بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز22 فروری 2019
- سرمایہ داریت دولت کے ارتکاز اور اسلام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے
۔ پاکستانی قیادت کی چھوٹی سوچ پاکستان کو کبھی بھی معاشی طاقت بن کر ابھرنے نہیں دے گی
- پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کے امریکی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مقبوضہ کشمیر سے دستبرداری اختیار کرلی ہے
تفصیلات:
سرمایہ داریت دولت کے ارتکاز اور اسلام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے
15 فروی 2019 کو خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع میں صحت انصاف کارڈ کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت غرب سے لڑنے کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے دولت کی پیداوار پر بھر پور توجہ مرکوز کررہی ہے اور غربت کے خاتمے کا پروگران اس ہدف کے حصول میں معاون ثابت ہوگا۔
اگر چہ عمران خان ا قتدار میں "تبدیلی" کا نعرہ لگاتے ہوئے آئے ہیں لیکن وہ غربت سے لڑنے کے لیے وہی پرانا نسخہ تجویز کررہے ہیں جو پچھلے حکمران بھی دیا کرتے تھےیعنی کہ پیداوار میں اضافہ کرنا۔ باجوہ-عمران حکومت وہی نسخہ تجویز کررہی ہے جو اس سے پہلے پاکستان کی ماضی کی سیاسی و فوجی قیادت تجویز کرتی آئی ہے کیونکہ ان کی طرح یہ حکومت بھی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی ہی داعی ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی نظام غربت سے لڑنے کے لیے پیداوار میں اضافے کا نسخہ تجویز کرتا ہے اور اپنی پوری توجہ پیداوار میں اضافے پر مرکوز رکھتا ہے جبکہ پیدا ہونے والی دولت کی تقسیم کو "ٹریکل ڈاون ایفکٹ" کے حوالے کردیتا ہے یعنی جب برتن دولت سے بھر جائے گا تو خود ہی جھلک جھلک کر بہتا ہوا معاشرے کے تمام طبقات تک پہنچ جائے گا۔
لیکن یہ نسخہ پوری دنیا میں مکمل طور پرناکام ثابت ہوا ہے۔ کریڈٹ سویسی(Credit Suisse) کے ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں دنیا کے کُل دولت 317 ٹریلین ڈالر تھی جس کا مطلب ہے کہ ایک بالغ فرد کے حصے میں 63100 ڈالر آتے ہیں۔ لیکن اس عظیم دولت کی موجودگی کے باوجود ہم لوگوں کو غربت یا انتہائی غربت کی حالت میں رہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ عالمی بینک کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3.4ارب افراد، اب بھی اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی شدید کوشش کررہے ہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی زیادہ دولت کی موجودگی کے باوجود ایسی افسوسناک بلکہ خوفناک صورتحال کیوں ہے؟ یہ صورتحال اس وجہ سے ہے کہ ٹریکل ڈاون ایفکٹ موثر طور پر دولت کی تقسیم کو یقینی نہیں بناتا جس کے نتیجے میں دولت کا بہت بڑا حصہ پہلے سےموجود چند دولتمند کے ہاتھوں میں محدود ہوجاتا ہے۔ 22جنوری 2018 کواوکسفام کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 2017 میں دنیا میں جتنی دولت کی پیداوار ہوئی اس کا 82 فیصد حصہ دنیا کی آبادی کے صرف ایک فیصد لوگوں کے پاس چلاگیا جبکہ 3.7 ارب لوگوں کی دولت میں سرے سے کوئی اضافہ ہی نہیں ہوا جو دنیا کی آبادی کا نصف ہے۔ نومبر 2017 میں کریڈٹ سویسی (Credit Suisse) کی رپورٹ نے دنیا کی امیر ترین آبادی اور باقی دنیا کے آبادی کے درمیان بڑھتے فر ق پر روشنی ڈالی۔ اس رپورٹ کے مطابق امیر ترین ایک فیصد دنیا کی کُل دولت کے نصف کے مالک ہیں۔ تو اس بات میں بالکل بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سرمایہ داریت غربت کے مسئلے کو حل نہیں کرتی بلکہ و قت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کومزید گھمبیر بناتی رہتی ہے۔
اسلام بھی غربت کے مسئلے پر بات کرتا ہے لیکن اس مسئلے کے حل کے لیے بالکل دوسرا نسخہ تجویز کرتا ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ معاشی مسئلہ دولت کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی تقسیم ہے۔ اسلام کامعاشی نظام اپنی پوری توجہ دولت کی پیداوار پر نہیں بلکہ دولت کی تقسیم پر مرکوز کرتا ہے کیونکہ پیداوار میں اضافے اور بہتری کا معاملہ ایک سائنسی معاملہ ہے۔ لہٰذا اسلام سود، شیئر ہولڈنگ کمپنیوں، غریب پر ٹیکس کی ممانعت اور توانائی کے وسائل اور معدنیات کو عوامی ملکیت قرار دے کر، اس دولت پر زکوۃ جو نصاب سے زائد ہو، تجاری سامان پرزکوۃ ، زرعی زمین پر خراج ، زرعی پیداوار پر عشر لاگو کر کے اور ہنگامی صورتحال میں صرف امیروں پر ٹیکس لگا کر معاشرے میں دولت کی گردش کو یقینی بناتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جانا بہت ضروری ہے لیکن نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا۔ لہٰذا جو بھی غربت کے خاتمے میں سنجیدہ اور مخلص ہے تو اسے لازمی خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ
"تاکہ جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں (دولت) نہ پھرتی رہے"(الحشر 59:7)۔
پاکستانی قیادت کی چھوٹی سوچ پاکستان کو کبھی بھی معاشی طاقت بن کر ابھرنے نہیں دے گی
18 فروری 2019کوگورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان طارق باجوہ نے کہا کہ دوست ممالک کی مدد سے ملک مالیاتی بحران سے نکل آیا ہے اور معیشت کو صحیح راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ گورنر نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے متعلق بھی بات کی جس نے موجودہ مالیاتی سال کے دوران معیشت کو بہت بُری طرح سے نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا خسارہ ملک کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور حکومت اب بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف، سے پیکج کے لیے بات چیت کررہی ہے تا کہ خسارے کو کم سے کم کیا جاسکے۔
ملک کی قیادت معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہے گی کیونکہ اس کا معیشت کے متعلق نقطہ نظر بہت محدود اور خطرناک ہے۔ اس کے پیش نظر کسی نہ کسی طرح ڈالرز کے ذخائر کو برقرار رکھنا ہے۔ یہ کوئی مقامی ضرورت نہیں ہے بلکہ استعمار کی ضرورت ہے تا کہ بین الاقوامی تجارت میں ڈالر کی بالادستی کو برقرار رکھا جائے۔ لہٰذا حکومت اہم اثاثوں کو نجکاری کے نام پر بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کے ذریعے "دوست ممالک" کو فروخت کرتی ہے۔ حکومت اپنے لیے ہی گڑھا کھودتی ہے کیونکہ اس طرح حکومت مختصر مدت کے فائدے یعنی ڈالر کے حصول کے لیے ریاست کے خزانے کو ایسے اثاثوں سے محروم کردیتی ہے جن سے طویل مدت کے لیے زبردست دولت حاصل کی جاسکتی ہے۔ حکومت اس کے ساتھ ساتھ "دوست ممالک" اور استعماری مالیاتی اداروں سے ڈالر میں قرضے لیتی ہے اور پاکستان کے لیے مزید گھرا گڑھا کھودتی چلی جاتی ہے کیونکہ یہ قرضے شرائط کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں جن سے پاکستان کی معاشی خودمختاری متاثر ہوتی ہے اور سودکی ادائیگی کے لیےلوگوں کی جسموں سے ان کا گوشت نوچا جاتا ہے۔
صرف نبوت کے طریقے پر خلافت ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان معاشی لحاظ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ خلافت بین الاقوامی تجارت میں ڈالر کی بالادستی کے خاتمے کے لیے تحریک چلائے گی اور بین الاقوامی تجارت کوایک بار پھر سونے اور چاندی سے منسلک کیا جائے گا۔ خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ توانائی اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت بنایا جائے جس کی دیکھ بھال ریاست کرے گی تا کہ مقامی زرعی اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے وافر وسائل میسر ہوں۔ خلافت اسٹاک شیئر کمپنی کو ختم کرکے اسلام کے کمپنی ڈھانچے کو لاگو کرے گی جس کی وجہ سے ان صنعتوں میں جہاں بھاری سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے نجی شعبے کاکردار محدود جبکہ سرکاری شعبے کا کردار وسیع ہو جائے گا اور اس طرح ریاست کے خزانے کو بہت زیادہ وسائل میسر آئیں گے۔ خلافت سود کو غیر قانونی قرار دے گی اور عالمی سطح پر اس خاتمے کی دعوت دے گی کیونکہ قرض کے جال میں پھنسانے کا یہ ایک ذریع ہے جس میں دنیا کی کئی اقوامی پھنس چکی ہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الآخِرَةَ وَلاَ تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
"اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا"(القصص 28:77)۔
- پاکستان کے وزیر خارجہ نے بھارت کے ساتھ نارملائزیشن کے امریکی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مقبوضہ کشمیر سے دستبرداری اختیار کرلی ہے
18 فروری 2019 کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا ہے جس میں اُن سےدرخواست کی گئی ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد، جس میں چالیس قابض بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے، وہ موجودہ حالات کی کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔جناب قریشی نے مزید کہا کہ حملوں سے کئی ہفتے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ نے اقوام متحدہ کے پانچ مستقل مندوبوں کو اسلام آباد کے اس خدشے سے آگاہ کردیا تھا کہ بھارت انتخابات سے قبل"پاکستان مخالف ماحول" پیدا کرے گا اور کوئی "مہم جوئی"بھی کرسکتا ہے تا کہ انتہا پسند ہندو ووٹ کو یقینی بنایا جائے۔
قریشی صاحب کا اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے بھارت کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا کہنا بھارتی قبضے، پراپیگنڈے اور حملے کا کسی بھی صورت منہ توڑ جواب نہیں ہے۔ قریشی کا موقف جارح ہندو ریاست کے سامنے کمزوری کامظاہرہ ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے جبکہ ایسا جواب جانا چاہیے تھا کہ وہ خوف سے کانپ جاتا۔ دنیا کی چھٹی بڑی آرمی رکھنے کے باوجود حکومت کمزوری کامظاہرہ اس لیے کررہی ہے کیونکہ اس نے خود کو مکمل طور پر خطے کے لیےامریکی منصوبے کے تابع کررکھا ہے۔ امریکا کا پاکستان کے لیے یہ منصوبہ ہے کہ وہ امریکی اتحادی بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرے تا کہ اسے مسلم دنیا کی سب سے بڑی طاقت، پاکستان، کی جانب سے کوئی چیلنج درپیش نہ ہو۔ اس منصوبے کا مقصد بھارت کو پاکستان کی جانب بے فکر کرنا ہے تا کہ وہ کشمیر، افغانستان، پاکستان اور بنگلا دیش میں کھل کر سازشیں کرسکے۔ اقوام متحدہ سے حمایت کے حصول کی درخواست کرنا کسی بھی صورت قابل ستائش نہیں کیونکہ وہ تو دنیا میں، چاہے کشمیرہو یا مشرقی تیمور، فلسطین ہو یا جنوبی سوڈان، امریکا کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے اسی کا آلہ کار ادارہ ہے۔
اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ان ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کیا جائے جو مسلمانوں سے لڑتی ، ان پر مظالم ڈھاتی اور ان کے علاقوں پر قبضہ کرتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ
"اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"(محمد 60:9)۔
اسلام مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ قبضے کے خلاف لڑیں۔ لہٰذا پاکستان نہ صرف کشمیری جنگجووں کو اسلحہ فراہم کرے تا کہ ہندو ریاست کے قبضے کو ختم کیا جائے بلکہ اسے مسلم دنیا کی سب سے بڑی آرمی کو حرکت میں لانا چاہیے۔ لیکن حکمران تو امریکا کی خوشنودی کے لیے کشمیر کی زبردست مزاحمتی تحریک کو "دہشت گردی" سمجھتے ہیں ور جنگجووں سے ہتھیار ڈالنے اور ان سے بات چیت کرنے کو کہتے ہیں جو کہ ظالم ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ اس غلط طرز عمل کو صحیح طرز عمل سے بدل دیں تا کہ آخر کار کمزوروں اور مظلوموں کی پکار کا جواب ایک مضبوط اور آزادی دلانے والی فوج کے حملے کی صورت میں دیا جائے۔