بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 16 نومبر 2018
۔ مغربی استعماریت کے ساتھ ساتھ چینی استعماریت کا قیام کشکول توڑنے میں مددگار نہیں ہوگا
- سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے غربت میں کمی کا دعوی ایک دھوکا ہے
- تعلیم سے غفلت جمہوریت کی وجہ سے ہے ، خلافت تمام شہریوں کو مفت تعلیم فراہم کرے گی
تفصیلات:
مغربی استعماریت کے ساتھ ساتھ چینی استعماریت کا قیام کشکول توڑنے میں مددگار نہیں ہوگا
12نومبر 2018 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ "حکام کہتے ہیں کہ خان صاحب کے دورے کے دوران جن میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگز (ایم او یو) پر دستخط ہوئے وہ زراعت کے تمام ذیلی شعبوں میں چینی سرمایہ کاری اور چینی تکنیکی معاونت کو راغب کرنے میں بنیاد فراہم کرتے ہیں"۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت شروع ہوجانے کے باوجود پاکستان چین سے بھی مزید مالی معاونت کا طلبگار ہے۔ چین پہلے ہی پاکستان کو سب سے زیادہ قرض دینے والا ملک بن چکاہے۔ پاکستان پر چین کا 20 ارب ڈالر کا قرض ہے جو اس کے کُل قرض کا 20 فیصد بنتا ہے۔ قرضوں میں اس و قت اضافہ ہورہا ہے جب ملک پہلے ہی مشکل صورتحال سے دوچار ہے جس کا ثبوت کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ، حکومتی قرض اور بیرون قرضے ہیں۔ باجوہ -عمران حکومت پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیےمغرب خصوصاً آئی ایم ایف کی جانب دیکھ رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ چین سے بھی مزید قرض حاصل کرنے کی امید کررہی ہے اور اس طرح سرمایہ دارانہ استعماریت اور چینی استعماریت کے جال میں الجھ کر پاکستان کی معاشی خودمختاری کو داؤ پر لگا رہی ہے۔
چین کے مختلف تر قی پزیر ممالک کے ساتھ تعلقات کو دیکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ قرضوں کے بدلے ان ممالک کی معیشت کے معاملات کی باریکیوں خود کو ملوث نہیں کرتا لیکن ان سے کچھ خصوصی مراعات حاصل کرتا ہے۔ ان مراعات میں سی پیک کے تحت بننے والے منصوبوں میں زیادہ ایکویٹی رکھنا، مستقبل کے منصوبوں کے منظوری میں زیادہ کردار ، اور چینی کمپنیوں کے لیے مقامی منڈیوں کے دروازے کھلوانا شامل ہے۔ سری لنکا کی ہمبکٹوٹا کی بندرگاہ اس کی ایک مثال ہے کہ جب سری لنکا قرض ادا نہیں کرسکا تو چین نے99 سال کی لیز پر 2017 میں اس بندرگاہ کاکنٹرول سنبھال لیا۔ چین کے "بیلٹ روڈ منصوبے" پر بڑھتی تشویش کی وجہ سے ملیشیاء کے نئے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے 22 ارب ڈالرمالیت کے چینی منصوبے منسوخ کردیے اور ان منصوبوں کی معاشی افادیت اور قرضوں پر سوال اٹھاتے ہوئے استعماریت کی نئی قسم کومسترد کردیا۔ یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ چینی قرضے خودمختاری کے لیے زیادہ خطرناک ہیں۔
اور جیسے چین کا ہماری معیشت پر اثرورسوخ کافی نہیں تھا کہ بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو ٹالنے کے لیے آئی ایم ایف سے بھی مذاکرات شروع کردیے گئے ہیں۔ اگر آئی ایم ایف سے پروگرام منظور ہوجاتا ہے تو حکومت اس کی وجہ سے عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی قرضے حاصل کرسکے گی۔ اس طرح آئی ایم ایف کا پروگرام بین الا قوامی اداروں کی نگاہ میں پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے کاباعث بنے گا اور اس کے نتیجے میں پاکستان مزید سودی قرضو ں کے بوجھ تلے دبتا چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا پروگرام بجٹ اور مالیاتی پالیسی پر بھی اثرانداز ہوگا جس کی وجہ سے روپے کی قدرمیں مزید کمی ، ٹیکسوں اور شرح سود میں اضافہ ہوگا۔ ان ا قدامات کے نتیجے میں معیشت پھیلنے کی جگہ سکڑے گی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے۔ اور اس طرح بحران ایک بار پھر پلٹ کرواپس آجائے گا کہ خسارے کی وجہ سے بیلنس آف پیمنٹ کا بحران پیدا ہوگا اور صرف یہی نہیں بلکہ قرضوں کے بوجھ میں بھی مزید اضافہ ہوجائے گا۔ کیونکہ معیشت خود سے اپنے آپ کو چلانے کے قابل نہیں ہے تو قرض صرف بیرونی اثرورسوخ کو بڑھانے کا باعث بنتے ہیں جس کے ساتھ سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے اور اس طرح یہ بات یقینی بنائی جاتی ہے کہ ملک قرض کی دلدل سے نکل ہی نہ سکے۔ بین الا قوامی اداروں یا بیرونی ممالک سے حاصل ہونے والے قرضے قوم کی سیاسی و معاشی خودمختاری کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ * فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
"مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہوجاؤ (کہ تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان اور نہ تمہارا نقصان"(البقرۃ:279-278)۔
کشکول کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کو قائم کیا جائے۔ اسلام کامکمل نفاذ زراعت، صنعت،تجارت کے شعبوں میں اچھی معاشی پالیسیوں کا باعث بنے گا ۔ اس کے علاوہ اسلام ریاست سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ خود ضروری منصوبوں کو شروع کرے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے غربت میں کمی کا دعوی ایک دھوکا ہے
10 نومبر 2018 کو وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کا اشارہ دیا کہ آنے والے سات سے دس دنوں میں وہ غربت کے خاتمے کے لیے ایک بہت بڑے منصوبے کااعلان کرنے والے ہیں تا کہ لوگوں کو شدید غربت کی دلدل سے نکال سکیں۔ عمران خان نے کہا، "غربت کے خاتمے کا منصوبہ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے 100دنوں کی کارکردگی کے حوالے سے سب سے اہم جزو ہوگا جسے آنے والے چند دنوں میں پاکستان کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا"۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی موجودگی میں غربت میں کمی ممکن ہی نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اس عقیدے پرکھڑا ہے کہ دنیا کے وسائل لوگوں کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، لہٰذا کسی بھی معاشرے میں لازمی ایسے افراد موجود رہیں گے جو بھوک کا شکار ہوں گے، جن کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت نہیں ہوگی اور وہ تعلیم، صحت اور مواصلات کی سہولیات سے محروم ہوں گے۔ سرمایہ داریت یہ کہتی ہے کہ وسائل اور ضروریات کے درمیان موجود خلیج کو زیادہ سے زیادہ پیداوار دے کر کم تو کیا جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیاجاسکتا۔ لہٰذا سرمایہ داریت اپنی پوری توجہ پیداوار بڑھانے پر مرکوز رکھتی ہے اور معاشرے میں اس پیداوار (دولت )کی تقسیم کو ٹریکل ڈاون ایفیکٹ پر چھوڑ دیتی ہے۔ ٹریکل ڈاون ایفیکٹ کامطلب یہ ہے کہ جب پانی کا ٹینک بھر جائے گا تو وہ باہر گرنے لگے گا اور اس طرح پیداوار (دولت) معاشرے کے غریب ترین افراد تک بھی پہنچ جائے گی۔ لیکن دنیا کی معاشی حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ٹینک کبھی نہیں بھرتا چاہے کتنی ہی پیداوار بڑھا لی جائے۔
2018 میں دنیا کی کُل پیداوار 87.51ٹریلین ڈالر ہوگی لیکن اس کے نصف کے مالک امیر ترین ایک فیصد افراد ہوں گے۔ ایک نامی گرامی مالیاتی سہولیات فراہم والی کمپنی، کریڈٹ سوئسی گروپ کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد دنیا کی کُل دولت کے 50 فیصد کے مالک ہیں، اور امیر ترین افراد اور باقی دنیا کی آبادی کے درمیان دولت کا یہ فرق بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ معاشی بحران کے دوران بھی امیر مزید امیر ہوگئے اور غریب مزید غریب ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں جہاں سرمایہ داریت نافذ ہوئی چاہے وہ عالمی طاقتیں ہوں جیسا کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور چین، یا پاکستان، مصر اور بھارت جیسے ممالک، ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ غریب افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ بروکینگز انسٹیٹیوٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مئی 2018 میں نائیجیریا نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ شدید غربت کے شکار افراد کا حامل ملک بن گیا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت ہے جبکہ نائیجیریا دنیا میں تیل کی پیداوار میں چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ لہٰذا سرمایہ داریت کے داعی دعوی کرتے ہیں کہ وہ غربت میں کمی کی کوشش کررہے ہیں لیکن درحقیقت اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیے بغیر غربت میں کمی کا وعدہ ایک دھوکا ہے۔ جب تک اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کیا جاتا دولت چند ہاتھوں میں ہی محدود رہے گی۔ اسلام کا معاشی نظام یہ بتاتا ہے کہ معاشی مسئلہ دولت کی تقسیم ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ
" جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں (دولت)نہ پھرتی رہے "(الحشر:7)۔
اسلام صرف غربت میں کمی کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس کو ختم کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
وَأَيُّمَا أَهْلُ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمْ امْرُؤٌ جَائِعٌ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ تَعَالَى
"کسی بستی میں کوئی شخص بھوکا سوئے تو اس بستی کی ذمہ داری سے اللہ تعالیٰ بری ہے"(اس حدیث کو امام احمد نے ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے اور احمد شاکر نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے) ۔
یہی وجہ ہے کہ حزب التحریر نے آنے والی خلافت کے لیے لکھے گئے آئین "مقدمہ دستور" کی شق 124 میں یہ تبنی کیا کہ "اقتصادی مسئلہ اموال اور منافع کو رعایا کے تمام افراد کے درمیان تقسیم کرنا ہے، اسی طرح اس مال سے نفع اٹھانے یعنی دولت کو اکٹھا کرنے اور اس کے لیے کوشش کرنے کو ان کے لیے آسان بنانا ہے "۔ اور اسی طرح شق 125 میں یہ تبنی کیا کہ "تمام افراد کی فرداً فرداً بنیادی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کرنے کی ضمانت دینا لازمی ہے۔اس طرح ہر فرد کو یہ ضمانت بھی دی جائے گی کہ ہر فرد ممکن حد تک اعلیٰ معیار زندگی کی ضروریات حاصل کرنے کے قابل ہوسکے"۔ لہٰذا یہ صرف اسلام کا معاشی نظام ہی ہے جو غربت کے خاتمے کے لیے کام کرتا ہے اور آنے والی نبوت کے طریقے پر خلافت اس کو مکمل طور پر نافذ کرے گی۔
تعلیم سے غفلت جمہوریت کی وجہ سے ہے ، خلافت تمام شہریوں کو مفت تعلیم فراہم کرے گی
ہیومن رائٹس واچ نے 13 نومبر 2018 کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں 22.5ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے اسکول نہ جانے والے بچوں میں 32 فیصد لڑکیاں ہیں جبکہ 21 فیصد لڑکے ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ 2017 میں پاکستان نے تعلیم پر جو رقم خرچ کی وہ کُل ملکی پیداوار کا 2.8فیصد سے بھی کم تھی جبکہ چار سے چھ فیصد تک تعلیم پر خرچ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر آنے والی حکومت نے شعبہ تعلیم کو نظر انداز کیا ہے۔ اس اہم سماجی شعبے پر صرف زبانی جمع خرچ ہی کیا گیا ہے۔ صورتحال اس قدرخراب ہے کہ پاکستان تعلیم پر اپنی کُل ملکی پیداوار کا صرف 2.8فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ جنگ زدہ افغانستان 4 فیصد، بھارت 7 فیصد اور افریقی ملک روانڈا کُل ملکی پیداوار کا 9 فیصد خرچ کرتا ہے۔ شعبہ تعلیم کے لیے اس قدر قلیل رقم رکھنے کی وجہ سے پاکستان میں اس شعبے کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ 2016 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود 154144 اسکولوں میں سے صرف 52 فیصد میں ضروری ڈھانچہ یعنی باونڈری وال، بجلی،پانی اور ٹوائلیٹ کی سہولیات موجود ہیں جبکہ 11 فیصد اسکولوں میں کوئی بھی بنیادی سہولت موجود نہیں ہے۔ یونیسکو کی جانب سے فراہم کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے کلاس رومز جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ پُرہجوم کلاس رومز ہیں، جہاں 500 بچوں کے لیے تین اساتذہ دستیاب ہیں۔ یہ اعداوشمار واضح کرتے ہیں کہ تعلیم کا شعبہ کس قدرنظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حکمران اپنی ذمہ داری سے غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ جو بچے اسکول جارہے ہیں تو انہیں مغربی غیر سرکاری تنظیموں ،جیسا کہ یو ایس ایڈ، عالمی بینک اور یونیسکو کی جانب سے بنایا گیا نصاب تعلیم ،پڑھا کر ان کے ذہنوں کو مغربی لبرل اقدار سے آلودہ کیا جارہا ہے۔
تعلیم کے شعبے کی بحرانی صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے نبوت کے طریقے پر قائم خلافت کے زیر سایہ اسلامی نظام تعلیم نافذ کیا جائے۔ ریاست خلافت پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بنیادی تعلیم فراہم کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ
" جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے "۔
پرائمری اور سکینڈری کی سطح پرہر بچے کو، لڑکا ہو یا لڑکی، تعلیم مفت فراہم کی جائے گی ۔ اس کے علاوہ جہاں ممکن ہوا ریاست خلافت مفت یا کم قیمت پر تعلیم یونیورسٹی کی سطح پر بھی فراہم کرے گی۔ ریاست خلافت میں صرف ایک تعلیمی نصاب ہوگا جو ریاست مرتب اور فراہم کرے گی اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا تعلیمی نصاب پڑھانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ نجی اسکول قائم کیے جا سکیں گے اگر وہ ریاست کی جانب سے فراہم کیا جانے والا نصاب بڑھانے تک خود کو محدود رکھیں اور ریاست کی تعلیمی پالیسی اور اس کے اہداف کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں۔ تعلیمی نصاب صرف اسلامی اقدار کی ترویج کرے گا اور اس میں ایسا کوئی تصور شامل نہیں کیا جائے گا جو مسلمانوں کو ان کے دین کے صحیح فہم سے دور لے جائے۔ اسکولوں میں سہولیات ، جیسا کہ کتب خانوں، لیبارٹری اور تحقیقی شعبوں ، کے قیام کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ طلباء کو ایسی سہولیات فراہم کی جائیں گی کہ وہ مسلم علاقوں میں رہنے کو ترجیح دیں اور امت مسلمہ کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم برصغیر پاک وہند میں شعبہ تعلیم کے حوالے سے اسلامی تہذیب کی کامیابی کامشاہدہ کرسکتے ہیں۔اس کی کامیابی اس قدرشاندار تھی کہ غیر مسلموں نے بھی اس کی کامیابی کی گواہی دی ہے۔ کرنل ویلیم سلیمن نے مغل دارالحکومت کے دورہ دلّی کے دوران شعبہ تعلیم کو "کافی شاندار" قرار دیا اور یہ لکھا کہ " دنیا میں چند ہی ایسے معاشرے ہیں جہاں بھارت کے محمڈن سے زیادہ تعلیم اس قدر عام ہو۔ نوجوان محمڈن سر پر پگڑی باندھتے ہیں جو تعلیم کی اُن اقسام کے حامل ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں جن سے آکسفورڈ کے نوجوان بھی آگاہ ہوتے ہیں" ۔