الأحد، 20 جمادى الثانية 1446| 2024/12/22
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

کیا پاکستان کی معیشت مغربی امداد پر منحصر ہے؟ عمران یوسفزئی(پاکستان میں حزب التحریر کے ڈپٹی ترجمان)

بسم الله الرحمن الرحيم

 

امریکہ سے اتحاد توڑنے کی بڑھتی ہوئی بحث کے ساتھ ہی امریکی ایمبیسی کے ایجنٹ یا وکی لیکس کی زبان میں' Contacts‘ پوری قوت کے ساتھ پاکستان کے عوام کو یہ باور کروانے میں مصروف ہو گئے ہیں کہ پاکستان غیر ملکی امداد کا نشئی ہے اور امریکی قرضوں کے بغیر ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ پچھلے دنوں ایک دانشور جو اعداد و شمار کے ذریعے بات کرنے کے 'ماہر‘ سمجھے جاتے ہیں، پاکستان کے تجارتی خسارے کے ذریعے اس امر کو' ثابت‘ کرتے رہے۔ یہی حال ہمارے بعض ایسے دوستوں کا ہے جو 'contacts‘ کے زمرے میں تو نہیں آتے مگر مغربی سرمایہ درانہ نظام اور ان کے نظریات سے مرعوبیت کے باعث ان سے زیادہ دوربھی نہیں۔ یہ دوست ہمیں ہماری برآمدات کی مغربی منڈیوں سے وابستگی اور تیل و خوراک کی بین الاقوامی منڈیوں سے درآمد پر ہمارے انحصار کے باعث ہمیں امریکی ' قہر ‘ سے ڈرانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ آج اس موضوع کو زیر بحث لانے سے پیشتر ہم اس سر زمین (پاک و ہند)کی اس معیشت پر نظر ڈالیں گے جو انگریزوں اور ان کے نظام سرمایاداریت (Capitalism) کی آمد سے پہلے اس کی حالت تھی، تاکہ اس موضوع کو مناسبcontextمیں پرکھا جا سکے۔


انگریزوں اور ان کے نظام سرمایاداریت کی ہندوستان آمد سے پہلے ہندوستان دنیا کی سونے کی چڑیا اور یہ خطہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھی۔ یہ وہ خطہ تھا کہ جس کے سونے و جواہرات اور مصالحہ جات کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا۔ یہ وہ علاقہ تھا کہ جس کے ایک شہری ،جس کا نام عبدالغفور تھا، کی دولت ایسٹ انڈیا کمپنی سے زائد تھی۔ بنگال کے جگھت سیٹھوں کی دولت بینک آف انگلینڈ سے زائد اور جنگ پلاسی (1757) کی مال غنیمت پورے یورپ کی جی ڈی پی سے زائد تھی۔ پرتگال، انگلینڈ اور فرانس کے فوجی بہتر تنخواہوں اور سہولیات کیلئے اپنی فوج سے بھگوڑے بن کر ہندوستان کی فوج کا حصہ بنتے۔ الیگزینڈر ہملٹن لکھتا ہے کہ محمد شاہ تغلق(1325-1351ء)، جس کا دور ہندوستان کی تاریخ کا یادگار دور نہیں، کے دور میں صرف دِلی میں دس ہزار سکول اور 70ہسپتال تھے ، جبکہ بنگال میں چالیس ہزار سکولز تھے یعنی ہر چار سو کی آبادی پر ایک سکول۔ ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ممبئی کے ایک چھوٹے سے علاقے حوض میں مردوں کے 23اور عورتوں کے 13سکولز تھے۔ وہاں کے لوگ شافعی مسلک کے پیرو کار تھے اور اس علاقے میں ایک بھی عورت نہیں تھی جس نے قرآن کا حفظ نہ کیا ہو۔ یہاں تک کہ 1880ء تک دنیا کی سب سے بڑی سٹیل انڈسٹری اور جنگی و تجارتی جہازوں کی فیکٹریاں ہندوستان میں تھی جہاں انگریز اپنے لئے جہاز بنواتے تھے۔ اور جب ہندوستان کے جہاز زرعی اجناس اور مصالحہ جات لے کر لندن پہنچتے تو جہازوں کی ہیبت سے ان پر خوف طاری ہو جاتا۔ اس سے بڑھ کر ہندوستان کی خوشحالی کا کیا ثبوت ہو گا جس کا ذکر لارڈ میکالے نے 1835ء میں برطانوی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کیا: ''میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا ہے اور میں نے کوئی ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو فقیر ہو یا چور ہو، میں نے وہاں وہ دولت دیکھی ہے، وہ بلند اخلاقی معیار، اور اتنے عمدہ لوگ ، کہ میں نہیں سمجھتا کہ ہم اس ملک پر کبھی بھی قابض ہو سکیں گے تاآنکہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ ڈالیں جو کہ ان کا روحانی (دین اسلام) اور ثقافتی ورثہ ہے۔۔۔‘‘
پاکستان اسی ہندوستان کا حصہ ہے ، اس کی زمینیں آج بھی وہی بلکہ اس سے بڑھ کر سونا اگلتی ہیں، اس کی باشندے اسی طرح محنت کش اور ہنر مند ہیں، اس کی زمین کے نیچے چھپے خزانے اور کثرت کے ساتھ سامنے آئے ہیں، یہ زمین دریاؤں اور ندی نالوں سے لبریز اور توانائی کے لامحدود وسائل کی حامل ہے۔ لیکن اس زمین پراب ایک لعنت مسلط ہو چکی ہے جس کے باعث یہ زمین یہاں کے باشندوں کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے اور وہ لعنت استعماری سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ان وسائل کو چند ہاتھوں میں جمع کر کے، اکثریت جن کی استعماری ممالک ہیں، یہاں کے اکثر باسیوں کو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کر چکی ہے۔ ہمارے کرپٹ اور ایجنٹ حکمران دراصل اس نظام کی پیداوار ہیں، اصل جڑ یہ نظام ہے۔ آئیے ایک اچٹتی سی نگاہ پاکستان کے وسائل پر بھی ڈال لیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ اس نظام نے ہمیں کہاں جا کر لا کھڑا کیا ہے :


پاکستان کی آبادی 18کروڑ ہے ،جس میں 25سال سے کم عمر افرادکی نوجوان آبادی 60%سے بھی زائد ہے، یہ دنیا میں کسی ایک ملک کی چھٹی بڑی آبادی ہے، جرمنی اور فرانس کی مشترکہ آبادی سے زائد۔ ہمارا رقبہ 8لاکھ مربع کلومیٹر سے زائدہے ، جرمنی اور برطانیہ کے مشترکہ رقبے سے زائد۔ 1046کلومیٹر کا ساحل جس کیلئے کئی بڑی طاقتیں ترستی ہیں۔ دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس۔ بہترین محل و قوع کا جغرافیہ، جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی ہیں ، وسیع میدا ن بھی اور بڑے صحرا بھی۔


توانائی کے ذخائر میں پاکستان مالامال ہے۔ پاکستان میں موجود تھر کول کے ذخائر کی مالیت کا تخمینہ 25,000 ارب ڈالر ہے۔ جو کہ ہمارے بیرونی قرضوں سے 420گنا زائدہے۔ حال ہی میں جاری (Alloted)تھر کے ذخائر کے ایک بلاک پر کئے جانے والے ٹیسٹ کی رپورٹس نے ان اندازوں کو مزید مضبوط کیا ہے۔ یہ بلاک پاکستانی کمپنی اینگرو (Engro) کو جاری کیا گیاہے۔ 184ارب میٹرک ٹن کے یہ کوئلے کے ذخائر صحرائے تھر میں 9ہزار کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کی توانائی سعودی عرب اور کویت کے مشترکہ تیل کی تونائی سے زائد ہے۔ گیس کے ذخائر کے سلسلے میں حال میں کچھ بہت اہم دریافتیں( Discoveries)ہوئی ہیں۔ جن میں سے ایک100ٹریلین مکعب فٹ کے ٹائیٹ گیس کا ذخیرہ سوئی کے علاقے میں دریافت ہوا ہے، جس کو حکومت پاکستان نے دانستہ طور پر چھپا کر رکھا ہوا تھا جس کا اقرار 20جون 2011کو قومی اسمبلی میں پٹرولیم کے وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے کیا۔ تقریباً 215ٹریلین مکب فٹ گیس جنوبی بلوچستان اور ساحلی خطے میں موجود ہے۔


جہاں تک معدنیات کا تعلق ہے تو پاکستان میں ایلومینیم74ملین ٹن، تانبا 500ملین ٹن، زنک46ملین ٹن، لوہا600ملین ٹن، جپسم350ملین ٹن، فاسفیٹ22ملین ٹن ، چاندی بیسیوں ٹن جبکہ ماربل ، قیمتی پتھروں اور عمارتی پتھر کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ صرف سینڈک کاپر پروجیکٹ میں 412 ملین ٹن خام تانبا ہے، اس وقت ایک غیر ملکی کمپنی78ملین ٹن پر کام کر رہی ہے۔ ریکوڈک کے سونے کے ذخائر اس وقت دنیا کے سب سے بڑے ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے تمام بلاکس میں موجود سونے کی مالیت کا تخمینہ ، جو کہ دن بدن چڑھ رہی ہے، 500ارب ڈالر سے 3000ارب ڈالر تک ہے۔ درست اعداد و شمار حکومت کی ایک غیر ملکی کمپنی سے ملی بھگت اور غیر ملکی کمپنیوں کی اعلی سطح کی دھوکے بازیوں کے باعث دستیاب نہیں۔


پاکستان کی زرعی پیداوار بھی کسی سے کم نہیں ۔ پاکستان کا نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے (روس سے تین گنا بڑا)۔ ہماری گندم کی پیداوار (24ملین میٹرک ٹن(پورے افریقہ (20ملین ٹن)سے زائد اور پورے جنوبی امریکی براعظم کے برابر ہے ۔ حالانکہ ابھی بھی ہماری گندم کی فی ایکڑ پیداوار 2.2 ٹن ہے جبکہ بھارتی پنجاب میں یہ 4ٹن، میکسیکو میں 5.5ٹن اور مغربی ملکوں میں اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے قابل کاشت رقبے کا 40فیصد حصہ ابھی تک کاشت نہیں ہو رہا۔ پاکستان دیسی گھی کی پیداوار میں دنیا میں اول نمبر پر، چنے، بھینس کے دودھ، بھینس اور بکری کے گوشت کی پیداوار میں دنیا میں دوسرے نمبر پر، بھنڈی میں تیسرا، خوبانی، آم ، کپاس اور بکری کے دودھ میں چوتھا، کھجور، پیاز، مصالحہ جات اور گنے کی پیداوار میں پانچواں، دالوں کی پیداوار میں چھٹا، seasame seed میں ساتواں، گوبھی میں آٹھواں، تیل والے بیجوں ، ساگوں اور گندم میں نواں، بکری کے گوشت میں دسواں اور اسی طرح دیگر تمام سبزیوں، فروٹس،انڈوں، پٹ سن اور اجناس میں پہلے بیس ممالک میں شامل ہے۔


پاکستان میں اس وقت سات ہزار کے قریب پی ایچ ڈی اور اندازاً 2ملین کے قریب سائنسدان اور انجینئرز ہیں۔ جو ان وسائل کو بروئے کار لانے اور پاکستان کے عوام کے اس کا فائدہ پہنچانے کی بھر پورتکنیکی صلاحیت رکھتے ہیں۔


اس قدر وسائل ،جو کہ کئی عالمی طاقتوں کے پاس بھی موجود نہیں، کے باوجود اس سرمایادارانہ نظام نے ہمیں بھکاری بنا کر رکھا ہوا ہے۔ اس نظام نے ہمیں ہی نہیں بلکہ ہر اس ملک میں جہاںیہ نافذہے یہی تباہی پھیلائی ہے۔ افریقہ جو اسلامی دور حکومت میں خوشحالی کی داستان تھا، سرمایادارانہ نظام نے انھیں بھوک اور افلاس کی دیویوں کے سامنے پوجا کرنے پر مجبور کر دیا ۔ حتیٰ کہ اس نظام نے یورپ اور امریکہ کو استعماری پالیسیوں سے دنیا بھر کے وسائل لوٹنے کے باوجود اپنے عوام کو سکھ چین کا سانس لینے نہیں دیا اور ان کی آبادیوں کا ایک نمایاں حصہ آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں 37ملین (تین کروڑ ستر لاکھ) افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔


ان اعداد و شمار اور حقائق سے یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان نہ صرف وسائل سے مالامال ہے بلکہ پاکستان اپنے جیسے ایک اور ملک کو بھی کھلانے اور پالنے کا پوٹینشل رکھتا ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ہم کسی اور ملک پر منحصر ہیں اور نہ ہی کسی اور کا کھاتے ہیں۔ پاکستان کے رواں سال کے بجٹ (2011-12) کے مطابق اس سال پاکستان کو بیرونی قرض کی مد میں 287 ارب روپے وصول ہونگے جبکہ بیرونی قرض (76)اور اس پر سود(243) کی مد میں ہم کل 319ارب روپے بیرونی ممالک اور اداروں کو ادا کرنے پڑیں گے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ دراصل یہ بیرونی ممالک اور ادارے ہیں جو ہمارے پیسوں پر پَل رہے ہیں ہم نہیں! اور اگر ہمیں بیرونی قرضوں اور اس پر سود نہ دینا پڑے تو ہمیں قرض لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔


جہاں تک ہمارے برآمدات کا مغربی منڈیوں سے منسلک ہونے کا تعلق ہے تو ہم اپنے تقریباً% 22برآمدات امریکہ کو بھجواتے ہیں اور اس کی وجہ امریکہ کا ہم پر کوئی احسان نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو اس سے زیادہ پائیدار اور سستی اشیاء اور کہیں سے دستیاب نہیں۔ وگرنہ امریکہ اور یورپ بار بار ہمارے برآمدات پر پابندیاں لگاتے رہتے ہیں اور اس کیلئے مختلف جواز تراشتے رہتے ہیں جیسے چائلڈ لیبر، ماحولیاتی خدشات وغیرہ۔ پاکستان کی معیشت اکثر و بیشتر اس کا مقابلہ کامیابی سے کرتی رہی ہے۔


جہاں تک پاکستان کی تیل کی درآمدات کا تعلق ہے جس کا ہمارے بعض دوست تذکرہ کرنا نہیں بھولتے، ان کی یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ پاکستان دنیا سے تیل خیرات میں نہیں لیتا۔ بلکہ مارکیٹ پرائس پر اسے خریدتا ہے جیسا کہ امریکہ اپنے تیل کی ضرورت کا 55 فیصد درآمد کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان ملکوں میں موجود تیل کا حجم 844 بلین بیرل جبکہ غیر اسلامی ممالک کی تیل کا حجم 45بلین بیرل ہے۔ دنیا کے دس میں سے 7بڑے ذخائر مسلمانوں کے علاقے میں ہیں۔ مزید برآں پاکستان جیسے ملک پر تیل کی سپلائی بند کرنے کی صورت میں دنیا کا کوئی ملک تیل حاصل نہیں کر سکے گا کیونکہ دنیا کے تیل کے بڑے ذخائر اور اس کی آمدورفت پاکستان کے پچھواڑے میں خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے ہوتی ہے۔ اور کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان کی فضائیہ اور نیوی صومالیہ کی بحری قزاقوں سے زائد طاقت رکھتی ہے۔


ہماری معیشت استعماری پالیسیوں کے باعث شدید بحران کا شکار ہے ۔ اس پر سہاگہ جمہوریت سے قدرتی طور پر ابھرنے والی کرپشن ہے۔ چونکہ جمہوریت کی قانون ساز اسمبلیوں کھربوں روپے کی کرپشن کا جائز اور قانونی طریقہ کار فراہم کرتی ہیں اس لئے دنیا بھر میں سب سے بڑے کرپٹ اور چور جمہوریت کے ذریعے قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو دور کر کے اپنے دولت کو دن دوگنی، رات چگنی ترقی دینے کا 'مقدس فرض‘ پورا کرنے میں جت جاتے ہیں۔ متقی، پرہیزگار، گریجویٹ، نمازی وغیرہ کی تمام شرائط ان کی راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ہر قوم میں موجود یہ چند کرپٹ جمہوریت کی آفاقی سیڑھی کے استعمال سے جائز اور قانونی کرپشن کی جڑ بن جاتے ہیں ۔ اسی جمہوری جائز کرپشن کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے چند سرکاری ادارے قومی خزانے کو سالانہ 400 ارب کا ٹیکہ لگا رہیں ہیں۔ امریکی آپریشنوں کا خرچہ پچھلے سال ہمارے ڈیفنس بجٹ کو 450سے 800ارب تک لے گیا۔ پاکستان کے سرکاری سروے (2010-11) کے خصوصی ضمیمہ کے مطابق صرف پچھلے ایک سال میں امریکی جنگ کے باعث معیشت کو 17.8ارب ڈالر (1528ارب روپے) کا نقصان ہوا۔ اور امریکہ ہے کہ ہمیں 1.5 ارب ڈالر سالانہ کی ''خطیر‘‘ رقم دے کر ہماری جان اور مال کا مالک بن جاتا ہے۔ اس سال کے بجٹ کے مطابق پاکستان اس سال ملکی و غیر ملکی قرضوں کے سود کی مدقریباً 1000ارب روپے کی ادائیگی کریگا۔ جمہوری نمائندوں کی مزاحمت کے باعث ملک اس وقت 300ارب تک کے زرعی ٹیکس سے محروم ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر جاگیر دار اور وڈیرے ہیں اور وہ جی ایس ٹی لگا کر عوام کی چمڑی سے دمڑی نچوڑنے کو زیادہ فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔ پس اس وقت جمہوریت سے پیدا شدہ کرپشن،امریکی جنگ، اور سود کے باعث ہماری معیشت ہر سال 3500 ارب سے زائدکا نقصان اٹھا رہی ہے ،جو ہمارے پورے سال کے بجٹ سے بھی زائد ہے، اورجس خسارے کو اسلامی ریاست مختصر ترین مدت میں ختم کر سکتی ہے۔ یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی اتحاد سے علیحدگی اور اسلامی ریاست کا قیام پاکستان کو مشکلات نہیں بلکہ خوشحالی اور آزادی کے راستے پر لے کر جائے گا۔


اسلامی ریاست پاکستان کے ان بیش بہا وسائل کو اسلامی کی آفاقی آئیڈیالوجی کے ذریعے امت اور اسلام کیلئے ایک زبردست خوشحالی اور طاقت میں بدل دے گی، نہ کہ resource curse میں۔ اسلامی کے عوامی وسائل سے متعلق احکامات توانائی اور معدنیات کے وسیلوں کو سستے داموں عوام اور معیشت کی ترقی کیلئے پیش کر دیتی ہے نہ کہ چند ملٹی نیشنل کی لوٹ مار کیلئے، کیونکہ اسلام ان وسائل کی ملکیت کو افراد، کمپنیوں اور ریاست تینوں کیلئے حرام قرار دیتا ہے ۔ اس طرح یہ وسائل عوام کی مجموعی فلاح کیلئے دستیاب ہو جاتے ہے۔ اسلام تمام بلواسطہ ٹیکسوں کو ختم کر کے عوام کا ہاتھ خرچ کرنے کیلئے آزاد کر دیتا ہے جو لوگوں کیلئے اطمینان اور خوشی کے ساتھ معیشت کی بڑھوتری کا باعث بنتا ہے۔ اسلام زرعی زمینوں سے متعلق معرکۃ الآرا اصلاحات کے ذریعے پاکستان میں ایک زرعی انقلاب لے کر آنے کی پوری طاقت رکھتا ہے ۔ ان اصلاحات کے تحت بنجر زمین آباد کرنے پر زبردست سہولت (incentive) یعنی ملکیت بھی مل جاتی ہے۔ اسی طرح تین سال تک کاشت نہ کرنے والے سے زمین واپس لے کر کسی اور کاشت کرنے والے کے حوالے کر دی جاتی ہے ۔ مزارعت کو ممنوع قرار دینے سے جاگیردارانہ نظام کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ یہ مراعات چند سالوں میں پیداوار کو دوگنا کرنے کے ساتھ ساتھ غربت اور مہنگائی میں زبردست کمی کو یقینی بنائے گی اور پاکستان کو ایک زبردست زرعی قوت میں منتقل کر دے گی۔ اسلام کرنسی کو سونے اور چاندی پر منتقل کر کے ہماری معیشت کے مالیاتی پہلوؤں میں امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ افراط زر کی اصل وجہ بھی ختم کر دیتی ہے۔ سود، جواء، پرائز بانڈ، pyrimid schemes، سٹاک ایکسچینج وغیرہ کی بندش سے دولت معیشت کا رخ کرے گی اور ایک زبردست انڈسٹیلائزیشن کی پالیسی کے ذریعے ملک کو ایک طاقتورفوجی صنعت کی بنیاد پر سپر پاور بنانے کی جانب ہم قدم بڑھا کر خودکفالت کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔


پس یہ ظاہر ہے کہ امریکی جنگ سے علیحدگی اور اسلامی ریاست کا قیام پاکستان کیلئے خوشحالی کی سب سے بڑی نوید کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ آٹھ جون ، 2011ء کو جاری ہونے والے اکنامک سروے آف پاکستان میں اس امر کا اعتراف حکومتی اور امریکی چاپلوسوں کے موقف کی شکست کا سب سے کھلا اظہار ہے۔ حکومت دہشت گردی کی امریکی جنگ کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے لکھتی ہے، '' پاکستانی معیشت وار آن ٹیرر کے شدید دباؤ تلے ہے، جو پچھلے چار سالوں میں افغانستان میں شدت اختیار کر چکی ہے۔ 2006 سے یہ جنگ پاکستان کے settledعلاقوں میں متعدی وباء کی طرح پھیلی ہے جو اب تک پاکستان کے 35000شہریوں اور3500سیکیوریٹی کے اہلکاروں کو کھا چکی ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تباہی ہوئی ۔۔۔جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے، ۔۔سرمایہ کاری کا ماحول غارت ہوا۔۔ملکی پیداوار تیزی سے پستیوں کی طرف لڑھک گئی۔۔بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔۔اور سب سے بڑھ کر ملک کے بیشتر حصوں میں صنعتی سرگرمیاں کلی طور پر جامد ہو گئیں۔۔۔پاکستان نے کبھی اس پیمانے کی سماجی، معاشی، اور صنعتی تباہ کاری نہیں دیکھی تھی حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب ایک براہ راست جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تھا۔‘‘ یعنی حکومت نے اعتراف کر لیا ہے کہ اس جنگ میں شمولیت نے پاکستان کو اس پتھروں کے دور میں پہنچا دیا ہے جس سے بچنے کے لئے مشرف نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس جنگ میں شرکت کر رہیں ہیں۔ ایسا پاکستان جس میں نہ بجلی ہے ، پانی ہے اور نہ گیس۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2010-11مزید لکھتا ہے، ''اس جنگ نے نہ صرف ہماری معیشت بلکہ پاکستان کے سماجی اور معاشرتی ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ لامحالہ اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے تو پاکستانی معیشت اور معاشرے کے بطن سے لہو رستا رہے گا۔‘‘ اس جنگ کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے ایک بین الاصوبائی اور بین الاوزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ، اکنامک سروے ان کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے،''پچھلے دس سالوں میں بلواسطہ اور بلاواسطہ اس جنگ سے پاکستان کو نقصان 67.93 ارب ڈالر یا 5037ارب روپے ہے۔ ‘‘ حکومت کے اس اقرار سے ثابت ہوتا ہے کہ اس جنگ کا جاری رہنا پاکستان کی رہی سہی معیشت کا بھی بیڑا غرق کر دے گا، اکنامک سروے اس پوری جنگ کی داستان ان دو جملوں میں سکیڑ کر کہتا ہے ،''دنیا کو جینے کیلئے ایک محفوظ مقام بنانے کی جدوجہد میں پاکستان خود زیادہ غیر محفوظ مقام بن گیا ہے۔۔۔پاکستان کی معیشت اس جنگ کے جلد خاتمے کا تقاضا کرتی ہے‘‘۔


درج بالا دلائل اس امر کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ یہ سرزمین ہمیشہ سے ایک خوشحال زمین رہی ہے اور اس کا پوٹینشل وقت گزرنے کے ساتھ گھٹنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ تاہم اس سرزمین پر ایک لعنت مسلط ہو چکی ہے جس کا نام سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو انگریز یہاں لے کر آیا اور اس کے بعد ان کے پروردہ ایجنٹ اور امریکی استعمار کے چیلوں نے اس نظام کو نافذ کیا جس کے باعث یہ وسائل استعمار اور ان کے چیلوں کوتو بھر پور فائدہ پہنچا رہے ہیں، لیکن عوام کو دو روٹی سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ استعماری پالیسیوں جیسے کہ امریکی دہشت گردی کی جنگ نے اس کا حال مزید خراب کر دیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے مخلص اہل قوت عوام کو اس لعنتی نظام اور اس کے رکھوالوں سے نجات دلائیں۔ تاکہ یہ زمین اپنے خزانے عوام کیلئے اگل دے۔ اور امریکی جنگ کو امریکہ پر واپس موڑ دیں، بے شک ہمارے پاس نجات کا یہی راستہ ہے اور بے شک اسلام ہی سے مسلمانوں کی فلاح اور عزت وابستہ ہے۔

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک