رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا - التحریم: 11
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: مصعب بن عمیر،پاکستان
صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی ہی ہیں جو انسان میں جنت کے حصول کی خواہش کو جگا سکتے ہیں اور اُسے اِس قابل کر سکتے ہیں کہ اس کی نگاہیں اس دنیاکی زندگی کی لذتوں اور آسائشوں سے آگے کی اُس دنیا کو دیکھ سکیں جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے اور جس کی لذتیں اور آسائشیں بھی کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ایسی مثال دیتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، اس کا دل اُسے پانے کی خواہش سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی آنکھیں اُسے دیکھنے کی تمنا میں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں ، وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لّلَّذِينَ امَنُواْ امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبّ ابْنِ لِى عِندَكَ بَيْتاً فِى الْجَنَّةِ وَنَجّنِى مِن فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجّنِى مِنَ الْقَوْمِ الظَّـلِمِينَ "اور اللہ نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال فرمائی جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں مکان بنا اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچا اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے" (التحریم:11)۔
سبحانہ اللہ کس قدر طاقتور مثال ہے فرعون کی بیوی، حضرت آسیہ بنت مزاحم کی! ان کی شادی اس گھر میں ہوئی تھی جہاں اس قدردولت کی فراوانی اور زبردست طاقت تھی کہ شاید ہی کوئی ایسی دولت اور طاقت حاصل کرسکے اگر وہ اپنی پوری زندگی بھی اس کے حصول میں خرچ کردے۔ وہ ایک پیار اور خیال رکھنے والی ماں تھیں اور اپنی اولاد سے بہت محبت کرتی تھیں لیکن انھیں اپنی اولاد کی جدائی کا غم اٹھانا پڑا۔ لیکن اپنے ایمان کی خاطر انھوں نے اپنی نگاہیں اس جانب مرکوز کردیں جو اس بات کی زیادہ حقدار تھی یعنی کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جنت۔ قتادہ فرماتے ہیں کہ، "زمین پر بسنے والے لوگوں میں فرعون سب سے زیادہ جابر اور ایمان کی دولت سے محروم تھا۔ اللہ کی قسم! اس کی بیوی اس کے کفر سے متاثر نہیں ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے اپنے رب کی طابعدار ی کی تھی"۔ یہ اللہ کی اس جنت کی جانب نظریں مرکوز کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایک نازک اور کمزور عورت نے لوہے جیسے مضبوط ارادے کا مظاہرہ کیا۔ یہ ارادہ اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں گزرے کئی جابر اسے توڑ نہ سکے! ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ سیلمان نے کہا کہ "فرعون کی بیوی پر سورج کی تپش میں تشدد کیا گیا اور جب فرعون اپنے تشدد کے سلسلے کو روکتا تو فرشتے اپنے پروں سے ان پر سایا کردیتے۔ انھیں جنت میں ان کا گھر دِکھایا گیا"۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ القاسم بن ابی بازح نے کہا کہ "فرعون کی بیوی کہا کرتی تھی، 'کون باقی رہا'۔ جب انھیں بتایا جاتا موسٰی اور ہارون تو وہ فرماتیں،'میں موسٰی اور ہارون کے رب پر ایمان رکھتی ہوں' "۔
یہی اُس جنت کے حصول کی شدید خواہش تھی جس نے انھیں جابر اور اس کے جبر کے سامنے ثابت قدم رکھا اور اللہ سبحانہ و تعالٰی ان سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھیں اُس موت سے محفوظ رکھا جو جابر انھیں دینا چاہتا تھا کہ اس کے مارنے سے قبل ہی ان کی روح اللہ سبحانہ و تعالٰی کے پاس پہنچ گئی۔ فرعون نے اپنے ساتھی ان کی پاس بھیجے اور ان سے کہا کہ سب سے بڑا پتھر تلاش کرنا اور اگر وہ اپنے ایمان پر اصرار کرے تو وہ پتھر اُس کے سر پر مار دینا ، ورنہ وہ میری بیوی ہے۔ جب فرعون کے ساتھی بی بی آسیہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے آسمان کی جانب دیکھا اور جنت میں موجود اپنے گھر کو دیکھا۔ انھوں نے اپنے ایمان پر اصرار کیا اور پھر اللہ کے حکم سے ان کی روح قبض کرلی گئی۔ آخر میں وہ پتھر ان کے بے جان جسم پر پھینکا گیا۔ یہ مثال ہر اس مرد اور عورت کے لئے ہے جو اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے رب کی رضا کے لئے حق پر اور جابر کے سامنے ڈٹا رہتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس مقدس روح کے متعلق فرمایا، أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ: خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْن "جنت کی خواتین میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بیوی ہیں"۔
موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے یہ ایک انتہائی طاقتور مثال ہے جو انھیں اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ آج کے دور کے جابروں، بشار، کریموف اور ان جیسوں کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہو سکیں جو مسلمانوں پر کفر نافذ کرتے ہیں۔ ہمیں کسی صورت اس عمل سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے کوئی جان سے مارنے کی دھمکیاں دے یا ہمیں جان سے مارنے کی کوشش کرے۔ اس دنیا کی زندگی اور اس میں پیش آنے والی تکالیف کا جنت کی ہمیشہ ہمیشہ کی راحت سے کیا مقابلہ ہے؟ إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ وَأَخْبَتُواْ إِلَى رَبِّهِمْ أُوْلَـئِكَ أَصْحَـبُ الجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ "یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے کام بھی نیک کیے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں" (ھود: 23)۔ ہمیں کسی صورت جبر کو ختم کرنے کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہے زندانوں میں چلے جانے کی وجہ سے یا جابروں کے غنڈوں سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے گھر ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے اور اس کے نتیجے میں ان لوگوں سے ہی کیوں نہ جدا ہوجائیں جن سے ہم محبت کرتے ہیں۔ ہاں جب ہم اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور بوڑھے والدین سے جدا ہوتے ہیں تو دل غم سے بوجھل ہوجاتا ہے لیکن ایسی کوئی بھی جدائی بہت مختصر ہوتی ہے اگر اس کا تقابلہ ہمیشہ ہمیشہ کی جنت کی زندگی سے کیا جائے جہاں ہمیں پھر اپنے پیاروں سے ملا دیا جائے گا اور پھر کوئی کبھی بھی جدا نہ کرسکے گا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، جَنَّـتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِهِمْ وَأَزْوَجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالمَلَـئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّن كُلِّ بَابٍ "ہمیشہ رہنے کے باغات، جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ، دادوں اور بیویوں اور اولادوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے" (الرعد: 23)۔ لہٰذا اللہ انھیں ان کے پیاروں کے ساتھ اکٹھا کرے گا جو ان کے باپوں ، خاندان اور اولادوں میں سے ہونگے اور نیکو کار بھی ہونگے اور اس بات کے حقدار ہونگے کی وہ جنت میں داخل ہوں تا کہ انھیں دیکھ کر ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے۔ جدائی کے بعد کیا ہی خوشیوں والا ملاپ ہوگا! ادْخُلُواْ الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَجُكُمْ تُحْبَرُونَ - يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَـفٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَبٍ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الاٌّنْفُسُ وَتَلَذُّ الاٌّعْيُنُ وَأَنتُمْ فِيهَا خَـلِدُونَ - وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ - لَكُمْ فِيهَا فَـكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ "تم اور تمھاری بیویاں ہشاش بشاش (راضی خوشی) جنت میں چلے جاؤ۔ ان کے چاروں طرف سے سونے کی رکابیاں اور سونے کے گلاسوں کا دور چلایا جائے گا، ان کے جی جس چیز کی خواہش کریں اور جس سے ان کی آنکھیں لذت پائیں، سب وہاں ہوگا اور تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ یہی وہ جنت ہے کہ تم اپنے اعمال کے بدلے اس کے وارث بنائے گئے ہو۔ یہاں تمھارے لئے بکثرت میوے ہیں جنہیں تم کھاتے رہو گے " (الزخرف: 70-73)۔ وہ لوگ جنہیں ان کے پیاروں سے جدا کردیا گیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ صبر کریں اور اپنی اس صورتحال پر افسوس نہ کریں اور نہ ہی غمگین ہوں۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی جنت میں ان لوگوں کے درجات کو بھی بلند فرمائیں گے جن کے درجات بلند نہیں ہوں گے اور انہیں بلند درجوں والوں تک بلند کریں گے اور ایسا کرنے سے بلند درجوں والوں کے درجات کم نہ ہوں گے اور یہ اللہ کی خاص مہربانی ہو گی۔ عبدل اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ "ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ: اے اللہ کے پیغمبرﷺ! اس آدمی کے متعلق آپﷺ کیا فرماتے ہیں جو لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجات کو نہیں پہنچ پاتا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: آدمی ان کے ساتھ ہو گا جن سے وہ پیار کرتا ہے" (بخاری: 5703)۔ ال بزر نے حسن اسناد کے ساتھ عبدل اللہ بن عمر سے روایت کی کہ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: مَنْ أَحَبَّ رَجُلا لِلَّهِ ، فَقَالَ إِنِّي أُحِبُّكَ لِلَّهِ ، فَدَخَلا الْجَنَّةَ ، فَكَانَ الَّذِي أَحَبَّ أَرْفَعُ مَنْزِلَةً مِنَ الآخَرِ ، الْحَقُّ بِالَّذِي أَحَبَّ لِلَّهِ "جو شخص بھی اللہ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور کہتا ہے: میں نے تم سے اللہ کے واسطے محبت کی، اور پھر انہیں جنت میں داخل کردیا گیا، اور ان میں ایک کا درجہ دوسرے سے بلند تھا لیکن دوسرے کو پہلے والے کے ساتھ ملا دیا جائے گا" (ال بزر: 2439)۔
تو ہمیں جابروں کے سامنے ثابت قدم رہنا ہے ، مسلمانوں کو مصائب سے بچانا ہے اور بلند درجات کوحاصل کرنا ہے کہ یہی جنت کا راستہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا، هَلْ تَدْرُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ؟ "کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کی مخلوقات میں سے کون سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا؟ أوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ خَلْقِ اللهِ الْفُقَرَاءُ الْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ تُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ، لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً، فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلَائِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلَائِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ، وَخِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِي هؤُلَاءِ وَنُسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَتُسَدُّ بِهِمُ الثُّغُورُ، وَتُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، وَيَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ لَا يَسْتَطِيعُ لَهَا قَضَاءً قَالَ : فَتَأْتِيهِمُ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ ذَلِكَ فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَاب "اللہ کی مخلوقات میں سے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونےوا لے غریب مہاجرین ہوں گے (جنھوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی) جن کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہو گی اور بیشتر مشکلات سے بچاؤ ہوگا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ خود اپنی اس ضرورت کو پورا نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ اپنے فرشتوں میں سے جن کو چاہے گا کہے گا کہ ان کے پاس جاؤ ان کا استقبال کرو اور انہیں سلام کہو۔ فرشتے کہیں گے کہ ہم آپ کی جنت میں رہنے والے ہیں اور آپ کی تخلیقات میں سے سب سے بہترین ہیں، تو کیا آپ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جائیں، ان کا استقبال کریں اور انہیں سلام کہیں۔ اللہ فرمائیں گے، یہ میرے بندے ہیں جنہوں نے میری عبادت کی اور کسی شخص یا چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا۔ ان کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہوئی اور مشکلات کا منہ موڑ دیا گیا۔ ان میں سے ایک اس حال میں مرا کہ اس کی ضرورت اس کے دل میں ہی رہ گئی کیونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا تھا"۔
جابروں کو ہٹانے اور جنت کے حصول کی راہ میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے ہم نے کسی صورت نہ تو گھبرانا ہے اور نہ ہی اس پر افسوس کا اظہار کرنا ہے۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ َالَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلاَ إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ "کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے آگلے لوگوں پر آئے تھے، انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ کے ایمان لانے والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے" (البقرۃ: 214)۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَـهَدُواْ مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّـبِرِينَ "کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اب تک اللہ تعالٰی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں" (آل عمران: 143)۔ ہمیں اس زمین پر اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے اور یہ جدوجہد ایسی شاندار ہونی چاہیے کہ جابر خوفزدہ ہوجائیں، ان کا اقتدار لڑکھڑائے اور گر جائے اور ان کا جبر ہمارے ایمان کی مضبوطی اور سختی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے!