بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 3 مئی 2019
-قرآن و سنت کی بنیاد پر دیا گیا فیصلہ ہی میرٹ کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے
-آئی ایم ایف کے ایماء پر نجکاری، معیشت کی مزید تباہی کا باعث بنے گا۔
- اسلام کا ٹیکس نظام ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات دلاتا ہے
تفصیلات:
- قرآن و سنت کی بنیاد پر دیا گیا فیصلہ ہی میرٹ کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے
- جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسڑ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے 25 اپریل 2019 کو سیالکوٹ میں کہا کہ،"عدالتیں میرٹ پر فیصلہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سرخرو ہوں۔ آپ گناہ گار کا ساتھ دیں گے تو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ضرور پکڑ ہو گی"۔
الحمد اللہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یوم آخرت اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ناراضگی اور خوشنودی کے حوالے سے فکر رکھتے ہیں۔ یقیناً عدالتوں میں ایسے ججز کاہونا قوم کے لیے باعث اطمینان ہے۔ لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان جیسے خوف آخرت اور خوف خدا رکھنے والے لوگوں کی موجودگی کے باوجود پاکستان کا عدالتی نظام لوگوں کے لیے انتہائی تکلیف بلکہ ظلم کا باعث ہے۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عدالتیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قرار دیے گئے میرٹ یعنی قرآن و سنت کے مطابق فیصلے نہیں کرتی بلکہ کافر انگریز کے چھوڑے ہوئے میرٹ یعنی پاکستان پینل کوڈ کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ مخلص مسلمان جج حضرات انگریز کے چھوڑے قانون کے مطابق فیصلے دینے کوغیر اسلامی اور گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ انصاف یہ نہیں ہے کہ مظلوم کو اس کا حق دلایا جائے اور ظالم کا ہاتھ پکڑا جائے بلکہ اسلام کے مطابق انصاف اس و قت ہوتا ہے جب مقدمے کی سماعت اور فیصلہ صرف اور صرف اسلام کے قانون کے تحت کیا جائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَنۡ لَّمۡ يَحۡكُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
"اور جو کئی اللہ کی اتاری وحی کےمطابق فیصلہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)۔
تو مخلص مسلمان جج حضرات کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کر اگر انسانوں کے بنائے قوانین کے تحت فیصلے کریں گے تو اللہ کی عدالت میں کیسے سرخرو ہوں گے؟ اسی طرح مخلص جج حضرات کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر حکمران قرآن و سنت کے قوانین کو چھوڑ کر انسانوں کے بنائے قوانین ، چاہے وہ مسلمانوں نے ہی کیوں نہ بنائے ہوں ،کفر قوانین کو نافذ کرتے ہیں تو وہ ظلم کرتے ہیں اور ظلم کا ساتھ دینا بھی سخت گناہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُوَ مَا َنَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانتَهُوۡاۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِۘ
"اور رسول ﷺتمہیں جس چیز کا بھی حکم دیں اسے اختیار کرلو اور جس چیز سے بھی وہ تمہیں منع کردیں اس سے رُک جاؤ ۔ اور اللہ سے ڈرو ، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے "(الحشر:7)
لہٰذا مخلص جج حضرات کو جاننا چا ہیے کہ وہ ان کفریہ قوانین کے مطابق فیصلے کرکے حکمرانوں کے گناہ میں معاونت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ تو پھر روز آخرت یہ مخلص جج حضرات کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اللہ کی عدالت کی پکڑ سے بچ جائیں گے؟
مخلص مسلمان جج حضرات کو چاہیے کہ وہ عدالتوں میں فیصلے صرف اور صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر دیں کیونکہ قرآن و سنت ہی پوری انسانیت کے لیے واحد میرٹ ہے اور اس میرٹ پر چلنے والا ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ اور اس کی عدالت میں سرخرو ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚوَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ
"جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان لائے گا، اور نیک عمل کرے گا، تو ایسے لوگوں کو ان (کے اعمال) کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غم ناک ہوں گے "(البقرۃ:62)۔
آئی ایم ایف کے ایماء پر نجکاری، معیشت کی مزید تباہی کا باعث بنے گا۔
ڈان اخبار کی 29 اپریل کی خبر کے مطابق حکومت نے درمیانی مدتی معاشی اور مالیاتی پالیسی کے لیے نجکاری اور اہم عوامی اداروں میں ڈھانچوں کی تبدیلی کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ ان اداروں میں حال ہی میں تیار کردہ بلوکی اور حویلی بہادر کے پاور پلانٹ بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ حکومت کی دو رئیل اسٹیٹ کی زمینیں اور ماڑی پٹرولیم میں حکومتی شیئرز کی نیلامی بھی شامل ہے،اور یہ معاملات آئی ایم یف کے ساتھ اس ہفتہ ہو نے والی ملاقات کے ایجنڈے میں شامل ہوں گے۔
آئی ایم ایف جن شرائط کو ممالک سے نافذ کرواتا ہے ان میں سے ایک نجکاری ہے۔ عوامی اثاثوں کی نجکاری کے ذریعے آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان اداروں کو نیلامی کے لیے پیش کیا جائے ، جس کے ذریعے مغربی دنیا کے سرمایہ داروں کو نہ صرف ان سونے کی چڑیا کے مانند اداروں تک رسائی حاصل ہو جائے بلکہ بجلی، تیل اور گیس جیسی معاشرتی ضروریات کے ان کے ہاتھوں میں جانے سے استعماری ممالک کو ہمارے معاملات میں مداخلت کا موقع مہیا ہوجاتا ہے۔ پھر وہ جب چاہتے ہیں بجلی ، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اْتار چڑھاؤ سے لے کر اقتصادی اور خارجہ پالیسی تک تمام معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ۔ رہی بات نجکاری کی تو یہ اصل میں مغربی تہذیب کی آزادیوں کے تصور سے نکلتی ہے کہ جس کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی چیز کا مالک بن سکتا ہے اور آزادی کے اس نعرے کی بنیاد پر معاشری ضرورتوں جیسا کہ پانی، بجلی، گیس وغیرہ کو مہیا کرنے والے اداروں کو ذاتی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے جس سے چند افراد کو عوام کا استحصال کرنے کا موقع فراہم کردیا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ کثیر آمد ن والے اداروں کی نجکاری کی وجہ سے حکومت کے پاس جو آمدنی کے ذرائع ہوتے ہیں ان میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور اس وجہ سے حکومت اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے لوگوں پر ٹیکس لگانے کے لئے مجبور ہوتی ہے ۔اس طرح عوام کو ایک طرف تو بنیادی معاشرتی ضرورتوں کے حصول کے لئےسرمایہ داروں کو کثیر رقم بل کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے اور دوسری طرف ریاست اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر ہی ٹیکس کا بوجھ لادتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں جو کہ اس فکرکے علمبردار ہیں، ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب 30سے 50 فیصد تک جا پہنچا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہمیں آئے دن مغربی شہروں میں کبھی وال اسٹریٹ موومنٹ اور کبھی ییلو ویسٹ موومنٹ کے مظاہرین احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ جانتے بوجھتے مغرب کے فکری غلام ،ہمارے حکمران اسی سرمایہ دارانہ اور جمہوری نظام کا راگ آلاپتے نظر آتے ہیں ۔
سرمایہ داریت،چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی ذریعے سے پاکستان میں نافذ ہو،نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوںکو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کردیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔ اس کے برعکس اسلام اس مسئلہ کو الگ انداز سے حل کرتا ہے۔ اسلام میں ملکیت تین طرح کی ہو تی ہیں جس میں ریاستی ملکیت ،عوامی ملکیت اور ذاتی ملکیت شامل ہی۔لہذا عوامی ملکیت کی چیزوں کو ذاتی ملکیت میں نہیں دیا جاسکتا جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ((المسلمون شرکاءفی ثلاث الماءو الکلا و النار))”تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں: پانی ، چراگاہیں اور آگ“(ابو داؤد)۔ لہذا آنے والی خلافت ان اثاثوں کو عوامی ملکیت قرار دے کر امت کی اس دولت کو امت کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کر یگی نہ کہ ان عظیم وسائل سے چند لوگ یا کمپنیاں منافع کمائیں اور حکومت اِن وسائل پر بڑے بڑے ٹیکس لگا کر عوام کی کمر توڑ دے ۔آنے والی خلافت ا ن شاءاللہ اسلحہ سازی،بھاری مشینری کی تیاری ،ذرائع مواصلات،بڑی بڑی تعمیرات اور ٹرانسپورٹ مہیا کرنے والےاداروں کو بھی بنیادی طور پر سرکاری شعبے میں قائم کرے گی اورمقامی نجی کمپنیاں بھی ان شعبوںمیں حکومت کی نگرانی میں کام کرسکیں گی تاکہ آج جس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کو عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دینے کی اجازت دے رکھی ہے اس کا تدارک ہوسکے ۔ چنانچہ ریاست کے پاس اپنی آمدنی کے ذرائع ہمیشہ موجود رہیں گے چاہے وہ ریاستی ملکیت کی صورت میں ہو یا عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے لیے عوامی ملکیت کی صورت میں ۔ اس وجہ سے ریاست اپنے اخراجات اور نظام کو چلانے کے لیے لوگوں پر ٹیکس لگانے کی محتاج نہیں ہوگی اور اگر ریاست کے آمدنی کے ذرائع ختم ہوجائیں تو اس صورت میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کے برعکس صرف امیر لوگوں پر ان کی ضروریات پورا ہونے کے بعد بچ جانے والے مال کے اوپر کچھ مال لیا جا سکتا ہےاور یہ صرف ان معاملات میں ہوگا جن کو حل کرنا خلافت کے ساتھ ساتھ ساری امت مسلمہ پر فرض ہے۔آج سرمایہ دارانہ معیشت کی وجہ سے امت مسلمہ بلکہ ساری دنیا جس ظلم کا شکار ہے، اس سے صرف اس کائنات کے خالق اللہ تبارک وتعالی کے بنائے ہوئے نظام کے ذریعےہی چھٹکارا پایا جاسکتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرمایا:
((الر كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ))
" الٓرٰ ۔ (اے پیغمبر ! ) یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے ، تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیرں سے نکال کر روشنی میں لے آؤ ، یعنی اُس ذات کے راستے کی طرف جس کا اِقتدار سب پر غالب ہے ، (اور)جو ہر تعریف کا مستحق ہے"(ابراھیم:1) ۔
اسلام کا ٹیکس نظام ظالمانہ ٹیکسوں سے نجات دلاتا ہے
25اپریل 2019 کو ڈالر ،پٹرول اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان حال عوام پر یہ خبر پہاڑ بن کر ٹوٹی کہ سپریم کورٹ نے کالنگ کارڈز پر عائد تمام تر ٹیکسوں کو بحال کر دیا ہے۔ یوں چند ماہ کے لیے اس بھاری اور ظالمانہ ٹیکس کا خاتمہ عوام کے حق میں ایک بھونڈا مذاق ثابت ہوا۔ نہ صرف یہ کہ سپریم کورٹ نے ٹیکس کو دوبارہ لاگو کرنے کی اجازت دے دی بلکہ اس کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا کہ وہ حکومت کے محصولات اکٹھا کرنے کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔ گویا سپریم کورٹ نے حکومت کو عوام کا خون نچوڑنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔بے شک پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام ایک ظالمانہ نظام ہے ، جس کا زیادہ تر انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے ۔ کالنگ کارڈ پر ٹیکس ان درجنوں ٹیکسوں میں سے ایک ہے جو بچت اور اضافی دولت کی بجائے خرید و فروخت پر عائد کیے گئے ہیں۔ یہ بالواسطہ ٹیکس نہ صرف غربت میں اضافے کا براہِ راست سبب ہیں بلکہ معاشی سرگرمی کو سست کرنے کا باعث بھی ہیں۔
پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام ایک بے ڈھنگا نظام ہے ۔ یہ نظام ایک تنخواہ دار شخص کو 34ہزارروپیہ مہینہ کمانے پر ٹیکس عائد کرتا ہے ، اگرچہ یہ تنخواہ ایک چھوٹے سے کنبے کی بنیادی ضروریات اور بنیادی سہولیات کے لیے بھی ناکافی ہے مگر دوسرے شخص کو کروڑوں روپے کی جائیداد وراثت میں حاصل کرنے یا کسی قریبی رشتے دار کی طرف سے تحفے میں ملنے پر ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتاہے۔ یہ نظام ایک غریب شخص سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ جان بچانے والی ادویات کی خریداری پر 17فیصد سیلز ٹیکس ادا کرے مگر ایک شخص کو بیرونِ ملک سے remittanceکے طور پرلاکھوں روپے وصول ہونے کے باوجود اسے ٹیکس سے استثنیٰ قرار دیتا ہے۔ یہ نظام واضح طور پر امیروں کے ساتھ ساتھ غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ لادتا ہے اور انہیں غربت کے جال سے نکلنے نہیں دیتا۔پاکستانی حکومت جہاں پر غریبوں کو ٹیکسوں کی چکی میں پیس رہی ہےوہی اس کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کو بھاری ٹیکس دینے پر مجبور کر رہی ہے ، تاکہ ان قرضوں کی قسط چکائی جا سکے جو اس ملک کے کرپٹ حکمرانوں نے ایسے منصوبوں کے لیے حاصل کیے جن کا ہدف معاشی خود مختاری کا حصول ہر گز نہیں تھا۔ یوں پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام ایک دو دھاری تلوار ہے جو غریب اورکاروباری افراددونوں کو گھائل کر رہا ہے۔
جو چیز معاشی سرگرمی کے گراف کو مزید نیچے لے جا رہی ہے وہ ٹیکسوں کی شرح اور نوعیت میں بار بار کی جانے والی تبدیلیاں ہیں۔ حکمران ناقص معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے اثرات کو کم کرنے اور بیرونی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ٹیکسوں کی شرح کو تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے ٹیکسوں کے نظام کی بنیادی خامیوں کو دور کرنے کی بجائے حکومت اپنی توانائیاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر صرف کر رہی ہے اور طرح طرح کے ٹیکسوں کے نفاذ کے تجربات کر رہی ہے ۔ یہ سب سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور معاشی سرگرمی کے پہیے کو روک دیتا ہے۔تاہم اس نظام میں ایسے چور دروازے بھی موجود ہیں جنہیں استعمال کر کے حکومتی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے کرپٹ افرادلاکھوں کروڑوں کا ٹیکس بجا نے میں کامیاب رہتے ہیں ۔ یہ بات نہایت واضح ہے کہ بڑے بڑے جاگیردار وں کی زمین اور زرعی پیداوار پر کوئی ٹیکس نافذ نہیں اور یہ صورتِ حال کئی دہائیوں سے چلی آ رہی ہے۔
پاکستان کو اسلام کے عادلانہ محصولات کے نظام کی ضرورت ہے، جو سمجھنے کے لحاظ سے آسان ہیں اور جنہیں بیرونی مالیاتی اداروں اور بااثر کرپٹ ٹولے کی خواہشات کے مطابق تبدیل نہیں کیا جا سکتا،یہ ٹیکس نہ تو معاشی سرگرمی کو متاثر کرتے ہیں اور نہ ہی غریب کی غربت میں اضافہ کرتے ہیں ۔ اسلام تو وہ دین ہے کہ جوحکومت کو اس بات کی بھی اجا زت نہیں دیتا کہ ریاست کے غیر مسلم مگر غریب باشندوں پر جزیہ عائد کیا جائے چہ جائیکہ کہ غریب اور استطاعت نہ رکھنے والے مسلمان سے ٹیکس وصول کیے جائیں۔ ریاستِ خلافت کےسائے تلے پاکستان میں اسلام کے محصولات کے نظام سمیت تمام معاشی احکامات کا نفاذ عوام کے لیے فوری ریلیف کا باعث بنے گا اور اس کے ساتھ ساتھ معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرے گا۔