بسم الله الرحمن الرحيم
پاکستان نیوز ہیڈ لائنز 31 مئی 2019
۔ پاکستان کی معیشت کی بحالی کا وعدہ اسلام معاشی نظام کے بغیرایک دھوکہ ہے
-پاکستان کے مسلمانوں کا زکوۃ اور صدقات پر کثیر رقم خرچ کرنا امت میں خیر کو واضع کرتا ہے
-آئی ایم ایف دنیا میں کرنسی کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہے
تفصیلات:
پاکستان کی معیشت کی بحالی کا وعدہ اسلام معاشی نظام کے بغیرایک دھوکہ ہے
25 مئی 2019 کو وزیر اعظم عمران خان نے کراچی میں صنعت کاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اس سال جولائی تک ملک کی معیشت استحکام کی جانب لوٹ جائے گی جس کے بعد صنعت کاری اور برآمدات کی بحالی کی ذریعے ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔
وزیر اعظم کا نیا وعدہ عوام کے آنکھوں میں دھول جھوکنے اور انہیں دھوکے میں رکھنے کی ایک اور کوشش ہے۔بجلی،گیس، اور تیل کی قیمتیں بڑھا کر اور روپے کو ڈالرکے مقابلے میں بے قدر کر کے کیسے پاکستان کی معیشت استحکام کی جانب لوٹ سکتی ہے؟ آئی ایم ایف سے معاہدے کےبعد آنے والے مالی سال 20-2019 میں بجلی ،گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا جس کے نتیجے میں پیداواری لاگت میں مزید اضافہ ہوجائے گا جبکہ پاکستان کے صنعت کار، کاروباری حضرات اور کسان پچھلے کئی سال سے پیداواری لاگت کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اگر پیداواری لاگت ایسے ہی بڑھتی رہی تو کیسے نئی صنعتیں لگیں گی اور جب نئی صنعتیں نہیں لگیں گی تو اس سے حاصل ہونے والے زائد پیداوار کہاں سے آئے گی جسے برآمد کیا جائے گا؟
جب تک نبوت کے طریقے پر خلافت قائم نہیں کی جاتی جو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کو اکھاڑ کر اس کی جگہ اسلام کا معاشی نظام نافذ کرے پاکستان کی معیشت استحکام اور مضبوطی حاصل نہیں کرسکتی۔ اسلام کا معاشی نظام بجلی،گیس اور تیل کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جس کہ وجہ سے نجی ادارے ان وسائل کے مالک نہیں بن سکتے جو آئے روز ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہیں تا کہ اپنے منافع کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس کو بڑھایا بھی جائے۔ عوامی ملکیت ہونے کی وجہ سے ریاست ان وسائل کی دیکھ بھال کرتی اور ان وسائل کوامت کے ہر طبقے تک ایسی قیمت پرپہنچاتی ہے جس سے معاشی ترقی میں روکاٹ نہیں بلکہ تیزی آئے۔ اسی طرح خلافت میں کرنسی ڈالر سے نہیں بلکہ سونے اور چاندی سے منسلک ہو گی جس کی وجہ سے اس کی قدر میں استحکام رہے گا ۔ لہٰذا جب بجلی،گیس اور تیل سستے داموں میسر ہوں گے اور کرنسی کی قدر میں استحکام ہوگا تب ہی حقیقی معانوں میں پاکستان کی معیشت استحکام اور مضبوطی کی جانب لوٹے گی۔
پاکستان کے مسلمانوں کا زکوۃ اور صدقات پر کثیررقم خرچ کرنا امت میں خیر کو واضع کرتا ہے
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق اِس سال رمضان میں خیرات کا تخمینہ تقریباً 170 بلین روپے(ایک ارب ڈالر سے زیادہ ) ہے ۔ اور یہ سب اِس تناظر میں ہے کے جب پاکستان شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ مہنگائی بڑھ گئی ہے ، کرنسی اپنی قدر ڈالر کے مقابلے میں ایک تہائی کھو چکی ہےاور ماہراقتصادیات روزگار اور تنخواہوں میں کمی کے ساتھ ساتھ کرنسی کے مزید گرنے اور یوٹیلیٹیز کی قیمتوں میں اضافہ کی پیش گوئی کر رہے ہیں ۔
یہ واضح فرق اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امت میں خیر موجود ہے اور عوام جس چیز کو اللہ تعالی سے قربت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اگرچہ ان کے معاشی حالات بمشکل ہی اس کی اجازت دیتے ہوں۔ جبکہ دوسری طرف یہ حکمران سر توڑ کوششوں کے باوجود عوام سے بہ خوشی ٹیکس نہیں نکلوا پاتے اور حکمران ہر وقت ٹیکس کا نیٹ بڑھانے کے طریقے ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ پاکستان کے مسلمان موجودہ ٹیکسز کو ظلم اور ریاستی نظام و حکمرانوں کو کرپٹ اور استعماری طاقتوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں اس لئیے وہ ان حکمرانوں کو ٹیکس دینا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کے حکمران سرمایہ دارانہ معاشی ماڈل کی تقلید میں پاکستانی مسلمانوں پر انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی جیسے ظالمانہ ٹیکس لگاتے ہیں یعنی کمائیں تو انکم ٹیکس دیں اور خرچ کریں تو جی ایس ٹی۔ انکم ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے تنخواہ ملنے سے پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، اس بات سے قطع ِ نظر کے جس کی تنخواہ سے کاٹا جارہا ہے اس کے پیچھے کھانے والے دو ہیں یا دس۔ اسی طرح جی ایس ٹی اخراجات پر لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کا امیر طرین شخص بھی صابن خریدنے پر وہی جی ایس ٹی دیتا ہے جو صابن خریدنے والا مزدور۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مسلمان اس ظالمانہ نظام میں ٹیکس دینا پسند نہیں کرتے جبکہ زکوۃ اور صدقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالتے ہیں۔
آئی ایم ایف دنیا میں کرنسی کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہے
پاکستانی روپے کی قدر میں ہوشربا کمی اور ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافے کے بعدکرنسی کے عدم استحکام کی صورتِ حال مسلسل برقرار ہے اور ہر روز ڈالر کی قیمت کے اتار چڑھاؤ کی خبریں اخباروں کے اولین صفحے پر چھپ رہی ہیں ۔ حکومت اس گمان میں ہے کہ کرنسی کی قیمت کے تعین میں ریاستی عمل دخل کو کم کرنے کے بعد پیدا ہونے والا یہ عدم استحکام تھم جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ جب تک پاکستان کی کرنسی Fiat Stanadardپر برقرار اور ڈالر سے منسلک رہے گی پاکستان کی کرنسی کو پائیداراستحکام حاصل نہیں ہو سکتا۔ اسعدم استحکام کو ختم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کی کرنسی کو سونے اور چاندی سے منسلک کیا جائے، جو صدیوں کرنسی کی قیمتوں میں استحکام فراہم کرتے رہے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا ممکن ہے، تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف قانونی طور پر دنیا کے ممالک کو اس بات سے روکتی ہے کہ وہ سونے اور چاندی کی بنیاد کو اختیار کریں۔1944میںBretton Wood Agreement کے ذریعے یہ طے کیا گیا تھاکہ وہ ممالک جو آئی ایم ایف میں شمولیت اختیار کریں گے ان کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنی کرنسیوں کو ڈالر سے منسلک کریں گے۔ 1971 میں امریکہ کی طرف سے bretton woodمعاہدے کو توڑنے کے بعد اگرچہ آئی ایم ایف نے اس شرط کو ختم کر دیا کہ ممبر ممالک کے لیے اپنی کرنسیوں کو ڈالر سے منسلک کرنا لازم ہے ، بلکہ وہ کسی بھی مضبوط کرنسی کے ساتھ اسے منسلک کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ طے کر دیا گیا کہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی کرنسی کو سونے سے منسلک کریں۔آئی ایم ایف کی تاریخ اور حقیقت سے واقف کوئی بھی شخص باآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوشش اور آئی ایم ایف کی تابعداری اکھٹے نہیں چل سکتےلیکن پاکستان کی کوتاہ بین قیادت آئی ایم ایف کے پروگرام کو معاشی استحکام کے حصول کا نسخہ سمجھتی ہے ۔ پاکستان کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو استعماری اداروں کو ایسے دشمن کی نظرسے دیکھے جن کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کو بدستور کمزور رکھنا ہے نہ کہ یہ کہ یہ ادارے مشکل معاشی صورتِ حال میں مدد فراہم کرنے کے لیے ہیں، اور وہ معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرے تاکہ وسائل سے مالامال پاکستان اپنا حقیقی معاشی مقام حاصل کر سکے۔ یقیناًخلافت ہی وہ قیادت ہو گی جو پاکستان سمیت پوری دنیا کو استعماری مالیاتی اداروں کے چنگل سے نجات دلائے گی۔