بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز یکم مارچ 2019
- کشمیر پر قبضہ کر کےبھارتی نے جارحیت کی ابتداء کی اور خلافت اس کا خاتمہ کرے گی
۔ بھارت نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے خلاف دشمنی جاری رکھی ہوئی ہے اورعمران امن اور مذاکرات کی بات کررہاہے
- جمہوریت بلوچستان کی محرومی کی ذمہ دار ہے
تفصیلات:
کشمیر پر قبضہ کر کےبھارتی نے جارحیت کی ابتداء کی اور خلافت اس کا خاتمہ کرے گی
بھارت کے وزارت برائے خارجہ امور نے نئی دہلی میں پاکستان کےقائم مقام ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ، پاکستان نے بھارت کے خلاف بلا اشتعال جارحیت کامظاہرہ کیا ہے"۔ پاکستانی سفارت کار کودیے جانے والےاحتجاجی مراسلےمیں یہ الزام لگایا گیا کہ پاکستان ائر فورس نے 27 فروری 2019 کو بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔
بھارت دوسروں پر اشتعال انگیزی اور جارحیت کا الزام نہیں لگاسکتا ۔ بھارت کی جارحیت کی ابتداء بالاکوٹ پر حملے سے نہیں ہوتی۔ اس کی جارحیت کی ابتداء کشمیر پر قبضے سے شروع ہوتی ہے۔ اس نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا اور اب بھی کررہا ہے، عورتوں کی عصمت دری اور عام شہریوں پر پیلٹ گن کی فائرنگ کرکے انہیں اندھا بنا رہا ہے۔ محدود ردعمل اور تحمل کی تمام باتوں کودفن کردینا چاہیے کیونکہ اسلام اس سے کہیں زیادہ کا ہم سے مطالبہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی طویل غلامی اور ان پر ہونے والے ظلم و جبر کے خاتمے کے لیے افواج پاکستان کو حرکت میں لایا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَاِنِ اسۡتَـنۡصَرُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ فَعَلَيۡكُمُ النَّصۡرُ
"اور اگر وہ تم سے دین (کےمعاملات) میں مدد طلب کریں تو تم کو مدد کرنی لازم ہو گی"(الانفال 8:72)۔
لیکن موجودہ حکمران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس حکم پر کبھی عمل نہیں کریں گے کیونکہ وہ قرآن و سنت سے رہنمائی نہیں لیتے بلکہ اپنے امریکی آقاوں سے رہنمائی اور ہدایت لیتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا انکار کرتے ہیں اور مسلمانوں اور ان کے دین سے لڑتے ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ڈھال یعنی خلافت کو بحال کریں جو 3 مارچ 1924 کو تباہ کردی گئی تھی تا کہ وہ ایک بار پھر آزادی کی جنگیں لڑسکیں اور نئے نئے علاقے اسلام کے لیے کھول سکیں۔
بھارت نے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے خلاف دشمنی جاری رکھی ہوئی ہے
اورعمران امن اور مذاکرات کی بات کررہاہے
وزیر اعظم عمران خان نے 27 فروری 2019 کو قوم اور ہمسائیہ ملک بھارت کے فیصلہ سازوں سے خطاب میں اپنے امن کے پیغام کو دہرایا اور مذاکرات کی پیشکش کی۔ یہ خطاب اس وقت کیا گیا جب پاکستان ائر فورس نے کامیابی کے ساتھ اسی دن لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب کامیابی سے غیر فوجی اہداف کو نشانہ بنا کر اپنی جارحانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور دو بھارتی طیاروں کو مار گرایا جب انہوں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی۔
ہماری افواج کی صلاحیتوں پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن پاکستان کی قیادت نے انہیں مایوس کیا ہے کیونکہ وہ خطے میں امریکی منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیےامریکا کی مکمل اطاعت کررہے ہیں۔ امریکا یہ چاہتا کہ مسلمانوں کا قاتل مودی انتخابات جیتنے کے لیے پاکستان میں دراندازی کا طریقہ کار اختیار کرے۔ امریکا کو اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کا ایجنٹ مودی چین اور خطے کے مسلمانوں کے خلاف اس کے منصوبے کو آگے بڑھائے۔ امریکا کاپاکستان کے لیے منصوبہ یہ ہے کہ پاکستان اس کے مضبوط اتحادی بھارت کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرے تا کہ بھارت کو مسلم دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی جانب سے کسی بھی قسم کے چیلنج کا خطرہ باقی نہ رہے۔ امریکا کانارملائزیشن کا منصوبہ جارح کے سامنے ذلت اور کمزوری دیکھانے کا منصوبہ ہے تا کہ بھارت کو خطے میں، چاہے وہ کشمیر ہو یا افغانستان، پاکستان کو یا بنگلادیش، اپنے شیطانی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے کھلی آزادی مل جائے۔
عمرا ن کا موقف اسلام سے مکمل سے طور متصادم ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک مسلم سرزمین ہے جس کی آزادی کو یقینی بنانا ایک فرض ہے۔ کسی بھی قابض فوج کے ساتھ امن اور نارملائزیشن کی اجازت نہیں ہے۔ ان حکمرانوں کو مسترد کرنا چاہیے جو جو ان دشمنوں کے ساتھ معاہدے،اتحاد اور تالیاں بجاتے ہیں جو ہمارے دین کے دشمن ہیں، مسلمانوں سے لڑتے ہیں اور ہمارے خلاف دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
اِنَّمَا يَنۡهٰٮكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيۡنَ قَاتَلُوۡكُمۡ فِىۡ الدِّيۡنِ وَاَخۡرَجُوۡكُمۡ مِّنۡ دِيَارِكُمۡ وَظَاهَرُوۡا عَلٰٓى اِخۡرَاجِكُمۡ اَنۡ تَوَلَّوۡهُمۡۚ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
"اللہ ان ہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"(الممتحنہ 60:9)۔
جمہوریت بلوچستان کی محرومی کی ذمہ دار ہے
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال خان علیانی نے کہا کہ صوبے میں اب بھی لوگوں کو بنیادی سہولیات کی کمی کاسامنا ہے۔ 25 فروری 2019 کو بجٹ سے پہلے ایک مشاورتی ورکشاپ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کئی علاقوں کو اسکول، سڑکوں، اسپتالوں اور دیگر بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے،لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی 12 ملین سے کچھ زیادہ ہے جبکہ پاکستان کی کُل آبادی 212 ملین سے زائد ہے۔ قدرتی وسائل کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے دولت مند صوبہ ہے۔ ایک کھرب ڈالر سے زائد مالیت کے قدرتی وسائل کو یہاں پر تسخیر کیا جاچکا ہے جس میں سونا، تانبہ، ماربل، تیل، قیمتی پتھر، کوئلہ، کرومائٹ اور قدرتی گیس شامل ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ اس صورتحال کے پیچھے جس سبب کی سب سے زیادہ تشہیر کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا رقبہ بہت زیادہ ہے لیکن آبادی بہت کم ہے۔ لیکن درحقیقت اس کی پسماندگی کی حقیقی وجہ جمہوری نظام ہے۔
جمہوریت صحیح اور غلط کو نہیں دیکھتی بلکہ وہ تعداد کو دیکھتی ہے۔ جمہوریت میں اس کے داعیوں کو اقتدار میں آنے کے لیے بلوچستان کے لوگوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کی آبادی پاکستان کی آبادی کاصرف چھ فیصد ہے۔ لہٰذا جمہوریت میں بلوچستان کے لوگوں کونظر اندازکیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے قدرتی وسائل کی بہت زیادہ اہمیت ہےجس میں پیش قیمت معدنیات اور تیل وگیس کے وسیع ذخائر شامل ہیں۔ بدقسمتی سے جمہوریت میں اتنے وسیع قدرتی وسائل ہونے کے باوجود بلوچستان کے لوگوں کی قسمت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی بلکہ پاکستان کو بھی اس کا مکمل فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ وسیع دولت چند ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکمرانوں کے بدعنوان ساتھیوں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے ۔ جمہوریت حکمرانوں کو قانون سازی کا اختیار دیتی ہے ، لہٰذا وہ ایسے قوانین بناتے ہیں کہ یہ زبردست دولت ملٹی نیشنلز اور حکمرانوں کے ساتھیوں کی جیبوں پاس پہنچ جاتی ہے۔
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال صرف اسی صورت میں تبدیل ہو گی جب پاکستان میں نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی۔ خلافت اسلام کونافذ کرتی ہے لہٰذا کوئی حکمران نہ تو خود قوانین بناسکتا ہے اور نہ ہی اسلام کے علاوہ کہیں اور سے قوانین لے سکتا ہے۔ اسلام حکمران پر لازم کرتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر فرد اپنی بنیادی ضروریات یعنی خوراک، لباس اور رہائش کو پورا کرسکے چاہے وہ بڑے شہروں میں رہتے ہوں یا دورآفتادہ کسی چھوٹے سے علاقے میں رہتا ہو۔ اسلام حکمران پر لازم کرتا ہے کہ وہ معاشرے کی بنیادی ضروریات یعنی اسکول، صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرے جس کی معاشرے کو اجتماعی لحاظ سے ضرورت ہوتی ہے۔ اگر حکمران ان بنیادی ضروریات کو فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے چاہے آبادی کا محض کوئی چھوٹا حصہ ہی کیوں نہ اس سے محروم ہو، تو اس حکمران کا سخت ترین احتساب کیا جائے گا۔ جمہوریت ریاست اور حکمرانوں کو اس بات پرمجبور نہیں کرتی کہ ریاست کے تمام لوگوں کا خیال رکھیں۔ جبکہ اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست کے ہر ایک فرد کے حق کوپورا کرے چاہے وہ کہیں بھی رہتا ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا،
الإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
"امام نگہبان اور اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے"(بخاری)۔