الخميس، 06 صَفر 1447| 2025/07/31
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

جدید جنگ کا مستقبل اور خلافت کا کھویا ہوا کردار

 

(عربی سے ترجمہ)

 

تحریر: ڈاکٹر عبدالرحمن عرفان – ولایہ افغانستان

 

دنیا کے مختلف خطوں میں جاری جنگیں—خصوصاً روس اور یوکرین کے درمیان جنگ، اور ایران و یہودی وجود کے مابین تنازع—واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیا ایک نئی، منفرد اور مختلف نوعیت کے عسکری اور انٹیلیجنس جنگی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جنگ کے بارے میں وہ روایتی اور پرانا تصور—جو بڑی بڑی پیادہ فوجوں، ٹینکوں اور توپ خانے پر مبنی تھا—تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور منہدم ہو رہا ہے۔

 

آج کی دنیا میں امریکہ، چین اور روس جیسی طاقتیں جدید عسکری صنعتوں پر بھاری بجٹ مختص کر رہی ہیں اور فعال طور پر جنگ کے نئے طریقوں کو ازسرِنو متعین کر رہی ہیں۔ اب جدید محاذوں پر لڑائیاں محض گولیوں اور بندوقوں تک محدود نہیں رہ گئیں؛ بلکہ یہ خالصتاً الگورتھم، مصنوعی ذہانت، ڈرونز، سائبر نیٹ ورکس، اور سیٹلائٹ لہروں کی جنگیں بن چکی ہیں۔

 

تو یوکرین میں، سادہ تجارتی ڈرون طیارے، روسی ٹینکوں اور طیاروں کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔ جبکہ غزہ میں، یہودی وجود نے مصنوعی ذہانت سے لیس ہزاروں ڈرونز کے ذریعے اجتماعی قتل عام کی کارروائیاں انجام دیں۔ جنگ کے پہلے ہی دن اُس نے ایران کے کئی سینئر فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ چین نے اپنے سائبر فوجی دستے کو وسعت دی ہے، جبکہ امریکہ لیزر ہتھیاروں اور الیکٹرانک جنگی نظاموں کی آئندہ نسل میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

 

یہ بڑھتی ہوئی مسابقت، مستقبل کی جنگوں کے بارے میں ایک واضح اور سنجیدہ پیغام دیتی ہے، اور وہ یہ کہ جو ریاستیں عسکری ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعتوں میں سبقت حاصل کریں گی، وہی دنیا کی غالب طاقتیں ہوں گی۔ مستقبل کی جنگیں انسانوں پر کم اور ان مشینوں پر زیادہ انحصار کریں گی جو نہ تھکتی ہیں، نہ ڈرتی ہیں، اور نہ ہی آرام کی محتاج ہوتی ہیں۔

 

 

آنے والے عشرے میں انسان جیسے روبوٹس بتدریج جدید افواج کی جنگی صفوں اور آپریشنز میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ خودکار نظام انسانی پائلٹوں کی جگہ لے لیں گے، ڈرون طیارے جاسوسی اور حملوں کے فرائض انجام دیں گے، اور فیصلہ سازی کی طاقت پیچیدہ خوارزمیات (algorithms) کو منتقل ہو جائے گی۔ ان مستقبل کی جنگوں میں برتری کا تعیّن جسمانی شجاعت سے نہیں، بلکہ ذہانت، ٹیکنالوجی، اور جدید طریقوں و آلات کے مؤثر استعمال کی صلاحیت سے کیا جائے گا۔

 

اصل اور بنیادی سوال یہ ہے: ہم مسلمان اس ساری مساوات میں کہاں کھڑے ہیں؟ تلخ حقیقت یہ ہے کہ خلافت—جو ایک زمانے میں عسکری طاقت اور میدانِ جنگ میں جدّت اور نئی ایجادات کے اعتبار سے صفِ اول میں تھی—آج دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہیں ہے۔ ہم اُس ریاست سے محروم ہیں جو صرف اُمّت کا دفاع ہی نہیں کرتی تھی، بلکہ اس کے پاس دوسروں کو خوفزدہ کرنے کی طاقت اور خود پیش قدمی کی جرات بھی ہوا کرتی تھی۔

 

ہماری تاریخ عسکری برتری کی درخشاں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ خلافت کے دور میں، مسلمان بہت سے معرکوں میں فیصلہ کن فتوحات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جیسے کہ غزوہ خندق، جنگ مؤتہ، یرموک، نہاوند، فتحِ شام، اور فتحِ قسطنطنیہ—حالانکہ ان کا سامنا عددی و عسکری لحاظ سے کہیں زیادہ طاقتور دشمنوں سے تھا۔ یہ کامیابیاں ایک دقیق حکمتِ عملی، جدّت سے بھرپور جنگی روح، اور غیرمتزلزل ایمان کی بدولت حاصل ہوئیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج، خلافت کے نہ ہونے کے باعث، وہی اُمت اپنے ہی خطوں میں بم دھماکوں اور پراکسی جنگوں کا شکار بنی ہوئی ہے۔

 

اگر آج خلافت قائم نہیں ہے، تو کیا ہمیں بحیثیت اُمّت محض تماشائی بنے رہنا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنی تمام تر قوتوں اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ یہ جدوجہد صرف ایک دینی فریضہ ہی نہیں، بلکہ ایک فوری اور ناگزیر ضرورت بھی ہے—تاکہ ہم اُن فکری، سیاسی اور عسکری پسماندگیوں کا ازالہ کر سکیں جن کا شکار اُمت آج ہو چکی ہے۔

 

اسلامی نقطۂ نظر سے، قرآن کریم میں جس "تیاری" کا تصور دیا گیا ہے:

 

﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِن قُوَّةٍ﴾

"اور ان کے مقابلے میں جو کچھ تم طاقت رکھتے ہو تیار کرو" (سورة الانفال: آیت 60)

 

وہ کوئی محض تکنیکی مرحلہ نہیں ہے جو خلافت کے قیام کے بعد شروع ہوتا ہو؛ بلکہ یہ ایک تاریخی اور مسلسل ذمہ داری ہے جو پوری اُمّت پر ہر وقت عائد ہوتی ہے۔ تمام سطحوں پر تیاری—چاہے وہ فرد کی ہو یا جماعت کی—ایک دینی فریضہ ہے، اور اس سے غفلت برتنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی شمار ہوتی ہے۔

 

یہ درست ہے کہ اس تیاری کو مکمل اور منظم صورت میں خلافت ہی کی قیادت کے تحت عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خلافت کے قیام سے قبل اُمّت کسی بھی قسم کی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی ہے۔

 

یہ نہایت ضروری ہے کہ سیاسی اور عسکری شعور کو فروغ دے کر، علمی نیٹ ورکس قائم کر کے، اور ایسی تحقیقی ٹیمیں تشکیل دے کر جو عسکری صنعتوں پر مرتکز ہوں، مسلمان ابھی سے عسکری قوت کی بنیاد رکھنے کا عمل شروع کریں۔ ہم یہ انتظار نہیں کر سکتے کہ جب ریاست قائم ہو جائے گی تب تیاری شروع کریں گے۔ بلکہ اس کے برعکس، جب خلافت قائم ہو، تو ضروری ہے کہ پہلے سے ایسی تکنیکی، انجینئرنگ، عسکری اور قیادت سنبھالنے والی ٹیمیں موجود ہوں جو تربیت یافتہ ہوں اور ساز و سامان سے لیس ہوں، تاکہ خلافت ایک نوپید ریاست سے فوراً عالمی عسکری طاقت میں تبدیل ہو سکے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس پر دنیا کی بڑی طاقتیں عمل پیرا ہوئیں، اور اسلامی اُمّت کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس قافلے سے پیچھے رہ جائے۔

 

یہ بالکل واضح حقیقت ہے کہ ایک غیر تیار شدہ اُمّت اپنی ریاست کے لیے رکاوٹ بنے گی، جبکہ ایک تیار اور باصلاحیت اُمّت اپنی ریاست کو عظمت و مجد کی بلندیوں تک پہنچائے گی۔ ہم بحیثیت اُمّت اس بات کے مکلف ہیں کہ اسلام کا عَلَم اٹھائیں اور انسانیت کی رہنمائی کریں—اور یہ قیادت صرف اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارے پاس، خاص طور پر عسکری، تکنیکی اور صنعتی میدانوں میں، ایک مضبوط اور مکمل طور پر تیار ریاست موجود ہو۔

 

نبی کریم ﷺ کی اُمّت محض دوسروں کی قوت کے مظاہروں کی تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی؛ بلکہ اُسے خود اس صدی کی عظیم ترین عسکری اور تکنیکی تبدیلیوں کی خالق بننا چاہیے۔ اور یہ راستہ نبوت کے نقشِ قدم پر دوسری خلافتِ راشدہ کو قائم کرنے کے لیے فکری اور سیاسی جہدوجہد کے ذریعے آج ہی سے شروع کرنا ہو گا۔

 

Last modified onبدھ, 30 جولائی 2025 21:18

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک