الأربعاء، 18 محرّم 1446| 2024/07/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب

انقرہ، ترکی میں روسی سفیر کے قتل کے پیچھے کون ہے؟

 

سوال: 19 دسمبر 2016 کو  ایک سیکیورٹی اہلکار نے ترکی میں مقیم روسی سفیرکوترکی کے دارلحکومت انقرہ میں  اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا  جب انقرہ کی آرٹ گیلری  میں روسی سفیر کی تقریرنشر ہورہی تھی اورسب نے اس کے قتل کے منظر کودیکھا۔ ترک حکومت نے کہا ہے کہ اس حملے کے پیچھے فتح اللہ گلین کا ہاتھ ہے۔  اس الزام کی کیا حقیقت ہے اوراس حملے کے پس پشت کون سے عزائم کارفرما ہیں؟ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔

 

جواب:  اس معاملے کے جواب میں ضروری ہے کہ اس واقعہ سے متعلق مندرجہ ذیل پہلوؤں  کو جانا جائے۔

 

سب سے پہلے  واقعہ کی حقیقت کیا ہے:

1۔کچھ عرصے قبل جو کچھ حلب (Aleppo) میں ہوا وہ مسلمانوں  کے لئےواقعی  بڑاغمگین سانحہ تھا جوان کے ہوش و حواس اڑانے کے لئے کافی تھا کہ وہ اس کے ردعمل میں جذباتی طور پرکچھ کر بیٹھیں ۔ شام میں اسلام اور مسلمانوں کے  اوّلین دشمن امریکہ کےمنصوبے کو  تکمیل  تک پہنچانے ،وہاں  امریکہ کے خادموں یعنی روس  اور ظالم وجابربشارالاسد اور اس کے گروہ کے جرائم اورمسلسل غداری کےمرتکب ہونے والے ایران اوراس کے لبنانی گروہ حزب اللہ اور اس کے حمایتیوں کے  ساتھ شام  کے مسلمانوں کے کشت وخون میں شامل ہونے کی وجہ سےترکی کے صدر رجب طیب اردوان  کی غداری کھل کر سامنے آگئی ہے۔

 

2۔سفیر کو قتل کرنے کے بعدآفیسر نے اسلامی نعرے لگائے جس میں اس نے عربی میں کہا کہ "ہم وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ سے مرتے دم تک جہاد کرنے کا عہد کیا ہواہے"، پھر اس نے ترکی زبان میں کہا کہ "حلب کو فراموش مت کرنا، شام کو فراموش مت کرنا، اللہ اکبر" اوراس کوباربار دوہراتارہا جو ظاہر کرتا ہے کہ حلب میں جو ہوا اور جو کچھ شام کے مسلمانوں کےساتھ ہورہا ہے اُس سے وہ متاثر ہواتھا اور اس نے کہا: "حلب اور شام میں ہونے والے مظالم میں جس  جس کا ہاتھ تھا  ہر ایک اس  کی قیمت چکائے گا"۔  مزید اس نے کہا "جب تک ہمارے ملک محفوظ نہیں ہیں تو تم بھی امن نہیں دیکھ سکوگے"(نیوز ایجنسیاں، 19 دسمبر 2016) ۔  گویا کہ وہ یہ پیغام  امریکہ، روس  ،ان کے اتحادی اوران کی مددگارمملکتوں کو پہنچانا چاہتا تھا جنہوں نے شام کو برباد کیا اور مسلم ممالک پر حملے کیے اور یہ پیغام دیاکہ ان کے جرائم  امت سے بھلائے نہ جاسکیں گے  اور انشاء اللہ وہ دن آکر رہے گا جس کا ان سے وعدہ ہے۔

 

3۔تعجب خیز بات یہ ہے کہ سرکاری افسران نےآفیسر کو زندہ پکڑنےکی کوشش  نہیں کی  اور اس کو قتل کردیا جو دانستہ طورپر کیا گیاقتل معلوم ہوتا ہےاورترکی کی جابرحکومت کو ڈر ہواکہ اگر اس کو قید کرکے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تو وہ حلب اور شام کے حوالے سے اورحکمرانوں کی غداری بالخصوص اردوان کی دغابازی کے خلاف نعرےبازی کرتا رہے گا ، جو اردوان کے لیے پشیمانی کی بات ہو گی کیونکہ اس نے حلب کومسلمانوں کے دشمنوں کے حوالے کردیا تھا۔  چنانچہ اس  امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آفیسر کے قتل کاحکم اردوان کی جانب سے آیا ہو  تاکہ اس کو پشیمانی کا سامنا اور نتائج جھیلنے نہ پڑ جائیں خاص طور پر جبکہ اس کو زندہ گرفتار کیا جاسکتا تھا اور بڑی تعداد میں حفاظتی دستوں نے اس مقام کو گھیر لیاتھا، اگر چہ اس  آفیسر نے کہا تھا تم مجھے زندہ گرفتار نہیں کرسکتے تاکہ اپنی مضبوط پوزیشن جتلائے اوراپنی  بے خوفی کوظاہر کرسکے۔  اناطولیہ نیوزایجنسی نے12 دسمبر2016 کو بتلایا کہ "استغاثہ کےوکیل اُس وجہ  کی کھوج لگا رہے کہ ترک اسپیشل فورسز نے اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی  جبکہ انہوں نے آرٹ  نمائش کے مقام کو گھیر لیا تھا اور پھرحملہ آورآفیسر Mevlut Altintas کو قتل کیا گیا جب وہ زندہ تھا"۔

 

اس کو گرفتار نہ کئے جانے پر اردوان کو پشیمانی ہوئی تواس نےآفیسرکےقتل کے لئے حفاظتی اہلکاروں کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ "آفیسر کو گرفتار نہیں کیا گیا اس پر چہ مہ گوئیاں  کی جارہی ہیں اور دیکھو کیا ہوا  جب بیستکاس کے حادثہ میں سیکوریٹی اہلکاروں نے ایک حملہ آور کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی"، حالانکہ یہ حادثہ  بیستکاس جیساحادثہ نہیں ہے کیونکہ یہاں پرواحدایک آفیسر نے نعرہ لگاتے ہوئےدشمن  ریاست  یعنی روس کے نمائندہ پر تنہا انفرادی حیثیت میں آپریشن کو انجام دیا ہےجو رات دن مسلمانوں کو شام میں قتل کررہا ہےاورکافرانہ  اقتداراور اس کےظالم سرغنہ بشارلاسدکو بچانے کے لئےان کے ملک شام کوبمباری کے ذریعےبربادکررہا ہے۔ حلب میں جو کچھ ہوااس نے عام طور پرمسلمانوں کو تڑپا کر رکھ دیا ہے اور آفیسر کے نعرہ اور تکبیر کےپیچھےیہی غم وغصہ تھا، جبکہ بیستکاس کے آپریشن  کے پیچھے قوم پرست کُرد سیکولر تنظیم کا ہاتھ تھا جس کا اسلام سے  کچھ بھی  لینا دینا نہیں ہے اور اس کے مقاصد اور اہداف اسلام سے بہت دور ہیں اور یہ تنظیم سیاسی طور پراستعماری طاقتوں سے ملی ہوئی ہےلہٰذاان دونوں واقعات کو  ملا کر دیکھنا معاملات کو گڈمڈ کرنے کی طرح ہےجو کسی بھی اعتبار سے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا بلکہ جو ایسا کرےہو اس سےاس کی ناہلی یا  پھردھوکہ دہی کا راز فاش ہوتا ہے۔

 

دوئم: اس واقعہ کے ردعمل

1۔امریکہ کو روسی سفیر کے مارے جانے پر تشویش ہوئی۔   روس کو امریکہ نےہی  شام میں اپنے منصوبے  کو عملی جامہ پہنانے کے لئے متعین کیا تھا اوراس کے متعلق دونوں آپس میں متفق ہیں اورتعاون کے ساتھ اپنی چالوں کو انجام دیتے آئے ہیں۔ امریکی سیکریٹری  خارجہ جان کیری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ "امریکہ آج انقرہ میں ہونے والےروسی سفیر آندرئی کارلوف کے قتل  کی مذمت کرتا ہے"( رائٹرز،19 دسمبر 2016)، اور اس کو" نہایت گھناؤنا حملہ" بتلاتے ہوئے اعلان کیا کہ "امریکہ روس اور ترکی کے ساتھ اس حملے کی تفتیش کے لئے تیار ہے"۔وہیں امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان  کِربی نےجاری کردہ  بیان میں  کہاکہ "ہم اس تشدد کی واردات کی شدید مذمت کرتے ہیں خواہ  یہ کسی کی بھی جانب سے ہوا ہو، ہم سفیر اور اس کی فیملی کے ساتھ غم میں شریک  ہیں"۔  وہائٹ ہاوس  کےترجمان اورامریکی محکمہ دفاع اور  منتخب صدر  ٹرمپ کی ٹیم  کی جانب سے بھی اس قتل  کے واقعہ کی مذمت کی گئی  اور یہ کہ امریکہ اور روس ایک ساتھ کھڑے ہیں۔

 

2۔ اردوان جو کہ امریکہ کا حمایتی ہےجس نے امریکہ کے اشاروں پر روس کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور وہ بھی نہیں چاہتا کہ روس کے ساتھ اس کے تعلقات پر اس واقعہ  کا بُرا اثر پڑے اور پہلےہم  نے دیکھا ہے کہ کس طرح  اردوان نے ترکی کی فضاء میں داخل ہونے والےروسی طیارے کو مارگرائے جانے کے معاملہ کا  تصفیہ کیا اور روسیوں سےاس پر معافی بھی مانگی اور بالآخر اپنی دغابازی کی حدوں کو بھی سب کے سامنے کھول دیا جب اس نے حلب کےشامی انقلابیوں کو دھوکہ دے کرحلب سے باہر بلایاتاکہ اس  تعلق سےپچھلے سال اگست  میں بنائے گئے امریکی منصوبےپر راضی ہو کر اللہ کے دشمن پوٹن  کے ساتھ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکےاور حلب کو بشارالاسد کے حوالے کیا جاسکےاوراردوان کا اِس سازش سے متفق  ہونے کے راز کو خود پوٹن نے  افشاء کرکےاپنے اتحادی کوبے نقاب کردیا تاکہ اردوان اپنے جھوٹے ہیروازم کی  بڑ نہ مان سکے جس کے بعد اردوان نے ذلت اختیار کرتے ہوئے چاپلوسی کے ساتھ اگست میں سینٹ پیٹرزبرگ میں پوٹن کے ساتھ اس معاہدے کے تعلق  سے ہوئی اپنی ملاقات کے بارے میں کہا کہ پوٹن ایک اتحادی اور زبردست دوست ہےاورپھر روسی سفیر کے قتل کے دوسرے دن اردوان نے بیان دیا کہ "وہ اپنے روسی ہم منصب  پوٹن کے ساتھ شامی فائل ( شامی بحران کے امریکی حل )پر متفق ہیں اوراس  معاملے میں روسی سفیر کے قتل کے باوجود روس کے ساتھ ہمارا تعاون جاری رہے گا" اور بیان دیا کہ "ہم روسی صدر کی رائے کے ساتھ ہیں کہ ہمارا تعاون  روس کے ساتھ  مختلف  میدانوں میں ہے بالخصوص شام کے حل میں ہمارا  روس کے ساتھ تعاون اس قتل کی وجہ  سےمتاثر نہیں ہونا چاہئیے"(الجزیرہ، 20 دسمبر 2016)۔اور ساتھ ہی  اردوان کے وزیر خارجہ  کاوسوغلو کا روسی وزیرخارجہ لاوروف کے ساتھ ماسکو میں ملاقات کے بعد یہ مشترکہ بیان آیا کہ"ترکی اور روس شام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتےرہیں گے جب تک وہ شام   میں اور دیگر جگہوں پر سیاسی حل تک نہیں پہنچ جاتے"،اور دونوں نےتسلیم  کیا کہ  سفیر کا قتل "دونوں فریقین کےآپس کے تعلقات کو خراب کرنے کی خاطر تھا"۔ پوٹن نے بیان دیا کہ"یہ آپریشن اشتعا ل دلانے کے لئےتھاجس کا مقصد فریقین یعنی روس اور ترکی کے باہمی تعلقات کو استوار ہونے اور شام میں امن کی بحالی کو روکنا تھا"۔روسی صدر کے ترجمان پیسکوف نے اعلان کیا کہ "دونوں صدور حملے کی تفتیش کے لئےایک مشترکہ کمیٹی  کی تشکیل پر متفق ہیں" ۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ہی فریق  یعنی روس اور ترکی اس واقعہ کے متعلق اتفاق رائے رکھتے ہیں اورامن کے حصول یا پُر امن حل کےنام پرآپس میں مل کر شام کے انقلاب  پرکاری ضرب لگانے کے لئے تعاون کرنے کی خاطر پرعزم ہیں۔ ترکی اور روس اور ایران کے وزرائے خارجہ نے روسی سفیر کے قتل ہونے کے اگلے دن ایک اجلاس منعقد کیا اورمشترکہ بیان میں  شام پر ایک سیکولر اقتدار کے برقرار رکھنے کی اہمیت پر زوردیااور مشترکہ طور پراس کے عزم کو ظاہر کیا۔

 

3۔مزید براں یورپ بھی شامی انقلاب اور اسلام کی شام میں واپسی کاشدید مخالف ہےاوراس نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے اورشام میں ایک سیکولر اقتدار کو برقرار رکھنے اور  وہاں سیاسی حل کو نافذ کرنے کی منظوری دی تجی جب اس نے 14 دسمبر 2015 کو  ویانا  کانفرنس میں شرکت کی تھی۔  اس کے علاوہ یورپ نے روس اور امریکہ کے ساتھ شام کے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو بھی منظور کیا تھا، یورپ چاہتا تھا کہ شامی بحران اور ا س کے سیاسی عمل میں  اس کا بھی کردار ہو اور وہ بین الاقوامی  سطح پر الگ تھلگ نہ رہ جائے۔یورپ روس اور امریکہ کی طرح ہی اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہےجواسلامی اقتدار کی واپسی کے خلاف کمر بستہ ہوکراسلام کے خلاف جنگ  میں شامل ہے۔ یوروپین یونین کے خارجی امور کے سربراہ فیڈریکا موغرینی  نےروسی سفیر کےقتل  کی مذمت کرتے ہوئے بیان دیا کہ "مجھے اس  ناقابل یقین واردات  پر بڑاصدمہ ہوا"(الجزیرہ۔ نیٹ20 دسمبر 2016)۔  اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں  برطانوی سفیر Matthew Rycroftنے بھی ترکی میں روسی سفیر کے قتل پرافسوس کا اظہار کیا اوربیان دیا کہ " برطانیہ دہشت گردی کے خلاف  جنگ میں  روس کے ساتھ شام اور اس کے باہر تعاون کرنے کو تیار ہے"(الجزیرہ۔ نیٹ20 دسمبر 2016)۔  اور برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن نے بیان دیتے ہوئے اس حملے کو بزدلانہ اور نفرت کے لائق قراردیا(رشیا ٹوڈے،20 دسمبر 2016) ۔جرمنی میں بھی روسی سفیر کے قتل کی مذمت کی گئی، جرمن چانسلر اینجیلا مرکل کے ترجمان اسٹیفن سیبارٹ  نے پیر کی شب  کو ٹویٹ میں کہا  "قتل کی خبر بڑی افسوسناک ہےاور جرمن حکومت اس   جنونی قتل کی شدت سے مذمت کرتی ہے"(الجزیرہ۔ نیٹ20 دسمبر 2016)۔  اورفرانسیسی وزیر خارجہ Jean-marc Ayraultنےکہا کہ "تشدداوردہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہے" اورسفیر کے خاندان کی خاطراپنےتعزیتی کلمات کا اظہار کیا اور روس اور ترکی کے لئے اپنی حمایت ظاہر کی۔(الجزیرہ۔ نیٹ20 دسمبر 2016)۔ 

 

4۔اردوان کی جانب سے فتح اللہ گلین پراس قتل کا الزام لگانا درست نہیں ہے۔21 دسمبر 2016 کواردوان نے ایک بیان دیا کہ "اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلح گن بردارجس نےانقرہ میں  روسی سفیر کا قتل کیا  ہے وہ فتح اللہ گلین کے دہشت گرد نیٹ ورک کاحصہ تھا اور اس کی عبادات اور تعلیم سب اس کے گلین نیٹورک سے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں"(رائٹرز،21دسمبر2016)۔اس طرح کا الزام کو ئی نیا نہیں ہے  اور ترک حکومت کے سربراہ اردوان کی جانب سے مختلف واقعات کی سچائی کو چھپانے کے لئے بارباراس قسم کا الزام اس تنظیم پر لگایا جاتا رہا ہےجیسا کہ کچھ عرصہ پہلے گلین کی تنظیم پر اردوان نے ترکی میں بغاوت کا الزام لگایا تھا تاکہ اس کی آڑ میں برطانوی ایجنٹوں کا صفایا کرسکے جنہوں نے 15 جولائی کو ترکی میں  بغاوت کی کوشش کی تھی۔گلین نے بھی روسی سفیر کے قتل کی مذمت  کی جیسا کہ گلین موومنٹ کے ترجمان Alp Aslandoganنے بتلایاکہ "فتح اللہ گلین روسی سفیر کےقتل کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو اہانت آمیز عمل  بتلایا اور ترک حکومت کی جانب سے گلین موومنٹ پر قتل کےالزام کو مضحکہ خیر بتلایا"(رائٹرز، 20دسمبر2016)۔

 

یہ بات سمجھنے کے لئے بڑی اہم ہے گلین موومنٹ اور اس کے سربراہ فتح اللہ گلین اسلام اور مسلمانوں کے لئے اپنے پاس کوئی  غیرت نہیں  رکھتےہیں جیسا کہ انہوں نے مشرقی وسطی میں یہودی ناپاک وجودکی جانب سے ماوی مرمرا پرکی گئی پرتشدد کاروائی اور 10ترک افراد کے قتل کی حمایت کی تھی اور یہ  یہودیوں سےرابطہ  استواررکھتے ہیں اور ان کو اپنی طرح کا مومن سمجھتےہیں اورواقعتاً  یہ  موومنٹ  نہ مسلمانوں کے ساتھ ہےاور نہ  ان کے مسائل سے کوئی  ہمدردی رکھتی ہے اور نہ ہی کسی اسلامی مسئلہ پر یہ کام کررہے ہیں اور نہ ہی کسی اسلامی کاز کی  انہوں نے حمایت کی ہے۔یہ اسلامی خلافت کے منصوبے کے خلاف ہےاور اس کا مذاق اڑاتی ہےاور اس کے لئے کام کرنے والوں سے لڑتی ہے۔ یہ موومنٹ 2013 کے آخر تک اردوان کے ساتھ تھی لیکن بعد میں امریکی آقاءکے مفادات کو پورا کرنے کی دوڑ میں اردوان سے اختلافات کی وجہ سے دوری بن گئی، یہ اردوان ہی کی طرح ایک امریکی ایجنٹ ہے جو امریکی مفاد کےلئے کام کرتا ہےاور اردوان اور اس کی جماعت کی طرح ہی سیکولرزم اور جمہوریت جیسے امریکی منصوبوں کواختیار کئے ہوئے ہے۔ چنانچہ یہ مسلمانوں کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی  مسلمانوں کے مفاد اور ان کی حفاظت اور ان کے مسائل سے کوئی ہمدردی رکھتا ہے چنانچہ گلین موومنٹ کی جانب سے استعماری کفار کے خلاف کاروائی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی روس نے گلین موومنٹ پر اس کا الزام لگایا ہےبلکہ قتل کے پیچھے گلین موومنٹ  کے کردارکےحوالے سےترکی کی جانب سےآئےتبصرے کے جواب میں روس کے صدارتی ترجمان پیسکوف کا بیان آیا کہ"یہ کہنا بڑی جلد بازی ہوگی کہ سفیر کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہےاور سفیر کا قتل ترکی کی عزت پرلگا داغ ہے"(رشیا ٹوڈے،21 دسمبر 2016)،جس کے بعداردوان نے آفیسر کے خاندان سے اس کا انتقام لیا اور حکم دیا کہ آفیسر کے باپ، ماں اور بہنوں  اور دیگر رشتہ دار اور دوستوں کوگرفتار کیا جائے اور گرفتاریوں کی تعداد بڑھ کر 13 ہوگئی ہے جبکہ اردوان روسی صدرسے تعزیت کی خاطر تعلق بنائے ہوئے ہے۔

 

سوئم:قتل کے پیچھے کارفرما عزائم

حقیقت جو واقع ہوئی اور مختلف فریقین کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا اس کو دیکھنے سے"صاف ظاہر ہے کہ آفیسر نے عمل تنہا انجام دیااور اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے نہیں تھااوراس کا  یہ عمل  روس کی جانب سے شام میں کیے گئے مظالم کے ردعمل میں تھااور اس کے پیچھے اسلامی جذبات کارفرما تھے اور ہم اللہ کے سامنے کسی کی سفارش نہیں کرتے،  اللہ اس پر اپنی رحمت کرے اور اس کے خاندان کو صبرسے نوازے کہ ﴿إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَکہ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرۃ-153)"

 

ہم اللہ العزیز الحکیم سے دعا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو کرب وپریشانی سے نجات دے اورانہیں اپنی نصرت عطاء کرے تاکہ اسلامی خلافت   کا قیام ہو سکے جس کے بعدہر استعماری کافر اور ہر جابرحکمران اور ہر منافق شیطان اس  سزاء کا مزہ چکھے جس کے وہ لائق ہےاور ان  کو ماننے والوں  کے لئےان کو نشان عبرت بنا کر چھوڑےاور ہر مظلوم کو انصاف عطاء کرے اور جنہوں نے نقصان اٹھایا انہیں راحت دے۔

 

﴿وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ * بِنَصْرِ اللَّهِ يَنصُرُ مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ

"اوراس دن مومن  اپنے رب کی نصرت  پاکرشادمان ہوں گے کہ وہ اپنی نصرت جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ طاقتور اور رحیم ہے"(الروم:5-4)۔

 

26 ربیع الاول 1438 ہجری

25 دسمبر 2016 عیسوی

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک