مصر میں امریکہ ہی درحقیقت شکست کھا گیا
بسم الله الرحمن الرحيم
''واشگنٹن نے اپنے مفادات کے لیے مصر کو امداد دے کر یہ سوچ لیا تھا کہ وہ معملات کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جیسا کہ جیسا کہ ایک لمبے عرصے اس نے ایسا کیا ،مگر عنقریب مصر کے حوالے سے امریکی موقف تبدیل ہو جائے گا اور اس کا کردار محدود ہو گا،،-Steven A Cook. صدرمرسی کو ہٹانے کے بعد تین اہم مسائل پر بڑے پیمانے پر بحث کی گئی جو کہ یہ ہیں:
۔ انقلاب امریکی اشیر باد اور جنرل السیسی کے تقرر سے رونما ہو۔
۔ مرسی حکومت کے دوران سیاسی اسلام فیل ہو گیا،جس کا مطلب ہے کہ پورے خطے میں ایسا ہوا۔
۔ مرسی کے بعد تمرد(نافرمانی)کی تحریک اورعام اپوزیشن کوئی واضح تصور دینے میں ناکام ہوگئی،یہ غلط فہمی بھی کہ مبارک حکومت کے باقیات الاخوان اور حزب اختلاف سے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں،تاہم ایک اور موجوع جس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا وہ ہے مصر میں امریکی بالادستی کا زوال ہے۔
1956 م میں جمال عبد الناصر کے مصر کی سیاسی زندگی میں ظہور کے ساتھ ہی مشرق وسطی میں امریکی پالیسی عروج حاصل ہو ا اور یہ بڑھتا گیا ،امریکہ پہلی بار مصر کے اثر ورسوخ کو عرب دنیا میں ان ممالک میں گھسنے اوراپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا جو اس کے اثر ورسوخ سے باہر اور بر طانیہ کے زیر اثر تھے،یوں خطے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا اور مصر کے اندر اور اس سے باہر امریکہ کے اثر ونفوذ میں روز افزوں اضافہ ہوگیا،مصر پر امریکہ کا پنجہ عبد الناصر کی ہلاکت کے بعد بھی ڈھیلا نہیں ہوا بلکہ صدر السادات کے دور میں بھی بدستور اس کی بالادستی قائم رہی اور اس کے بعد حقیقی عبد الناصر امریکی مفادات کے مخلص محافظ (حسنی مبارک)زمانے میں بھی یہی حال رہا،صورت حال 2011 م جوں کا توں رہی یہاں تک کہ مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات شروع ہوگئے جن سے مصر میں امریکی بالادستی لڑکھڑانے لگی،امریکہ کے پاس عام لوگوں کی سیاسی بیداری اور اسلام کی حکمرانی کے لیے ان کے جوش اور ولولہ کے مقابلے کے لیے سوائے اس کے کوئی آپشن باقی نہ رہا کہ مصر میں سیاسی منظر نامے میں ترجیح تکمیل پر نظر ثانی کی جائے اور بلا آخر اخوان المسلمین کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت اور امریکی بالادستی کو استحکام دینے کے بدلے سودابازی پر مجبور ہوا،یوں مرسی اور الاخوان کو مبارک کی پرانی حکومت کے باقیات کے ساتھ یکجا کر کے ایک نیا سیاسی میڈیم وجود میں لایا گیا جس پر فوج کی نظر رہے گی۔جوں ہی امریکہ نے اپنے سامنے سے روکاوٹیں ہٹادی اس کو اظمئنان ہو گیا،مطمئن کیسے نہ ہو سوئیس کنال حسب دستور کام کررہا ہو،اسرائیل کی حفاظت برقرار ہو،مصر کو غزہ سے ملانے والے سرنگوں کو معلوم ہو تے ہی منہد م کیا جارہا ہو،حماس مکمل طور پر قابو میں ہو،مرسی نئی لبرل اقتصادی پالیسی کو نافذ کرنے میں مصروف ہو!
لیکن ہوائیں امریکہ کے خوہشات کے مخالف سمت چلنے لگیں،امریکہ اور اس کا مدد گار مرسی خطے میں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو گئے،امریکہ کی جانب سے مرسی کی حد سے زیاد حمایت نے مصر کے رائے عامہ کو ان کے خلاف کر دیا،مرسی مخالف جذبات سے سب سے پہلے اپوزیشن نے فائدہ اٹھا یا اور مصر کے سیکیولر باشندوں اور مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت کے قلوب واذہان پر ایک مختصر مدت کے لیے چھا گیا،یہی وہ طبقہ ہے جس نے صرف ایک سال قبل حزب الحریہ والعدالہ( Party Freedom and Justice)اور مرسی کو مصر کے سیاسی منظر نامے میں نمایاں کیا تھا اب اس کے خلاف ہو گیا اور اس کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ نے عوام کے اندر مرسی کی مقبولیت میں کمی کو محسوس کیا اور چند مہینے پہلے فوج کے ذریعے اس کے تختے کو الٹنے کا منصوبہ بنا یا،اپوزشن کو مکمل سول نافرمانی کے لیے تیار کیا گیا آخرکار فوج انقلاب کے ذریعے مرسی کو برطرف کیا گیا،امریکہ نے یہ اعتراف کرنے سے انکار کردیا کہ یہ فوجی انقلاب تھا،یوں امریکہ پھر مربع کے نمبر ایک پہ پہنچ گیا اور مبارک کی ظالم حکومت کے باقیات سے بغلگیر ہو گیا،اب امریکہ یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ جو کچھ ہو یہ انقلاب نہیں!
آج امریکہ کو مصری عوام کے غصے کا سامنا ہے،عالمی رائے عامہ کو جاننے کے لیے پیو سنٹر کے سروے کے مطابق مئی 2013 میں مصریوں کی صرف 16٪ نے امریکہ کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا(آج اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں کہ مثبت رائے رکھنے والوں کی تعداد کتنی ہو سکتی ہے)،ناصری سیاست دانوں نے اپنا اعتبار کھودیا،الاخوان کے حمایتی غصے میں ہیں،وہ وقت بھی دور نہیں کہ فوج بھی عوام کی نظروں سے گر جائے گی۔
اگر امریکہ کسی بھی طریقے سے مبارک کے باقیات اور نئے ناتجربہ کارٹکنوکریٹ جیسے البرادعی کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب بھی ہو گیا تو ہم یہ سوال کر سکتے ہیں کہ :''مصر کا مستقبل کیا ہو گا؟!،،کسی دور جانے کی ضرورت نہیں ان حکومتو کو دیکھنے کی ضرورت ہے جو امریکہ نے افغانستان،عراق،لبنان اور پاکستان میں تشکیل دی،سیدھی بات یہ ہے کہ امریکہ ان ممالک میں فیل ہو چکا ہے،امریکہ بڑے پیمانے پر اس کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کے سامنے بہت کمزور ہوچکا ہے،دوسرے ملکوں جیسے لیبیا،شام اور صومال میں بھی اس کی پوزیشن اچھی نہیں۔
زیادہ امکان اسی کا ہے کہ مصر کا تجربہ بھی امریکی پالیسی کی ناکامیوں میں ایک اضافہ ہو گا، مصر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے،زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ملک میں افراتفری بڑھے گی،مختصرا اب امریکہ پہلے کی طرح عظیم طاقت نہیں رہا،اب وہ بڑی تیزی سے عالم اسلام میں اپنی بالادستی اور اعتبار کھو رہا ہے،ممکن ہے کہ مصر ہی امریکہ کی کمر توڑنے کا سبب بن جائے،بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کے ساک میں برق رفتار گراوٹ کا عندیہ دے رہے ہیں، انگریزی رسالہSpectator Magazine کہا ہے کہ:"امریکی بالادستی اب اس حد تک زوال کا شکار ہے کہ اوباما نے زیادہ تر عالمی چودھراہٹ سے دستبردار ہو گیا ہے،،وقت ہی اس بات کی سچائی کو ثابت کرے گا۔
عابد مصطفی