خبر اور تبصرہ فوج اور حکومت کے درمیان خفیہ رسہ کشی
بسم الله الرحمن الرحيم
خبر:
پاکستان میں جاری سیاسی بحرا ن اس وقت سے طول پکڑتا جا رہا ہے جب گزشتہ ہفتے کے دن یعنی 23 اگست 2014 کو حکومتی نمائندوں اور تحریک انصاف کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور کسی پیش رفت کے بغیر اختتام کو پہنچا۔ تحریک انصاف کے راہنما شاہ محمود قریشی نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو 30 دن کے لیے استعفی دینا چاہیے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات ہو سکیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی برطرفی کا مطالبہ کیا اور اپنے حمایتیوں سے کہا کہ اس مطالبے کے پورا ہو نے تک ملک کے طول و عرض میں دھرنے جاری رہیں گے۔
تبصرہ:
1 ۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وہ اسلامی ممالک جن میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل ہیں جو عرب بہارکا شکار ہوئے اب تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے۔ اسی طرح بعض تجزیہ نگار یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ممالک، جہاں یہ بہار نہیں پہنچی، محفوظ ہیں اور وہاں کے رہنے والے اپنے حکمرانوں کے ساتھ خوش و خرم رہ رہے ہیں جو اگر چہ کسی بھی طرح اپنے ان ہم عصر حکمرانوں سے کم ظالم نہیں جو عرب بہار کا چکار بنے تھے۔ تا ہم یہ دونوں قسم کے تجزیہ نگار غلطی پر ہیں۔ بہت سے ممالک میں اگر چہ ہنگامے نہیں پھوٹے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے لوگ اپنی حکومتوں اور نظام سے راضی ہیں۔ حالات کسی بھی ایسی جماعت یا عوامی رہنما کے لیے بالکل تیار ہیں جو ان حکمرانوں کو برطرف کرنے میں عوام کی قیادت کرے، خواہ وہ لیڈر امت کی اسلامی شناخت کا مظہر نہ ہو اور نہ ہی ان کی اس خواہش کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے احکامات نافذ کیے جائیں جیسا کہ عمران خان اور طاہر القادری۔ یہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے عوام بھی خود پر مسلط نااہل حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے اسی قدر بے چین ہیں جس قدر کہ عرب بہار کے ممالک میں موجود ان کے مسلمان بھائی۔
2 ۔ پاکستانی عسکری قیادت میں موجود غداروں اور ان کے پشت بان امریکہ نے عوام اور افواج میں موجود ان جذبات سے فائدہ اٹھانا چاہا کہ لوگوں کی توجہ وزیرستان کے مجرمانہ آپریشن سے ہٹا دی جائے جس کا مقصد افغانستان پر امریکی قبضے کو مستحکم کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام خائن سیاسی اور عسکری قیادت کے اختلافات کی بحث میں مشغول ہو جائیں جو اپنے آقا امریکہ کی خدمت پر متفق ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت وزیرستان آپریشن کے بارے میں متفق نہیں ہے۔ درحقیقت دونوں کے اپنے سیاسی زرائع ہیں اور وہ دونوں انہیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا عسکری قیادت میں موجود غداروں نے نواز حکومت اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان جذبات سے فائدہ اٹھایا تاکہ وہ شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کریں جس کو عوام اور فوج کا ایک بڑا حصہ مسترد کرتے ہیں، خصوصا درمیانی رینک کے افسران اور ان سے نیچے والے افسران اور جوان اور لڑنے والے سپاہی۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت میں موجود غدار یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جیسے ان کے تو ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور صورتحال کی ذمہ داری نواز شریف پر ڈالی جائے تاکہ اس آپریشن کے خلاف فوج میں موجود غصے کا رخ ان کی جانب سے نواز شریف کی جانب مڑ جائے۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے تو وہ اپنے امریکی آقا کا شکر گزار ہے کہ اس نے اسے تاریخ کے کوڑے دان سے نکال کر ایک بار پھر اقتدار دلوادیا ہے اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
3 ۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی جماعتوں کی پشت پناہی کی تاکہ حکومت کے خلاف عوام اور فوج میں موجود لوگوں کے جذبات کو استعمال کیا جائے تا کہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے اور اپنے خلاف موجود غصے کا رخ حکومت کی جانب پھیر دیا جائے۔ فوجی قیادت میں موجود غدار فوج کے سامنےایسا ظاہر کررہے ہیں کہ حکومت نے تحریک طالبان سے مذاکرات پر اصرار کیا جبکہ عسکری قیادت میں موجود غدار فوجی آپریشن شروع کرنا چاہتے تھے۔ اگرچہ نواز شریف نے انتہائی نازک موقع پر اس آپریشن کے حق میں اپنی حمائت فراہم کی لیکن اس کے ساتھ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے اس جانب بھی افواج کی توجہ مبذول کروائی کہ حکومت سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو ڈرا دھمکا رہی ہے اور اس کے خلاف مقدمہ چلا رہی ہےاور خاص طور پر وزیر دفاع خواجہ آصف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عسکری قیادت میں موجود غداروں نے خاص طور پر حکومت کی بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پالیسی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ وہ سارے اسباب ہیں جن کی وجہ سے فوجی قیادت میں موجود غداروں نے عمران خان اور طاہر القادری اور ان کی پارٹیوں کے ذریعے حکومت کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیاہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ حکومت سبق حاصل کر لے گی اور اسی سمت میں چلے گی جس کی جانب فوجی قیادت چلانا چاہتی ہے۔ لیکن امت بدستور اس حقیقی قیادت کے انتظار میں ہے جو ان امریکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں اس کی قیادت کرے گی اوران پر ان کے رب کی شریعت کو خلافت راشدہ علی منہاج النبوۃ کے سائے میں نافذ کرے گی اور بے شک اللہ کے اذن سے بہت جلد ایسا ہی ہونے والا ہے۔
یہ تبصرہ ابوعمر نے حزب التحریر کے مرکزی میڈیا آفس کے ریڈیو کے لیے لکھا ہے۔