خلافت کا مرکز بنے گا، تاکہ اسلامی ممالک کو ظالم حکمرانوں کے چنگل سے نجات دلائی جا سکے۔

 

اسلامی جماعتوں کے وفود افغانستان پہنچے تاکہ اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلافت قائم کی جا سکے۔ عرب اور عجم کی جہادی جماعتیں اس امید سے لبریز تھیں، خصوصاً اس لئے کہ افغان مجاہدین میں ایسے افراد موجود تھے جو یہ ایمان رکھتے تھے کہ خلافت ہی واحد اسلامی نظام ہے۔

 

مجاہدین کا ایمان تھا کہ: ”خلافت وہ روشن چراغ ہے جس کے گرد امت پروانوں کی طرح جمع ہوتی ہے“۔

 

لیکن افسوس کہ افغان مجاہدین ایک قومی ریاست کے قیام کی طرف مائل ہو گئے، اور اقتدار کی آزمائش و فتنہ میں مبتلا ہو گئے۔ اندرونی اختلافات اور اقتدار کے لئے باہمی کشمکش نے انہیں اصل راہ سے بھٹکا دیا، اور بالآخر وہ اپنے ہی ہاتھوں تباہ ہو گئے۔

 

نتیجتاً، نہ صرف مہاجر مسلمان اور افغان مجاہدین مایوسی کا شکار ہوئے، بلکہ ان میں سے بہت سے اپنے اپنے وطن واپس لوٹ گئے، جبکہ کچھ دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کر گئے۔

 

یہ دوسرا موقع تھا جب افغانوں نے ایک اور سلطنت کے زوال کے بعد، خلافت کے قیام کے لئے ایک عظیم تاریخی موقع گنوا دیا۔

 

اور اب، یہ تیسری بار ہے کہ ہمیں، یعنی اس نسل کو، ایک نئی امید ملی ہے کہ نیٹو (NATO) کی شکست اور خلافتِ راشدہ ثانیہ کے قیام کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ایک اور موقع ملا ہے، جو افغانستان اور خطے میں اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ اور نیٹو (NATO) کی اس سرزمین پر شکست نے ایک بار پھر مسلمانوں کو نئی امید بخشی ہے کہ شاید اب افغانستان اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھا لے، اور ماضی کی غلطیاں نہ دہرائے۔

 

حیرت انگیز طور پر، قدرت کی طرف سے عطا کردہ یہ موقع ایک غیر معمولی عالمی صورتِ حال میں سامنے آیا ہے کہ ایک طرف نیٹو (NATO) کو افغانستان میں شکست ہوئی، اور دوسری طرف مغرب یوکرین کی جنگ اور چین کو محدود کرنے کی پالیسی میں بُری طرح الجھ چکا ہے۔

 

یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لئے ایک غیرمعمولی موقع ہے، خصوصاً افغانستان کے مسلمانوں کے لئے، کہ وہ موجودہ حالات سے فائدہ اٹھائیں اور خلافتِ راشدہ کے قیام کی طرف ایک تاریخی قدم بڑھائیں، جبکہ ان کے دشمن اپنی باہمی کشمکش میں الجھے ہوئے ہیں۔

 

آج غزہ پر ہونے والے مظالم نے امت مسلمہ کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا ہے، اور مسلم دنیا کے ہر گوشے سے افغان مجاہدین کو آوازیں دی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ ایسے میں ایک فیصلہ کن سوال جنم لیتا ہے کہ ”کیا افغانستان کے موجودہ حکمران اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ یا پھر وہ بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور تاریخ میں حسرت و افسوس کے ساتھ یاد کیے جائیں گے؟“

 

تاریخ اسباق سے بھری ایک کتاب ہے۔ امان اللہ خان، جس نے قدرت کے عطا کردہ اس موقع کو ضائع کیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عہد کو پورا کرنے کے بجائے برطانیہ کے ساتھ اپنے معاہدے کو ترجیح دی، کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ حبیب اللہ کلکانی جیسا ایک گمنام شخص اس کی حکومت کو تہس نہس کر سکتا ہے۔

 

کیا افغان مجاہدین کا انجام ہمارے سامنے واضح نہیں ہے؟ جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا، لیکن پھر قومی ریاست کے دھوکے میں آ کر دنیاوی محبتوں میں غرق ہو کر رہ گئے۔

 

تو اب کیا افغانستان، شام اور دیگر مسلم ممالک میں اسلام کے نام پر برسراقتدار آنے والے حکمران، اپنے پیشروؤں کے انجام کو دیکھتے ہوئے بھی، اسلام دشمنوں جیسی دلیلیں دے کر اپنی غیر اسلامی پالیسیوں کو جواز فراہم کرتے رہیں گے؟

 

اور اب اس تیسرے تاریخی موقع پر حزب التحریر واضح طور پر افغانستان کے حکمرانوں کو دوسری خلافتِ راشدہ قائم کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ تاہم ، دیکھنا یہ ہے کہ اس پر ان کا جواب کیا ہوگا؟

 

کیا ہم ایک بار پھر اللہ کی طرف سے دئیے گئے مواقع سے فرار ہوتا دیکھیں گے؟ یا اس بار تاریخ اور فرض کی پکار کا حقیقی  جواب سامنے آئے گا؟

 

موقع کا دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان، خاص طور پر وہ مجاہد مہاجرین جنہوں نے افغانوں کے شانہ بشانہ جہاد کیا، ہمیشہ اس دن کے منتظر رہے ہیں جب اللہ کے دین کو سربلندی حاصل ہوگی، مظلوموں کو فتح نصیب ہوگی، اور خلافت قائم ہوگی، جو امت کے منقسم کردہ حصوں کو جوڑ کر اس کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گی۔

 

خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ دروازہ ابھی تک کھلا ہے! آج کے مجاہدین کے لئے یہ موقع موجود ہے کہ وہ حزب التحریر کو نصرۃ (مادی مدد) دے کر دورِ حاضر کے انصار بن جائیں۔ لیکن یاد رکھیں! یہ دروازہ ہمیشہ کھلا نہیں رہے گا۔ جس کسی کے لئے بھی خیر کا دروازہ کھولا جائے، اُسے چاہیے کہ فوراً اٹھ کھڑا ہو اور اس موقع سے فائدہ اٹھائے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ کب یہ دَر بند ہو جائے گا۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے، تو وہ قیامت کے دن پچھتانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔

 

اسی لئے ہم اس امت اور اس کے قائدین کو غفلت برتنے اور ان عظیم مواقع کے ضیاع سے خبردار کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

﴿وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾

”اور (اے پیغمبر) آپ انہیں حسرت (و ندامت) کے دن سے ڈرائیے جب (ہر) بات کا فیصلہ کردیا جائے گا، مگر وہ غفلت (کی حالت) میں پڑے ہیں اور ایمان لاتے ہی نہیں“ (سورۃ مریم؛39:19)

 

تو موقع ہمارے سامنے ہے، لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ دروازہ ہمیشہ کے لئے کھلا نہیں رہے گا۔ جو آج کوتاہی کرے گا، وہ کل حسرت سے پچھتائے گا۔

 

Last modified onجمعرات, 10 جولائی 2025 20:18

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک