بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز19اپریل 2019
۔ اسلام کے قوانین سادھے اور شفاف ہیں اور اسلام کے عدالتی نظام کے ذریعے آسانی سے نافذ ہوتے ہیں
۔اسلام کے مکمل نفاذ کے بغیر پاکستان بحرانوں سے نہیں نکل سکتا
۔ پاکستان کے مسائل کا حَل آئی ایم ایف کے"بیل آؤٹ پیکجز" میں نہیں بلکہ اللہ پاک کے نازل کردہ احکامات میں ہے
تفصیلات:
اسلام کے قوانین سادھے اور شفاف ہیں اور اسلام کے عدالتی نظام کے ذریعے آسانی سے نافذ ہوتے ہیں
13 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیڈرل جوڈیشل آکیڈمی میں ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا، "پارلیمنٹ عدالتی نظام کو اہمیت نہیں دیتی۔۔۔۔ریاست اور قانون سازوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے قوانین لائیں جو واضح اور شفاف ہوں اور آسانی سے نافذ ہوسکتے ہوں"۔
یقیناً انصاف کی فراہمی کے لیے اچھے قوانین اور موثر عدالتی نظام کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پاکستان میں انصاف کی عدم فراہمی کی بنیادی وجہ برطانوی سامراج کے چھوڑے قوانین اور عدالتی نظام ہے ۔ یہ قوانین اور عدالتی نظام کفر ، یعنی سیکولر عقیدےکی بنیاد پر بنائے گئے ہوئے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد اسی لیے کی تھی کہ وہ اس کفر نظام سے نجات حاصل کر کے اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کریں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان بننے کے بعد اسلام کو کسی بھی شعبے میں نافذ نہیں کیا جس میں عدالتی نظام بھی شامل ہے۔ انسانوں کے بنائے قوانین اور پھر ان قوانین کو نافذ کرنے والا عدالتی نظام کبھی بھی لوگوں کو فوری، سہل اور سستہ انصاف فراہم نہیں کرسکتا۔ تمام انسان مل کر بھی انسانوں کے تمام مسائل کے لیے آسان قوانین نہیں بناسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں نافذ عدالتی نظام کے حوالے سے لوگوں کو یہی شکایت ہے کہ قوانین میں تضاد ہے، قوانین آسان فہم نہیں ہیں اور لوگوں کو فوری اور سستا انصاف فراہم نہیں کرتے۔
واضح، شفاف اور آسانی سے نافذ ہونے والے قوانین کے لیے ہمیں پارلیمنٹ کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ یہ صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں کو درکار تمام قوانین قرآن و سنت میں بیان کردیے ہیں جو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں اور ادوار کے لیےکافی ہیں۔ ریاست خلافت کی 1300 سال کی تاریخ کا سب سے روشن پہلو اس کے قوانین اور عدالتی نظام تھا جو لوگوں کو آسان اور فوری انصاف فراہم کرتا تھا۔اسلام کے قوانین اور اس کے عدالتی نظام کی افادیت اور انصاف پروری سے متاثر ہو کر ریاستِ خلافت میں رہنے والے غیر مسلم اپنے اُن مسائل پر بھی فیصلے اسلامی قوانین کی روشنی میں کرواتے تھے جہاں انہیں اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کروانی کی اجازت ہوتی تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلامی قوانین کے آسان فہم ہونے کے حوالے سے فرمایا،
وَلَقَدۡ يَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّكۡرِ فَهَلۡ مِنۡ مُّدَّكِرٍ
"اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے؟"( القمر، 54:17)۔
اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان قوانین کی جامعیت کے حوالے سے فرمایا،
وَنَزَّلۡنَا عَلَيۡكَ الۡـكِتٰبَ تِبۡيَانًا لِّـكُلِّ شَىۡءٍ
"اور ہم نے تم پر (ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ (اس میں) ہر چیز کا بیان (مفصل) ہے "(النحل، 16:89)۔
اور اللہ نے فرمایا کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ میں ہی انسانیت کے فلاح اور ہدایت ہے،
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالۡحَقِّ ۚ فَمَنِ اهۡتَدٰى فَلِنَفۡسِهٖ ۚ وَمَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡهَا
"ہم نے تم پر کتاب لوگوں (کی ہدایت) کے لئے سچائی کے ساتھ نازل کی ہے۔ تو جو شخص ہدایت پاتا ہے تو اپنے (بھلے کے) لئے اور جو گمراہ ہوتا ہے گمراہی سے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے"(الزمر، 39:41)۔
اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم پرلازم کیا ہے کہ ہم اپنے فیصلے صرف اور صرف وحی یعنی قرآن و سنت کے مطابق کریں اور جو ایسا نہیں کرتا اسے اللہ نے ظالم قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
"اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بےانصاف ہیں"(المائدہ، 5:45) ۔
لہٰذا ریاست ، امت کے نمائندگان اور عدالتوں کو آسان اور شفاف قوانین کے لیے دردر کے ٹھوکریں کھانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف ایک ہی جگہ سے رجوع کرنے سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہوجاتا ہے اور وہ ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دین اسلام۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام کو دین اور ہمارے لیے نعمت قرار دیا ہے،
اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًاؕ
"آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا"(المائدہ، 5:3)۔
اور یہ دین اسلام اور اس کا عدالتی نظام جمہوریت یا انسانوں کے بنائے کسی بھی نظام میں نافذ نہیں ہوسکتا ہے بلکہ صرف اور صرف نبوت کے طریقے پر قائم خلافت میں نافذ ہوتا ہے۔لہٰذا تمام مسلمانوں کو نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنی چاہیے۔
اسلام کے مکمل نفاذ کے بغیر پاکستان بحرانوں سے نہیں نکل سکتا
17 اپریل 2019 کو عمران خان نے کہا کہ شہری جس موجودہ مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں وہ جلد ختم ہوجائے گا اور ملک موجودہ بحران سے طاقتور بن کر نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ خوشحال پاکستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ لوگ ہیں جو موجودہ نظام سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا ہدف رکھتی ہے۔
یقیناً پاکستان کے شہری اس وقت مہنگائی کے طوفان کا سامنا کررہے ہیں ۔ لوگوں کی قوت خرید ختم ہوتی جارہی ہے۔ بجلی، گیس، ادویات کے قیمتیں کسی ایک سطح پر رکنے کا نام نہیں لے رہیں اور پاکستانی روپے کی قدر گرتی جارہی ہے۔ اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کے لیے "تبدیلی سرکار"نے اب تک عوام کے سامنے کوئی متبادل راستہ پیش نہیں کیا۔ تبدیلی سرکار عوام کو صبر کرنے اور دو کی جگہ ایک روٹی کھانے کا مشورہ دے رہی ہے اور اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے وہی طریقہ کار استعمال کررہی ہے جو اس سے پہلےپچھلی حکومتیں کیا کرتی تھیں یعنی کہ اندروی و بیرونی قرضے اور آئی ایم ایف کا پروگرام۔ تبدیلی سرکار کا یہ کہنا کہ موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے میں وہ لوگ رکاوٹ ہیں جو موجودہ کرپٹ نظام سے فائدے اٹھا رہے ہیں لیکن ان لوگوں کو پی ٹی آئی نے تو خود اپنی صفوں میں خوش آمدید کہاتھا تا کہ انتخابات جیت کر اقتدار کی کرسی پر بیٹھا جاسکے۔ تو جب تک پی ٹی آئی کی حکومت اپنی صفوں کو ایسے عناصر سے صاف نہیں کرتی جو نظام کی تبدیلی میں رکاوٹ ہیں تو تبدیلی کیسے آئے گی؟
درحقیقت چند لوگ نہیں ہیں جو موجودہ نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ پوری حکمران اشرافیہ اس نظام سے فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ جمہوری نظام انہیں اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے پورا پورا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک طرف عام آدمی اپنی حق حلال کی کمائی پر غیر شرعی ٹیکس دے دے کر غریب ہوتا جارہاہے تو دوسری جانب بدعنوانی کے ذریعے کمائی گئی اربوں کھربوں کے اثاثے حلال کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم لائی جاتی ہے۔ یہ وہ کام ہیں جو پچھلے ستر سال میں آنے والی تمام حکومتوں نے کیے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ان اقدامات سے ماضی میں پاکستان بحرانوں سے نکل نہیں سکا تو اب کیسے انہیں اقدامات کے نتیجے میں پاکستان طاقتور بن کر نکلے گا اور فلاحی ریاست بن جائے گا؟
تبدیلی کاراستہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا راستہ نہیں ہے۔ تبدیلی کا راستہ نبوت کے طریقےپر خلافت کا قیام ہے جو اسلام کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرتا ہے۔ صرف اور صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہی پاکستان کو اس بحران سے نکال کر طاقتور بننے کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔ مسلمانوں کے 1400 سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے اسلام کو مکمل طور پر نافذ کیا وہ ہر لحاظ سے طاقتور بنے اور لوگوں نے خوشحالی کا دور دیکھا اور برصغیر پاک و ہند اس کی سب سے بڑی مثال ہے جسے برطانوی استعمار سونے کی چڑیا کہتا تھا ۔پاکستان کے مسلمانوں کو حکمرانوں کے جھوٹے وعدوں سے مزید دھوکہ نہیں کھانا چاہیے اور انہیں مزید وقت دیے بغیر مسترد کردیں اور پاکستان میں خلافت کے قیام کے جدوجہد کا حصہ بن جائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰىؕ وَلَٮِٕنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍؔ
"(ان سے) کہہ دو کہ اللہ کی ہدایت (یعنی دین اسلام) ہی ہدایت ہے۔ اور اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی اللہ) کے آ جانے پر بھی ان (لوگوں)کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) اللہ سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار" (البقرۃ:124)
پاکستان کے مسائل کا حَل آئی ایم ایف کے"بیل آؤٹ پیکجز" میں نہیں بلکہ اللہ پاک کے نازل کردہ احکامات میں ہے
روزنامہ ڈان کی 13 اپریل 2019 کی خبر کے مطابق اسد عمر نے اپنے حالیہ امریکہ کے دورے کے دوران کہا کہ2013،2008،1999،1988 اور 2018 میں بحرانی صورتحال ایک ہی طرح کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈھانچے میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہے ، اس لئے حکومت ڈھانچے میں تبدیلی کیلئے کام کر رہی ہے ۔بے شک اس بیان میں اسد عمر کہ منہ سے سچ نکل گیا مگر یہ گڑبڑ صرف کسی مخصوص ڈھانچے کی نہیں بلکہ پورے کا پورا سرمایہ دارانہ نظام ہی فساد کی جڑ ہے۔ پاکستان اپنے ماضی میں21 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے اور ہر دفعہ جانے والی حکومتوں کی توجیحات ایک ہی جیسی ہوتی ہیں جیسے کہ تجارتی توازن کا مسئلہ ، کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ وغیرہ ۔
ان مسائل کی اصل وجہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں کرنسی کاڈالر کی بنیاد پر ہونا اور عالمی تجارت کیلئے ڈالر کا استعمال ہے۔ لہٰذا ممالک کو ہر وقت اپنے ڈالر کے ذخیرے کو بڑھانے پر نظر رکھنی پڑتی ہے اور ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جس سے ڈالر کی رسد میں اضافہ ہو، چاہے اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات ہی کیوں نہ مرتب ہوں ۔ ا س لئے ریاست کبھی روپے کی قدر میں کمی اور کبھی عوامی اثاثوں کی نجکاری کے ذریعے ڈالر کے حصول کی کوشش کرتی ہے ۔ اور جب ان اقدامات سے معیشت تباہ حال ہوجاتی ہے تو ریاست مزید تباہی کو دعوت دیتے ہوئے ڈالر کی اِس کمی کو پورا کرنے کےلئے آئی ایم ایف جیسے اداروں کا رخ کرتی ہے ۔ یہ جانتے ہوئے کہ آئی یم ایف جیسے اداروں کا اصل مقصد ملکی معیشت کو خودمختار کرنا نہیں بلکہ دنیا میں ڈالر کی طلب پیدا کرنا اور اس کی کھپت کو یقینی بنانا ہے۔آئی ایم ایف ان قرضوں کے ذریعہ ایک طرف تو ڈالر کی طلب میں اضافے اور کھپت کو یقینی بناکر امریکی مفاد کا تحفظ کرتاہے اور دوسری طرف یہ قرضوں کی واپسی کیلئے ایسی سخت شرائط لگاتا ہے جس سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے جیسے ٹیکسزکے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ و غیرہ۔ جبکہ کرنسی کی قدر کو گرانے اور اپنی معیشت کو اِس انداز پر ترتیب دینا کہ برآمدات (ایکسپورٹ) بڑھ سکیں جس سے معیشت Export oriented ہوجاتی ہے اور ملک کی توجہ داخلی ضروریات سے ہٹ کر بیرونی ضروریات پر مرکوز ہو جاتی ہے ۔مثال کے طور پر آئی ایم ایف نقد فصلوں جیسے کہ کپاس اگانے کا کہتا ہے کیونکہ عالمی مارکیٹ میں اِس کی اچھی طلب ہے جبکہ گندم کی پیداوارجو ملک کی ضرورت ہے نظر انداز کی جاتی ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان زراعت میں خود کفیل ہونے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاءدرآمد کرتا ہے۔اسی طرح آئی ایم ایف خاص صنعتی اشیاء کی برآمد کرنے پر زور ڈالتا ہے جیسے ٹیکسٹائل کی مصنوعات مگر اسی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مشینری اور بھاری مشینری کی صنعت نہ ہونے کی وجہ سے اس کو درآمد کرنا پڑتا ہے جس سے تجارتی خسارہ بڑھتا رہتا ہے۔ان اقدامات سے نہ صرف درآمدات پر ہمارا انحصار بڑھتا ہے بلکہ آئی ایم ایف جیسے ادارے ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے لگتے ہیں ۔ اگر امریکہ یا مغربی دنیا سے ہمارے تعلقات خراب ہو جائیں یا وہ ہم سے اپنے مفاد کے کام کروانا چاہیں تو وہ ہماری برآمدات پر پابندی لگا تےہیں جیسا کہ 1998 میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو ہمیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ہمارے برآمدکنندگان کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا۔اس طرح یہ تجارتی پابندیوں یا قرضوں کی اقساط روکنےکو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کوامریکی غلامی کا بہانہ مل جاتا ہے کہ اگر مغرب کی بات نہ مانی تو ہماری معیشت برباد ہو جائے گی ۔ جیسا کے اللہ پاك نے جب مشرکین کو مسجدِ حرام آنے سے منع کر دیا تو لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اِس سے وہاں کی معیشت پراثر ہوگا۔ مگر اِس بارے میں اللہ پاک نے فرمایا
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلاَ يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ))
"اے ایمان والو! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجدِ حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے ۔ اللہ علم و حکمت والا ہے"( سورۃ التوبۃ: 28)۔
لہٰذاپاکستان کے مسائل کا حَل آئی ایم ایف کے“بیل آؤٹ پیکجز ” میں نہیں بلکہ اللہ پاک کے نازل کردہ احکامات میں ہے جو خلافت کے قیام کے ذریعے نافذ ہوتے ہیں ۔ اسلام کرنسی کو سونے اور چاندی سےمنسلک کرتا ہے جس میں ڈالر یا کسی اور کرنسی کا ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس وجہ سے کرنسی کا ایکسچینج ریٹ بھی مستحکم رہتا ہے اور بیرونی ممالک کو ہم پر کسی قسم کی بالادستی کا موقع فراہم نہیں ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا،
(( وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا))
"اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہرگز کوئی راستہ نہیں رکھے گا"(النساء:141)۔