بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 24 مئی 2019
۔ باجوہ-عمران حکومت جارح بھارت سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے
-سرمایہ داریت امیر طبقے کو ٹیکس مراعات دے کر دولت کے ارتکاز کویقینی بناتا ہے
-شرح سود میں اضافہ اقتصادی عمل کو محدود اور بے روزگاری میں اضافہ کرے گا
تفصیلات:
باجوہ-عمران حکومت جارح بھارت سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے
20مئی 2019 کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت سے کہا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئے اور بھارتی انتخابات کے بعد نئی دہلی میں نئی حکومت ا قتدار میں آنے کے بعد علا قائی امن کے لیے پاکستان سے رابطہ کرے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ جنگ ہمیشہ تباہی لاتی ہے اور یہ کوئی آپشن نہیں خصوصاً جبکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہوں۔
ابھی نئی دہلی میں نئی حکومت آئی نہیں لیکن باجوہ-عمران حکومت نے اس کے سامنے امریکی حکم پر جھکنے کا عمل پہلے سے ہی شروع کردیا ہے۔بھارت جس نے اس و قت مقبوضہ کشمیر میں ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کے خلاف خوفناک ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور جو مسلسل کئی سال سے لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کر کے ہمارے شہریوں اور فوجیوں کو شہید اور املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے اس سے آخر کیوں امن کی بھیک مانگی جارہی ہے؟ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ جس دن وزیر خارجہ نے بھارت سے امن کی بھیک مانگی اسی دن ہمارے سیکیورٹی اداروں نے گلگت بلتستان میں ایک بھارتی نیٹ ورک کے خلاف کریک ڈاون کیا جس کا مقصد اس حساس علاقے کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا۔ اس سے پہلے کلبھوشن یادیو نیٹ ورک بھی بے نقاب کیا جاچکا ہے جو خصوصاً بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف تھا۔ جارح بھارت کے سامنے مسلسل امن کی بھیک مانگ کر باجوہ-عمران حکومت ایٹمی پاکستان کو کیا ایک انتہائی کمزور ملک ثابت کرنا چاہتی ہے؟ آخر بھارت کو اسی زبان میں جواب کیوں نہیں دیا جاتا جو وہ اچھی طرح سے سمجھتا ہے اور جس کی آفادیت ہم نے 27 فروری 2019 کودیکھی جب ہمارے بہادر اور باصلاحیت پاک فضائیہ کے پائلٹس نے دو بھارتی جنگی طیاروں کو مار گرایا تھا۔
باجوہ-عمران حکومت باتیں تو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی کرتی ہے لیکن ہر معاملے میں اس کا عمل ریاست مدینہ کے عمل کے بالکل مخالف ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے خلاف جارحیت کرنے والی کسی قوت سے امن کی بھیک نہیں مانگی بلکہ ان کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب قریش نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی تو ابوسفیان کی معافی تلافی کی التجاوں کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے اس کی ایک نہ سنی اور دس ہزار کا عظیم الشان لشکر لے کر مکہ پر لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا اور قریش کو ان کی دغابازی کا خوب مز ہ چکھایا۔ آنے والی حقیقی ریاست مدینہ جو کہ نبوت کے طریقے پر خلافت ہو گی بھارت سے امن کی بھیک نہیں مانگے گی بلکہ اس کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارتی افواج کے ظلم و ستم کی حوالے نہیں کرے گی بلکہ منظم جہاد کے ذریعے انہیں اور مقبوضہ کشمیر کی اسلامی سرزمین کو آزاد کرائے گی کیونکہ جارح کے خلاف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
(فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَااعْتَدٰی عَلَیْکُمْ)
''جو تمہارے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرے تو تم بھی اس پر حملہ کرو جیسا کہ انہوں نے تم پر حملہ کیا۔''(البقرة:194)
سرمایہ داریت امیر طبقے کو ٹیکس مراعات دے کر دولت کے ارتکاز کویقینی بناتا ہے
23 مئی 2019 کو ڈان اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ پچھلی ایمنسٹی کے ختم ہونے کے گیا رہ مہینے کے اندر اندر حکومت ایک اور اسکیم اُن لوگوں کے لیے لائی ہے جو نہ تو ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے اثاثے ظاہر کرتے ہیں۔ نئی ایمنسٹی اسکیم جائیدادوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ڈپٹی کمشنر کی جانب سے زمینوں کی تعین کی گئی قیمت کے 150فیصد پر ایک فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔ یہ شرح بھی مارکیٹ کی قیمت کا ایک بہت ہی معمولی حصہ ہے۔ اس قانون کے باوجود کہ بے نامی جائیداد کو ضبط کر کے اس کے مالک کو پانچ سال قید کی سزا دی جائے گی، آج تک ایک بھی مجرم کو اس حوالے سے سزا نہیں دی گئی بلکہ انہیں ایمنسٹی اسکیمیں دیں جاتی ہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ،
كَيْ لاَ يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ
"اور دولت ان کے امیروں میں ہی گردش کرتی نہ رہ جائے"(الحشر 59:7)۔
دولت کے ارتکاز کو یقینی بنانے کے لیےسرمایہ داریت کے کئی طریقوں میں سے ایک طریقہ کار اس کا محصولات جمع کرنےکا نظام ہے۔ سرمایہ داریت بڑے سرمایہ کاروں کو ٹیکس مراعات اس بنیاد پر دیتا ہے کہ اس سے سرمایہ کاری کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور عمومی طور پر سرمایہ کاری کے لیے ایک اچھا ماحول بنتا ہے۔ اس کے بعد سرمایہ داریت ظالمانہ ٹیکس نظام لاگو کرتا ہے جو اس بات کا قطعی امتیاز نہیں کرتا کہ کون دولت مند ہے،کس کے پاس بچت ہے،کس کے پاس بچت نہیں ہے،کون قرض میں ڈوبا ہے اور کون غریب ہے۔ اسلام میں ٹیکس غریب اور قرض میں ڈوبے شخص سے نہیں لیا جاتا بلکہ وہ زکوۃ کے مستحق ہوتے ہیں۔ اسلام میں محصولات معاشرے کے دولت مند طبقے سے لیے جاتے ہیں۔ لہٰذا زکوۃ ان لوگوں سے لی جاتی ہے جن کی بچت نصاب سے زائد ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے۔ اسی طرح زکوۃ تاجروں سے ان کے اس مالِ تجارت پر لی جاتی ہے جو نصاب سے زائد ہو اور اس پر سال گزر جائے۔ اسلام میں خراج اس سے لیا جاتا ہے جو زرعی زمین کا مالک ہو۔ لہٰذا دولت کی تقسیم فطری طور پر ہوجاتی ہے۔ خلافت محصولات کے حوالے سے اسلامی احکام کو نافذ کرے گی جیسا کہ تجارتی مال پر زکوۃ اور زرعی زمین پر خراج اور ظالمانہ ٹیکس جیسا کہ سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کو ختم کردے گی۔ رسول اللہ نے فرمایا،
كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ
" مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں اس کا خون، مال، عزت اور آبرو "۔
شرح سود میں اضافہ اقتصادی عمل کو محدود اور بے روزگاری میں اضافہ کرے گا
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 20 مئی 2019کو اپنی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں 150 پوائنٹس کااضافہ کر دیا ہے جس سے شرح سود 12.25 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔آئی ایم ایف کے اشاروں پر شرحِ سود میں یہ اضافہ اقتصادی عمل کو محدود کرنے کے لیے کیا گیا ہےتاکہ مارکیٹ میں زائد پیسوں کو بینکوں کی طرف منتقل کیا جائے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں شرح سود میں اضافہ سرمائے کا رخ بینک کی طرف کرتا ہے کیونکہ سرمایہ دار کو بینک میں پیسے رکھوانا کسی معاشی سرگرمی میں استعمال کرنے سے زیادہ منافع بخش لگتا ہے اور اس کے نتیجےمیں معاشی سرگرمیاں محدود ہو جاتی ہیں اور بےروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے عوام ایک طرف تو آئی ایم ایف کے ایما ء پر آنے والے بجٹ میں ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کریں گے اور دوسری طرف روزگار کے مواقع کم ہونے پر بے روزگاری کا سامنا بھی کریں گے۔ اس پالیسی کا مقصد قیمتوں اور افراط زر کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اگر افراط زر کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بے روزگاری بڑھ جاتی ہے اور اگر بےروزگاری کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو افراطِ زر بڑھ جاتا ہے اور کبھی بھی مکمل طور پر یہ نظام بے روزگاری یا افراطِ زر کو ختم نہیں کر پاتا اور یہ سلسلہ ہر سرمایہ دارانہ معیشت کا خاصہ ہے۔ یہ صورتحال کی وجہ یہ غلط مفروضہ ہے کہ سرمایہ بغیراقتصادی عمل کے پیدا کیا جا سکتا ہے حالانکہ ایک دیرپا اور مضبوط معیشت صرف وہی ہو سکتی ہے جہاں سرمایہ پیداوار کے ذرائع یا اقتصادی عمل کے ذریعے سے پیدا ہو ۔
اسلام میں سودی بینکنگ نظام نہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ دار کے لیے سرمائے کو بڑھانے کا واحد ذریعہ معاشی سرگرمی میں پیسے لگانا ہوتا ہے اور بچت پر سالگزرنے کی صورت میں2.5 فیصد زکوۃ بھی دینی ہوتی ہے اس وجہ سے سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس خلافت میں پیسہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے جس سے معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں اور روزگار میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرنسی سونے اور چاندی کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے ریاست کے پاس اپنی مرضی سے نوٹ چھاپنے کا اختیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے افراط زر کا مسئلہ ختم ہوجاتا ہے اور کرنسی کا ایکسچینج ریٹ بھی مستحکم رہتا ہے۔ چنانچہ اسلام کا معاشی نظام بیک وقت افراطِ زر اور بیروزگاری کو حل کرتا ہے اور عوام کو اندھیروں سے نکال کے روشنی میں لاتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
((الر كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ))
"الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں ان کے پروردگار کے حکم سے زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف"(ابرہیم:1) ۔