مغربی حکومتوں نے ملالہ کی کہانی اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اس کی جدوجہد کا استحصال کیا اور اپنے استعماری سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا یہ خلافت ہی ہے جو خواتین کے لیے دوبارہ اول درجے کا تعلیمی نظام واپس لائیگی۔
بسم الله الرحمن الرحيم
گذشتہ اکتوبر پندرہ سالہ پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی کو گولی مارے جانے کے واقعے نے دنیا بھر میں مسلم اور غیر مسلم ، بہت سے لوگوں کو حیران اور وحشت زدہ کر دیا۔ مرکزی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں، مغربی حکومتوں اور سیاستدانوں نے اس واقعے کی تشہیر یوں کی کہ ؛ ''اس بچی پر پاکستانی اسلام پسندوں نے اس لیے قاتلانہ حملہ کیا کیونکہ حقوقِ نسواں اور لڑکیوں کی تعلیم کی ترویج کے لیے اس کی کوششوں کے وہ مخالف تھے''۔ حملے کے فوراََ بعد بہت سے ادارے اور شخصیات اس کے مقصد کے لیے اکھٹا ہو گئیں اور اس کو سراہا گیا کہ اس نے عورتوں کی تعلیم کے مسئلہ کو عالمی توجہ دلوائی، ان شخصیات میں سابق برطانوی وزیرِاعظم اور اقوامِ متحدہ کے سفیرِ خاص برائے عالمی تعلیم گورڈن براؤن، اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکر یٹر ی بان کی مون، اور سابقہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن شامل ہیں۔
12 جولائی کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کواٹرز میں ملالہ کو نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا جہاں اس نے اس ضرورت کی حمایت کی کہ ہر بچے کے لیے مفت تعلیم لازمی ہو۔
پاکستان میں اور عالمی سطح پر بچیوں کے تعلیمی حقوق کی بہتری ایک عظیم مقصد ہے۔ مگر مغربی حکومتوں، اداروں، اور سیاستدانوں کی بے شرم کاوشیں عظمت سے کہیں دور ہیں جو اس نو عمر بچی ،اس کی جدو جہد ، اور اس پر ہونیوالے خوفناک حملے کے واقعے کااستحصال کررہی ہیں ، تاکہ وہ اپنے سیاسی مقاصدیعنی مغربی، لا دین اور آزاد خیال اقدار کو تعلیم کے بہانے مسلم دنیا کی خواتین اور بچیوں میں فروغ دیں ، اور ان کی اسلامی شناخت اور اقدار کو کمزور کر دیں۔
ملالہ کے لیے ان کی حمایت کی مضحکہ خیز ی اور مسلم خواتین کے تعلیمی حقوق کے لیے ان کی پریشانی کی حقیقت ان کے اس منافقانہ خاموش رویہ سے ظاہر ہوتی ہے جو انہوں نے لادین ریاستوں مثلاًفرانس ، بیلجیم ، ترکی اور ازبکستان میں حجاب اور نقاب کی پابندی کے بارے میں روا رکھا، جس نے مسلم خواتین اور بچیوں کو محض اسلامی لباس پہننے پر سکول کی معیاری تعلیم سے محروم کر دیا۔ یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ ان لادین ریاستوں اور سیاستدانوں کی مضبوط مخالفت سے بھرپور آوازیں اس وقت کہاں تھیں جب یورپی انسانی حقوق کی عدالت نے مسلم خواتین کے ان حقوق کے خلاف فرانس اور ترکی میں فیصلہ دیا، جس میں وہ معیاری تعلیم اور اسلامی عقائدکو ساتھ ساتھ لے کر چل سکیں؟
ملالہ کے واقعہ کو ایندھن بنا کر اس قدیم تہمت کی آگ کو بھڑکایا گیاکہ اسلامی نظام عورتوں کو دباتا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیتا ہے، اور یہ کہ مسلم خواتین مغربی طرزِ آزادی کی ضرورت مند ہیں۔ یہ ایک ایسی تہمت ہے جو تاریخ میں کئی دہائیوں تک استعمال ہوئی، اور دورِ جدید میں بھی کی جارہی ہے تاکہ مغربی لادینیت کا تسلط مسلم علاقے پر قائم رہے اور اسلام کو دوبارہ زور پکڑنے سے روکاجاسکے ، تاکہ مسلم دنیا میں اسلامی ریاست کا قیام نہ ہوسکے، جو کہ مغرب کے سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے ایک خطرہ ہے۔ حالانکہ یہ اسلام نہیں بلکہ مغرب کی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے عورتوں اور بچیوں کو پاکستان اور دیگر بہت سے مسلم ممالک میں قیمتی تعلیم سے محروم کر دیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان پر قبضے نے پاکستان، افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں ایک عدم استحکام اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جس میں بار بار کے ڈرون حملے اور بم دھماکے جنہوں نے گذشتہ سالوں میں ہزاروں لوگوں ، جن میں بے شمار بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، کو موت کے گھاٹ اتارا۔ بچوں کے حقوق پر اقوامِ متحدہ کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا، '' اطلاعات کے مطابق 2008 سے 2012 کے درمیان بے دریغ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے زمینی اور فضائی حملوں میں افغانستان میں موجود امریکی افواج سینکڑوں بچوں کو مار چکی ہیں''۔ ان بچوں کے حقوق کہاں ہیں؟ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ یہ اموات ان استعماری حکومتوں کو اس مسلم علاقے میں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ضمنی نقصان کے طور پر قابلِ قبول ہیں ۔ اس غاصبانہ قبضے، حالت ِجنگ اور عدم استحکام نے ایک ایسی لا قانو نیت کی فضا پیدا کر دی ہے جس میں جرائم، اغوا اور عصمت دری کے واقعات بکثرت ہورہے ہیں۔ ان حالات نے بہت سے والدین کو اس امر پر مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور جگہوں پر، جس میں اسکول بھی شامل ہیں، سفر نہ کرنے دیں ۔ علاوہ ازیں ایسی ریاستیں جو عدم استحکام ، تباہی اور عدم تحفظ کا شکار ہوں کس طرح اپنے شہریوں کو ایک اچھی اور میعاری تعلیم مہیا کر سکتی ہیں؟ دس سال سے زیادہ عرصہ کے قبضہ کے باوجود ، افغانستان میں10 میں سے تقریباََ9 خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہٰذا یہ مغربی استعماری خارجہ پالیسی ہے جس نے نہ صرف بچیوں سے تعلیم کو چھینا بلکہ ان کی زندگیوں اور وقار پر بھی ڈاکہ ڈالا اور ان کی سکول کی میعاری تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ، مسلم علاقوں کی مغربی حمایت یافتہ ، لا دین حکومتوں نے اپنی ریاستوں کے اندر آزاد خیال مغربی تہذیب ، نہ صرف تفریحی اور اشتہاری صنعتوں کے ذریعے داخل ہونے دی بلکہ لادین تعلیمی نظام کا نفاذ بھی کررکھاہے۔ یہ تہذیب جو جنسی آزادی کو پروان چڑھاتی ہے، عورت کی ہتک کرتے ہوئے اسے جنسی ضرورت کا سامان بنا دیتی ہے، اور مردوں کو اس پر اکساتی ہے کہ وہ عورتوں کو اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کریں، جس کے نتیجہ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور مصر جیسے ملکوں کے سکولوں اور گلیوں میں جنسی طور پر حراساں کرنے، ڈرانے اور عصمت دری کے واقعات بلند سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس صورتحال نے بہت سی خواتین میں احتراز پیدا کیا کہ وہ تعلیم کے حصول کے لیے گھر سے باہر قدم رکھیں۔
مزید برآں کھوٹے مغربی سرمایہ دار انہ نظام نے مسلم دنیا کے ملکوں کی معیشت تباہ کر دی، ان کو بڑے سودی قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا اور ناکام معاشی پالیسیوںمیں جکڑدیا، مثلا ً قرض کی ادائیگی پر خرچ کی جانے والی رقم تعلیم، صحت، انتظامی ڈھانچے اور دیگر عوامی سہولیات پر ہونے والے خرچ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ غیر تسلی بخش اور آہستہ آہستہ نا پید ہوتے سکول، محدود اور کم تربیت یافتہ اساتذہ ، ضروری کتابوں اور ساز و سامان کی کمی ہے۔ مزید برآں مسلم علاقوں پر حاوی مغربی ریاستوں اور ان کے آئی ایم ایف جیسے اداروں نے مسلمانوں کو سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے ذریعہ مفلس کیا اور ساتھ ہی مفت تعلیم کے فقدان نے بہت سے والدین کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ تعلیم دلوانے میں اپنے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینے لگے۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں کہ پاکستان میں تقریباََ60 فیصد اور بنگلہ دیش اور مصر میں 50 فیصد خواتین نا خواندہ ہیں۔ لہذا ہمارے مسلم علاقوں پر مسلط مغربی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دار انہ لا دینی نظام ہی دراصل مسلم دنیا میں خواتین اور بچیوں کو اچھی تعلیم کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق اسلام کی ہدایات بالکل واضح ہیں۔ اوروہ یہ ہیں کہ نہ صرف اسلام کا علم اور مسائل کے حل جواسلام دیتاہے ان کا علم حاصل کرنا عورتوں پر فرض ہے جیسا کہ رسول ﷺکی اس حدیث سے واضح ہے(طلب العلم فريضة على كل مسلم) ''علم کا حصول ہر مسلمان (مرد و عورت)پر فرض ہے'' بلکہ مسلمان عورت کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا پربھی غور و فکر کرے۔ یقینا رسول اللہ ﷺکی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک عظیم اسلامی سکالر تھیں بلکہ طب ، شاعری اور عمومی علوم میں بھی ماہر تھیں۔ اسلام مسلم امت پر یہ بھی فرض کرتا ہے کہ وہ دنیا میں ایک راہنما قوم ہو، اورمسلم عورتوں اور مردوں کی حوصلہ افزائی کرتاہے کہ وہ معاشرہ کی بھلائی میں حصہ دار ہوں اور زندگی کے مختلف شعبوں مثلاََ تعلیم ، سائنس، طب، ٹیکنالوجی اور صنعت میں سبقت لے جائیں۔ مگرخواتین کے ان تمام تعلیمی فرائض اور حقوق کا تحفظ صرف ایک ایسے نظام کے اندر ہی ممکن ہے جو اسلامی عقائد اور تعلیم نسواں کی اسلام میں اہمیت کی حقیقتاً قدرکرتا ہو۔ وہ نظام ریاستِ خلافت ہے جس کے آئین کی بنیاد صرف اور صرف قرآن اور سنت پر ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام کے حکم کے مطابق ریاستِ خلافت کا فرض ہے کہ وہ کثیر رقم شعبہ تعلیم پر خرچ کرے اور بچوں اور بچیوں کو یکساں طور پر مفت ابتدائی اور ثانوی تعلیم مہیا کرے اور جہاں تک ممکن ہو اعلٰی تعلیم کی فراہمی کو بھی مفت ممکن بنائے ۔ یوں یقینی ہوجاتاہے کہ خواتین کے لیے ایسے خصوصی اور بااختیار اسکول ہوں جو اسلام کے حکم کے مطابق غیر مخلوط ہوں، اورجن کا انتظام چلانے کے لیے ، اچھی اجرت پر لی گئیں، بہترین تربیت یافتہ ، اور اعلی اہلیت کی حامل خواتین اساتذہ موجودہوں ۔ ساتھ ہی خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انہیں سہولیات مہیا کی جاتی ہیں تاکہ وہ مختلف شعبوں میں خصوصی مہارت حاصل کریں مثلاً عالمہ دین، ماہر طب(ڈاکٹر)، سائنسدان، حساب دان، ماہر تعمیرات، قاضیہ(جج)، مُدَرِّسہ(لکچرار)، مہندسہ(انجنیئر)، اور آئی ٹی کی ماہر بن سکیں۔ اوریہ سب کچھ اسلام کے دیے ہوئے ٹھوس اقتصادی نظام سے مالی طور پر مربوط ہے ، جو ایک مستحکم معیشت اور معاشی خوشحالی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، اور جسے نافذکرنے کی ذمہ داری اسلامی نظامِ حکومت کی ہے ۔ تعلیم اس نظام حکومت کی ترجیہات میں سے ہے اورتعلیم اسکی نظر میں ہر شہری کا بنیادی حق ہے، لہٰذا وہ اپنے نظام تعلیم، شعبہ ابلاغ (میڈیا)، اور عدالتی نظام کے ذریعے ، اپنی بھرپور کوشش سے معاشرہ میں موجود ایسے رسم ورواج کو مٹا دے گا جو خواتین کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ علاوہ ازیں اسلامی معاشرتی نظام اور دیگر شرعی قوانین اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خواتین کا بلند مرتبہ ہمیشہ قائم رہے، اور ان کی قدر میں کمی نہ ہو ، تاکہ مرد ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں ، نہ کہ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق، اور یہ کے ان کی حرمت اور عزت کے خلاف کسی بھی رویے کی سخت سزا دی جائے گی، اور ایک ایسے محفوظ ماحول کو یقینی بنایا جائے گا جس میں بچیاں اپنے سکولوں تک سفر کر سکیں اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ یہ ہے وہ سب کچھ جو خواتین کی ناخواندگی کو مٹائے گا اور عورتوں کی تعلیمی آرزئوں کو پورا کرے گا۔
تاریخ میں اسی خلافت کے نظام تلے ہی ایساممکن ہوا تھا کہ عورتوں کا تعلیمی معیار بلندیوں پرپہنچااور شاندار خواتین سائنسدان اور موجدات تیار ہوئیں، مثلاً ''اصطرلاب'' ایجاد کرنیوالی مریم الاصطرلابی، جنہوں نے دسویں صدی میں سورج اور ستاروں کی حرکات وسکنات کاحساب لگانے کے لیے اس آلہ کی بنیاد رکھی تھی۔ مثلاً بہترین خاتون انجینیر فاطمہ الفہری جنہوں نے مراکش کے شہر قراویین میں پہلی جامعہ بنائی؛ اور ہزارہا خوتین سکالرز جن کی تفصیل عالم محمد اکرم الندوی کی ٤٠ جلدوں پر مشتمل کتاب سے ملتی ہے جو ہمیں ان آٹھ ہزار خواتین سکالرز کی سوانح عمری بتاتی ہے جو اسلامی تہذیب کے دور میں تھیں۔ اس حقیقی اسلامی نظام تلے قاہرہ کی معروف الاظہر یونیورسٹی تک خواتین کی پہنچ بطور طالبعلم بھی تھی اور بطور لیکچرار بھی ، یہ وہ حق ہے جو مغرب کی خواتین کو ان کی جامعات نے سینکڑوں سال بعد دیا۔ درحقیقت بہت سے قدیم اسلامی کلیات وجامعات میں خواتین مدرسات (لیکچرار) کی تعداد آج کی بہت سی مغربی جامعات کی نسبت زیادہ تھی۔ یہ سب اس کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ترقی کے لیے صرف اور صرف اسلام کو اپنا مرکزی قوتِ تحریک بنایا۔ اس لیے خلافت ایک ایسی ریاست تھی جس نے حقیقی طور پر دنیا میں خواتین کی تعلیم کی بنیاد رکھی اور انشا اللہ دوبارہ اپنے قیام کے ساتھ خواتین اور بچیوں کے لیے اول درجہ کا تعلیمی نظام مہیا کرے گی۔
عزیز بھائیو اور بہنو،
ملالہ کی اس کہانی کی نوشت مغربی استعماری حکومتوں کی لکھی ہوئی ہے، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کی بہتری نہیں بلکہ ان کی استعماری مداخلت کو جاری رکھنا اور مسلم دنیا کو اپنا تابع بنائے رکھنا ہے۔ اس خطہ کے لیے جو تعلیم وہ پیش کررہے ہیں اس میں ہمارے لیے کوئی اخلاص نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد اپنے لا دینی (سیکولر) خیالات اور ان آزاد خیال (لبرل)اقدار کو مزید پھیلانا ہے، جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا، یقیناََ اس کو سختی کے ساتھ رد کر دینا چاہیے۔
صرف اور صرف خلافت کے قیام کے ذریعے ہی ہم اپنی اسلامی بنیادوں اور قوانین کی طرف لوٹ سکیں گے اور یہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں خواتین کی تعلیمی آرزوئوں کی تکمیل ممکن ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَٱللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَافِرُونَ
"وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے"( سورة الصف ۔8)