بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز26 اپریل 2019
۔انتخابی قوانین کی نہیں نظام حکمرانی کی تبدیلی لازم ہے
-نشواہ سے لاپرواہی کی زمہ دار حکومت ہے جس نے صحت کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے
تفصیلات:
انتخابی قوانین کی نہیں نظام حکمرانی کی تبدیلی لازم ہے
22 اپریل 2019 کو ایک تقریب میں ای سی پی نے 2018 کے عام انتخابات کے حوالے ایک رپورٹ جاری کی۔2018 کے عام انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا کیا ان کے حل کے لیے ای سی پی عام انتخابات کے لیے بنائے گئے لیگل فریم ورک میں اہم تبدیلیاں کروانا چاہتی ہے۔
پاکستان میں اکثر دانشور حضرات یہ بات بہت کرتے ہیں کہ انتخابی قوانین میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اہل، دیانت دار اور مخلص افراد ہی انتخابات میں حصہ لے سکیں اور انتخابات غیر جانبدرانہ ماحول میں ہوں ۔جب برے لوگوں پر انتخابات میں حصہ لینے کی دروازے بند ہوجائیں گے اور صرف اچھے لوگ ہی انتخابات میں حصہ لیں گے، اس طرح ملک کو بہترین قیادت میسر آئے گی اور وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف ملک و قوم کے مفاد میں قانون سازی اور حکمرانی کریں گے۔ لیکن یہ تصور ایک سراب ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کا حال ہمارے سامنے ہے ۔ بھارت کا الیکشن کمیشن انتہائی خودمختار ہے لیکن اس کے باوجو بڑی تعداد میں ملزمان بھارتی صوبائی اور وفا قی اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز کی اپریل 2018 کی رپورٹ کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں 33 فیصد ایسے افراد بیٹھے ہیں جن کے خلاف فوجداری مقدمات قائم ہیں۔ اسی طرح دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت امریکا میں لوگ اپنے سیاست دانوں سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہیں۔ امریکن نیشنل الیکشن اسٹڈیز کے 2016 کی رپورٹ کے مطابق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ "زیادہ تر سیاست دانوں کو صرف امیر اور طاقتور طبقات کے مفادات کی فکر ہوتی ہے"۔ اور فرانس میں میں جہاں 2017 میں میکرون تبدیلی کے نام پر صدر منتخب ہوئے ،آج وہاں یلو ویسٹ کے نام سے میکرون کے خلاف ہر ہفتے مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان مظاہروں کو شروع ہوئے 22 ہفتوں سے زائد عرصے کا وقت گزر چکا ہے۔ مظاہرین یہ سمجھتے ہیں کہ میکرون کی حکومت عام آدمی پر معاشی بوجھ ڈالتی جارہی ہے جبکہ امیروں کو رعایت دے رہی ہے۔ فرانسی عوام کو میکرون سے بہت توقعات وابستہ تھیں کیونکہ وہ روایتی سیاستدانوں سے تنگ آچکے تھے اور سمجھتے تھے کہ میکرون عام عوام کے لیےکام کرے گا۔ لیکن دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ ثابت ہوگیا کہ تبدیلی کے نام پر آنے والا میکرون بھی پچھلے کرپٹ سیاست دانوں کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔
مسئلہ الیکشن کمیشن کا بااختیار ہونا یا انتخابات کا شفاف ، غیر جانبدار ہونا یا ان میں صرف مخلص اور دیانتدار افراد کا حصہ لینا نہیں ہے۔ بنیادی مسئلہ جمہوریت ہے جو چند انسانوں کو قانون سازی کا حق دیتی ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ممنوع قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَـقِّ لِتَحۡكُمَ بَيۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰٮكَ اللّٰهُؕ
"ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ اللہ کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو"(النساء:105)۔
قانون سازی کا حق کرپشن کے دروازے کھول دیتا ہے۔ چند طاقتور افراد، گروہوں کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں پر اثرانداز ہو کر اپنے مفاد کے مطابق قانون سازی کرالیں جبکہ عوام کی اکثریت صرف ووٹ ڈالنے والے دن ہی لاڈلی ہوتی ہے جس کے بعد انہیں بھلا دیا جاتا ہے۔ اسلام کانظام حکمرانی ان مسائل سے پاک ہے کیونکہ اسلام میں شارع صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ اس طرح اسلامی ریاست یعنی خلافت میں خلیفہ، مجلس امت اور قاضی سمیت کوئی بھی قانون سازی نہیں کرسکتا بلکہ صرف اور صرف قرآن و سنت کو نافذ کرنے کا پابند اور اس پر مجبور ہوتا ہے۔
نشواہ سے لاپرواہی کی زمہ دار حکومت ہے جس نے صحت کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے
نو ماہ کی نوزائیدہ بچی نشواہ جوانجیکشن کی غلط مقدار ملنے سے مفلوج ہوگئی تھی پیر کے دن انتقال کر گئی۔ اس کے والد کی جانب سے درج کردہ ایف آئی آر کے مطابق وہ 6 اپریل کو اپنی جڑواہ بچیوں کو دست کی شکایت سے نجی ہسپتال لائے تھےجہاں نشواہ کوپوٹیشیم کلورائڈ کی زیادہ مقدارملنے کی وجہ سےحالت بگڑ گئی اور چند ہی لمحوں میں نشواہ کے ہونٹ نیلے اور سانس اکھڑنے لگی۔ نشواہ کے والد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ، " برائے مہربانی کچھ کریں تا کہ کسی اور کو بیٹی کا نقصان نہ اٹھانا پڑے، ورنہ ایسی خبریں چلتی رہیں گی اور عہدیداران دورے پر آتے رہیں گے لیکن کچھ نہیں بدلے گا"۔
نشواہ کے واقعے نے پاکستان میں صحت کے شعبے کی قلعی کھول دی ہے جہاں ریاستی ہسپتالوں کی کمی اور اِن کے خستہ حالات کی وجہ سے عوام کی اکثریت نجی ہسپتالو ںمیں علاج کرانے پر مجبور ہے اور ریاست اپنی زمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر تماشہ دیکھنے میں مصروف ہے۔ ۔ اس وقت نجی شعبہ 80فیصد بیرونی مریضوں(outpatient) کی دیکھ بحال کرتا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولیات کی فراہمی میں نجی شعبہ کے غلبے نے اِن سہولیات کی فراہمی کوخدمت کی جگہ کاروبار اور بنیادی حق کے بجائے آسائش بنا دیا ہے۔صحت نجی کاروبار بن جانے سے نہ صرف پاکستان کے عوام کی اکثریت کے لیے ایک آسان اور سستا علاج انتہائی مشکل بنا دیا ہے بلکہ ان نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف سے 24 سے 36 گھنٹے کی بلا تعطل شفٹوں میں کام لینے سے عوامی خدمت کا بیڑاغرق ہو گیا ہے۔ زیادہ تر اوقات نرسنگ اسٹاف ہی ایمرجنسی اور دیگروارڈ چلاتے نظر آتے ہیں جو اس جیسے واقعات کی وجہ بنتے ہیں ۔ پاکستان اپنی مجموعی پیداوار کا محض ایک فیصد سے بھی کم حصہ صحت پر خرچ کرتا ہے اور موجودہ حکومت نے تو صحت انصاف کارڈ کے نام پر انشورنس کارڈ جاری کرتے ہوئے صحت کو نجی شعبے کے حوالے کردیا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ پاکستانی حکمران اپنے آقا امریکہ کی اندھی تقلید کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظامِ حکومت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں جو صحت جیسے عوامی ضرورت کے شعبے کو بھی نجی ملکیت میں دینے کی ترغیب دیتا ہے ۔ امریکہ میں عام افراد کے دیوالیہ ہونے میں سے 62فیصد کی سب سے بڑی وجہ طبی قرضے بتائے جاتے ہیں، پانچ کروڑ امریکیوں کے پاس طبی انشورنس کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں ہے کیونکہ وہ اس کا بھی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہیں اور اِن پانچ کروڑ میں سے تقریباً 18000 ہر سال صرف موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طبی انشورنس کی سہولت موجود نہیں ہوتی لہٰذا وہ اپنا علاج ہی نہیں کرواسکتے۔ یہ صورتحال اس لیے ہے کیونکہ جمہوریت نے صحت عامہ کے شعبے کو نجی شعبے کے حوالے کرکے اور ادوایات کے پیٹنٹ اور انشورنس قوانین بنا کر ایک چھوٹے سے اشرافیہ کے طبقے کو کروڑوں لوگوں کی پریشانیوں سے کھیلنے اور اُن سے اربوں ڈالر کمانے کے عمل کو جائز قرار دیا ہے۔یقیناً جمہوریت چندطاقتور لوگوں پر مشتمل اشرافیہ کا کروڑوں لوگوں سے "بہترین انتقام" ہے جو ہمارے حکمران ہم سے لے رہے ہیں ۔
اس کے برعکس اسلام نے صحت کو معاشرتی ضرورت قرار دیتے ہوئے اس کا انتظام خلیفہِ وقت کے ہاتھ میں دیا ہے۔ غزوہ خندق کے دوران جب رسول اللہ ﷺ ایک زخمی سپاہی کے پاس سے گزرے تو اس کے لیے طبی سہولیات سے مزین ایک خیمہ لگانے کا حکم جاری کیا، رسول اللہ ﷺنے بحیثیت حکمران ابی بن کعب ؓکے لیےڈاکٹر کا انتظام بھی کیا اوراسی طرح عمر بن الخطاب ؓنے بھی ،جو کہ دوسرے خلیفہ راشد ہیں، بحیثیت حکمران علاج کا بندو بست کیا۔ یہ اس بات کے دلائل ہیں کہ علاج کی سہولیات رعایا کی بنیادی ضروریات میں سے ہیں۔ ریاست کے اوپرواجب ہے کہ وہ رعایا میں سے ضرورت مند کو یہ سہولت مفت فراہم کرے ۔ خلافت میں عوامی ہسپتال یا "بیمارِستان"(بیماروں کا گھر) لوگوں کے لیے ایک شاندار سہولت ہوتی تھی۔ اس بات سے قطع نظر کہ مریض کس مذہب،جنس یا ملک کا شہری ہے، تمام لوگوں کی دیکھ بحال کی جاتی تھی۔ المنصوری ہسپتال میں ، جو قاہرہ میں 1283 عیسوی میں قائم ہوا تھا ،8000ہزار مریضوں کی دیکھ بحال کی جاسکتی تھی۔ ہر مریض کے لیے دو طبی تربیت یافتہ افراد اس کی دیکھ بحال کے لیے مقرر ہوتے تھےجو اس کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور ہر مریض کا اپنا بستر ، بستر کی چادریں اور کھانے کے برتن ہوتے تھے ۔ لہٰذا صرف خلافت کا قیام ہی آج بھی ہمارے صحت کے تمام مسائل کا حل اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کا زریعہ ہے۔