بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 16 مئی 2019
۔ معاشی مسائل اسلام کےمکمل نفاذ کے بغیر کسی صورت ختم نہیں ہوسکتے
-پاکستان کے مسلمان اسلامی ٹیکس با خوشی دیں گے
-پاور پلانٹس کی مزید نجکاری کے فیصلے نے حکومت کی استعمار کی غلامی کو واضع کردیا ہے
تفصیلات:
معاشی مسائل اسلام کے مکمل نفاذ کے بغیر کسی صورت ختم نہیں ہوسکتے
11مئی 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے یہ کہا کہ موجودہ صورتحال کی وجہ پچھلی حکومتوں کے غلط معاشی پالیسیاں ہیں۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ مشکل و قت جلد ختم ہوجائے گا کیونکہ حکومت پورے نظام کو درست کررہی ہے۔
تبدیلی کے نام پر آنے والے وزیر اعظم بھی پچھلے حکمرانوں کی ہی زبان بول رہے ہیں ۔ گزرے حکمران بھی جب حکومت میں آئے تھےتو خراب معاشی حالات کی ذمہ داری اپنے سے پچھلی حکومتوں پر ڈالتے تھے۔ لیکن ایک سچ کوئی نہیں بولتا ہےکہ مسئلہ خراب معاشی پالیسیاں نہیں ہیں بلکہ خراب معاشی نظام یعنی کہ سرمایہ دا ریت ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو دولت کے ارتکاز کو یقینی بناتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تر قی یافتہ ممالک میں بھی امیر و غریب کا فر ق خطرنال حد کو چھورہا ہے اور وہاں پر "وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو" اور یلو ویسٹ جیسی تحریکیں چلتی ہیں ۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو جمہوریت میں دیے گئے قانون سازی کے اختیار کی مدد سے عوام پر ریاست کوچلانے کے لیے درکار ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیتا ہے جبکہ حکمرانوں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کو ٹیکس میں مراعات فراہم کرتا ہے۔ 13 اپریل 2012 کو وائٹ ہاوس کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ صدر اوباما کی سیکریٹری صدر کے مقابلے میں زیادہ شرح سے ٹیکس دیتی ہیں۔
وزیر اعظم کا عوام کو یہ کہنا کہ وہ اس نظام کو درست کررہے ہیں اور حالات جلد بہتر ہوجائیں گے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اگر دنیا کے تر قی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگیوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تو عمران خان کیسے اس نظام کو درست کرسکتے ہیں ؟ کیا یہ کھلا دھوکہ نہیں کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے کیے جائیں لیکن اسلام کا معاشی نظام چھوڑ کر سرمایہ دارانہ معاشی نظام نافذ کیا جائے؟عمران خان کی نو ماہ کی کارگزاری کے نتائج عوام کے سامنے ویسے ہی آرہے ہیں جیسا کہ پچھلے حکمرانوں کے دور میں آیا کرتے تھے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ بھی پچھلے حکمرانوں کی طرح کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام نافذ کررہے ہیں اور آئی ایم ایف سے رجوع کررہے ہیں۔ تبدیلی صرف اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ سے ہی آئے گی جو سود کو حرام قرار دیتی ہے، جو بجلی، گیس، توانائی اور معدنیات کو عوامی ملکیت قرار دیتی ہے، جو سونے چاندی کو کرنسی قرار دیتی ہے، جو سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کو حرام قرار دیتی ہے، جو مال تجارت پر زکوۃ اور زرعی زمین پر خراج وصول کرتی ہے، اور جو آئی ایم ایف کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَاَنَّ هٰذَا صِرَاطِىۡ مُسۡتَقِيۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُۚ وَلَا تَتَّبِعُوۡا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمۡ عَنۡ سَبِيۡلِهٖؕ
"اور یہ کہ میرا سیدھا رستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور اور رستوں پر نہ چلنا کہ (ان پر چل کر) اللہ کے رستے سے الگ ہو جاؤ گے"(الانعام:153)۔
پاکستان کے مسلمان اسلامی ٹیکس با خوشی دیں گے
14 مئی 2019 کو، اخبارات نے ایف بی آر کے نئے چئیر مین شبرزیدی کا یہ بیان رپورٹ کیا "ٹیکس وصولی کا ٹارگٹ حاصل کرنا چیلنج ہے یہ جارحانہ میچ ہے ا ن شاء اللہ ہم اسے جیتیں گے،ہماری ٹیکس بیس بہت چھوٹی تقریباً20لاکھ کی ہے جسے بڑھانا پڑے گا، موجودہ ٹیکس دہندگان کو جتنی سہولت ممکن ہوگی وہ دوں گا، جو ٹیکس نہیں دیتا اس کی معلومات جمع کی جائیں گی، ٹیکس نہ دینے والوں کے گھر پہنچ کر ٹیکس لینے کی کوشش کروں گا، ٹیکس نہ دینے کا جو ماحول ہے اسے تبدیل کرنے کی پوری کوشش کروں گا" ۔
ایف بی آر چئیر مین نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا جب رمضان کا مہینہ عروج پر ہےاور پورا پاکستانی معاشرہ زکوٰۃ و صدقات تقسیم کرنے اور نادار لوگوں کے لیے سحر و افطار کے اہتمام میں سرگرمِ عمل ہے۔ غریبوں اور ناداروں کا خیال رکھناپاکستان کے معاشرے کا نمایاں پہلو ہے۔ مارچ 2018 میں ٹریبیون اخبار نے رپورٹ کیا کہ Pakistan Centre for Philanthropyکے سروے کے مطابق پاکستان کے مسلمان ہر سال 240 ارب روپے سے زیادہ صدقات وخیرات کے طور پر اپنی دولت میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ جبکہIndividuallandجو کہ ایک research-basedadvocacy and consultancy groupہے کے سروے کے مطابق پاکستان کے لوگ سالانہ 554ارب روپے خیرات کرتے ہیں(ٹریبیون اخبار ،28 جون 2017)۔ صدقات و خیرات کا یہ تناسب دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہے۔ کیا ایف بی آر کے چئیر مین اس بات پر غو رکریں گے کہ ایک طرف تو وہ اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ وہ گھر گھر جا کر ٹیکس وصول کریں گے اور دوسری طرف لاکھوں لوگ خود اپنی مرضی اور خوشی سے زکوٰۃ و صدقات غریبوں میں تقسیم کر رہے ہیں ،آخر ایسا کیوں ہے کہ پاکستان کے عوام مہنگائی اور خراب کاروباری حالات کے باوجود صدقات و خیرات تو دیتے ہیں، مساجد کی تعمیر ، بیواؤں کی شادی کرانے، یتیموں کی کفالت کرنے کا خرچ تو اٹھاتے ہیں مگر حکومت کے مطالبے پر حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے آگے نہیں بڑھتے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے مسلمان جانتے ہیں کہ صدقات و خیرات کی مد میں ان کا خرچ کیا ہوا پیسہ صحیح مصرف پر خرچ ہو رہا ہے جبکہ حکومت کا جمع کردہ پیسہ حکمرانوں کی لوٹ مار،نکمے انتظامی فیصلوں اور بیکارمنصوبوں کی نذر ہو جائے گا یا پھر اسے بیرونی قرضوں کا سود چکانے کے لیے استعماری اداروں کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں کہ پاکستان کی ٹیکس بیس بہت چھوٹی ہے کیونکہ یہ چیز ان کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ دوائیوں سے لے کر کالنگ کارڈ تک، اشیائے خودو نوش سے لےکے سفری سہولیات تک ، بجلی سے لے کر پٹرول گیس کے استعمال تک، ہر چیز پر بھاری ٹیکس نافذ ہے جو لوگوں کی جیبوں سے نکل کر حکومت کے پاس جا رہا ہے، پس عوام حکومت کے نافذ کردہ ظالمانہ اور بے تکے ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔
بے شک پاکستان کے عوام اس ریاست کو اپنے مددگار کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ اسے بوجھ سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ریاست اپنی اتھارٹی کا جواز کھو چکی ہے، کیونکہ یہ ان افکار و تصورات سے رہنمائی نہیں لیتی جو کہ اس عقیدے سے نکلتے ہیں جو پاکستان کے مسلمانوں کو دل و جان سے عزیز ہے، اور اسے مصنوعی طور پر پاکستان کے مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں اور ریاست کے درمیان جدائی اور بیگانگی کی صورتِ حال اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک ریاست کو اسلامی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر استوار نہ کر دیا جائے۔
پاور پلانٹس کی مزید نجکاری کے فیصلے نے حکومت کی استعمار کی غلامی کو واضع کردیا ہے
ڈان اخبار کی 12 مئی کی خبر کے مطابق حکومتِ پاکستان جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال میں بجلی کے بڑے صارفین سے 100 ارب روپے جمع کرے گی اور کم ازکم ایل این جی کے دو پاور پلانٹس کی نجکاری بھی کرے گی۔
پاکستان کا موجودہ بجلی کا نظام پاکستان کے حکمرانوں کی عدم منصوبہ بندی اور ویژن سے خالی ہونے کا واضح ثبوت ہے۔حال وماضی میں آنے والی تمام حکومتوں نے بجلی کی پیداوار کے شعبے میں نجکاری کی پالیسی کو ترجیح دی۔ کبھی نجکاری اور کبھی غیر ملکی سرمایہ کاری کے نام پر نجی پاور پلانٹ میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس سے نہ صرف بجلی کی پیداوار نجی شعبے میں چلی گئی جہاں پیداواری صلاحیت کے باوجودمنافع میں اضافے کے لئے پیداوار کو کم کر کےعوام کو لوڈشیڈنگ سہنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کو عام عوام کے پیسوں سے کثیر منافع کمانے کی اجازت دی گئی اور ان کے منافع کو یقینی بنانے کے لئے کیپیسٹی چارجز کو معاہدوں کا حصہ بنایا گیا۔ پاکستان کے حالیہ گردشی قرض کا ایک بڑا حصہ کیپیسٹی چارجز پر مشتمل ہے اور ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق تقریباً642 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ پاور پلانٹ بند ہونے کی صورت میں بھی یہ کمپنیاں ایک خاص مقدار میں حکومت سے پیسہ لینے کے مجاز ہوتی ہیں۔ کیونکہ سارا سال بجلی کی طلب یکساں نہیں رہتی اس وجہ سے کم طلب والے دنوں میں پاکستان کے پاس اضافی پیداواری صلاحیت ہوتی ہے اور لازمی طور پر کچھ پاور پلانٹ کو بند رکھنا پڑتا ہے مگر IPP Act کے مطابق کیپیسٹی چارجز کی مد میں حکومت کو ان بند پاور پلانٹ کو بھی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جس سے بجلی کی مجموعی قیمت بڑھ جاتی ہے اور عوام پر بل کی صورت میں یہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ لیکن پچھلی تین دہایئوںمیں آنے والی کسی حکومت نے اس کالے قانون میں تبدیلی کی کوشش نہیں کی،کیونکہ یہ تمام حکومتیں نہ صرف سرمایہ داریت کے نظریئے پر یقین رکھتی ہیں جو کہ ملکیت کی آزادی کے نام پر عوامی ضرورت کے اثاثوں کو بھی نجی ہاتھوں میں دینے کا قائل ہےبلکہ یہ تمام حکومتیں عالمی استعماری ممالک کی غلام ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہ جاننے کے باوجود حکومت مزید نجکاری کرہی ہے جس سے نہ صرف بجلی مزید مہنگی ہوجائیگی بلکہ ریاست اس سے حاصل ہونے والے منافع سے بھی محروم ہوجائیگی، اور پھر حکومت اپنے معاملات چلانے کے لیے ٹیکس کا مزید بوجھ عوام پر ہی ڈالے گی۔
اس کے برعکس اسلام میں توانائی کے ذخائرعوامی ملکیت میں شامل ہوتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے
((الْمُسْلِمُونَ شُرَكَاءُ فِي ثَلَاثٍ الْمَاءِ وَالْكَلَإِ وَالنَّارِ))
”تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہیں اور آگ“(ابو داؤد).
لہذا آنے والی خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ ،تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دیا جائے گا ۔ یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں دیےجا سکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔