الأحد، 22 محرّم 1446| 2024/07/28
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

خبر اور تبصرہ پاکستان صرف خلافت کے زیر سایہ ہی بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارا پاسکتا ہے

بسم الله الرحمن الرحيم

 

خبر: 13 مارچ 2014 کو ، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ، سرتاج عزیز نے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مودی کے وزیر اعظم بن جانے سے بھارت کے ساتھ تعلقات میں موجود کھچاؤ کو ختم کرنے کے حوالے سے ان کی کوششوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی۔ جناب واجپائی کا تعلق بی۔جے۔پی سے تھا"۔
تبصرہ: وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی نواز شریف نے بہت واضح اشارے دے دیے تھے کہ وہ ایسے تمام اقدامات کریں گے جس کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جاسکے۔ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد اس کی حکومت نے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں موجود رکاوٹوں کو ہٹانے اور اسے تجارت کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کے عمل کو تیز کردیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی حکومت نے بھارت سے 500 سے 1000 میگاواٹ بجلی کی درآمد کے لئے بھی بات چیت کا آغاز کر دیا جبکہ بھارت بذات خود بجلی کے بحران کا شکار ہے۔
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی بھارت کا رویہ پاکستان کے ساتھ جارحانہ رہا ہے اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ سرد جنگ کے اختتام تک پاکستان نے بھی اس کی جارحیت کا دفاع ، معیشت اور دوسرے میدانوں میں منہ توڑ جواب دیا۔ سرد جنگ کے دوران اس خطے میں سوویت روس کے اثرو رسوخ کو روکنے کے لئے پاکستان امریکہ کا اہم ترین اتحادی تھاجبکہ بھارت سب سے زیادہ سوویت اسلحہ حاصل کرنے والا ملک تھا اور اس نے نام نہاد غیر جانبدارانہ پوزیشن اختیار کررکھی تھی جو کہ اس کی اصل پوزیشن کو چھپانے کے لئے ایک آڑ تھی کیونکہ درحقیقت کانگریس پارٹی کی وجہ سے برطانیہ سے اس کے مضبوط تعلقات تھے اور بھارت بین الاقوامی امور میں برطانوی موقف کے مطابق پوزیشن اختیار کرتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور کشمیر کو بھارت کے خلاف ایک ڈنڈے کے طور پر استعمال کیا تا کہ بھارت کو برطانوی اثرو نفوذ سے نکال کر اپنے زیر اثر لے آئے۔ لیکن سرد جنگ اور سوویت روس کے خاتمے کے بعد امریکہ نے اپنی ڈنڈے والی حکمت عملی تبدیلی کی اور اس کی جگہ بھارت کو مختلف مراعات کے ذریعے اپنے زیر زثر لانے کی کوشش کرنے لگا۔ بل کلنٹن کے دورِ حکومت کے دوران امریکہ نے کشمیر کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرلیا اور اسے متنازعہ علاقہ اور بین الاقوامی مسئلے کی جگہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک تنازعہ قرار دے دیا اور اس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرارداد کے نفاذ کی جگہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دینے لگا۔
تو جیسے ہی امریکہ نے بھارت کے حوالے سے اپنی خفیہ جارحیت کی حکمت عملی تبدیل کی اور کھل کر اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے فروغ کے لئے کام کرنے لگا، تو پاکستان میں موجود اس کے ایجنٹوں نے بھی پاکستان کی بھارت کے خلاف مزاحمت کی پالیسی کو تبدیل کرلیا اور اس کی جگہ وہ بھارت کو امریکی اثرو رسوخ کے زیر اثر لانے لئے ایک چارے کا کردار ادا کرنے لگا۔ 2004 سے قائم کانگریس کی حکومت کی وجہ سے امریکہ اپنی اس حکمت عملی پر زیادہ تیزی سے کام نہیں کرسکا جس قدر کہ وہ چاہتا تھا۔ لیکن اب چونکہ اس سال اپریل میں بھارت میں انتخابات ہونے جارہے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ بی۔جے۔پی، گجرات کے قصائی، مودی کی قیادت میں حکومت بنالے گی، تو امریکہ کو اس بات کی امید ہے کہ وہ بھارت کو اپنے زیر اثر لے آئے گا کیونکہ بی۔جے۔پی امریکی حمائت یافتہ جماعت ہے۔ اور بالآخر امریکہ اس بات کی امید رکھتا ہے کہ وہ ایسے علاقائی بلاک کو بھارت کی قیادت میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس کے ذریعے وہ چین کے گرد اپنا گھیرا تنگ کرسکے گا اور ایشیا پیسیفک میں اس کے اثرو رسوخ کو محدود کرسکے گا۔
لہٰذا سرتاج عزیز کا یہ بیان حیران کن نہیں کہ پچھلی بار جب ہمارے تعلقات میں ایک بڑی مثبت تبدیلی آئی تھی تو اس وقت بھی بی۔جے۔پی کی حکومت تھی بلکہ یہ بیان یہ ثابت کرتا ہے کہ سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار بڑی بے تابی سے بی۔جے۔پی کی جیت کا انتظار کررہے ہیں تا کہ وہ امریکی مفاد کی خاطر بھارت کو امریکہ کی گود میں ڈالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ انھوں نے پہلے ہی اس حوالے سے بہت کام کیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے لئے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھے جانے کی پالیسی تبدیل کی جائے۔ اب سیاسی و فوجی قیادت میں موجود غدار اس بات کو ثابت کرنے پر پوری قوت صَرف کررہے ہیں کہ اس خطے میں معاشی ترقی کے لئے پاکستان اور بھارت کو اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہیے خصوصاً مسئلہ کشمیر کو، اور انھیں مضبوط معاشی تعلقات قائم کرنے چاہیے۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 67 سال سے امریکی مفادات کے مطابق عمل کرنے کے باوجود پاکستان کی معیشت نہ تو مضبوط ہوسکی اور نہ ہی خود انحصاری کی منزل کو پاسکی۔ اس کے برعکس امریکہ نے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کی معیشت کا استحصال کیا اور یہ عمل اب پہلے سے بھی زیادہ تیز تر ہوچکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی معیشت کو بھارت کے ساتھ جوڑنے سے بھی کوئی خوشحالی کی لہر نہیں آئے گی بلکہ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھارت کی خواہشات کے تابع ہوجائے گی۔ لہٰذا پاکستان کو ایک چارے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، 180 ملین آبادی کی مارکیٹ جو امریکہ بھارت کو پیش کررہا ہے تا کہ اسے اپنے اثرو رسوخ کے تابع لاسکے۔
صرف خلافت ہی پاکستان کو بھارت کے لئے امریکی چارے کے کردار سے چھٹکارادلا سکتی ہے۔ اسلام کی بنیاد پر ایک آزاد خارجہ پالیسی کے نتیجے میں یہ مسلم علاقے ایک بار پھر خلافت کے زیر سایہ پوری قوت سے اٹھیں گے کیونکہ یہ پالیسی دشمن کے ساتھ دشمن جیسا ہی سلوک کرتی ہے اور اسلام کی بالادستی کو قائم کرتی ہے۔ جہاں تک کشمیر اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کا تعلق ہے تواسلام ہم پر یہ لازم کرتا ہے کہ اسلامی سرزمینوں کو دشمن سے واپس حاصل کیا جائے چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے یا طویل عرصے تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے لیے لکھا گیا
شہزاد شیخ
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک