الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ "اس کو کثرت سے یاد کیا کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے، یعنی موت'' (الترمذی۔2229)۔

بسم الله الرحمن الرحيم


تحریر: مصعب عمیر ، پاکستان
بے شک موت اس قابل ہے کہ اس کو یاد کیا جائے۔ معیارِ زندگی، مال اور صحت کے برعکس موت ایک یقینی امر ہے۔یہ اس دنیا کی عارضی زندگی سے ہمیشہ کی آخرت کی زندگی کے طرف سفر کا آغاز ہے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَـمَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَـعُ الْغُرُورِ ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے۔پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے'' (آلِ عمران: 185)۔ اس کے علاوہ موت کو دھوکہ دینا،اس کو ٹال دینا یا بچ نکلنا ناممکن ہے۔ہر ذی روح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ وقت پر مر جائے گی۔اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، "جب ان کا وہ معین وقت آ پہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 10)۔ اور اللہ سبحان وتعالیٰ نے فرمایا، إِذَا جَآءَ أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ "جب ان کا معین وقت آپہنچتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں" (یونس: 49)۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ الله كِتَـباً مُّؤَجَّلاً "بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مر سکتا، مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے'' (آلِ عمران: 145)۔
یہ موت ہے۔یہ اٹل ہے اوراس زندگی کو ختم کرنے والی ہے۔یہ ایسے وقت پر واقع ہوتی ہے جو صرف اللہ سبحان وتعالیٰ کو معلوم ہے۔ لہٰذامستقبل میں واقع ہونے والے ایک غیر اعلانیہ امر سے متعلق ایک شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ ایک ایسا امر جو ہمیں ہماری زندگی کے ہر لمحے سے دور کر دے گا! عقل مند وہ ہے جواس کے لئے ہمیشہ تیار ہے،اچھے اعمال کر کے اور برے اعمال سے بچ کے اور ہلاکت ہے اس کمزور انسان کے لئے جو اس سے افسوس کے ساتھ ملاقات کرے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا، الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ "عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو درست کیا اور موت کے بعد کی تیاری کی اور کمزور وہ ہے جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور پھر اللہ سے بے سود دعائیں کیں" (الترمذی:2383)۔ ہلاکت ہے ان کمزوروں کے لئے جو موت کو دیکھنے کے بعد توبہ کی طرف لپکیں گے۔اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَـتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّى تُبْتُ الاٌّنَ وَلاَ الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُوْلَـئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً أَلِيماً "ان کی توبہ (قبول) نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے ا ب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں،یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے'' (النساء: 18)۔ اور اللہ سبحان وتعالٰی نے فرمایا، حَتَّى إِذَا جَآءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلاَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ''یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار!مجھے واپس لوٹا دے۔کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کرنیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک'' (المؤمنون: 99-100)۔ ہلاکت ہے اس کمزور کے لئے جس کے لیے لفظ كَلاَّ استعمال کیا گیا جس کا معنی ہے: "نہیں، جو یہ کہتا ہے ہم اس کا جواب نہیں دیں گے اور اس کو قبول نہیں کریں گے"۔ لہٰذا ہم ربیع بن خثام کے متعلق سنتے ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں ایک قبر کھود رکھی تھی کہ اگر وہ اپنے دل میں سختی پاتے تو وہ اس میں داخل ہو جاتے اور اس وقت تک لیٹے رہتے جب تک اللہ چاہتا اور بار بار یہ آیات تلاوت کرتے، رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ ''اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دے کہ شاید میں اعمال ِ صالح کر سکوں جو میں نے چھوڑ دیے''۔ پھر اپنے آپ کو جواب دیتے، ''اے ربیع! تجھے واپس بھیج دیا گیا ہے لہٰذا عمل کر''۔
برزخ میں ہمارا وقت اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمیں روزِ قیامت حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جاتا۔ لہٰذا برزخ میں داخل ہونے کے بعد زندگی کی طرف واپسی نہیں، صرف احتساب کی طرف راستہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک حجاب ہے''۔ محمد بن کعب کہتے ہیں، ''البرزخ اس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے۔ وہ نہ تو اس دنیا کی طرح کھاتے پیتے لوگ ہیں نہ ہی آخرت کے لوگوں کی طرح سزا یافتہ یا جزاء یافتہ لوگ''۔ لہٰذا یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ، سزا اور جزاء کے فیصلے سے بچنا توایک طرف، کوئی عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا جب ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ روزِ حساب کب آئے گا تو ذاتی طور پر اس شخص کے لیے اس کے مرنے کے ساتھ ہی اس کے حساب کتاب کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
لہٰذا عقل مند وہ ہے جو اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے اور زندگی کے ہر لمحے میں اس کے لیے کام کرتا ہے۔ اور اللہ اس شخص سے واقف ہے جو ہم میں سب سے زیادہ عقل مند اور بہترین ہے یعنی رسول اللہﷺ کیونکہ وہ ہمیشہ موت کے لیے تیار رہتے تھے۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ سے عرض کیا، ''یا رسول اللہﷺ! آپ کے بال سلیٹی رنگت کے ہو گئے ہیں''۔ آپﷺنے فرمایا، شَيَّبَتْنِي هُودٌ وَالْوَاقِعَةُ وَالْمُرْسَلَاتُ وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَت ''میرے بالوں کی سلیٹی رنگت کی وجہ (سورۃ) ہوداور واقعہ اور مرسلات اور عم یتسا ء لون اور اذا الشمس کورت ہیں'' (الترمذی: 3219)۔ ابن عمر کے ابن نجار سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو یہ تلاوت کرتے سنا، إِنَّ لَدَيْنَآ أَنكَالاً وَجَحِيماً ''یقیناََ ہمارے ہاںسخت بیڑیاں ہیں اور سلگتی ہوئی جہنم ہے'' (المزمل: 12) اور آپﷺ یہ سن کر بے ہوش ہو گئے۔ تو صحابہ موت کو اس طرح یاد کرتے تھے۔نبیﷺ نہ صرف خود موت کو یاد کرتے تھے اور اس کے لئے تیار تھے بلکہ انہوں نے ہمیں بھی اس کو یاد کرنے اور اس کی تیاری کرنے کی تلقین کی۔اسی لئے آپﷺ نے قبروں پر جانے اور مُردوں کے لئے دعا کرنے پر زور دیا کیونکہ یہ بہترین یاد دہانی اور بہترین سرزنش ہے۔ابو زر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، زُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ ''قبروں پر جایا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دہانی ہے'' (ابن ماجہ: 1558)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ ''اس چیز کو کثرت سے یاد کرو جو تمام لذتوں کو ختم کرنے والی ہے'' (الترمذی: 2229)۔
لہٰذا آج ہم سب کو سوچنا اور غور کرنا چاہیے، زندگی کے آرام و سکون کا خاتمہ کرنے والی کے بارے میں اور تیاری کرنی چاہیے۔ ہم محنت کریں اوراللہ سبحان وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک لمحہ بھی نہ ضائع کریں۔ہم اپنی تمام ذمہ داریوں کو جاننے اور پورا کرنے کے لئے کوشش کریں۔ ہم تمام محرّمات کو جاننے اور ان سے بچنے کی کوشش کریں۔ ہم اپنی ذاتی زندگیوں اور اس امت کی اجتماعی زندگی میں اسلام کو خلافت کے طور پر استوار کرنے کی کوشش کریں جو اسلام کو نافذ کرے گی، اس کی حفاظت کرے گی اور تمام انسانیت کو اس کے نور سے منوّ کردے گی۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک