بسم الله الرحمن الرحيم
مغربی تہذیب كا رَد كرو اور اسلام کی دعوت دو
[ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِ ۖ وَجَٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ]
"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور بہترین انداز سے ان کے ساتھ بحث کیجئے بے شک آپ ﷺکا رب ہی اس بات کا زیادہ علم رکھتا ہے کہ کون راہِ راست سے بھٹک گیا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو بھی جانتاہے"(النحل :125)
“Invite to the Way of your Lord with wisdom and kind advice, and only debate with them in the best manner.” [TMQ Surah an-Nahl 16:125]
Hizb ut Tahrir / Wilayah Pakistan is organizing a campaign entitled:"Refute Western Civilization and Invite to Islam" on social media.
Oh Allah return our shield to us, the Rightly Guided Caliphate on the method of Prophethood... Oh Allah, Ameen.
#RefuteWesternCivilization
Dhul Qi’dah 1443 AH - June 2022 CE
1. عقلیت پرستی
مغرب کی عقلیت پرستی Rationalism قانون سازی، فیصلے کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کے لیے، مذہب کو ترک کرکے، صرف اور صرف انسانی عقل پر انحصار کرتی ہے۔ عقلیت پرستی محدود انسانی دماغ کو، جو کہ غلطیوں، تعصبات اور تضاد سے دوچار ہو جاتا ہے، اشیاء اور اعمال کے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے مرجع و ماخذ بناتی ہے۔ تاہم ایسا ہوتا ہے کہ انسانی عقل کسی چیز کے متعلق یہ طے کرتی ہے کہ وہ انسان کے لیے اچھی ہے جبکہ حقیقت میں وہ انسان کے لیے بری ہوتی ہے۔ اور اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ عقل کسی چیز کے متعلق یہ طے کرتی ہے کہ وہ بری ہے جبکہ حقیقت میں وہ انسان کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ اس بات کا فیصلہ کہ انسان کے لیے کیا چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام، اسلام کی رُو سے یہ اللہ ہی کا اختیار ہے، وہ اللہ کہ جس کا علم لامحدود ہے۔ اللہ سبحانہ نے ارشاد فرمایا:
وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
"اور عجب نہیں کہ کوئی بات تمہیں ناپسند ہو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور عجب نہیں کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور (ان باتوں کو) اللہ بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے" (البقرة: 216)۔
پس ایک اسلامی معاشرہ زندگی کے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اوامر و نواہی کی ہی پابندی کرتا ہے۔
11 Dhul Qi’dah 1443 AH - 10 June 2022 CE
2. سائنسی اندازِ فکر
سائنسی اندازِ فکر کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ یہ مادی ترقی کے لیے تو مفید ہے، لیکن انسانی وجود اور زندگی کے مقصد کو بیان نہیں کرسکتی۔ چونکہ اس اندازِ فکر میں غلطی کا احتمال ہمیشہ موجود رہتا ہے، اس لیے یہ مکمل یقین کے ساتھ معاملات کو ان کے حتمی انجام تک پہنچانے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس کا دائرہ کار صرف مادہ تک محدود ہے، اس کے علاوہ نہیں۔ یہ صرف ظاہر کی وضاحت بیان کر سکتی ہے، یعنی کیسے؟ لیکن یہ کیوں؟ کو بیان نہیں کرسکتی۔ الله سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے،
يَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَهُـمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُـمْ غَافِلُوْنَ
"وہ دنیا کی زندگی کی ظاہر باتیں جانتے ہیں اور وہ آخرت سے غافل ہی ہیں"(سورۃ الروم:7)۔
اسلامی تہذیب عقل کی بنیاد پر فکر کو ہی بنیادی انسانی فکر بناتی ہے۔ پس اسلامی معاشرہ اس یقینی اور حتمی نتیجے پر استوار ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے جو الله سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہے، جس کی طرف انسان کو لوٹنا ہے اور دنیا میں کیے گئے اعمال کا حساب کتاب دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت کے زمانے نے عظیم سائنسی کامیابیاں بھی دیکھیں اور اس کے ساتھ اپنے تمام شہریوں کے لیے، خواہ وہ کسی بھی نسل، جنس یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اطمینان، خوشحالی، عدل و انصاف اور فلاح وبہبود کو بھی یقینی بنایا۔
12 Dhul Qi’dah 1443 AH - 11 June 2022 CE
3. حق اور باطل
مغربی تہذیب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ’’مطلق حق اور مطلق باطل کا کوئی وجود نہیں‘‘(ہنری آگسٹس رولینڈ)۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ ایک سیدھی سادی بات ہے کہ سچ کیا ہوتا ہے، جبکہ مغرب نے افادیت پسندی utilitarianism، عقیدہ ثنوبت dualism، نظریہ ارتباط correlationism اور نسبتیت یا علاقیتrelativismکی تھیوریوں کے ذریعے سچائی کے تصور کو اُلجھا کر پراگندہ کر دیا ہے۔ حق اور سچ کی ایک مخصوص حقیقت ہے جو تمام انسانوں کے لیے ایک ہی ہے۔ اگر عقلی فیصلہ اس امر کے متعلق ہو کہ کسی چیز کا وجود ہے یا نہیں، تو بلا شبہ یہ فیصلہ قطعی اور یقینی ہو گا۔ لیکن جب عقل کسی وجود کی صفات یا خصوصیات کے متعلق فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ غیر حتمی اور غیر قطعی ہو گا، یعنی اس میں غلطی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ کچھ معاملات میں رائے یا افکار کا غیر حتمی یا ظنی ہونا، اس بات کی نفی نہیں ہے کہ بعض معاملات میں عقل کی رائے حتمی بھی ہوتی ہے۔ جہاں تک اسلامی عقیدہ کا تعلق ہے، تو الله سبحانہ وتعالیٰ کا وجود ایک اٹل حقیقت اور حتمی حق ہے، بالکل جیسے قرآن کا ایک بے مثال معجزہ ہونا بھی حتمی اور قطعی ہے۔ جہاں تک ظنی امور کا تعلق ہے، جن میں فقہی آراء بھی شامل ہیں، تو اس کا اصول یہ ہے: رأي صواب يحتمل الخطأ، ورأيك خطأ يحتمل الصواب "میری رائے صحیح ہے، اس امکان کے ساتھ کہ اس میں غلطی کی گنجائش موجود ہے، جبکہ آپ کی رائے غلط ہے، اس امکان کے ساتھ کہ وہ صحیح بھی ہوسکتی ہے"۔
13 Dhul Qi’dah 1443 AH - 12 June 2022 CE
4. سیکولرازم
مغرب کے سیکولرازم کے عقیدے نے چرچ اور مفکرین کے مابین تنازعے کے نتیجے میں جنم لیا۔ یہ مذہب کے نام پر چرچ کے شدید ظلم و جبر کا ردعمل تھا۔ سیکولرازم کہتا ہے کہ "جو بادشاہ کا حق ہے وہ بادشاہ کو دو اور جو خدا کا حق ہے وہ خدا کو دو". تاہم مذہب کے متعلق یورپ کا تجربہ اس بات کا جواز نہیں ہے مسلمان بھی اپنی اجتماعی زندگیوں اور ریاست سے مذہب کو نکال دیں۔ اسلام میں حکمران ہو یا علماء سب مکمل طور پر اسلام کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں۔ اگر خلیفہ اللہ کے نازل کردہ تمام تر احکامات کے ذریعے حکمرانی نہ کرے تو اسلامی عدلیہ پر لازم ہے کہ وہ اسے حکمرانی کے منصب سے ہٹا دے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں خلافت صدیوں تک اپنے مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے لیے عدل، تحفظ، مادی ترقی اور خوشحالی کی ضامن رہی۔ پس سیکولرازم ایسا عقیدہ نہیں ہے کہ جو مسلمانوں کے لیے موزوں ہو۔ یہ مسلمانوں کے لیے نہ تو شرعی نقطہ نظر کے لحاظ سے موزوں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا ماضی کا تجربہ اس کی تائید کرتا ہے۔
14 Dhul Qi’dah 1443 AH - 13 June 2022 CE
5. زندگی کے امور سے مذہب کی علیحدگی
زندگی کے امور سے مذہب کی علیحدگی یعنی 'سیکولرازم' کا تصور اپنے ہی اندر تضاد رکھتا ہے۔ سیکولرازم مذہب کا اقرار تو کرتا ہے مگر اسے ایک شخص کے انفرادی معاملات تک محدود کرتا ہے۔ سیکولرازم اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ خالق کے سامنے جوابدہی ہو گی مگر وہ عوامی سطح پر ایسے اعمال کی انجام دہی کا راستہ روک دیتا ہے کہ جو اس جوابدہی سے متعلق ہیں۔ سیکولرازم اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ انسان محدود اور ناقص ہے مگر اس کے باوجود وہ کچھ انسانوں کو یہ خدائی اختیار دے دیتا ہے کہ وہ باقی انسانوں کے لیے قانون سازی کریں۔ سیکولرازم اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ یہ دنیا عارضی ہے مگر وہ اپنے ماننے والوں میں اس چند روزہ دنیا کی شدید محبت پروان چڑھاتا ہے گویا کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی ہے۔ پس یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مغرب ایک شدید روحانی بحران سے دوچار ہے اور اس نے معاشرتی زندگی میں مذہب کے کردار پر شدید ٹھوکر کھائی ہے۔ اسلام میں انفرادی اور معاشرتی زندگی دونوں اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
"اور میں نے انسانوں اور جنات کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں" (الذاریات: 56)
15 Dhul Qi’dah 1443 AH - 14 June 2022 CE
6. افادیت پرستی utilitarianism
سیکولرزم افادیت پرستی utilitarianism کو جنم دیتا ہے یعنی جسمانی لذتوں کو ممکن حد تک پورا کرنا، دنیاوی خوشیوں کو زندگی کا محور بنانا اور آخرت کی خوشیوں کو نظر انداز کر دینا۔ سیکولرازم کی سوچ، جو روحانی، اخلاقی اور انسانی اقدار سے عاری ہے، نے انسان کو مادیت پرستی اور تسکین پرستی میں غرق کر دیا ہے۔ سیکولرازم نے ہمیں تباہی کن عالمی جنگوں، منظم جرائم، اجتماعی عقوبت خانوںشدید (concentration camps) غربت اور بھوک کا تحفہ دیا ہے۔ پورنو گرافی کے نتیجے میں خاندانی بندھن ٹوٹ رہے ہیں اور عورتوں پر جنسی حملوں اور جنسی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیکولرازم کے نتیجے میں ذہنی دباؤ اور ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماریوں اور خودکشیوں کی شرح بہت بڑھ چکی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب اسلام ایک عالمی ریاست اور تہذیب کے طور پر واپس لوٹے، جو لوگوں کی توجہ اللہ کی رضا کے حصول پر مرکوز کرے گا اور انسانی، اخلاقی اور روحانی قدر کو اہمیت اور ان کا مقام دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
"اور دنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے" (الحدید: 20)
16 Dhul Qi’dah 1443 AH - 15 June 2022 CE
7. قومی ریاستوں nation states
مغرب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قومی ریاستوں nation states پر مشتمل عالمی نظام امن قائم کرتا ہے، جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ درحقیقت اس قومی ریاستی نظام نے ایک نئے طریقے کے ظلم کو جنم دیا، جو استعماریت کے نام سے مشہور ہے۔ شروع میں مغربی ریاستوں نے حملہ کرکے ہر غیر یورپی ملک پر قبضہ جمانے کی راہ اختیار کی۔ پھر ملکوں کو برائے نام آزادی دے دینے کے بعد مغربی ریاستوں نے بدستور اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور اس کے لیے اقتصادی معاہدوں، فوجی اتحاد اور مقامی کرپٹ حکومتی اشرافیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ استعماری شکنجے میں جکڑی ریاستیں اپنا خام مال اور افرادی قوت کم قیمت پر بیچ دیتی ہیں جبکہ انہیں مغربی اشیاء اور خدمات انتہائی مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہیں۔ جہاں تک جنگ کی بات ہے تو مغربی ریاستیں بلا جھجک تباہ کن فوجی مہمیں لانچ کرتی ہیں اور اس کام میں دوسروں کی مدد کرتی ہیں، تاکہ مادی فائدہ سمیٹا جائے۔ بلاشبہ دنیا کو امتِ مسلمہ کی ضرورت ہے کہ جو خلافت کو قائم کرے، جس نے ماضی میں افریقہ کے بڑے حصے، وسط ایشیاء، جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء میں صدیوں تک امن اور خوشحالی کو یقینی بنائے رکھا۔
17 Dhul Qi’dah 1443 AH - 16 June 2022 CE
8. عوامی ملکیت
امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑا فرق تمام سرمایہ دارانہ معیشتوں کا خاصا ہے۔سرمایہ داریت غلط طور پر اس بات پر زور دیتی ہے کہ تمام معاشی وسائل کو نجی ہاتھوں میں ہونا چاہئے، جس میں عوامی سہولیات کے وسائل بھی شامل ہیں۔ تاہم معاشی برابری اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ملکیت کی نوعیت میں فرق کیا جائے، تاکہ دولت کی تقسیم ہو سکے اور یہ چند ہاتھوں میں ہی جمع ہو کر نہ رہ جائے۔ عوام کی دیکھ بھال اس بات کو لازم کرتی ہے کہ عوامی سہولیات جیسا کہ معدنیات، پانی، چراہ گاہوں اور توانائی کے ذخائر کو ایک مختلف طرح کی ملکیت کے تحت رکھا جائے۔ یہ صرف وحی پر مبنی اسلام ہی ہے کہ جس میں "عوامی ملکیت" کا شرعی قانون موجود ہے، جو توانائی و معدنی ذخائر جیسی عوامی سہولیات پر لاگو ہوتا ہے۔ خلافت پر لازم ہوتا ہے کہ وہ عوامی سہولیات سے حاصل ہونے والی دولت اور محصولات کو عوام ہی پر خرچ کرے۔ اسلام کا قانون ان سہولیات کی نج کاری کو منع کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ
"تمام مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں پانی، چراہ گاہیں اور آگ (توانائی)" مسند احمد۔
18 Dhul Qi’dah 1443 AH - 17 June 2022 CE
9. نفع بخش(productive)
سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم) میں پیداوار صرف یہ ہے کہ مادی لحاظ سے کوئی فائدہ مند چیز تیار کی جائے کہ جس کی خرید و فروخت ہو سکے۔ پس ایک عورت کا گھریلو نوعیت کا کام صرف اس وقت نفع بخش (productive) سمجھا جائے گا جب وہ اسے سروس کے طور پر دوسروں کو فروخت کرے۔ سرمایہ دارانہ مائیکرو اکنامک نقطہ نظر کے مطابق، موقع کے بہترین استعمال (opportunity cost) کے لحاظ سے، ایک عورت کا گھر میں کام کرنا ملازمت کی مارکیٹ کے لیے ایک نقصان ہے۔ سرمایہ داریت ایک عورت کے ماں کے کردار کو کم حیثیت بناتی ہے، اگرچہ یہ کام عورت کی جبلی فطرت ہے۔ پس ایک عورت اپنے اوپر یہ دباؤ محسوس کرتی ہے کہ اسے ملازمت کی مارکیٹ میں پوری طرح داخل ہو کر ایسا کام کرنا چاہئے جو قابل قدر سمجھا جائے۔ یوں اس کے نتیجے میں وہ اپنے خاندان پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتی جس کے سنگین معاشرتی اور نفسیاتی نتائج سامنے آتے ہیں۔ اسلام معاملات کو صرف ان کے مادی فائدے کے لحاظ سے نہیں تولتا۔ اسلامی تہذیب میں بیوی اور ماں کے کردار کی بہت قدر وقیمت ہے۔ بے شک ایک مستحکم گھرانہ مسلم اجتماعیت کا بنیادی ستون اور اسلامی معاشرے کا قلعہ ہے۔
19 Dhul Qi’dah 1443 AH - 18 June 2022 CE
10. دولت کی تقسیم
سرمایہ داریت کا نظریہ (کیپٹلزم) یہ جھوٹا دعویٰ کرتا ہے کہ معاشی مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے وسائل محدود ہیں جبکہ ضروریات لامحدود ہیں۔ جبکہ حقیقت میں دنیا میں اتنے وسائل اور خدمات موجود ہیں جو ہر شخص کی بنیادی ضروریات مکمل طور پر پورا کر سکتی ہیں۔ یہ بنیادی ضروریات یعنی خوراک، لباس اور چھت لامحدود نہیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں آسائشیں جو کہ مادی ترقی کا ثمر ہیں، بلاشبہ مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ انسان فطری طور پر ان ثانوی ضروریات (یعنی آسائشوں) کے حصول کے لیے تگ و دو کرتا ہے مگر یہ پوری نہ بھی ہوں تو کوئی بھوک و ننگ یا چھت سے محرومی پیدا نہیں ہوتی۔ پس معاشی مسئلہ دراصل دولت کی تقسیم کا ہے تاکہ تمام تمام لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں، جبکہ لوگوں کے لیے اس بات کو آسان بنایا جائے کہ وہ اپنے لیے آسائشیں بھی حاصل کر سکیں۔ خلافت چند لوگوں کے ہاتھ میں دولت کے بھاری مقدار میں جمع ہونے کا خاتمہ کرے گی اور انسانیت کو ریلیف مہیا کرے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ
"ایسا نہ ہو کہ دولت تمہارے امیر لوگوں کے درمیان ہی گردش کرتی رہے" (الحشر: 7)
20 Dhul Qi’dah 1443 AH - 19 June 2022 CE
11. تکثریت (pluralism)
جمہوریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ تکثریت (pluralism) اسی کا خاصا ہے اور جمہوریت ہر طرح کی تکثیریت کی اجازت دیتی ہے۔ تاہم مغرب کی تکثریت لبرل آئیڈیالوجی میں ہی شدت کے ساتھ مقید ہے۔ پس ماضی میں مغرب نے کیمونزم کے خلاف جنگ برپا کی جبکہ آج وہ اسلام کے خلاف برسرپیکار ہے جسے وہ سیاسی اسلام کا نام دیتا ہے۔ اور وہ مسلمانوں کی سوچ اور طرزِ عمل پر پہرے بیٹھانا چاہتا ہے۔ جہاں تک تکثیریت کو ایک ہی آئیڈیالوجی کے اندر مختلف آراء کی موجودگی کے معنوں میں لینے کا تعلق ہے، تو یہ جمہوریت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ایسی تکثیریت تو اسلام میں بھی پائی جاتی ہے۔ اسلام میں مختلف قانونی احکامات اور سیاسی آراء میں پایا جانے والا اختلاف مشہور و معروف ہے۔ اور اس صورتِ حال میں خلیفہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر کسی ایک رائے کو قانوناً نافذ کردے۔ اسلام میں غیر مسلم ایسے شہری ہوتے ہیں جن کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر ہوتی ہے۔ یہ جمہوریت کے اقلیت کے تصور سے برتر ہے۔ جمہوریت میں قانون سازی اکثریتی ووٹ کی بنا پر ہے جو اقلیتوں کو محروم رکھتی ہے۔ جبکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر اللہ نے غیر مسلموں کا کوئی حق مقرر کیا ہے تو یہ ان سے نہیں چھینا جا سکتا خواہ پوری امت ایسا کرنے کے حق میں ووٹ دے دے۔
21 Dhul Qi’dah 1443 AH - 20 June 2022 CE
12. اختیار اور حاکمیتِ
مغرب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جمہوریت اختیار اور حاکمیتِ اعلیٰ عوام کو سونپتی ہے۔ تاہم جمہوری نظام میں یہ دونوں طاقتور اشرافیہ کے ہاتھ میں ہی ہوتے ہیں۔ الیکشن کے دوران انتہائی دولت مند لوگ رائے عامہ تشکیل دیتے ہیں۔ وہی مہنگی انتخابی مہموں کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں۔ طاقتور اشرافیہ لوگوں کو اپنی مرضی و خواہش کا غلام بناتی ہے، اور اپنی دولت میں اضافے کے لیے قانون سازی کرتی ہے۔ اسلام میں اتھارٹی لوگوں کے لیے ہے، وہ مجلسِ امت کے ممبران کا چناؤ کرتے ہیں۔ خلیفہ کا چناؤ مجلس امت کے منتخب ممبران کے ذریعے طے پاتا ہے اور خلیفہ رضامندی و اختیار کے ساتھ دی جانے والی بیعت کے ذریعے منصبِ خلافت پر مقرر ہوتا ہے۔ اگر وہ شرعی بیعت کے علاوہ کسی اور طریقے سے اقتدار حاصل کرےتو وہ غاصب ہے۔ جہاں تک حاکمیتِ اعلیٰ کا تعلق ہے تو یہ نہ خلیفہ کے لیے ہے اور نہ ہی مجلسِ امت کے لیے؛ یہ صرف اور صرف اللہ کی شریعت کے لیے ہے۔ اگر خلیفہ اللہ کے نازل کردہ احکامات کے علاوہ کسی اور قانون کے ذریعے حکمرانی کرے تو عدلیہ اسے ہٹا دیتی ہے۔
22 Dhul Qi’dah 1443 AH - 21 June 2022 CE
13. مشورہ
جمہوریت کا اجتماعی حکمرانی کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ امریکہ کا صدر ہو یا برطانیہ کا وزیر اعظم، عملی طور پر وہی اکیلے حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدارتی جمہوریت، قیادت انفرادی ہی ہوتی ہے، اجتماعی نہیں۔ حکمرانی رائے کو طلب کرکے پھر فیصلہ بنانے اور اس فیصلے کو نافذ کرنے کا نام ہے۔ کسی معاملے میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں جن کی تحقیق اور جائزہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ آراء پر عمل درآمد لازمی ہوتا ہے جبکہ کچھ آراء صرف ملاحظے اور مدِنظر رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اسلام کے نظامِ حکومت میں رائے کو معلوم کرنا شوریٰ کہلاتا ہے۔ جہاں تک فیصلہ سازی کا تعلق ہے تو یہ انفرادی معاملہ ہے، جسے واحد مجاز اتھارٹی طے کرتی ہے، جو کہ اسلام میں خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ
"اور ان سے معاملات میں مشورہ کیجئے۔ اور جب آپ فیصلہ بنا لیں تو پھر اللہ پر توکل کریں"(آل عمران: 156)۔
پس خلافت نہ تو ڈکٹیٹرشِپ ہوتی ہے اور نہ ہی جمہوریت۔
23 Dhul Qi’dah 1443 AH - 22 June 2022 CE
14. مرد اور عورت
مغربی تہذیب نے جنسی برابری کی سوچ کو اختیار کیا، جو کہ ایک باطل فکر ہے۔ عورت کو مرد کے برابر بنانے کا مطلب عورت کے لیے مرد کو پیمانہ اور معیار بنانا ہے۔ اسلام کے کچھ احکامات ایسے ہیں جو مردوعورت سے قطع نظر تمام انسانوں کے لیے ہیں جبکہ کچھ ایسے احکامات ہیں جو مرد یا عورت کے لیے خاص ہیں۔ پس اسلام مرد اور عورت دونوں پر نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ پھر وہ احکامات ہیں کہ جو عورت کے ساتھ خاص ہیں جیسا کہ حیض و نفاس، حمل اور وضع حمل کے احکامات۔ اسلام نے علیحدگی کی صورت میں بچے کی نگہداشت کا حق عورت کو دیا ہے اور مرد کو اس سے محروم کیا ہے۔ اسلام نے عورت کو حق دیا ہے کہ وہ کما سکتی ہے اور اس کی دولت پر مرد کا کوئی حق نہیں، جبکہ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے کہ وہ بیوی اور بچوں کی مالی ضروریات کو پورا کرے۔ جہاد مردوں پر فرض ہے جبکہ عورتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ
"اور مرد عورتوں کی مانند نہیں ہیں" (آل عمران: 36)
24 Dhul Qi’dah 1443 AH - 23 June 2022 CE
15. نکاح کا رشتہ
چرچ کے طرف سے جنسی جبلت کو سختی سے کچلنے کے ردعمل میں مغربی معاشرہ جنسی آزادی کی دلدل میں دھنس کر کئی مسائل سے دوچار ہو گیا۔ جنسی مواد (پورنوگرافی) اور شہوت انگیزی نے عورت کو محض مرد کی ہوس کو پورا کرنے کا آلہ کار بنا کر رکھ دیا۔ مرد کو عورت کے تحفظ اور اس کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری سے آزاد کر دیا گیا، جبکہ عورت کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو گیا۔ شادی، ماں کے کردار اور خاندان، سب کی اہمیت گھٹ گئی اور اولاد کی شرح کم ہوگئی جبکہ زنا، بدکاری، فواحشات، بغیر باپ کے بچوں اور حمل کو ضائع کرنے کی شرح میں اضافہ ہو گیا۔ اسلام نہ تو جنسی جبلت کو کچلتا ہے اور نہ ہی اسے بے مہار کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ شرع کے احکامات ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتے ہیں جہاں عزت و عفت معنی رکھتے ہیں اور مردوعورت کا باہمی تعلق چوک چوراہے کی چیز نہیں ہوتا، اور اس معاشرے میں بلوغت کے بعد شادی میں تاخیر نہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں قربت کے تعلق سے خوشی اور تسکین کا حصول لازمی طور پر شادی کے بندھن سے منسلک ہوتا ہے۔ جبکہ نکاح کا رشتہ انسانی نسل کی بقا کو یقینی بناتا ہے۔
25 Dhul Qi’dah 1443 AH - 24 June 2022 CE
16. انانیت
چرچ کی بالادستی کے دور میں عوام کے حقوق کا انکار کیا گیا، جس کے ردِعمل میں معاشرہ انفرادیت کی سوچ پر کاربند ہو گیا، پس فرد کو معاشرے اور ریاست پر فوقیت دی جانے لگی۔ تاہم اس خود پسندی و انانیت کی سوچ نے خود غرضی، تنہا پسندی، اپنے آپ میں ہی مگن رہنے اور خاندانی رشتوں کی توڑ پھوڑ کو جنم دیا، خاندانی اقدار کمزور پڑ گئیں اور معاشرے کا احساس ناپید ہو گیا۔ اس کے برعکس اسلام میں شرعی احکامات فرد کے حقوق کو یقینی بناتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو کسی فرد کے نقصان سے بھی محفوظ رکھتے ہیں، نیز فرد پر ذمہ داری لاگو کرتے ہیں کہ وہ معاشرے کے بچاؤ میں اپنا کردار ادا کرے۔ شرع کے احکامات معاشرے پر براہِ راست لاگو ہوتے ہیں، جس سے لامحالہ فرد کے امور کی بھی نگہداشت ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْمُسْلِمُونَ كَرَجُلٍ وَاحِدٍ، إِنِ اشْتَكَى عَيْنُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ، وَإِنِ اشْتَكَى رَأْسُهُ اشْتَكَى كُلُّهُ
"مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر آنکھ میں درد ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے اور اگر سر میں درد ہو، تب بھی پورا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے" (مسلم)
26 Dhul Qi’dah 1443 AH - 25 June 2022 CE
17. آزادیاں
مغرب کا آزادی کا تصور محض ایک سراب ہے۔ انسان خواہ قدیم دور کا ہو یا آج کے جدید دور کا، وہ نظم و قوانین، نقطہ ہائے نظر اور حکومتوں کے ماتحت نظر آتا ہے۔ کہنے کو تو مغرب کے آزاد انسان نے سیکولرازم کو اختیار کر رکھا ہے، مگر وہ ان قوانین میں بندھا ہوا ہے، جو بڑے سرمایہ مالکان، بڑی بڑی کمپنیوں اور میڈیا ٹائیکونز کے مفادات کو پورا کرتے ہیں۔ مغرب کا انسان سینکڑوں قوانین میں جکڑا ہوا ہے جن میں سب سے ظالمانہ ٹیکس قوانین ہیں۔ تاہم اسے متبادل کی تلاش سے دور رکھنے کے لیے تفریح اور کھیل تماشے کی بہت بڑی دنیا میں مشغول رکھا جاتا ہے۔ اسلام انسان کو اللہ کی بندگی عطا کرکے اسے اپنے ہی جیسے قانون ساز انسانوں کی غلامی سے نجات دلاتا ہے۔ پس بندگی اور اطاعت صرف خالقِ کائنات کی ہے، مخلوق کی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
"مخلوق کی ایسی کوئی اطاعت کہ جو اللہ عزوجل کی معصیت پر مبنی ہو، جائز نہیں"(بخاری)
27 Dhul Qi’dah 1443 AH - 26 June 2022 CE