بسم الله الرحمن الرحيم
تفسیر سورۃ البقرۃ (284-286)
جلیل القدر عالم دین اور فقیہ شیخ عطاء بن خلیل ابوالرشتہ کی کتاب ”التیسیر فی اصول التفسیر“ سے اقتباس
﴿لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (284) آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (285) لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (286)﴾
”آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے۔ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے تم ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تعالیٰ اس کا حساب تم سے لے گا۔ پھر وہ جسے چاہے بخشے اور جسے چاہے سزا دے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ٭ رسول ایمان لایا، جو کچھ بھی اس کی طرف اس کے رب کی جانب سے نازل ہوا، اور مومن بھی ایمان لائے، یہ سب اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں، اے ہمارے رب! اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے، ٭ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے (اجرہے)، اور جو برائی وه کرے وه اس پر (عذاب) ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، پس ہماری مدد کر، کافروں کی قوم پر (غلبہ عطا فرما)“۔ (البقرۃ؛ 2: 284-286)
یہ تینوں آیات سورۃ البقرہ کا اختتام ہیں، اور جس بات سے سورۃ کی ابتدا ہوئی تھی اسی پر اس کا اختتام بھی ہوا ہے: یعنی اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان، (اور ایمان) اس پر جو آپﷺ پر نازل کیا گیا اور جو آپﷺ سے پہلے نازل کیا گیا۔
اور جس طرح سورۃ کے آغاز میں ایمان لانے والوں کے لئےکامیابی کی خوشخبری دی گئی تھی، اسی طرح اس کے اختتام پر بھی وہ نازل ہوا جسے صحابہ کرامؓ نے ”نزولِ راحت“ کہا، جب اللہ رب العزت نے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات و وسوسوں کو معاف فرما دیا اور یہ حکم دیا کہ مؤاخذہ صرف اس بات پر ہوگا جو انسان زبان یا عمل سے ظاہر کرے۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نہایت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾
”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے (اجرہے)، اور جو برائی وه کرے وه اس پر (عذاب) ہے“۔
پھر اللہ (الرحمٰن الرحیم)، کا عظیم فضل اور اس کی بے پایاں رحمت بیان کی گئی ہے، اور یہ کہ وہ مؤمنوں پر نہایت مہربانی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ چنانچہ اس نے ہمیں ایک ایسی دعا سکھائی جو دلوں کو زندہ کرتی ہے، سینوں کو کھول دیتی ہے، اور بندے کو اس رحمٰن کے حضور عاجزی سے دعا کرنے پر اُبھارتی ہے تاکہ وہ قبولیت اور جواب کے لائق بن جائے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾
”اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، پس ہماری مدد کر، ہمیں کافروں کی قوم پر (غلبہ عطا فرما)“۔
یہ تینوں آیات اس عظیم الشان سورۃ کا اختتام اس اعلان کے ساتھ کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر کیسی عظیم نعمت فرمائی ہے۔ پس سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے!
اللہ عزوجل، جو بلند و برتر ہے، ان آیات میں درج ذیل امور کو واضح فرماتا ہے:
1- یقیناً آسمانوں اور زمین اور ان میں موجود ہر چیز کا مالک اللہ ہی ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں اپنی مشیت کے مطابق تصرف فرماتا ہے، اور اس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ وہ ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے، اور ان دونوں پر وہ محاسبہ بھی فرمائے گا۔ وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے سزا دے، اور اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھنے والا ہے، وہ ہر شے پر قادر ہے۔
مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ”جب یہ آیت نازل ہوئی:
﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ﴾
”تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا“،
تو ابن عباسؓ کہتے ہیں: ”اس سے ان کے دلوں میں وہ خوف داخل ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا“۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «قُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَسَلَّمْنَا» ”کہو: ہم نے سنا، ہم نے اطاعت کی، اور ہم نے سرِ تسلیم خم کیا“۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں: ”تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایمان کو اتار دیا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾
”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا“۔
اور ایک دوسری روایت، جسے مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور امام احمد نے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا ہے، اس میں ذکر ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ”جب یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی: ﴿وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”چاہے تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو “، تو یہ بات رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام پر بہت دشوار گزری۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول! ہم پر ایسے اعمال فرض کیے گئے جن کی ہم طاقت رکھتے ہیں: جیسے نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ۔ لیکن یہ آیت جو آپ پر نازل ہوئی ہے، ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے“۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: « أتريدون أن تقولوا كما قال أهل الكتابين من قبلكم ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾ بل قـولوا ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾ ”کیا تم چاہتے ہو کہ وہی کہو جو تم سے پہلے اہلِ کتاب نے کہا تھا: ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾ 'ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی'، بلکہ یوں کہو: ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾ 'ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، ہم تیری بخشش چاہتے ہیں، اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر آنا ہے'“۔ پھر جب صحابۂ کرامؓ نے یہ الفاظ پڑھے اور ان کی زبانیں ان پر نرم ہو گئیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ آیت نازل فرمائی: ﴿آمَنَ الرَّسُولُ﴾ ”رسول ایمان لایا…“؛ جب انہوں نے اس پر عمل کیا، تو اللہ تعالیٰ نے سابقہ حکم کو منسوخ کر دیا اور یہ آیت نازل فرمائی:
﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾
”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا“۔
ان دونوں احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آیت:
﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ﴾
”تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا“،
اس کو آیت:
﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾
”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا“،
نے منسوخ کر دیا، اور یہ نسخ انسان کے دل میں پوشیدہ خیالات و وسوسوں پر مؤاخذہ کے حکم کے بارے میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ﴾
”یا تم اسے چھپاؤ، اللہ اس پر تم سے حساب لے گا“۔
الف: یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ”خبر کیسے منسوخ ہو سکتی ہے؟“، اگرچہ آیت خبر کے صیغے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ﴾
”تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا“،
ایسا اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اگرچہ یہ خبر کی شکل میں ہے، لیکن اس میں باز رہنے کا حکم)طلب الترك( پنہاں ہے۔ یعنی: نیکی کے سوا کچھ ظاہر نہ کرو، اور نیکی کے سوا کچھ مت چھپاؤ، کیونکہ اللہ تم سے ظاہر اور پوشیدہ دونوں باتوں کا حساب لے گا۔ اس طرح آیت میں برائی کو منع کیا گیا ہے، خواہ وہ دل میں ہو یا ظاہر میں۔
لہٰذا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت سے یہ شرعی حکم سمجھ لیا کہ برائی سے بچنا کتنا ضروری ہے، خواہ وہ دل میں ہو یا ظاہر میں۔ ان پر یہ بات اس لیے بہت گراں گزری کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ ان سے ان کے نفس میں چھپے ہر خیال کا حساب لیا جائے گا۔ انہوں نے سمجھا کہ اگرچہ ایک شخص اللہ سے ڈر کر اور جنت کی یاد آ کر اپنے دل میں موجود برے ارادے پر عمل کرنے سے رک جاتا ہے، اور وہ خیال قول یا فعل کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتا، لیکن اگر ارتکاب کے بغیر صرف ارادے کا بھی حساب ہو گیا تو یہ بہت بڑا بوجھ ہوگا۔
لہٰذا آیت کا خبریہ انداز، جو ایک شرطیہ جملہ کی شکل میں ہے، درحقیقت باز رہنے کے حکم (یعنی برائی سے منع) پر مشتمل ہے، خواہ وہ برائی قول یا فعل کے ذریعے ظاہر ہو یا نفس میں پوشیدہ رہے۔
اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مماثلت رکھتی ہے کہ:
﴿وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ﴾
”اگر تم میں سے سو ثابت قدم ہوں، تو وہ ہزار کفار پر غالب آ جائیں گے، کیونکہ وہ لوگ(کافر) سمجھ نہیں رکھتے“ ]سورۃ الانفال؛ 8:65[۔
یہاں بھی آیت خبر کی شکل میں ہے، ایک شرط کے ساتھ، لیکن اس کا مفہوم ایک حکم ہے؛ یعنی تم میں سے ایک کو دس کفار کے مقابلے میں لڑنا ہے اور ان کے آگے میدان چھوڑ کر نہیں ہٹنا چاہئے۔ پھر اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے منسوخ کر کے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائْتَيْنِ﴾
”اب اللہ نے تم پر بوجھ ہلکا کر دیا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں سے سو صبر والے ہوں، تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے“ ]سورۃ الانفال؛ 8:66[،
یعنی اب ایک کو دو کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا کافی ہے۔
ب- اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ جو چیز انسان اپنے دل میں چھپاتا ہے، اگر وہ عقیدے سے متعلق ہو تو اللہ اس پر محاسبہ کرے گا، اور یہ شریعت کا حکم اب بھی باقی ہے، کیونکہ نسخ کا مطلب ایک حکم کا ختم کیا جانا ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ نسخ نہیں ہوگا بلکہ دوسری آیت:
﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا﴾
”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا“
کے ذریعے تخصیص ہوگی، یعنی یہ تخصیص صرف شرعی احکام تک محدود ہوگی۔
یہ کہنا بھی درست نہیں، کیونکہ آیت:
﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ﴾
”تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ، اللہ اس پر تم سے حساب لے گا“،
عقیدے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ شرعی احکام کے بارے میں ہے، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے بھی واضح ہوتا ہے: ﴿فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ﴾ ”وہ جسے چاہے معاف کر دے“ کیونکہ عقیدے کی گمراہی یا شک پر معافی نہیں ہوتی؛ عقیدے میں جو شک یا وسوسہ داخل ہو جائے تو وہ کفر ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾
”بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شریک کیا جائے، اور اس کے علاوہ جسے چاہے معاف کر دیتا ہے“ ]سورۃ النساء: 48[
لہٰذایہ بات کہ ظاہر یا پوشیدہ چیزوں پر اللہ کے ہاں بخشش کا امکان موجود ہے اس بات کی صریح دلیل ہے کہ یہ آیت عقیدہ کے بارے میں نہیں بلکہ احکامِ شرعیہ کے بارے میں ہے۔
ج- اسی طرح آیت میں منسوخی کو رد کرنے کے لئے اس کی کسی زبردستی کی گئی تاویل کی بھی ضرورت نہیں ہے، جیسے یہ کہنا کہ آیت کا تعلق گواہی کو ظاہر یا چھپانے سے ہے، یا یہ کہنا کہ اس سے مراد کوئی ظاہری بُرا عمل یا پوشیدہ بُرے عمل کا ارتکاب کرنا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ ﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”جو کچھ تم اپنے دلوں میں رکھتے ہو اگر تم اسے ظاہر کرو“ سے مراد کوئی بھی گواہی دینا یا کوئی ظاہری بُرا فعل کرنا ہو، اور ﴿أَوْ تُخْفُوهُ﴾ ”یا اسے چھپاؤ“ سے مراد گواہی نہ دینا یا کوئی بُرا عمل خفیہ طور پر کرنا ہو، یہ کہنادرست نہیں۔ یہ اس لیے کہ آیت کا تعلق ظاہری اور باطنی دونوں حالتوں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”تم وہ ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے“، یعنی وہ چیز جو ظاہر ہو سکتی ہے، خواہ وہ کسی قول یا فعل کی صورت میں سامنے آئے۔ اور فرمایا: ﴿أَوْ تُخْفُوهُ﴾ ”یا اسے چھپاؤ“ یعنی وہ چیز جو دل کے اندر چھپی رہے اور قول یا فعل کی صورت میں ظاہر نہ ہو۔ چنانچہ ﴿مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے“ کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ یہاں دل کی کیفیات مراد ہیں، نہ کہ گواہی کو چھپانا یا ظاہر کرنا، کیونکہ اگر کوئی شخص گواہی دیتا ہے، یا چھپاتا ہے، کچھ بتاتا ہے، کچھ چھپا لیتا ہے، یا اسے بدل دیتا ہے، تو یہ سب عملی اظہار کی اقسام ہیں اور یہ سب ﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اسے ظاہر کرنے“ کی تعریف میں داخل ہوتے ہیں، نہ کہ ﴿تُخْفُوهُ﴾ ”چھپانے“ میں، کیونکہ آیت میں 'چھپانا' اس حوالے سے ہے کہ جو قولی یا فعلی طرح سے ظاہر نہ ہو، اور قرینہ یہ بیان ہے ﴿مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے“۔ چنانچہ، آیت میں ذکر کئے گئے ﴿أَوْ تُخْفُوهُ﴾ ”یا اسے چھپاؤ“ کا ایسا مفہوم نکالنا درست نہیں۔ لہٰذا، اس آیت کو منسوخی سے بچانے کے لیے اس طرح زبردستی کی تاویل کرنا درست نہیں، کیونکہ جب الفاظ کا معنی سیاق کے اعتبار سے بالکل واضح ہو تو تاویل کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ، صحیح روایات، جیسا کہ اس آیت کے اسبابِ نزول میں بیان ہوا، منسوخی کو ثابت کرتی ہیں، اور صحابۂ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت بھی اسی رائے کی تائید کرتی ہے۔
د- اسی طرح یہ بات بھی درست نہیں کہ اگر آیت میں ﴿مَا فِي أَنفُسِكُمْ﴾ ”جو تمہارے دلوں میں ہے“ سے مراد وہ خیالات یا وسوسے ہوں جو نفس میں گردش کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایسی چیز لازم کر دی جو ناقابلِ برداشت ہے، کیونکہ نفس کے خیالات پر قابو پانا ممکن نہیں۔ یعنی اس تاویل کی بنیاد پر آیت، منسوخی سے پہلے، ایسا شرعی حکم بن جائے گی جو انسان کی طاقت سے باہر ہے۔
یہ بات اس لیے درست نہیں کیونکہ آیت میں ”پوشیدہ بات“ سے مراد نفس کے اچانک ابھرنے والے خیالات نہیں ہیں۔ بلکہ اس سے مراد وہ برے ارادے ہیں جنہیں انسان اپنے دل میں چھپائے رکھتا ہے لیکن ان پر عمل نہیں کرتا، مثلاً اگر کوئی شخص اپنے دل میں چوری کرنے، زنا کرنے، گالی دینے یا کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ چھپائے رکھے۔ تو یہی وہ ”پوشیدہ بات“ ہے کیونکہ یہ صرف نفس تک محدود رہتی ہے اور قول یا عمل کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ انسان کی استطاعت کے اندر ہے، لہٰذا یہ کوئی ایسا شرعی حکم نہیں جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔
اور نسخ سے پہلے آیت کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان باتوں پر بھی حساب لے گا جو انسان اپنے دل میں رکھتا ہے، خواہ وہ انہیں عملی طور پر انجام نہ بھی دے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کو یہ بات بھاری محسوس ہوئی، کیونکہ نفس بُرائی کی طرف مائل ہوتا ہے، اور دل میں کبھی کوئی برا خیال آ جاتا ہے، لیکن بندہ اپنے رب سے ڈر کر اس پر عمل نہیں کرتا۔ پس اگر ایسے امور پر بھی سزا دی جاتی جو ظاہر نہیں ہوتے، نہ قول کی شکل میں اور نہ عمل میں، تو یہ بوجھ بہت سخت اور گراں ہوتا۔
رہی یہ بات کہ سزا اُن چیزوں پر ہو جو قول یا فعل کی صورت میں ظاہر ہو جائیں، تو اس پر قابو پانا نسبتاً آسان ہے۔ ایک شخص دل میں تو برائی چھپا سکتا ہے، لیکن پھر اللہ کے غضب اور جہنم کے عذاب کو یاد کرکے اپنے آپ کو روک لیتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس برائی کو انجام نہیں دیتا۔ اگر مسلمانوں کا مؤاخذہ اور سزا اُن پوشیدہ ارادوں پر بھی ہوتی جو وہ دل میں چھپائےہوں، مگر نہ اُنہیں زبان پر لائیں اور نہ اُن پر عمل کریں، تو یہ اُن پر انتہائی گراں گزرنے والی بات ہوتی۔
پس اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، ان پر رحم کیا، اور اس حکم کو منسوخ کر دیا۔ یوں حکم اور حساب و کتاب کو بندے کے کسب یعنی اُس کے ظاہر کیے ہوئے اقوال و افعال تک محدود کر دیا، نہ کہ اُس پر جو وہ دل میں چھپائے رکھے اور جسے وہ نہ تو کہے اور نہ کرے۔
اور رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث میں اس بات کی تصدیق موجود ہے: «إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ» ”یقیناً اللہ تعالیٰ نے میری امت کے اُن خیالات کو معاف کر دیا ہے جو وہ اپنے دلوں میں خود سے باتیں کرتے ہیں، جب تک وہ اُن پر عمل نہ کریں یا اُنہیں زبان سے نہ کہیں“۔ [بخاری و مسلم]
اور مسلم نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا كُتِبَتْ لَهُ حَسَنَةً، وَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ فَعَمِلَهَا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرًا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَيِّئَةٍ فَلَمْ يَعْمَلْهَا لَمْ تُكْتَبْ، وَإِنْ عَمِلَهَا كُتِبَتْ» ”جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اسے نہ کرے، تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔ اور جو نیکی کا ارادہ کرے اور اسے کر لے، تو اس کے لیے دس گنا سے سات سو گنا تک اجر لکھا جاتا ہے۔ اور جو برائی کا ارادہ کرے اور اسے نہ کرے، تو وہ اس کے خلاف نہیں لکھی جاتی۔ لیکن اگر اسے کر لے، تو وہ درج کر دی جاتی ہے“۔
اس لیے نسخ سے پہلے آیت کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے دل میں برائی چھپائے رکھے، جیسے چوری کرنا یا کسی کو نقصان پہنچانا، لیکن اسے قول یا عمل میں نہ لائے، تب بھی وہ اس پر اللہ کے ہاں جواب دہ تھا۔ نسخ کے بعد، اب وہ صرف اسی صورت میں جواب دہ ہے اگر وہ اپنے ارادے کو قول یا عمل میں ظاہر کر دے۔ اگر وہ اسے قول یا عمل میں نہ لائے، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اسے معاف فرما دیتا ہے۔
چنانچہ مسلمانوں نے اس آیت کی منسوخی کو اپنے لیے ایک بڑی راحت اور آسانی سمجھا، جیسا کہ بعض صحابہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ”یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری لیے آسانی نازل فرما دی“، یعنی اس کے یہ فرمان نازل ہونے کے ساتھ: ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ ”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا“۔
اور جہاں تک اس آیت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ﴾ ”وہ جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہے سزا دیتا ہے“، تو اس میں مغفرت کا ذکر سزا سے پہلے کیا، کیونکہ اللہ کی رحمت اس کے غضب سے پہلے ہے۔ اس میں اہلِ ایمان کو یہ ترغیب بھی ہے کہ وہ اللہ سے معافی طلب کریں اور اس کے قریب ہوجائیں، تاکہ وہ اللہ کے غضب اور اس کی سزا سے محفوظ رہ سکیں۔
اور جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ”اور اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھنے والا ہے“، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں پر پورا غلبہ رکھنے والا ہے، اس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اگر وہ معاف کرے تو وہ سب سے زیادہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اور اگر وہ سزا دے تو وہ غالب، اور حکمت والا ہے۔
2
- رسولِ اللہ ﷺ اور اُن ایمان والوں کے احترام و تکریم کے طور پر، جو آپ کی پیروی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں خبر دیتا ہے کہ وہ پختہ یقین کے ساتھ اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسول ﷺ کے لیے گواہی ہے، اور ان مومنوں کے لیے بھی عزت کی بات ہے جو آپ ﷺ کے راستے پر چلتے ہیں اور آپ ﷺ کی عطاکردہ ہدایت کو اختیار کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے سچے ایمان اور خالص اخلاص کی قدر افزائی فرمائی۔ وہ اللہ کا حکم سنتے ہیں، اُس کی اطاعت کرتے ہیں، اُس سے مغفرت مانگتے ہیں، اور اس دن پر یقین رکھتے ہیں جس دن انہیں اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ وہ اسی کی رحمت اور فضل کے امیدوار ہیں۔ اسی طرح وہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں کرتے، یعنی نبوت کے معاملے میں سب برابر ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، جیسا کہ گزشتہ شریعتوں کو منسوخ فرما دیا، جبکہ محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین کا مقام عطا کرکے ان کی لائی ہوئی شریعت کو ہمیشہ کے لئے حتمی کر دیا، اور گزشتہ تمام شریعتیں منسوخ کر دی گئیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ﴾
”یہ وہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے“ [سورۃ البقرۃ: 253]۔
اس آیت کا ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ﴾ ”ہم اس کے رسولوں میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے“ سے کوئی تعارض نہیں، کیونکہ اس سے مراد نبوت کے معاملے میں عدمِ تفریق ہے۔ یعنی تمام رسول نبوت کے اعتبار سے برابر ہیں، اور اس حیثیت سے ان میں کوئی امتیاز نہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں وضاحت فرما دی، اور اس کے رسول ﷺ نے اپنی سنت میں اس کی توضیح و تشریح کر دی، اور اہلِ ایمان نے اسے قبول کرتے ہوئے کہا: ”ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہمارے رب! ہمیں معاف فرما، اور تیری ہی طرف ہمیں آخرکار لوٹنا ہے“، اور وہ ویسے ہی تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا وصف بیان فرمایا:
﴿كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ ۖ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ﴾
”سب کے سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے“۔
یہ وہ سچے ایمان والے ہیں جو پوری رضا، قبولیت اور اطاعت کے ساتھ سنتے اور مانتے ہیں، ان اہلِ کتاب کے نافرمانوں کے برعکس جو کہتے تھے: ﴿سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا﴾ ”ہم نے سنا اور نافرمانی کی“ (سورۃ البقرة: 93)۔ اور یہ مومن ہر وقت اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں، اور آخرت کے بارے میں یقینی ایمان رکھتے ہیں کہ بالآخر انہیں لازماً آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف لوٹنا ہے۔
جہاں تک یہ آیت ہےکہ ﴿آمَنَ الرَّسُولُ﴾ ”رسول ایمان لایا“، تو یہ کامل یقین اور پختہ عقیدے کے ساتھ سچی تصدیق کے معنی میں ہے۔ ابو عوانہ نے اپنی مسند میں ابن عباسؓ سے روایت کیا کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی ﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ﴾ ”رسول اس چیز پر ایمان لایا جو اس کے رب کی جانب سے اس پر نازل کی گئی“ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاوت کی۔ جب وہ اس مقام پر پہنچے: ”ہمیں معاف فرما، اے ہمارے رب“، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں معاف کردیا“۔
اور
﴿بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ﴾
”جو اس پر اس کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا“
سے مراد قرآنِ مجید ہے۔
اور ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ﴾ ”اور اہلِ ایمان“ کے بارے میں: یہاں اس کا عطف رسول اللہ ﷺ پر ہے۔
اور ﴿كُلٌّ آمَنَ﴾ ”سب کے سب ایمان لائے“ سے مراد یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک شخص الگ طور پر ایمان لایا ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایمان کوئی اجتماعی یا مجموعی چیز نہیں، بلکہ ہر فرد کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے۔ اسی لیے آیتِ کریمہ میں جمع کا صیغہ (آمَنوا) ”وہ ایمان لائے“ استعمال نہیں کیا گیا، حالانکہ بات سب کے بارے میں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ﴿آمَنَ﴾ ”ایمان لاتا ہے“ کا واحد صیغہ استعمال فرمایا، کیونکہ ایمان ہر فرد کے ساتھ جداگانہ طور پر متعلق ہے۔
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ﴾ ”اور اہلِ ایمان“ کا ﴿الرَّسُولُ﴾ ”رسول“ پر عطف ہونا ہی زیادہ درست رائے ہے، اور اس قول سے زیادہ قوی ہوتی ہے کہ ﴿الْمُؤْمِنُونَ﴾ ”اہلِ ایمان“ مبتدا ہو اور بات نئے سرے سے شروع کی گئی ہو۔ کیونکہ عطف کی صورت میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جس وحی پر رسول اللہ ﷺ ایمان لائے، یعنی قرآن، تو وہی اصل بنیاد ہے، اور اہلِ ایمان ان کی پیروی میں ایمان لائے ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم پر ایمان، رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے نتیجے میں قبول کیا۔ یوں رسول اللہ ﷺ پر قرآن کا نزول ہونے کا ایمان، مؤمنین کے ایمان سے مقدم ہے، اس لیے عطف والی رائے ہی زیادہ درست ہے۔
لیکن اگر حرفِ عطف "و" استئناف کے لیے ہو، یعنی یوں ہو کہ: ﴿آمَنَ الرَّسُولُ﴾ ”رسول ایمان لایا“، اور پھر الگ سے: ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ﴾ ”اور اہلِ ایمان، وہ سب ایمان لائے“، تو اس صورت میں رسول اللہ ﷺ کے ایمان کا ذکر جملہ فعلیہ سے ہوگا، جبکہ اہلِ ایمان کے ایمان کا ذکر جملہ اسمّیہ سے، اور جملہ اسمیہ دلالت میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ یہ ترتیب اس حقیقت سے ہم آہنگ نہیں کہ قرآن پہلے رسول ﷺ پر نازل ہوا، اور پھر اہلِ ایمان قرآن پر ایمان رکھتے ہوئے آپ ﷺ پر ایمان لے آئے۔
لہٰذا، ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ﴾ ”اور اہلِ ایمان“ پر وقف کرنا ﴿رَبِّهِ﴾ ”اس کے رب“ پر وقف کرنے سے زیادہ صحیح ہے۔
جہاں تک ﴿كُلٌّ آمَنَ﴾ ”وہ سب ایمان لائے“ کا تعلق ہے، تو یہ ایک جملۂ مُستأنفہ ہے جو مبتدا اور خبر پر مشتمل ہے، اور یہاں ﴿كُلٌّ﴾ ”سب“ کا لفظ ﴿الْمُؤْمِنُونَ﴾ ”اہلِ ایمان“ کی تاکید کے طور پر نہیں آیا؛ کیونکہ لفظ کُلّ تاکید اُس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی ضمیر کے ساتھ آ کر اس کی تاکید کرے، اور یہاں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا جیسا کہ ہم نے کہا، یہ ایک جملۂ مُستأنفہ ہے جس میں (كُلٌّ) مبتدا اور (آمَنَ) اس کی خبر ہے۔
جہاں تک ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾ ”ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی“ کا تعلق ہے، تو اس سے مراد ایسا سننا ہے جس میں قبولیت اور فرمانبرداری شامل ہو۔ سننے کو اطاعت پر اس لیے مقدم رکھا گیا کہ حکم سننے سے ثابت ہوتا ہے، اور اطاعت اس کے بعد آتی ہے۔
اور جہاں تک ﴿غُفْرَانَكَ رَبَّنَا﴾ ”اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں“ کا مطلب ہے: ”ہم تیری بخشش کا سوال کرتے ہیں“۔ یہاںغُفران مصدر ہے جو اپنے فعل کی جگہ مفعولِ مطلق کے طور پر آیا ہے، یعنی فعل کے متبادل کے طور پر۔
اور ﴿وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ﴾ ”اور تیری ہی طرف ہمارا لوٹنا ہے“ یعنی موت کے بعد اور پھر قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے کے ذریعے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
3- اور سورۃ البقرہ کی اختتامی آیت میں وہ بات بیان ہوئی ہے جسے مؤمنین نے اپنے لئے ایک بڑی آسانی قرار دیا، یعنی اللہ تعالیٰ نے مؤاخذہ اور سزا کو صرف اُن اعمال اور اقوال پر موقوف کر دیا جو ظاہر ہو جائیں، جو انسان کے اعضا اور زبان سے صادر ہوں؛ نہ کہ اُن خیالات یا ارادوں پر جو دل کے اندر پوشیدہ رہیں اور نہ قول میں ظاہر ہوں، نہ فعل میں۔
پھر وہ دعا آئی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ اور مؤمنین کی زبانوں پر جاری فرمایا: کہ اللہ انہیں بھول چوک یا خطا پر مؤاخذہ نہ کرے، ان پر سخت اور بھاری ذمہ داریاں نہ ڈالے، انہیں ایسی تکالیف کا مکلف نہ بنائے جن کی طاقت وہ نہ رکھتے ہوں، اور یہ کہ وہ انہیں اپنی بخشش اور مغفرت میں ڈھانپ لے اور کافروں پر ان کو غلبہ عطا فرمائے۔ پھر ان دعاؤں کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی خوشخبری نازل ہوئی کہ اس نے اپنے رسول ﷺ اور مؤمنین کی دعا قبول فرما لی ہے۔ بے شک وہ نہایت مہربان، بہت بخشنے والا، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
جہاں تک ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ کا تعلق ہے، یعنی ”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا“، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر وہی ذمہ داری عائد کرتا ہے جو اس کی قدرت و طاقت کے اندر ہو۔ ’استطاعت‘ سے مراد وہ صلاحیت ہے جسے انسان بغیر انتہائی مشقت اور برداشت کی آخری حد تک پہنچے انجام دے سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر نماز اور روزہ فرض کیے ہیں، حالانکہ یہ ہماری برداشت کی آخری حد سے کم ہیں، کیونکہ ہم اس سے زیادہ نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی بھی طاقت رکھتے ہیں جتنا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر وہی چیزیں واجب کی ہیں جو ہماری قدرت کے مطابق ہیں، نہ کہ وہ کام جو ہماری طاقت کی انتہا تک پہنچاتے ہوں۔
جہاں تک ﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ کا تعلق ہے، یعنی ”جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے اعضا کے ذریعے ظاہر ہونے والے اعمال اور اقوال کے لیے جوابدہ ٹھہراتا ہے، نیکی پر اسے جزا دیتا ہے اور برائی پر سزا۔
ابن جریرؒ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اس آیت ﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ ”جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“، کے بارے میں انہوں نے کہا، عمل اليد والرِّجل واللسان اس میں مراد ہاتھ، پاؤں اور زبان کے اعمال ہیں۔
یہ آیت مسلمانوں کے لیے بہت راحت کی خبر تھی، کیونکہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دل میں پیدا ہونے والی برائی کو معاف کر دیا، جب تک کہ وہ زبان یا عمل میں ظاہر نہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صرف ان کی طاقت کے مطابق واجبات عائد کیے ہیں، اور انہیں صرف اسی چیز کے لیے جوابدہ ٹھہرایا ہے جو وہ لفظ یا عمل میں ظاہر کرتے ہیں، نہ کہ دل کے اندر چھپی ہوئی چیزوں کے لیے، بشرطیکہ یہ شریعت کے احکام سے متعلق ہوں۔ جہاں تک عقیدہ کا تعلق ہے، یہ دل میں پختہ ایمان ہے۔ اس لیے شک و تذبذب پر ہی حساب اور سزا لاگو ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا۔ تاہم، شریعت کے دیگر احکام میں اللہ تعالیٰ نے دل میں آنے والے خیالات کو اس وقت تک نظر انداز کر دیا جب تک وہ قول یا فعل کی شکل میں ظاہر نہ ہوں۔
جہاں تک ﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ ”جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“ اور اس کے ساتھ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ ”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا۔ جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“ کا تعلق ہے، یہ اس آیت کو منسوخ کر دیتا ہے: ﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ﴾ ”تم اپنے دل کی بات ظاہر کرو یا اسے چھپاؤ، اللہ اس پر تم سے حساب لے گا“، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا۔
جہاں تک ﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ﴾ ”جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے“ کا تعلق ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے کیے ہوئے نیک اعمال کا صلہ دیا جائے گا۔
جہاں تک ﴿وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ ”اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“ کا تعلق ہے، یعنی اسے اس کے کیے ہوئے برے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔
اس آیت میں خیر و شر کے تعلق کو خاص طور پر واضح کیا گیا ہے۔ یہاں لفظ "الكسب" (کسب) اور "الافتعال/افتعل" استعمال ہوا ہے، جو محض 'فعل' (کرنا) سے زیادہ سخت اور محنت طلب ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ برائی کے حصول میں انسان کی خواہشات زیادہ شدت سے مائل ہوتی ہیں، کیونکہ شیطانی اور نفسانی خواہشات انسان کو زیادہ کھینچتی ہیں۔ اس وجہ سے انسان برائی میں زیادہ محنت اور دلجمعی دکھاتا ہے، جبکہ نیکی میں اتنی شدت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «حُفَّتِ الجَنَّةُ بالمَكارِهِ، وحُفَّتِ النَّارُ بالشَّهَواتِ» ”جنت مشکلات سے گھری ہوئی ہے، اور دوزخ خواہشات سے گھرا ہوا ہے“۔ [مسلم: 5049؛ الترمذی: 2482؛ احمد: 7216، 8587، 12101، 13177، 13519؛ الدارمی: 2720؛ اور البخاری: 6006]
جہاں تک
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾
”اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما“،
کا تعلق ہے، یہ دعا رسول اللہ ﷺ اور مؤمنین کے لیے عزت و شرف کی بات ہے، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ سے بخشش، رحمت اور فتح کے لیے دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت جلیل و عظیم، سننے والا، جواب دینے والا، بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔
امام احمدؒ نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ"لَمَّا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ﴿لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى صَحَابَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ... إلى أن يقول: فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ نَسَخَهَا اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِقَوْلِهِ: ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ ”جب رسول اللہ ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی: ”جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کے لیے ہے۔ چاہے تم دل میں جو کچھ رکھتے ہو ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تمہیں اس کے مطابق جوابدہ ٹھہرائے گا۔ جو چاہے اسے بخش دے اور جو چاہے اسے عذاب دے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے“، تو اس سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت پریشان ہوئے۔ آخرکار، جب صحابہؓ نے اس خوف و پریشانی کا اظہار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو مُنسوخ کر دیا اور فرمایا: ”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا۔ جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“۔
اور صحیح مسلم میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے: ولما فعـلوا ذلك نسخها الله تعالى فأنزل الله عز وجل ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ قال، نعم ﴿رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا﴾ قــــال، نـعــــم ﴿رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ﴾ قــــال:، نـعــــم ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ قـال، نعـم وفي رواية قـال، "قد فعـلت جب صحابہ کرام نے اس خوف و پریشانی کا اظہار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو منسوخ کر دیا اور نازل فرمایا: ﴿لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ ”اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں کرتا۔ جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے“ مؤمنین دعا کرتے ہیں: ﴿رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ ”اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا“، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں“ پھر مؤمنین دعا کرتے ہیں: ﴿رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا﴾ ”اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا“ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ”جی ہاں“ پھر مؤمنین دعا کرتے ہیں: ﴿رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ﴾ ”اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو“ آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ”جی ہاں“ پھر مؤمنین دعا کرتے ہیں: ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾ ”اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر! تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جی ہاں“ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں نے ایسا ہی کر دیا“۔
یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عنایت ہے، کیونکہ اس نے ہمیں یہ سکھایا کہ کس طرح دعا کرنی ہے اور ہمیں قبولیت کی خوشخبری دی۔ جیسا کہ فرمایا: قـال، نعـم وفي رواية قـال، قد فعـلت، یعنی اللہ تعالیٰ نے دعا کا جواب دیا۔
جہاں تک ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾ ”اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا“ کا تعلق ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ہمیں بھول چوک یا غلطی کی وجہ سے جوابدہ نہ ٹھہرائے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آیت میں مذکور بھولنا اور غلطی گناہ کا سبب بن سکتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے۔
جہاں تک ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا﴾ ”ہمارے رب! ہمیں نہ پکڑنا“ کا تعلق ہے، تو یہاں جوابدہی اور سزا کی بات ہو رہی ہے۔ یعنی، آیت میں ذکر شدہ بھول اور غلطی، رسول اللہ ﷺ کے حدیث میں مذکور بھول اور غلطی کے برابر نہیں ہے، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا ہے: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» ”بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا، بھول، اور وہ چیزیں جن پر وہ مجبور کیے گئے ہیں کا بوجھ ہٹا دیا ہے“ (ابن ماجہ)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسے معاملات میں کوئی سزا نہیں ہے۔ اس طرح یہ آیت اور حدیث کس طرح ہم آہنگ ہیں؟
اصل میں "نسیان" (بھول جانا) کا مطلب ہے کسی چیز کو بغیر ارادہ چھوڑ دینا۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے:
پہلا: وہ بھول جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا یعنی ایسی بھول جس کا انسان کے اپنے عمل سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً کوئی شخص رمضان میں بھول کر کھا پی لے۔ یا کسی کو بیماری کی وجہ سے یادداشت کمزور ہو جائے اور وہ قرآن کا حصہ بھول جائے۔ یا کوئی فرض کام بلا ارادہ چھوٹ جائے۔ اس قسم کی بھول اور مشابہ معاملات میں کوئی جوابدہی نہیں ہے اور یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث «اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي» ”اللہ نے میری امت کو اس سے معاف کر دیا“ کے تحت آتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اس بھول کے لیے انہیں جوابدہ نہیں ٹھہراتا۔
دوسرا: وہ بھول جس میں انسان کے اپنے عمل کا دخل ہو یعنی ایسی بھول جو انسان کی اپنی غفلت یا لاپرواہی سے پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً کسی نے دوسری مصروفیات میں نماز کو اتنا مؤخر کر دیا کہ پہلی نماز قضا ہو گئی۔ یا کسی نے قرآن کی حفاظت میں دلچسپی نہ لی اور وہ بھول گیا، حالانکہ اس میں کوئی بیماری یا کمزوری نہیں تھی۔ یا پھر ذاتی دلچسپیوں کی وجہ سے اپنے واجبات کو بھول جائے یا ان کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے، اور مشابہ معاملات۔ یہ سب بھول کے نتیجے میں ہونے والے گناہ ہیں اور یہ آیت میں مذکور دعا ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا﴾ ”ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں تو ہمیں نہ پکڑنا“ کے دائرے میں آتے ہیں۔
اسی طرح خطا (غلطی) بھی دو قسم کی ہوتی ہے:
پہلی قسم: وہ غلطی جو ارادے کے خلاف ہو، یعنی ایسی غلطی جس میں بندے کے اختیاری فعل کا غلطی کے ارتکاب میں کوئی دخل نہ ہو، اور نہ ہی اس نے غلطی کا ارادہ کیا ہو۔ اس کی مثالیں یہ ہیں: کوئی شخص سورج غروب ہونے کا گمان کرتا ہے اور روزہ افطار کر لیتا ہے، مگر بادل یا وقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے سورج ابھی غروب نہ ہوا ہو۔ یا کوئی آدمی صحراء میں راستہ بھول جائے، رات بادلوں سے بھری ہو، وہ قبلہ کا رخ متعین کرنے کی کوشش کرے اور فجر کی نماز پڑھ لے، پھر صبح معلوم ہو کہ اس کا رخ غلط تھا۔ یا کوئی شخص ذہنی کمزوری یا تلفظ کی دشواری کی وجہ سے سورۂ فاتحہ صحیح طرح نہ پڑھ سکے، اور حروف غلط ادا کرے۔ یا پھر کوئی ایسا شخص جسے احکام کا علم نہ ہو، کوئی عمل غلط طریقے سے انجام دے، جیسے وہ بدو جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا اور نماز میں ہوا خارج ہو گئی، مگر اسے علم نہیں تھا کہ اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، کیونکہ وہ مدینہ سے دور رہتا تھا اور اسے سکھانے والا کوئی موجود نہ تھا۔ یہ تمام اعمال رسول اللہ ﷺ کی حدیث «اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي» ”اللہ نے میری امت کو اس سے معاف کر دیا“ کے تحت آتے ہیں۔
دوسری قسم: وہ غلطی جو انسان جان بوجھ کر صحیح بات کے خلاف کرے، یعنی وہ شریعت کے خلاف کام جانتے بوجھتے انجام دے۔ یہ ان اختیاری (ارادی) اعمال سے متعلق ہے جن میں بندہ غلطی کا ارادہ رکھتا ہے، جیسے رمضان میں سورج غروب ہونے سے پہلے جانتےبوجھتے ہوئے روزہ توڑ دینا۔ شریعت کے ضروری احکام سیکھنے کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں نہ سیکھنا، اور پھر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو جان بوجھ کر کرنا۔
اس طرح کے اعمال اور ان جیسے دیگر گناہ، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب پر مشتمل ہوں، وہی غلطیاں ہیں جن کے بارے میں بندہ اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ وہ اسے ان پر مؤاخذہ نہ کرے۔ یہی غلطیاں اس مبارک آیت کے مفہوم میں داخل ہیں: ﴿وَاعْفُ عَنَّا﴾ ”اے ہمارے رب! ہم سے درگزر فرما“ یعنی ان غلطیوں کو معاف فرما دے، جیسا کہ آگے کی آیت میں وضاحت کی گئی ہے: ﴿رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا﴾ ”اے ہمارے رب! ہمیں نہ پکڑنا“۔
مؤاخذہ سے مراد سزا ہے، اور اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے بندے پر نافذ کی جاتی ہے۔ یہاں لفظ آخَذَ(پکڑنے والا) کا مطلب کسی کی شمولیت نہیں، بلکہ صرف یہ حقیقت ہے کہ اللہ ہی وہ واحد ذات ہے جو بندے کا مؤاخذہ کرتا ہے، یعنی اسے سزا دیتا ہے۔
اس مبارک آیت میں ہم اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھول چوک پر سزا نہ دے یعنی اللہ کے احکامات کو بغیر کسی ارادے کے محض توجہ کی کمی یا سستی کی وجہ سے ترک کر دینا، جس کے نتیجے میں وہ وقت پر ادا نہ ہو سکے۔ اور نہ ہی ہمیں اُن غلطیوں پر سزا دے جنہیں ہم جانتے بوجھتے کسی صحیح کام کے خلاف کر بیٹھتے ہیں، اور یوں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یہی وہ بھول اور غلطی ہے جس کا ذکر اس مبارک آیت میں آیا ہے اور جن پر مؤاخذہ لاگو ہوتا ہے۔ رہی دیگر قسم کی غلطیاں اور بھول چوک جن کی ہم وضاحت کر چکے ہیں، تو ان کا مؤاخذہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہم پر سے اٹھا لیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں بیان ہوا: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» ”بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام معاف کر دیئے ہیں“۔
اور یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے: اگر وہ غلطی اور بھول چوک جن کا ذکر آیت میں آیا ہے، اور جن کے بارے میں ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ان پر مؤاخذہ نہ کرے، کیا وہ گناہ کے زمرے میں آتی ہیں، تو پھر ہم اُس جواب کو کیسے سمجھیں جو اللہ نے فرمایا جیسا کہ ہم نے مسلم کی حدیث میں ذکر کیا؟ ہم اس جواب کو ان تمام دعاؤں کے بعد کیسے جانیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ان گناہوں پر بالکل بھی مؤاخذہ نہیں کیا جاتا؟
اللہ کا جواب اس معنی میں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعا کے ذریعے ہمیں وہ عطا فرماتا ہے جس کی ہم دعا کرتے ہیں؛ یا تو وہ گناہ کو ہم سے مٹا دیتا ہے اور ہمیں معاف کر دیتا ہے، یا ہمارے سے اسی کے برابر کوئی برائی ٹال دیتا ہے، یا پھر قیامت کے دن ہماری دعا کے عوض ہمارے لیے اجر ذخیرہ کر دیتا ہے۔
امام ترمذیؒ نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدُعَاءٍ إِلاَّ اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِمَّا أَنْ يُعَجَّلَ لَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِمَّا أَنْ يُدَّخَرَ لَهُ فِي الآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يُكَفَّرَ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ بِقَدْرِ مَا دَعَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ أَوْ يَسْتَعْجِلْ، قالوا يا رسول الله وكيف يستعجل؟ قال، يقول دعوتُ ربي فما استجاب لي». وفي رواية أخرى له من طريق جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ، «مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْعُو بِدُعَاءٍ إِلاَّ آتَاهُ اللَّهُ مَا سَأَلَ أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنْ السُّوءِ مِثْلَهُ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ» ”کوئی آدمی اللہ سے دعا نہیں کرتا مگر اس کی دعا قبول کی جاتی ہے؛ یا تو اس کا اثر دنیا میں جلد ظاہر کر دیا جاتا ہے، یا اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے، یا اس کی دعا کے تناسب سے اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی نہ کرے“۔ صحابہؓ نے پوچھا: ”اے اللہ کے رسول ﷺ! جلد بازی کا کیا معنی ہے؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ’”یہ کہ وہ کہے: میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے فوراً قبول نہ کی“۔ اور جابرؓ کی ایک روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی شخص کوئی دعا نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اسے وہ عطا کر دیتا ہے جس کا اس نے سوال کیا ہے، یا پھر اسی کے برابر کوئی برائی اس سے دور کر دیتا ہے، بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے“۔
اور یہ اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾
”اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا“ (سورۃ غافر: 60)،
اور اس کا فرمان:
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾
”اور اے نبی! جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں، تو (کہہ دیجیے کہ) میں تو قریب ہی ہوں۔ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں“ (سورۃ البقرۃ: 186)۔
یہ تمام آیات مومنین کی دعا پر جواب دینے کی حقیقت کو اسی پہلو سے بیان کرتی ہیں جسے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا ہے۔ لہٰذا قبولیت، جیسا کہ بیان ہوا، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوتی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف کرے، بخش دے، کافروں پر ہمیں غلبہ عطا کرے، ہماری بھول اور خطا کی وجہ سے ہم پر سزا نہ فرمائے، اور ہم پر کوئی سخت و بھاری ذمہ داری نہ ڈالے۔ ان سب دعاؤں میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ جواب ضرور ملے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی حدیث میں ہمیں خوشخبری سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہاں (میں نے قبول کیا)‘‘۔ یہ جواب کبھی یوں ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا کو دنیا ہی میں پورا کر دیتا ہے؛ یا گناہ کو مٹا کر معاف فرما دیتا ہے؛ یا کافروں پر فتح عطا کرتا ہے؛ یا پھر وہ برائی ہم سے دور کر دیتا ہے جس کے خلاف ہم نے دعا کی تھی؛ یا پھر قیامت کے دن ہمارے لیے اس کا اجر جمع کر دیتا ہے۔ وہی تو ہے جو نہایت مہربان، نہایت بخشنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے۔ چنانچہ قبولیت کا ظہور ضروری نہیں کہ اسی دنیا میں ہو، بلکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا، مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔
جہاں تک اس دعا کا تعلق ہے،
﴿رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا﴾
’’اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا‘‘
تو ﴿إِصْرًا﴾ یعنی ’’بوجھ‘‘ کا مطلب ہے کوئی سخت معاملہ، ایک بھاری ذمہ داری جو اپنے اُٹھانے والے کو روک دیتی ہے، گویا کہ وہ اسے دبا دیتی ہو۔ ہر وہ عہد جس میں کوئی بھاری ذمہ داری ہو، اسے ’’اِصر‘‘ یعنی بوجھ کہا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾
’’اور وہ ان پر سے ان کے بوجھ اُتارتا ہے اور وہ زنجیریں جو ان پر تھیں‘‘ (سورۃ الاعراف: 157)
یہ دعا اس بات کی التجا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ایسا کوئی بھاری عہد لازم نہ کرے جس کی ادائیگی ہمارے لیے دشوار ہو، جیسے اس نے پچھلی امتوں پر لازم کیا تھا، مثال کے طور پر بنی اسرائیل پر جو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں تاکہ ان کی توبہ قبول ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ اس نے توبہ کو ہمارے لیے آسان بنا دیا، ان لوگوں کے لیے جن کے لیے وہ چاہے اسے ممکن بنا دے۔ توبہ اس میں ہے کہ بندہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی جانب رجوع کرے، گناہ چھوڑ دے، اس کی طرف نہ لوٹے، اور اس کے اثرات کی اصلاح کرے، نہ کہ اپنی جان لے لے جیسا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا۔
اور جہاں تک اس دعا کا تعلق ہے:
﴿رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ﴾
’’اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو‘‘
یعنی: اے رب! ہمیں ایسی سزا نہ دے جسے ہم برداشت نہ کر سکیں، جیسا کہ پچھلی امتوں کے ساتھ ہوا تھا، مثلاً زمین میں دھنسایا جانا، بندر یا خنزیر بنا دیا جانا، مکمل تباہی، یا بجلی کی شدید کڑک سے ہلاک کر دیا جانا۔
جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھایا کہ ہم اس سے دعا کریں کہ وہ ہم پر فرائض کو بہت سخت اور مشقت والے نہ بنائے، تو اس کے بعد اس نے یہ بھی سکھایا کہ ہم یہ دعا کریں کہ وہ ہمیں ایسے عذاب میں مبتلا نہ کرے جنہیں ہم سہہ نہ سکیں۔ بے شک وہ نہایت مہربان، نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
اور یہ دعا: ﴿وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا﴾ ’’اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر!‘‘، تو یہاں ان الفاظ کی ابتدا ’’اے ہمارے رب‘‘ سے نہیں کی گئی، جیسا کہ پچھلی دعاؤں میں تھی، کیونکہ یہ تینوں دعائیں پچھلی دعاؤں کی توضیح اور ان کی تکمیل ہیں، یعنی وہ اُنہی سے مربوط ہیں اور اُن کے نتائج کو بیان کرتی ہیں۔ ’عفو‘ (درگزر) اس کے مقابل ہے کہ بھول چوک اور خطا کی وجہ سے ہمارے گناہوں پر ہمیں پکڑا نہ جائے۔ ’مغفرت‘ (بخشش) اس کے مقابل ہے کہ اگر سخت ذمہ داریاں ہم پر لازم ہوتیں تو ہم انہیں درست طور پر ادا نہ کر پاتے۔ اور ’رحمت‘ اس کے مقابل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے عذاب سے بچا لے جو ہماری طاقت سے باہر ہو۔
جہاں تک دعا کا یہ حصہ ہے:
﴿أَنْتَ مَوْلاَنَا﴾
’’تو ہی ہمارا مالک ہے‘‘
یعنی ہمارے مالک، سرپرست اور ہمارے امور کے محافظ ہیں۔ اس لفظ کا اصل مطلب ایک مصدر ہے جس سے فاعل کی طرف اشارہ ہوتا ہے، اور اس میں یہی معنی چھپے ہیں کہ ’’تو (اللہ) ہی ہمارا مالک ہے‘‘۔
اور اس دعا کا یہ حصہ ہے:
﴿فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ﴾
’’ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما‘‘۔
لفظ ’ف‘ (پس) سببیت کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ اللہ کی مدد کے لیے دعا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہی، سبحانہ و تعالیٰ، مالک، ولی اور امور کا منصوبہ ساز ہے، جیسے کہ کہا جائے: ’’تُو بڑا کرم فرمانے والا ہے، پس مجھے عطا فرما‘‘، یا ’’تُو زور آور ہے، پس پڑوسی کی حفاظت فرما‘‘۔
امام احمدؒ نے ابو ذرؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «أُعطیتُ خواتيم سورة البقرة من كنز تحت العرش ولم يعطَهن نبيٌّ قبلي» ’’مجھے سورۃ البقرہ کے اختتامی حصے ایک خزانے سے، جو عرش کے نیچے ہے، عطا کیے گئے، اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ نہیں دیے گئے‘‘۔
ایک اور حدیث میں، جسے امام احمدؒ نے حذَیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ، آپ ﷺ نے فرمایا: «وَأُعْطِيتُ هَذِهِ الآيَاتِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ يُعْطَهَا نَبِيٌّ قَبْلِي» ’’اور مجھے سورۃ البقرہ کی آخری آیات ایک خزانے سے جو عرش کے نیچے ہے عطا کی گئیں؛ مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں‘‘۔




