السبت، 12 ربيع الثاني 1447| 2025/10/04
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے لئے درکار مطلوبہ شرائط (حصہ-4)

 

اقوام کی تاریخ، ان کی صفات، باہمی اتحاد، اور تنازعات

 

(ترجمہ)

 

تحریر : لقمان حرز  اللہ – فلسطین

 

جب تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو لازم ہے کہ مطالعہ کرنے والا اس میں سے فائدہ مند چیزوں کو چھانٹے اور غیر مفید چیزوں کو چھوڑ دے۔ اور اس چھانٹنے کا معیار وہ مقصد ہوتا ہے کہ جس کے لئے وہ تاریخ کا مطالعہ کر رہا ہو، اسی مقصد کے ساتھ اس کا تعلق ہو؛ پس اگر وہ ادب اور بلاغت چاہتا ہو تو اپنی قوم کے ادیبوں کی تاریخ میں غوطہ لگاتا ہے، اور اگر اس کی نیت محض تفریح ہو تو وہ اقوام کی دیومالائی کہانیوں کی طرف جا نکلتا ہے، اور اگر محض تجسس اس کا مقصد ہو تو وہ تاریخ میں ان چیزوں کی کھوج میں لگ جاتا ہے جن کا کوئی جواب نہیں مل پاتا۔ لیکن ایک سیاست دان ایسی راہوں پر نہیں چلتا، بلکہ وہ ایسی راہ اختیار کرتا ہے جو اسے اس کے مقصد کی طرف لے جائے؛ اور وہ مقصد ہے: سیاست یعنی زمانۂ ماضی میں امور کی دیکھ بھال کا مطالعہ۔

 

تاریخ:

 

اقوام، ریاستوں اور قائدین کی تاریخ دراصل ان حالات و واقعات کی خبریں ہوتی ہیں جو امور کی نگرانی اور حالات کی تبدیلی سے متعلق وقوع پذیر ہوئی تھیں۔ جو کہ اس دَور کے سیاسی واقعات ہوا کرتے تھے، اور جو آج تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اقوام، ریاستوں اور قائدین کی تاریخ کا مطالعہ کرنا مختلف پہلوؤں سے خاصا فائدہ مند ہوتا ہے۔ قائدین کی تاریخ اُس سیاست دان کی بصیرت کو روشن کرتی ہے جو عملاً سیاست میں سرگرم ہو، کیونکہ جب وہ سیاستدان ان قائدین کے اقدامات کا مطالعہ کرتا ہے جنہوں نے واقعات کے دھارے کو موڑ دیا، اپنی قوم کو بحرانوں سے باہر نکالا، یا اپنی اقوام کو مصیبتوں سے بچایا، یا اپنی قوموں کا مقام بلند کر کے انہیں عالمی طاقتوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ یہ مطالعہ اس سیاست دان کے لئے اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے کہ سیاست میں ممکن وہی ہوتا ہے جو کہ حقیقت میں واقع ہو چکا ہوتا ہے، اور وہ بھی ممکن ہے جو ابھی واقع تو نہیں ہوا، مگر سیاست دان کی کوشش سے وہ وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔

 

ریاستوں کی تاریخ کا مطالعہ سیاست دان کے لئے یوں فائدہ مند ہوتا ہے کہ اسے عالمی توازن کے ارتقاء، عالمی رواج و قوانین کے وجود میں آنے، اور ان مؤثر ذرائع کے بارے میں عملی تجربہ فراہم کرتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی رجحانات کو نافذ کرنے اور طے شدہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے استعمال کیے گئے تھے۔

 

اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کسی سیاست دان کو اقوام اور عوام، ان کی صفات، اور ان خصوصیات کے ساتھ جڑے واقعات کا ادراک کرنے کی بصیرت انگیز نگاہ عطا کرتا ہے، اور یہ کہ کیسے اقوام کی وہ خصوصیات ان سے متعلقہ تاریخی واقعات میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔

 

دنیا کے موجودہ رہنما اکثر اپنی قوم کے تاریخی رہنماؤں سے ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کے رہنماؤں نے اپنی ترغیب رسول اللہ ﷺ سے، آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ اور علیؓ سے اور پھر ان خلفاء سے حاصل کی جو امت اور ریاست کی دیکھ بھال میں مہارت رکھتے تھے، جیسے کہ ہارون الرشیدؒ اور سلیمان القانونی رحمہ اللہ۔

 

اسی طرح امریکہ میں، اس کے قائدین اپنا عزم اور مقصد، جارج واشنگٹن اور ابراہم لنکن جیسے بانیوں سے حاصل کرتے ہیں جنہوں نے امریکہ کی بنیاد رکھی، اس کو متحد رکھا، اور اسے دنیا کی صف اول کی ریاست بننے کے قابل بنایا۔

 

اسی طرح روس میں، اس کے قائدین اپنی شجاعت و فخر اور یہاں تک کہ اپنے سیاسی رجحانات کو پیٹر دی گریٹ اور کیتھرین دی گریٹ جیسی اپنی تاریخی شخصیات سے حاصل کرتے ہیں۔

 

لہٰذا تاریخ کا مطالعہ نوجوان رہنماؤں کے لئے رول ماڈل تشکیل دینے اور انہیں قابلیت اور صلاحیت میں اپنے پیشروؤں کی تقلید کرنے کی ترغیب دینے کے لئے نہایت ضروری ہے۔

 

یہاں ہماری بحث میں جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی فہم اور پالیسی سازی کے حوالے سے تاریخ سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی امت کی تاریخ اور دنیا کی سرکردہ اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ اس مطالعے میں اقوام کی تاریخ کے اہم نکات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ان اقوام کی پوری تفصیلی تاریخ پر۔ اور اس سے اس طرح سے رجوع کیا جانا چاہئے:

 

اول: کسی بھی قوم کی تاریخ کا آغاز سے لے کر اب تک کا ایک عمومی مطالعہ، جس سے ان خصوصیات کی واضح تصویر سامنے آتی ہے جو اس قوم کے آغاز سے لے کر اب تک موجود ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو اس قوم کے عروج اور زوال دونوں ادوار کے بارے میں ہمارے نکتۂ نظر کو متاثر کرتی ہے۔ اگر کوئی قوم قیادت، تحمل، اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل اور دوسروں کے لئے ذمہ داری اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ قوم تباہ نہیں ہوگی۔ اور اگر وہ قوم ٹھوکر کھا بھی جائے، تب بھی وہ تیزی سے سنبھل جائے گی، اپنی طاقت کو مجتمع کرے گی، اور ایک بار پھر دنیا کو اپنے طریقے سے ڈھال دے گی۔

 

تاہم اگر کوئی قوم، چالبازی، شاطر پن، دوسروں کے ساتھ گٹھ جوڑ اور سازباز، دوستوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور دشمنوں کو بے اثر کرنے کی خصوصیات رکھتی ہے تو ایسی قوم دنیا کے لئے وبال بن جاتی ہے اور اپنے مفادات کے حصول کی خاطر مصیبت اور جنگ کے سوا کچھ نہیں لاتی۔ اگر کوئی قوم دھوکہ دہی کو بزدلی اور سازشوں کے ساتھ جوڑ دے تو وہ لوگ کسی بھی ایسی ریاست کے لئے بدامنی کا باعث بن جاتے ہیں جس پر ان کا کنٹرول ہو، اور انہیں کسی بھی ملک میں قیادت کا عہدہ سنبھالنے سے روکا جانا چاہیے کہ جس پر وہ حکمرانی کر سکیں، یا کوئی بھی اختیار رکھ سکتے ہوں، وغیرہ۔

 

دوم: اقوام کی تاریخ کے ان اہم واقعات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے جو ان کی روش میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بنے اور ساتھ ہی تاریخ کے ان مواقع پر دنیا کی صورتحال کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے، جب تبدیلی کسی قوم کے حق میں یا اس کے خلاف واقع ہوئی ہو۔ یوں اس طرح سے ایک سیاست دان عالمی منظر نامے کے عروج و زوال کو سمجھ سکتا ہے اور ایک قوم کے عروج اور دوسری قوم کے زوال کا ادراک کر سکتا ہے۔

 

مثال کے طور پر حدیبیہ کا معاہدہ امت مسلمہ کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا جس کے بعد دنیا کے بادشاہوں اور شہنشاہوں کو خطوط بھیجے گئے تھے۔ اسی طرح عالمی سطح پر ریاست کے ابھرنے میں قدسیہ اور یرموک کی جنگیں بھی خاصی اہمیت کی حامل تھیں اور قسطنطنیہ کی فتح بھی ایک اہم ترین موڑ تھا۔ اس کے برعکس، بحیرہ ازوف کے علاقے میں عثمانی خلافت کے خلاف پیٹرِ اعظم کی جنگ، جب اس نے کریمین تاتاریوں تک سمندری رسد کو روکنے کے لئے وہاں ایک بندرگاہ قائم کی تھی، شہنشائے روس کی تاریخ کی فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک تھی۔ اسی طرح امریکی انقلاب، جس کی وجہ سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ وجود میں آیا، اور دو عالمی جنگیں بھی ایسے ہی اہم موڑ تھے۔

 

تاریخ کے یہ موڑ عالمی منظر نامے، اس کی تبدیلیوں، اس کی تبدیلیوں کی وجوہات، چند ریاستوں کے کمزور ہونے اور دوسروں کے مضبوط ہونے کی وجوہات، اور کچھ ممالک کی طرف سے دوسروں کے خلاف بنائی جانے والی سیاسی سازشوں اور چالبازیوں کی ایک تصویر پیش کرتے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اگرچہ ہر بار ایک مختلف انداز میں ہی کیوں نہ ہو۔

 

سوم : اقوام کو گھیرے میں لئے ہوئے خطرات، ان کے خلاف لڑی جانے والی بڑی جنگوں، ان کے تاریخی مخالفین کو پہچاننا اور ان کمزوریوں کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے جن کے ذریعے جنگوں میں ان کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

 

روس یورپ کو ایک دشمن کے طور پر دیکھتا ہے، اور یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے: یورپ نے روس پر تین بار بڑے  حملے کیے ہیں، سلطنت سویڈن کی قیادت میں عظیم شمالی جنگ، نپولین کی سربراہی میں بوروڈینو کی جنگ، اور جب ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران روس پر حملہ کر دیا تھا۔ اس سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ روس پر تینوں بار اس کے مغربی جانب سے حملہ کیا گیا تھا، جس نے روس کی مغربی سرحد کی حفاظت کرنے کو اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا تھا۔ اسی وجہ سے جب یوکرین نے امریکہ کے ایماء پر نیٹو کی رکنیت کی درخواست کی تو روس نے انتہائی سخت موقف اختیار کیا، جبکہ یہ کشیدگی حقیقتاً 2022ء میں پھوٹ پڑی تھی۔

 

چہارم : چوتھی بات یہ ہے کہ موجودہ مسائل سے ربط ہونے کے باعث حالیہ تاریخ کا مطالعہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاستوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے سیاسی منصوبوں کا جائزہ لیا جائے اور یہ کہ کیا وہ اب بھی ان پر عمل پیرا ہیں یا ناکامی یا کامیابی کی وجہ سے انہیں ترک کر چکے ہیں۔

 

اگر کسی ایسے مسئلے کی تاریخ معلوم نہ ہو، جس کے گرد موجودہ واقعات رونما ہو رہے ہوں، تو اس کی تاریخ کو دیکھے بغیر موجودہ حالات کا کوئی بھی تجزیہ نامکمل ہے۔ اس کے ماضی کو سمجھے بغیر مسئلے کی مختلف جہتوں کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر فلسطین کے مسئلے کا جائزہ لیتے وقت اس کی تاریخ کا جاننا نہایت ضروری ہے کہ جب اسے انگریزوں نے نشانہ بنایا تھا، فلسطین کے قبضے سے لے کر اسے یہودیوں کے حوالے کرنے تک، اور فلسطین کے کچھ حصوں پر اردن اور مصر کو اختیار دینے تک۔ اس کے بعد ایک ریاست یا دو ریاستی حل کے متعلقہ منصوبے کی بات آتی ہے، اور پھر یہودیوں اور اردن کے درمیان تعلقات، مسئلہ فلسطین کی تمام تر تاریخ میں اردن کے بارے میں یہودی نکتۂ نظر، اور دو ریاستی حل تک پہنچنے کے لئے امریکیوں کی طرف سے تیار کردہ منصوبے، جس کا آغاز 1950ء میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی ترغیب دینے اور پھر 1959ء میں دو ریاستی منصوبے کو اپنانے سے ہوتا ہے۔  اس کے بعد 1994ء کے اوسلو معاہدے کو اپنے فائدے کے لئے آگے بڑھانا، جس کے نتیجے میں 2020ء میں "صدی کی سب سے بڑی ڈیل" کا معاہدہ طے پایا۔ اس میں عرب کے اقدامِ امن  سے نارملائزیشن تک اور پھر "امن" کی طرف منتقلی، اردن اور سعودی عرب کے درمیان یہودی رجحانات میں تبدیلی، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان یہودی وفاداریوں میں تبدیلی، اور اس تمام منظر نامہ پر امریکہ کا حتمی کنٹرول ہونا، اور دونوں امریکی جماعتوں کے اندر تقسیم بھی شامل ہے، جس میں سے ہر ایک جماعت یہودیوں کے مختلف دھڑوں کی حمایت کرتی ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی نیا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کا سیاق و سباق قابل فہم ہو جاتا ہے۔

 

ایک بہت اہم معاملے کا مشاہدہ کرنا بھی ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ : تاریخ واقعات اور حقائق کا مرکب ہوتی ہے۔ کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو کسی قوم یا ریاست کے ساتھ مخصوص حالات سے جڑے ہوتے ہیں، اور کچھ واقعات حالات سے آزاد، تاریخی حقائق ہوتے ہیں۔ کسی شخص کو حقائق کو لینا چاہئے اور ان واقعات کو ایک طرف رکھنا چاہئے جو عارضی حالات سے منسلک ہوں۔ مثال کے طور پر امت مسلمہ خون کی پیاسی قوم نہیں ہے، چاہے اس کی تاریخ میں داخلی تنازعات کے باعث خون بہایا گیا تھا۔ ان تنازعات کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان کی جڑیں ان حالات میں پائی جاتی ہیں جو اس وقت پیدا ہوئے تھے یا پھر ان واقعات کے تانے بانے ان بیرونی گروہوں سے جا ملتے ہیں جنہوں نے امت کو اس وقت الجھن میں ڈال دیا تھا جبکہ وہ محافظ کے بغیر تھی۔ اس کی ایک مثال خوارج کے پیش آنے والے واقعات، فاطمی ریاست کا قیام اور مسجد الحرام پر قرامطیوں کا کنٹرول ہونا ہے۔ تاہم یہ واقعات امت کی تاریخ کو اس کے حقیقی مقصد سے باہر نہیں لے گئے تھے، یعنی اپنے نظریے کو دنیا تک پھیلانے کی ذمہ داری اٹھانا۔ امت اپنے اس راستے پر اس وقت تک قائم رہی تھی جب تک کہ اس کی ریاست کا خاتمہ نہیں ہو گیا اور اب یہ امت ایک بار پھر اپنی ریاست کے احیاء کی جدوجہد میں مصروف ہو گئی ہے۔

 

لہٰذا اگرچہ امت کے ان تنازعات میں صورتحال سے جڑے ہوے واقعہ میں خونریزی تھی مگر اسے اس معاملے کے اصل کے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین کو پھیلائے اور اسی نظریہ کو لے کر چلنا ضروری ہے۔

 

لہٰذا ایک سیاستدان کے لئے ضروری ہے کہ وہ فعال اقوام کی اور ایسی اقوام کی جو فعال ہوسکتی ہیں ان کی ایک تاریخی عکاسی کر سکے۔ چاہے وہ سیاسی افہام و تفہیم میں شامل ہونا چاہتا ہو یا پالیسیوں کی تشکیل میں مصروف ہونا چاہتا ہو۔

 

لوگوں کے اوصاف

 

سیاسی تجزیہ کے لئے لوگوں کے اوصاف اور عادات کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مطالعہ ان لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے جو عوام یا قوم سے متعلق پالیسیاں تشکیل دیتے ہوں۔

 

کسی بھی ملک میں سیاسی رہنماؤں کی طرف سے طے کردہ پالیسیاں اس ملک میں رہنے والے لوگوں  کی خصوصیات سے الگ نہیں ہوتی ہیں، اور یہ خصوصیات ان لوگوں کی فطرت سے پیدا ہوتی ہیں جن کے درمیان سے وہ پروان چڑھتے ہیں۔ مقاصد کا انتخاب اور لوگوں کی عادات و خصوصیات لازم و ملزوم ہوتی ہیں: دوسروں پر غالب رہنے کی خواہش رکھنے والے لوگ مختلف مقصد کا انتخاب کریں گے، بجائے اس کے کہ وہ لوگ جنہیں صرف خود سے غرض ہو، جبکہ وہ لوگ جو دوسروں کے لئے ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، اُن کے سیاسی مقاصد ان لوگوں سے بالکل برعکس ہوں گے جن کی فطرت میں خود غرضی ہوتی ہے۔

 

لوگوں کے اوصاف و عادات کسی مقصد تک پہنچنے کے لئے استعمال ہونے والے منصوبوں اور طریقوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ناانصافی سے نفرت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کی طرح کا رویہ اختیار نہیں کریں گے جو ناانصافی کے عادی ہوتے ہیں، بھلے ہی دونوں قسم کے لوگ ایک ہی مقصد کی پیروی کر رہے ہوں۔

 

دنیا کی صف اول کی ریاست کی جانب سے لوگوں اور اقوام کے بارے میں جو پالیسی بنائی جائے اس میں ان اقوام کے لوگوں کی خصوصیات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر شام اور افریقہ میں اسلامی ریاست کی توسیع میں فوجی نوعیت کی شکل شامل تھی، جبکہ اسلام انڈونیشیا تک پہنچا اور بغیر کسی جنگ کے مسلم تاجروں کے ذریعے وہاں وسیع پیمانے پر پھیل گیا۔ لہٰذا، اگر کوئی ریاست مختلف لوگوں کی فطرت پر غور کیے بغیر ان کے بارے میں ایک ہی نکتۂ نظر اختیار کرتی ہے، تو وہ دونوں اقوام سے یکساں نتائج حاصل نہیں کر سکے گی، اور یہاں تک کہ ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

 

اسی طرح جرمن عوام اور افغان عوام میں بھی فرق ہے: امریکہ نے کئی سالوں تک جرمنی پر قبضہ کئے رکھا، پھر بھی جرمنوں نے ان پر کبھی کوئی ایک پتھر بھی نہیں پھینکا۔ تاہم جب امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اسے اس وقت تک کوئی سکھ کا سانس نہ مل سکا جب تک کہ وہ بیس سال بعد ذلت آمیز انداز میں انخلاء پر مجبور نہ ہو گیا۔ لہٰذا، ایک پالیسی ساز کو ان اقوام کے بارے میں پالیسیاں تیار کرتے وقت لوگوں کی خصوصیات کو لازمی مدنظر رکھنا چاہئے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ جب قریش نے حدیبیہ میں آپ ﷺ کے پاس مذاکرات کار بھیجے تو آپ ﷺ نے ہر ایک کے لئے ایک مختلف نکتۂ نظر اپنایا۔ جب قریش نے أحابیش کو بھیجا، جس کی قیادت حلیس بن علقمہ الکنانی کر رہا تھا جو أحابیش کا سردار تھا اور وہ قریش کے حلیف تھے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا، »إن هذا من قومٍ يتألّهون، فابعثوا الهدي في وجهه حتى يراه « ”یہ شخص ایک ایسی قوم میں سے ہے جو اپنے معبودوں کا احترام کرتی ہے‘‘۔ قربانی کے جانوروں کو اس کے سامنے سے گزرنے کے لئے کھلا چھوڑ دو تاکہ وہ انہیں دیکھ سکے۔ جب حلیس نے دیکھا کہ قربانی کے جانور اپنی مالاؤں کے ساتھ اس کے سامنے سے گزر رہے ہیں، اور یہ جانور اپنی قربانی کی جگہ سے دور ہیں، تو وہ بہت متاثر ہوا اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کئے بغیر ہی قریش کی طرف لوٹ گیا۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ انہیں بتایا لیکن قریش نے اس سے کہا، ”بیٹھ جاؤ، تم صرف ایک بدو ہو اور تمہیں کوئی علم نہیں ہے‘‘۔ اس پر حلیس کو غصہ آیا اور کہنے لگا: ”اے قریش کی قوم، اللہ کی قسم، یہ وہ معاملہ نہیں ہے جس کا ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا اور نہ ہی ہم نے تم سے اتفاق کیا تھا۔ کیا جو شخص بیت اللہ کی عزت کے لئے آئے اسے اس سے دور کر دیا جائے گا؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں حلیس کی جان ہے، تم یا تو محمد ﷺکو اس کی اجازت دو گے جس کے لئے وہ آئے تھے، یا میں پورے أحابیش کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف جنگ کروں گا‘‘۔ (السیرۃ النبویہ، ابن ہشام)

 

لوگوں کے اوصاف کا اندازہ ان کی تاریخ کا کھوج لگا کر لگایا جا سکتا ہے۔ اس سے مراد ان کی تاریخ کا تفصیلی مطالعہ کرنا نہیں ہے، بلکہ ان کے اہم واقعات کو دیکھنا ہے، اور یہی کافی ہے۔

 

اس قوم کے عروج کی تاریخ، ان کے زوال کی تاریخ، دشمنوں کے ساتھ ان کے معاملات اور ان پر آنے والے بحرانوں پر اس قوم کے ردعمل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان مراحل کا مطالعہ کرنے سے، اس قوم کے لوگوں کے عمومی اوصاف کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

 

لوگوں کی خصوصیات کو ان کے علاقوں کی نوعیت سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ جو لوگ سمندروں، تجارتی راستوں، نقل و حمل اور ماہی گیری کے لئے کھلے علاقوں میں رہتے ہیں، ان میں ایسی عادات و خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو ان کے علاقے کی نوعیت اور ان کے مشترکہ پیشے کے مطابق ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے، انگریز دوسروں کے ساتھ معاملات اور ان کے ساتھ بات چیت کرنے میں بہت زیادہ قابل تھے، اور سب سے زیادہ مکار اور دھوکے باز لوگوں میں سے تھے۔

 

اس کے برعکس عرب کے لوگ صحراؤں اور اونچے پہاڑوں کے درمیان دشوار گزار علاقوں کے رہنے والے تھے۔ ان کی زندگی کٹھن ہوتی تھی، ان کا کھانا خشک تھا، اور وہ اپنی زندگی میں مشکلات سے بے پرواہ ہوتے تھے۔ درحقیقت ان کے صحراؤں کی وسعت نے ان کے لئے نئی راہیں کھول دی تھیں اور اس لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے مشکل معاش سے نکلنے کے لئے تجارت کرنے کی طرف ان کی راہنمائی کی۔ اس طرح ، انہوں نے دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی صلاحیت کو اپنی مشقت پسندی کی طاقت کے ساتھ جوڑ دیا۔ عرب لوگ نفاق نہیں کرتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولنا پسند کرتے تھے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے بنو شیبان کے اجتماع سے نکلتے وقت ان کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ان سے مدد طلب کی اور فرمایا: (يا أبا بكر أية أخلاق في الجاهلية ما أشرفها بها يدفع الله عز وجل بأس بعضهم عن بعض، وبها يتحاجزون فيما بينهم) ”اے ابو بکر! جاہلیت میں کون سے وہ اعلیٰ اخلاق تھے! جن کے ذریعے اللہ عزوجل بعض لوگوں کے شر سے دیگر لوگوں کو دور رکھتے تھے، اور انہی کے ذریعے وہ آپس میں ایک دوسرے سے(لڑائی سے) باز رہتے تھے‘‘۔ (دلائل النبوہ، البیہقی)

 

لہٰذا کسی علاقے کی نوعیت اور اس کا ذریعۂ معاش اس کے رہنے والے لوگوں کے اجتماعی اوصاف کے اسباب میں سے ہیں اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔

 

معاہدے اور تنازعات

 

تاریخی طور پر، علاقائی آبادیاں اور بعد کی ریاستیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہا کرتی تھیں۔ اگر ماضی میں علاقائی آبادیاں اور ریاستوں کے درمیان ایسا نہیں تھا، تو آج یہ اور بھی واضح ہے کہ ریاستیں دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتیں، خاص طور پر وہ ریاستیں جو بیرونی دنیا کے ساتھ روابط رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

 

ہم اس بحث سے ان قبائل اور گروہوں کو خارج کرتے ہیں جو اب بھی دور دراز کے جنگلوں میں رہتے ہیں، اگرچہ وہ خود بھی اپنے ارد گرد سے مکمل طور پر کٹے ہوئے نہیں ہیں، کیونکہ وہ جنگیں بھی کرتے ہیں اور ہمسایہ قبائل کے مابین مفادات حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ تاہم، انہیں اس بنا پر اس بحث سے خارج کر دیا گیا ہے کہ عالمی منظرنامے میں ان قبائل و گروہوں کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔

 

دنیا کی ریاستیں یا تو خود اثر و رسوخ رکھتی ہیں یا پھر کسی اثر  و رسوخ کے تابع ہوتی ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی کمیونٹی جو دنیا سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرے گی وہ لامحالہ ان ریاستوں کے عزائم سے متاثر ہوگی جنہوں نے خود کے لئے بااثر رہنے کا انتخاب کیا ہوتا ہے۔

 

دنیا کی ریاستیں دیگر ریاستوں کے ساتھ یا تو غلبہ حاصل کرنے کے قصد سے یا نوآبادیات کی مہم سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ غلبہ حاصل کرنے کی مہم اپنی نسل کی بالادستی قائم کرنے، یا اپنی قوم کی بالادستی کے لئے، یا کسی نظریے کی بالادستی کی خواہش سے جنم لے سکتی ہے، جو سب اسی فریم ورک کے تحت آتے ہیں۔ استعمار کی مہم میں دوسری ریاستوں کے وسائل اور دولت کے استحصال کی ہر شکل شامل ہے، چاہے وہ فوجی قبضے کے ذریعے ہو یا سیاسی یا اقتصادی معاہدوں کے ذریعے۔

 

یہ دونوں محرک عالمی سطح پر فریقین کو تنازعات یا معاہدوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ نسلی بالادستی کی مہم کو ہٹلر نے آلہ کے طور پر استعمال کیا جب اس نے یورپ پر قابو پانے کے لئے جنگیں شروع کرنے کے لئے آریائی نسل کو اکٹھا کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ اگرچہ اس نے سویڈن سے آنے والی فولاد کی کھیپوں کو محفوظ بنانے کے لئے ڈنمارک اور ناروے کا رخ کیا، لیکن اس نے جس وسیع محاذ  کو اختیار کیا وہ اس کی نسلی برتری کے نظریہ کی وجہ سے تھا، اور یوں یہ مہم تنازعات کی طرف لے گئی۔

 

جہاں تک اسلامی ریاست کا تعلق ہے جو علاقے در علاقے پھیلتی چلی گئی، تو یہ سب صرف اپنے نظریے، یعنی اسلام کی بالادستی کے لئے تھا جس میں ان علاقوں کی دولت اور وسائل کو ہرگز خاطر میں نہ لایا گیا تھا۔ مصر اور شام جیسے علاقوں کی فتح بھی اسی نظریے کے تحت کی گئی تھی جس کے تحت جزیرۂ نما عرب کی بنجر زمینوں کو فتح کیا گیا تھا۔

 

بالادستی کی مہم کسی دوسرے کی بالادستی کی مہم کے ساتھ مفاہمت نہیں کر سکتی، سوائے عارضی جنگ بندیوں کے، جس کے بعد وہ اپنے اصول، نسل یا قوم کی بالادستی کے لئے دوبارہ کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔

 

جہاں تک استعمار کی مہم کا تعلق ہے تو یہ ایک مذموم مقصد ہے جو طاقتور کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کمزور کی تذلیل کریں اور یہاں تک کہ انہیں غلام بنا لیں تاکہ وہ دشمن کے فائدے کے لئے اپنی ہی سرزمین کے وسائل کا استحصال کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ ریاستوں نے اس دور میں استعماریت کی خاطر تنازعات کو ہر دوسرے مقصد پر ترجیح دی جس کے دوران انہوں نے اسلامی دنیا اور افریقہ کو اپنی کالونی بنا لیا تھا۔

 

یہ استحصال اس حد تک پہنچ گیا کہ فرانس نے نائیجر کو اپنی کالونی بنا لیا اور وہاں کی کانوں سے یورینیم نکالنے کے لئے نائیجر کے بچوں کو بھرتی کیا، اس یورینیم کو بعد میں فرانس بھیج دیا جاتا تھا تاکہ فرانس کے ایٹمی ری ایکٹرز کو ایندھن فراہم کیا جا سکے جس سے بننے والی بجلی سے فرانس تو روشن ہو جاتا تھا، جبکہ نائیجر کے لوگ انہی کانوں کے اندر ہی مر جاتے تھے اور جب ان پر رات کی تاریکی آن پڑتی تو ان کے پاس کوئی روشنی تک نہ ہوا کرتی تھی۔

 

نوآبادیات بنانے کی یہ مہم ہی تھی جو افریقہ کے کانگو کو کنٹرول میں کرنے والے بیلجیئم کے بادشاہ لیوپولڈ دوم کے لئے دس ملین افریقیوں کی موت کا سبب بن گئی، یہاں ابھی ہم غلاموں کی تجارت کا ذکر نہیں کر رہے، جسے ماضی میں یورپی لوگ ایک تجارتی جنس کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

 

ان اقوام میں تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں جو غلبے کا قصد لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ پھر اس کے بعد دونوں ممالک ایک ایسی کشمکش میں ٹکراتے ہیں جو ان کی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتی ہے اور انہیں حقیقی جنگ کی حالت میں دھکیل دیتی ہے، یہاں تک کہ ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے، اور دوسرا فریق دونوں ممالک پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

 

تاہم، جب سے قومی سرحدوں کو مقدس بنا لیا گیا ہے، اس قسم کے تنازعات کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی جاتی ہے۔ لہٰذا ریاستوں نے عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اس بین الاقوامی مؤقف کو نظر انداز کرنے کا سہارا لیا۔ مثال کے طور پر، آسٹریا میں پہلے سے ہی جرمنی کے ساتھ اتحاد کے حق میں عوامی جذبات موجود تھے، اور یہ اس سے قبل تھا کہ آنشلوس اقدام (Anschluß Österreichs)  پر عملدرآمد کیا جاتا، جس کے ذریعے آسٹریا کو جرمنی میں ضم کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح، روس نے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حوصلہ افزائی کی، پھر علیحدگی پسند جمہوریہ، ڈونیٹسک اور لوہانسک کو تسلیم کیا۔ اس کے بعد ان جمہوری ریاستوں نے یوکرین کی جارحیت کے خلاف روس سے تحفظ کی درخواست کی، اور یہ معاملہ روس کے لئے اہم تھا، تاکہ اسے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں میں نہ لیا جائے۔

 

تنازعات ان لوگوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں جن کا رجحان ایک ہی ہوتا ہے، جو کہ ریاست کے اپنے دائرۂ کار میں غلبہ حاصل کرنے کے محرک سے جڑا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دنیا میں غالب رہنے کا محرک ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ وسائل پر مسابقت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ مغربی سرمایہ دارانہ ریاستوں کی مسلم ممالک میں پرتشدد جھڑپیں رہیں ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ اس رسہ کشی میں انگلستان سے اس کی سابقہ کالونیوں کو چھین کر لے گیا اور ایسا اس نے ان علاقوں میں فساد کو ہوا دے کر اور ایجنٹوں کو ہٹا کر حاصل کیا تھا۔ مثال کے طور پر امریکہ نے 2015ء میں یمن کے خلاف ”سعودی عرب‘‘ کی قیادت میں حملوں کے ذریعے یمن میں فسادات کو بھڑکایا، جس سے حوثیوں کو ،جو اُس وقت امریکہ کے ساتھ اتحاد میں تھے، یمن کے سیاسی میدان میں داخلے کا موقع ملا اور علی عبداللہ صالح کے قتل کے بعد، اس کے پیروکاروں کو گرانے کا موقع ملا۔

 

درحقیقت امریکہ نے ہی عراق کو جنگ کی طرف دکھیلا تھا تاکہ اسے انگلستان کی ماتحتی سے نکلا جا سکے اور اس کے وسائل پر کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔

 

دوسری طرف، وہی مفادات جو ریاستوں کو تنازعات میں دھکیلتے ہیں، وہی انہیں معاہدوں کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔ 1961ء میں امریکہ نے سوویت یونین کے ساتھ اتحاد کو اپنے مفاد میں دیکھا تاکہ دوسری بڑی طاقتوں کے عزائم پر قابو پایا جا سکے۔ تاہم، ایک بار جب اس نے اپنا فائدہ حاصل کر لیا، تو اس نے 1979ء میں اس امن اتفاق کو ترک کر دیا۔

 

دشمنی پر مبنی تنازعہ اور مسابقت پر مبنی تنازعہ کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ جب یورپی ریاستیں امریکہ سے ٹکراتی ہیں تو ان کا ٹکراؤ دنیا کی لوٹ مار پر مسابقت کے دائرے میں ہوتا ہے، کیونکہ یورپ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اور امریکہ ایک ہی اقدار اور تہذیبی رجحان رکھتے ہیں، اور یہ کہ امریکہ درحقیقت یورپ کی اولاد ہے۔ لہٰذا اس طرح سے وہ دوسروں کے خلاف تو ایک واحد محاذ تشکیل دیتے ہیں، جبکہ آپس میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگے رہتے ہیں۔

 

اس کے برعکس روس اور یورپ کے درمیان تنازعہ باہمی مسابقت کی وجہ سے نہیں بلکہ دشمنی کی وجہ سے ہے اور یہ دشمنی ان دونوں محاذوں کے درمیان تاریخی ہے۔

 

تنازعات اور معاہدوں کا مطالعہ صرف ان ریاستوں کے بارے میں ضروری ہے جو دنیا میں سرگرم ہیں، یا پھر یہ کہ مسائل ان ریاستوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ مطالعہ ان اقوام اور لوگوں کا بھی ضروری ہے جو بڑی طاقتیں بننےکی اہلیت رکھتے ہیں۔ جہاں تک باقی ماندہ کا تعلق ہے، تو ان کا مطالعہ کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

 

تاریخی طور پر تنازعات اور معاہدوں نے ریاستوں کو رسم و رواج پر متفق ہونے پر مجبور کیا ہے اور پھر ان قوانین کا جن کا سب احترام کرتے ہیں۔ ان تنازعات اور معاہدوں نے ریاستوں کو باہمی اتحاد بنانے اور بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کرنے کے لئے بھی ترغیب دی ہے۔

 

(جاری ہے ...)

 

Last modified onہفتہ, 04 اکتوبر 2025 08:14

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک