آزادی رائے، لبرل دنیا کے لئے بالادستی کا ایک ہتھیارہے
بسم الله الرحمن الرحيم
تحریر: عثمان بدر (آسٹریلیا میں حزب التحریر کے میڈیا آفس کے نمائندے)
میں نے حال ہی میں ایک بحث میں حصہ لیا، جس کا عنوان تھا ''خدا اور اس کے پیغمبروں کو توہین سے تحفظ دینا چاہیے''۔ لیکن میں نے یہ اعتراض اٹھا یا کہ یہ سوال لبرل ازم کی سوچ پر مبنی ہے اور اس فہم کے تحت ہے کہ آزادی رائے ایک نقطہ آغاز ہے اور اس پر جو بحث باقی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی حدود کیا ہیں۔
میں اس مقدمے کو پوری طرح سے رد کرتا ہوں۔ آزادی رائے کا تصور لبرل تصور کے تحت آتا ہے نہ کہ یہ کوئی غیر جانبدار عالم گیر سوچ ہے۔تو لبرل لوگوں سے میں ایک سیدھی بات کرتا ہوں، بہت ہوگیا خود کو خوش کرنا، آپ ایک صحیح مؤقف کی نمائندگی نہیں کرتے۔
کروڑوں لوگ دنیا میں لبرل نہیں ہیں۔ اس تصور کو ایک عالم گیر تصور کے طور پر پیش کرنا چھوڑ دو۔ اس دکھاوے کو چھوڑ کر ایک صاف اور منصفانہ بحث کی طرف آؤ۔دوسروں کی عزت کرنا انسانی شرافت کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ یہ ہے بنیادی نقطہ نہ کہ آزادی رائے۔
دوسروں کی توہین کرنا ایسے ہی ہے جیسے دوسروں کے احساسات کی پروا نہ کرنا، گستاخی کرنا اور حقارت کا برتاؤ کرنا۔ اس روئیے کو صحیح ثابت کرنے کا بوجھ ان لوگوں پر ہے جو ایسے برتاؤ کی اجازت چاہتے ہیں کہ سیاہ کاری اور انتہا درجے کی بد اخلاقی جائز ہونی چاہیے۔
کیا مکمل آزادی رائے کا کوئی وجود ہے؟
آزادی رائے کا تصور اپنے نظریے کے لحاظ سے ناقص ہے اور اپنے نفاذ کے لحاظ سے اسے سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس کا نفاذ ناممکن ہے اور تاریخ میں کبھی بھی کہیں بھی یہ نافذ نہیں ہوا یہاں تک کہ آج کے لبرل معاشروں میں بھی نافذ نہیں ہوسکا۔
مثال کے طور پر جب حال ہی ایک فلم جس میں رسول کی توہین کی گئی تھی تو اس عمل کے دفاع میں وائٹ ہاؤس نے کہا "اس ملک میں آزادی رائے کو ہم ختم نہیں کرسکتے اور نہ کبھی ختم کریں گے ''۔ پھر سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ '' ہمارے ملک میں آزادی رائے کی روایت ایک تاریخی رسم ہے۔ہم شہریوں کو رائے کا اظہار کرنے سے نہیں روکتے اس کے باوجود کہ وہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں''۔ ان جذبات کا اظہار یورپ اور آسٹریلیا کے رہنماؤں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ بیانات بالکل درست نہیں ہیں۔ آزادی رائے بغیر کسی روک ٹوک کے قطعی طور پر وجود نہیں رکھتی ۔ توہین کرنے کی کوئی مکمل آزادی نہیں ہے۔مغربی لبرل یورپ میں ہم توہین کے خلاف قوانین ، بغاوت انگیز تقریر کے قوانین، پیشہ ور معیاراور سیاسی اور نامور لوگوں کے بارے میں اور ان کے بیانات کے حوالے سے صحافتی معیار دیکھتے ہیں۔ جرمنی میں ہولوکاسٹ کا انکار ممنوع ہے۔ برطانیہ میں پبلک آرڈر ایکٹ میں دھمکی، گالی اور توہین آمیز الفاظ ایک جرم ہے۔آسٹریلیا میں کامن ویلتھ کریمنل کوڈ کے مطابق اگر کوئی شخص ڈاک یا اس جیسی کسی بھی سہولت کو اس طرح سے استعمال کرتا ہے کہ کوئی بھی مناسب شخص اسے توہین سمجھے تو یہ عمل جرم تصور کیا جائے گا۔
جہاں تک عملی مثالوں کی بات ہے تو اس عمل میں ہمیں کئی لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جن کو زبان درازی کی وجہ سے سزا دی گئی۔ برطانیہ میں اظہر احمد کو 2012 میں اس لئے مجرم قرار دیا گیا کیونکہ اس نے اس نےصریحاً توہین آمیز پیغامات بھیجے تھے۔ اظہر احمد نے فیس بک پر افغانستان میں قتل ہونے والے ایک برطانوی سپاہی کے حوالے سے یہ کہا تھا کہ " سب سپاہوں کو مرنا چاہیے اور جہنم میں جانا چاہیے"۔ ڈسٹرکٹ جج جین گوڈون جب اسے سزا دینے کے نتیجے پر پہنچا تو اس نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا کہ اصل امتحان یہ تھا کہ جو کچھ لکھا گیا کیا وہ ہمارے معاشرے کی قابل برداشت حد سے باہر ہے۔ آسٹریلیا میں ایک مسلمان آدمی کی جانب سے مارے گئے سپاہیوں کے خاندانوں کو بھیجے گئے خطوط کو توہین آمیز اور غلط خیال کیا گیا اور اسے اوپر بیان کیےگئے کریمنل کوڈ قانون کے مطابق مجرم قرار دیا گیا ۔ یہ ان بہت ساری مثالوں میں سے صرف دو مثالیں ہیں۔
آزادی رائے ایک سیاسی ہتھیار
آزادی رائے کا اصول جس کے بارے میں نے بحث کی، اسے مخصوص معاملات میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب مسلمانوں کی مقدس شخصیات کی توہین کی جاتی ہےتو ہمیں آزادی رائے کے متعلق سمجھایا جاتا ہے اور یہ بتا یا جاتا ہے کہ یہ معاملہ آزادی رائے کا ہے۔ لیکن جب مسلمان اور دوسرے توہین کریں تو انھیں قانون کی طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون یہ فیصلہ کرے گا کہ آزادی رائے کب، کہاں اور کیسے لاگو ہوتی ہے؟ اصل سوال پھر آزادی کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس بارے میں ہے کہ طاقت کس حد تک جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ طاقت کےمتعلق ہے جسے ہر جگہ استعمال کرنے اور نافذ کرنے کے لئے آزادی کے نعرے کو استعمال کیا جاتا ہے۔
بہت زیادہ لبرل یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان سارے قوانین اور واقعات سے اتفاق نہیں کرتے اور سب کے لئے مکمل اور قطعی آزادی رائے کے قائل ہیں لیکن کیا یہ مؤقف معاشرے کے لیے ممد ہو گا؟ کیا ہم ایسی زبان کو قبول کریں گے جب سفیدفام سیاہ فام کے لیے "n word'' استعمال کریں؟ یا کوئی ایک آدمی ایک پرہجوم تھیٹر میں یہ چلائے کہ ''آگ!'' یا کوئی شاگر اپنے استاد کی یا کوئی اولاد اپنے والدین کی بے عزتی کرے؟ ہر شخص اپنے بچوں کو دوسروں کی عزت کرنا سکھاتا ہے نہ کہ بے عزتی کرنا۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ توہین محض توہین، نفرت اور تلخی کو جنم دیتی ہے۔ کیا اس قسم کا معاشرہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لیے چاہتے ہیں؟
کچھ لوگ شاید بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب میں بھی آزادی رائے کو ایک انتہائی بنیادی قدر کے طور پر رکھا گیا تا کہ کچھ مخصوص معاملات کو انجام دیا جاسکے جیسا کہ نت نئے خیالات پیش ہوں، سچائی کو جاننے کے لئے اور حکومتوں کا احتساب کرنے کے لئے۔ کیا ان عالی ظرف مقاصد میں سے کسی ایک کے لئے بھی - کہ جن کو اسلام بھی برقرار رکھتا ہے - بے عزت کرنے یا توہین کرنے کی آزادی کی ضرورت ہے؟ اور کیا توہین کرنا ، حقیقت میں، انہی مقاصد کے حصول کو شکست نہیں دیتا؟ دوسروں کے عقیدے کی توہین کرنا انہیں اپنے مؤقف کے حوالے سےسوچنے سمجھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔ بلکہ یہ انہیں مورچہ بند ہونے، دفاعی طرز عمل اختیار کرنے اور بدلے کے لئے تیار رہنے والا بنا دیتا ہے - یہی انسانی فطرت ہے۔
سیکولر لبرل ازم
لیکن ہمیں سچ بولنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے کی توہین کرنے کی آزادی پر بحث اس لئے ہو رہی ہے کیونکہ سیکولر لبرل ازم مشرق و مغرب ، ہر جگہ بالادست ہے اور یہ بالادستی اس کی اقدار کی مضبوطی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی افواج کی مضبوطی کی وجہ سے ہے۔ مسلم دنیا نے سیکولر لبرل ازم کا مقابلہ کیا اور کر رہی ہے۔ لیکن عیسائیت اور یہودیت، جو سیکولرازم کی طاقت کے سامنے شکست کھا گئی، کے برعکس اسلام نے شکست تسلیم نہیں کی۔ اسلامی سر زمینوں کو تقسیم کردیا گیا، انہیں اپنی نو آبادی (colony) بنایا گیا، ان پر قبضہ کیا گیا اور ان کا استحصال کیا گیا۔ اسلامی ریاست، خلافت کو اگرچہ ختم کردیا گیا لیکن اسلامی فکرباقی رہی۔ یہ توہین اسی لیے کی جاتی ہےکہ اس مزاحمت کو توڑدیا جائے تاکہ سیکولر لبرل ازم کو نافذ کردیا جائے اور ہمیشہ کے لئے اپنی فتح کو مستحکم کردیا جائے۔
مغرب بشمول آسٹریلیا نے مصر کے وحشی آمر حسنی مبارک کی حمائت کی۔کیا مغرب ایسے بلند اخلاقی مقام پر کھڑا ہے کہ وہ دوسروں کو تشدد یا اقدار کے حوالے سےنصیحت کرے؟ یہ "آزاد دنیا'' باقی ساری دنیا پر اپنی فوجی، سیاسی، اور علمی تشدد کی بنیاد پر غالب ہونا چاہتی ہے۔ مشتشرقین یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان متشدد، زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے اور اپنے معاملات کو خود سنبھالنے سے قاصر ہیں لہٰذا انھوں نے حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ جیسے آمروں کی حمائت کی، جنگوں کے ذریعے پورے کے پورے ملکوں کو تباہ کیا اور اس مقصد کے لئے بغیر انسانی پائلٹ کے اڑنے والے ڈرون طیاروں کی مدد سے یمن اور پاکستان میں بلا تفریق لوگوں کو قتل کیا۔ یہ ہے وہ وسیع اشتعال انگیز سیاق وسباق ہے جس پر مسلمانوں کا توہین کے خلاف ردِ عمل آتا ہے۔ یہ ہے وہ مقام جہاں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
جب بات آتی ہے تنقید کی جو توہین سے بالکل فرق چیز ہے، تو میں کہوں گا کہ اسے سامنے لے آؤ۔ کوئی بھی ایسا قدم یا کوشش جو ایک اہم بحث کا گلہ گھونٹ دے، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ کسی بھی سوچ یا عقیدے پر تنقید کی جاسکتی ہے۔ یہ حلال ہے۔ لیکن لوگوں کی یا ان کے عقیدے کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ تنقید کرو اسلام پر جتنا چا ہو۔ ایک مہذب طریقے سے اسلام کے متعلق لکھو کہ کیوں یہ حق نہیں ہے یا کیوں پیغمبر، پیغمبر نہیں ہیں۔ اس قسم کی کتابیں مغرب میں بھری پڑی ہیں اور کبھی بھی ان کتابوں کے نتیجے میں فسادات نہیں ہوتے لیکن مذاق اڑانا ، توہین کرنا ، غصہ دلانا یہ تنقید سے الگ ایک بات ہے اور ناقابل قبول ہے۔
ہر کوئی ایسی حدود رکھتا ہے جو وہ کبھی پار نہیں کرتا۔ دنیا کی ہر تہذیب اور ثقافت چند معاملات، کہ جنہیں وہ عزیز رکھتی ہے، کے حوالے سےحساس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پرآسٹریلیا کی تہذیب میں حضرت عیسی علیہ اسلام پر تنقید کرنا کوئی برائی نہ ہو لیکن ANZAC پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ جدیدیت نے تقدیس کا تصور توختم نہیں کیا ، فقط اس نے اسے مذہب سے دنیا پر منتقل کرلیا ہے۔
سوچنے سمجھنے والے اور اپنی عزت کرنے والے لوگوں کے لیے دوسری تہذیبوں اور ان کے حامل افراد سے رابطہ کرنے کے لئے توہین کا طریقہ کار نا قابل قبول ہے۔ یہ خود ساختہ دانشوروں کا طریقہ کار ہے جن کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں اور نا ہی ان کا مقصد دوسروں کو سمجھنا ہے بلکہ ان کا مقصد صرف اپنے عدم تحفظ کی دوسروں کے سامنےتشہیر کرنا ہوتا ہے۔ توہین معاشرے کو کچھ نہیں دیتی سوائے نفرت کے۔
اس لئے تمام عقائد، مقدس شخصیّات اور کتابوں کو، بشمول اس کے کہ جو دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں موجود لوگوں کے لئے انتہائی مقدس ہے یعنی اللہ اور اس کے رسو لوں علیہم السلام کو، توہین سے تحفظ دینا چاہیے۔ ہماری موجودہ صورتحال میں یہ ایسے ہونا چاہیے کہ اقدار کو بلند ثابت کیا جائے نہ کہ قوانین کے نفاذ کی قوت کے ذریعے معاشرے کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ آپ اخلاق کو پابند نہیں کر سکتے۔ آپ لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ عزت کریں۔ یہ سب انسانی حالت کو بلند کرنے سے ہوگا، انسانی تہذیب کی ان مقدس اور بنیادی ترین اقدار کے احیاء سے ہو گا جنہیں سیکولر لبرل ازم نے ختم کردیا ہے۔