بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
ٹرمپ اور یورپ بالخصوص جرمنی کے مابین سیاسی اور معاشی بحران
ٹرمپ اور یورپ، بالخصوص جرمنی کے درمیان جاری سیاسی اور معاشی بحران میں حالیہ دنوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے حالانکہ اس کو بڑھاوا دینا ٹرمپ کے صدارتی الیکشن کی صورتحال تک محدود سمجھا جارہا تھا جیسا کہ مغرب میں انتخابی نمائندگان کا عام طور پر ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے البتہ اس نے صدارتی دفتر سنبھالنے کے باوجود بھی اپنی جانب سےاس کشماکش کو جاری رکھا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اوریہ تنازعہ سب سے زیادہ جرمنی کے ساتھ کیوں قائم ہے؟ اورامریکہ اور یورپ کے درمیان اس بڑھتے ہوئے بحران کا نتیجہ کیا ہوگا بالخصوص جرمنی کے ساتھ؟ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب:
سب سے پہلی بات یہ کہ، جس بات نے اس سیاسی و معاشی بحران کو جنم دیا ہے تو یہ الیکشن کے دوران اور اس کے بعد امریکہ کے اتحادیوں کے متعلق ٹرمپ کے ذریعے کی گئی اُکسانے والی باتوں اورفعل کا ردعمل ہے۔
1۔ امریکی صدر نے اپنے 2016 کےصدارتی الیکشن میں اس بات پر زور دیا اورپرزور اس کا اعلان بھی کیا جو اُس کا ماننا ہے کہ یورپ کے نیٹو ممالک امریکہ کے قرض دارہیں اورقرضہ انہوں نے واپس لوٹانا ہے کیونکہ نیٹو اتحاد کے بجٹ میں امریکہ کا بڑا حصہ رہا ہے اور پچھلی دہائیوں میں تحفظ کے لئے ان ممالک کوامریکہ کوقرضہ لازمی طور پر واپس اداء کرنا چاہیے۔ 20جنوری 2017 کو دفتر سنبھالنے کے بعدامریکی صدر نے اپنی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیا اور اس کو امریکہ کا سرکاری موقف بنانا چاہا اور یورپ بالخصوص جرمنی سے مطالبہ کیا کہ ناٹو اتحادکے بجٹ میں اپنے حصے میں اضافہ کریں۔ اس اتحادکے متعلق ٹرمپ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھااورجرمنی کےساتھ اپنے ملک کے تجارتی توازن کےخسارے کے متعلق اس نے جرمنی سے شکایت بھی کی ۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ واشنگٹن میں ہوئی اس کی ملاقات کے متعلق یہ بات رپورٹ کی گئی کہ" امریکی صدرنے جمعہ کے روز جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی جس میں صاف طور پر تناؤ اور اختلافات نظر آرہے تھے بالخصوص تجارت اور امیگریشن کی فائلوں (یعنی موضوع) کے متعلق (France 24, 17/3/2017)۔ اور ملاقات سے قبل ٹرمپ نے بیان دیا کہ جرمنی کے اوپر ایک بڑی رقم بنتی ہے جو اسے نیٹو اتحاد کو اداء کرنا ہےاور جرمنی کو امریکہ کو مزید رقم اداء کرنی ہے تاکہ امریکہ اس کا تحفظ کرے۔
جرمن چانسلر اینجیلا مرکل کے ساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹر پر کہا "پھر بھی جرمنی پرابھی نیٹواتحاد کو بڑی رقم ادا کرنا باقی ہے اور امریکہ جس قدرجرمنی کا مہنگا اور طاقتوردفاع کرتا ہے اس کے لئے جرمنی نے امریکہ کو ایک بڑی رقم اداء کرنی ہے"(Al-Youm As-Sabi’ 18/3/2017)۔ ادھرجرمنی نےامریکہ کی مافیا سرغنہ جیسی ذہنیت کے ساتھ کسی بھی بات چیت سے انکار کیا ہے جو لوگوں سے تاوان وصول کرتا ہے:"جرمن وفاقی وزیردفاع نے اتوار کے روز امریکی صدر کا یہ الزام مسترد کردیا کہ اس کا ملک نیٹوNorth Atlantic Treaty Organization (NATO) اتحاد کا ایک بڑی رقم کے لئے قرض دار ہےاورفوجی اخراجات کے لئے امریکہ کا قرض دار ہے" ۔Ursula von der Leyenn ،جوجرمن چانسلر کے نہایت قریب سمجھی جاتی ہیں ، نے یہ بھی بیان میں کہا ہے کہ "کسی بھی کھاتے میں نیٹو کے کسی قرض کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے"، اور ساتھ ہی کہا کہ " نیٹو میں جرمنی کےخرچ کو تنہا بنیاد بناکر جرمنی کی فوجی کوششوں کی پیمائش کرنا غلط ہوگا" (France 24, 19/3/2017).
2۔ نیٹو سربراہی اجلاس میں 25 مئی 2017 کو امریکی صدرنے اپنی تقریر میں جس طرح یورپین ممالک کے خلاف، نیٹو اتحاد میں ان کے مالی تعاون کے حوالےسے سخت آواز میں بات کی "امریکی صدر نیٹو کے لیڈر وں سےمخاطب تھا ، اس کی تقریر نے ناظرین کو تعجب اور حیرت سے الجھن میں ڈال دیا، نیٹو اتحاد کے لئے امریکہ کے تعاون کے متعلق چونکانے والے بیان دئیے، ٹرمپ ایک ویڈیو میں نیٹو لیڈران کو صلواتیں اور وعظ سناتے نظر آتا ہے اوران سب نے حیرت کےجذبات کا اظہار کیا بالخصوص جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور نئے فرانسیسی صدر ایمانوئیل ماکرون نے۔ ٹرمپ نے ویڈیو میں ناٹو ممالک کے لیڈران سے کہا کہ: ""اتحاد کے ممبران کو بالآخر چاہیے کہ وہ اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی مالی ذمہ داریاں نبھائیں" اور اس نے انہیں سخت سست کہا : "28 ممبران میں سے 23 ممبران نے اب تک اپنا حصہ اداء نہیں کیا ہے جو ان کو اداء کرنا چاہیے اور ان کے دفاع وتحفظ کے لئے ادا کرنا درکار ہے، اور یہ امریکی عوام اور اس کے ٹیکس بھرنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہے"اور مزید کہا کہ " پچھلے سالوں کے لئے اتحادی ممالک پربھاری قرضہ ادا کرنا باقی ہے"،اور اس نےتمام ریاستوں کےلیڈران کو مزید سخت سست کہتے ہوئے کہا کہ "پچھلے آٹھ سالوں میں امریکہ نے نیٹو اتحاد کے لئے نیٹوکے دیگر تمام ممالک کےخرچ کو ملاکر کل حصے سے بھی زیادہ خرچ کیا ہے"۔ اور بڑا صاف تھا کہ تمام نیٹو لیڈران ٹرمپ کے بیانات سےنہایت متحیر نظر آئےاور ایک دوسرے کو دیکھنے لگےاور تقریر کے دوران غیر متوقع بیانات کے نتیجے میں قائم ہوئے تناؤ اور دباؤ کے اثرات صاف نظر آے۔ ٹرمپ نے نیٹو لیڈران کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ :"میں نے ایک دفعہ بھی یہ سوال نہیں کیا کہ نیٹو کے نئے ہیڈکوارٹر بنانے کے لئے کتنا خرچ ہوگا "اور ٹرمپ نے کانچ کے تعمیر کردہ اس کےڈھانچے کی طرف اشارہ کرکے کہا:"میں اس کونا منظور کرتا ہوں۔۔"(CNN, Arabic 21, 27/2017).
ٹرمپ کےان تمام بیانات اورمواقف نے اس بحران کو جنم دیا ہےاور یورپ کے ساتھ اس تنازعہ میں اضافہ کیا ۔
دوسری اہم بات : کیوں اس بحران میں دیگر یورپین ممالک کے برخلاف جرمنی کے ساتھ تنازعہ سب سے زیادہ ہے اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔
1۔ جرمنی یورپ کا سب سے بڑا مالیاتی مرکز ہے اور امریکہ، چین و جاپان کے بعد دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہےچنانچہ ٹرمپ کی نظریں اس پر لگی ہوئی ہیں تاکہ امریکہ کے لئے کافی سارا مال بٹور سکےبالخصوص جب کہ امریکہ دعوی کرتا ہے کہ روس جرمنی کے لئے خطرہ ہے تاکہ جرمنی نیٹو میں شریک رہے اور مزید حصہ دے۔ یہی دعوی ٰوہ ہرایک یورپی ملک کے خلاف استعمال کرتا ہے بالخصوص مشرقی یورپ کے لئے تاکہ ان کے امریکہ سے فوجی تعلقات وتعاون کو بڑھائے۔
2۔ یہی بات جرمنی کی جانب سے نیٹو میں قلیل خرچ کرنے پر ہے: جرمنی اپنی قومی آمدنی کا 1.2 فی صد (42 بلین ڈالر) فوج پر خرچ کرتا ہے، اس طرح وہ فرانس سے کم خرچ کرتا ہے جس کے فوجی اخراجات کا حصہ اس کی قومی آمدنی کا 1.79 فی صد یعنی 44 بلین ڈالر ہے ۔ نیٹو ریاستیں اس بات پر ایک دوسرے سے متفق ہیں کہ وہ قومی آمدنی کا 2 فی صدخرچ کریں گی جس پر صرف برطانیہ اور چندیورپی کنارے پرآباد ممالک پابندی کرتےہیں البتہ اہم یورپی ممالک اس کے تعلق سے سنجیدگی کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ نوٹ کریں کہ امریکہ اپنی قومی آمدنی کا 3۔61 فی صد (664 بلین ڈالر) فوجی اخراجات پر خرچ کرتا ہے جو اس کو نیٹو کے بجٹ میں دوتہائی خرچ کرنے والا بناتا ہے۔ فوجی پہلوؤں پر اخراجات کے اعدادوشمار New Arabic Site کے 27/5/2017 کی رپورٹ کے مطابق ہیں جو 2016 کے اعدادوشمار ہیں۔
3۔ امریکہ اور جرمنی کے درمیان تجارت کا توازن بھی بڑی حد تک جرمنی کی جانب جھک گیا ہے تقریباً 60 بلین یوروتک۔ جرمنی و امریکہ کے مابین تجارت کا حجم 2016 میں 165 بلین یورو تک پہنچ چکا ہے جس میں سے 107 بلین یورو امریکہ میں جرمنی سے حاصل درآمدات کا حصہ ہے (Arabic 21 on 24/2/2017)، چنانچہ جرمنی میں امریکہ سے درآمد کا حجم 58 بلین یوروہے۔ اس لئے ٹرمپ نے توازن کھوتے ہوئےجرمنی کے خلاف بیان دیا کہ:"امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپین یونین لیڈران کے ساتھ برسلز میں اپنی ملاقات کے دوران جرمنی کی تجارتی پالیسی کی شکایت کی " (Der Spiegel نے ملاقات میں ایک شریک کے حوالے سے رپورٹ کیا)۔ ایک معلوم ذرائع نے میگزین کو بتلایا کہ ٹرمپ نے اس کے متعلق بیان دیا کہ:"جرمن بڑے برے لوگ ہیں ، دیکھو کس طرح یہ لوگ امریکہ میں کئی ملین گاڑیاں بیچتے ہیں، بہت بری بات ہے۔ ہم ان سب پر پابندی لگا دیں گے۔۔"(Russia Today, 26/5/2017)۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کر کے کہا کہ : "ہمارے درمیان تجارتی معاہدے کے برخلاف تجارتی برابری میں زبردست فرق ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ نیٹو اتحاد اور فوج میں بہت کم مال ادا کرتے ہیں جو انہیں اداکرنے چاہیے، یہ امریکہ کے لئے نقصان دہ ہے اور یہ بدل دیا جائے گا"۔
4۔ جب نیٹو سربراہی اجلاس کا اختتام ہوا اورماحولیات سے متعلق G7 سربراہی اجلاس بھی اٹلی میں ناکام ہوا، تو جرمنی یورپی موقف کے دفاع میں کود پڑا اور اس کی قیادت سنبھال لی۔ الجزیرۃ نیٹ کی 29 مئی 2017 کی رپورٹ کے مطابق جرمن وزیر خارجہ Sigmar Gabriel نے امریکی صدر پر تنقید کی اور اس کی پالیسی کو کم نظری پرمشتمل قرار دیا اورکہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ مغربی بین الاقوامی تہذیب کے قائد کی حیثیت نہیں رکھتا ہے،Al-Youm As-Sabi نے 29 مئی 2017 کو جرمن وزیر کے حوالے سے بتلایا کہ :"امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حرکتوں نے مغرب کو کمزور کردیا ہےاور مزید کہا کہ جو کوئی ماحولیاتی تحفظ کو بگاڑ کر موسمیات کی تبدیلیوں میں اضافہ کا موجب بنتا ہے، اور جو کوئی تصادم زدہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ ہتھیار بیچتا ہےاور سیاسی طور پر مذہبی تنازعات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے تو وہ یورپ کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے"، اس بات پرزور دیتے ہوئے کہا کہ" واشنگٹن کی تنگ و کم نظری کی پالیسی یورپی یونین کے مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہے"۔ جرمن وزیر کے یہ بیانات جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی جانب سے ویسے ہی چونکانے والے بیانات کے بعد آئے ہیں:"انجیلا مرکل نے کہا کہ بالآخروہ اس بات پر مکمل طور پر متفق ہوگئی ہے کہ یورپ اب دوسروں پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرسکتا ہے، واشنگٹن کے حوالے سے، جس نے حالیہ چند دنوں میں اتحادیوں پر بڑے زبردست قسم کا دباؤ قائم کرنےکی کوشش کی ہے تاکہ ان سے فائدہ حاصل کرے"۔ Bild نیوزپیپرنے مرکل کےبیان کو رپورٹ کیا کہ :"وہ دور جس میں ہم مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کرسکتے تھے ختم ہوچکا ہے ۔۔اوریہ میں نے آخر کے کچھ دنوں میں تجربہ کیا ہے، "اور مزید کہا کہ"ہم یورپی ممالک کو چاہیے کہ اپنی قسمت کا فیصلہ ہم خود اپنے ہاتھوں کریں"۔(Russia Today 28/5/2017)
5۔ امریکہ نے بھی اس جرمن نیم بغاوت کو محسوس کیا ہے اور یہ کہ جرمنی یورپ کو امریکہ کے خلاف کھڑا ہونے پر اکسا رہا ہےبالخصوص جب کہ کئی یورپی موقف پر جرمنی ہی یورپ کی قیادت کررہا ہے اور خود کو ایک عالمی طاقت کے طور پر ظاہر کررہا ہے جبکہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی نہیں ہیں ۔ جرمنی قیادت حاصل کرنے کےایک ایسے ہی عالمی قسم کے موقع کی تلاش میں تھا اور وہ دیکھتا ہے کہ ماحولیات کا موضوع اس کو یورپ کے اندر اور عالمی سطح پر تیزی سے پرانی عظمت کے مقام کو حاصل کرنے میں مدد کررہا ہے چنانچہ اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی پالیسیوں اور روس کے خلاف کئی یورپی موقف کی سربراہی کررہا ہے، اور اس نئے تیار ہوئے ماحول اور جرمنی کی فوری مستعدی کی حقیقت اس طرح ہے۔
الف- برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر نکلنے کے عمل کے شروع ہونے کے ساتھ ہی جرمنی برطانیہ اور فرانس کی جانب سے اس کی عالمی حرکات پر یورپی یونین کی طرف سےعائد کردہ پابندیوں سے آزاد ہوگیا تھااور پہلے وہ یورپی اتفاق رائے کا پابند ہوتا تھا جو عالمی طور پر اکثر برطانیہ اور فرانس کے حق میں ہوا کرتا تھا۔
ب۔ امریکی پالیسی میں کمزوری ظاہر ہونے کے ساتھ جو کہ صدر ٹرمپ کےامریکہ پہلی ترجیح"امریکہ فرسٹ" کے نعرے کو عملی طور پر اختیار کرنے کے ساتھ ہی، جرمنی کے لئے امریکہ کے اثرو نفوذ سے باہر نکلنا آسان ہوگیا کیونکہ مغرب کے مشترکہ مفاد کے تحت جرمنی امریکہ کےبنائے خطوط پر چلتا تھا لیکن امریکہ اب جب کھلے طور پر اپنے مفاد کو تلاش کرنے لگا ہے اور اس میں اتحادی ممالک کے مشترکہ مفاد کو نظرانداز کرنے لگا ہے چنانچہ جرمنی کے پاس اپنی خود مختار پالیسی اختیار کرنے کے لئے موزوں مکمل جواز آگیا ہے تاکہ وہ امریکی پالیسی سے قطع نظر اپنی پالیسی طے کرے اور ٹرمپ کی پالیسی جرمنی کو دوبارہ ابھرنے کے لئے نہایت موزوں ماحول بنا کر دے رہی ہے، حالانکہ جرمنی اورپورے یورپ نے دیکھا تھا کہ کس طرح پچھلی اوبامہ انتظامیہ نے ملک شام کے مسئلے سے یورپ کو نکال باہر کیا تھا اوراس کام کے لئے بڑی دورسے روس کو کھینچ کر لایا تھا، البتہ اس انتظامیہ نے بھی جرمنی کی قیادت اور مغربی دنیا پر اس کے اثرونفوذ کو نظر اندازنہیں کیا تھا۔ البتہ ٹرمپ انتظامیہ آج کھلم کھلا کسی طرح کا نرم رویہ اپنائے بغیریورپی اتحادیوں کو نظرانداز کررہا ہےاور بڑی تنگ نظری کے ساتھ اپنی عظمت کے صرف ایک پہلو پر متوجہ ہے جو امریکی معیشت اور دنیا کی قیادت اختیار کرنے کی بناء پرہونے والا مالیاتی بوجھ ہےاور یہ اس کی کم نظری ہے جس سے امریکہ اس وقت جوجھ رہا ہےاور جلد اس کے برےنتائج اس کے سامنے آئیں گے۔
د۔ فرانس کے سیاسی حالات میں آئی زمینی تبدیلیاں، حالیہ فرانس کےانتخابات نے فرانس کی سیاسی صورتحال میں زبردست تبدیلی کو ظاہر کیا ہے، جس سے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے فرانس پر حکومت کرنے والی سوشلسٹ اور دائیں بازو کی پارٹیوں کی سیاسی گرفت کمزور ہوئی ہے اور حالیہ 2017 کے الیکشن میں اس کے بڑے رہنماؤں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کی جگہ نئےاورجوان صدرنے لی ہے جس کی سیاسی پارٹی کو قائم ہوئے زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا ہےاور اس کی وجہ سےمزید جرمنی کو یورپ کی قیادت سنبھالنے میں فرانس کے مقابلے میں تقویت ملتی ہے۔
اور اسی لئے جرمنی کا ردعمل یورپ میں ٹرمپ کی پالیسی کے جواب میں نہایت نمایاں رہا ہے اور اس کا انتخابی مقابلے بازی سے کوئی تعلق نہیں تھا حالانکہ اگلے انتخابات میں مرکل کا مخالف Martin Schultz ہے اور Social Democrats party كا سربراه ہے اور اس نے بھی امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں یورپ کو مظبوط تر کرنے کے لئےپانچ نقاطی منصوبہ پیش کیا تھا اور اس نے سوشلسٹ پارٹی کے پارلیمنٹری بلاک کے ذریعےمعیشت کی دنیا کے اہم اشخاص کے لئے بدھ کے روز برلن میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں کہا کہ :"مظبوط یورپ ہمارے امن اور خوشحالی اور سلامتی کے لئے نہایت ضروری ہے" (Rai Al-Youm website, 31/5/2017)۔ Martin Schultzجو جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا انتخابی حریف ہے اس نے یورپ کی تمام جمہوریتوں کو اس بات کی دعوت دی ہے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کی حدیں بتلائیں جائیں" سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ، Schultz نے پیر کے روز برلن میں بیان دیا کہ "وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس شخص کے سامنے اپنی تمام تر طاقت خصوصیات اور طاقت کے ساتھ مل کر ڈٹ کر کھڑے رہیں اور اسلحہ جمع کرنے کی اس خطرناک پالیسی کے خلاف جو وہ ہم پر تھوپنا چاہتا ہے" (Arabic 21, 29/5/2017)
اوریہ ہے جرمنی کی حقیقت، جس کو دیکھنے اور سننے کے بعدٹرمپ مزیداپنے حملے میں تیزی لاتا ہے۔
سوم : ان بین الاقوامی سیاسی تبدیلیوں کے متوقع نتائج کیا ہوں گے:
یورپ اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری ایک ایسی خلیج پیدا کردے گی جس کو بھرنا بڑا مشکل ہوگا سوائے امریکہ ہوش سنبھال لےاور ٹرمپ کی صدارت کے ختم ہونے سے پہلے اپنا برتاؤ درست کرلے۔ یہ بات یوں ظاہر اوراس کی تصدیق ہوتی ہے کہ جس طرح ٹرمپ انتظامیہ نے 2 جون 2017 کو پیرس میں موحولیات پرمعاہدے سے امریکہ کو علیحدہ کرلیاجس کی وجہ سے امریکہ تمام یورپی ممالک کی تنقیدوں کے نشانے پر آگیا اور اس میں امریکہ کے اقدام کو نہایت خطرناک اور غلط بتایا گیا۔ کل روم میں ایک غیر معمولی مشترکہ بیان دیا گیا جس میں فرانس کے صدر امانیول ماکرون ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور اٹلی کے وزیر اعظم پاؤلو جینٹی لونی نے امریکہ کے پیرس بات چیت سےعلیحدہ ہوجانے اور ماحولیاتی بگاڑ کی روک تھا م کے لئےیورپی پہل کو اختیار کرنے میں ناکامی کے متعلق افسوس کا اظہار کیا اورساتھ ہی دوبارہ گفت وشنید شروع کرنے پر زور دیا۔ پیرس میں ماکرون کا ماننا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے پیرس ماحولیاتی بات چیت سے الگ تھلگ ہوکر ایک تاریخی غلطی کی ہے اور کل اس سے قبل ماحولیاتی اقدام کے متعلق یوروپی اقدام کے یورپین کمشنر" Miguel Arias Canete" نے بیان میں کہا کہ :" دنیا گلوبل وارمنگ کے خلاف لڑائی میں یورپ کی قیادت پر اعتماد کرسکتی ہے"اوریوں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یک طرفہ طورپربات چیت سے الگ تھلگ ہونےکے فیصلے پربڑا اظہارافسوس کیا۔۔ (Al Jazeera Net 2/6/2017)، اور تعلقات میں آئی ہوئی اس دراڑ میں تقریباً سب بڑے یورپین ممالک شامل ہیں سوائے برطانیہ کے جو سانپ کی طرح پیچھے مڑتے ہوئےآگے چلتا ہےجو اپنی عادت کی طرح یووپ سے الگ ہوتے ہوئے امریکہ کی فرمانبرداری کی جانب جھکتا دکھائی دے رہا ہے تاکہ دنیامیں اہم کردار اداء کرنے کے لئے اسےاہم مقام ملے۔
یورپی منظر پرسیاسی اور معاشی طور پر جرمنی کی قیادت ابھرتی دکھا ئی دے رہی ہے اور جو بات اس کو ظاہر اوراس کی تصدیق کرتی ہے، وہ جرمن افسران کا امریکی پالیسیوں کا جوابی ردعمل اورامریکہ کےجرمنی کے ساتھ تنازعہ کوعالمی منظرعام پر لانے کی جرمن خواہش ہے۔ اگر یہ سلسلہ بڑھتا ہے تو یہ یورپ کو زبردست طور پر کمزور کرے گا اور بالآخر یہ جرمنی کو بڑے پیمانے پر اسلحہ سے لیس ہونے پر مجبور کرے گا۔
یہ دو ایسے معاملات ہیں جن پر نگاہ رکھنی ہوگی کیونکہ ان میں جو کچھ ہوگا وہ بین الاقوامی سیاست کا نیا باب شروع کرے گا اور عالمی صورتحال طے کرے گا۔
چہارم : یہ نہایت اذیت ناک ہے کہ ایسے وقت میں اتنی بڑی تبدیلی اور نیا عالمی ماحول تیار ہورہا ہے جبکہ اسلام کی اپنی ریاست موجودنہیں ہے یعنی خلافت راشدہ، اور مسلمان اس ماحول اور ان تبدیلیوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ پھر بھی کچھ مٹھی بھر مسلم حکمران اسلام کو دوبارہ دنیا میں واپس آنےاور بین الاقوامی منظر پر اس کے اثرات ہونے سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ یہ لوگ امت کے معاشی وسائل وسرمائے کوآقاؤں کےسپرد کرنے میں لگے ہوئے ہیں تاکہ ان کے ذریعےسے آقا امریکہ کوڈوبنے سے بچایا جائےجبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ اس کو تباہ کرتے۔ بہرحال یہ تمام پٹھو اور ان کے آقا وقت وحالات کے دھارے کے سامنے ٹک نہیں سکیں گے جو ان کے ہاتھ سے نکلا جارہا ہےاور اس لہر کے سامنے ، جو اس وقت امت میں ابھرکر آئی ہوئی ہےجو اس کے سنجیدہ افراد اور ان کے ساتھ لاکھوں مسلمانوں کے ہاتھوں پیدا ہوئی ہےجو اللہ کے قوانین کو حکومت میں لانےاور نبوت کے طریقے پر کام کرتے ہوئے خلافت کے قیام کے ذریعہ دین کے قیام کی خاطر جی توڑ جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں اور یہ ایسا دھارا ہے جو مسلسل قائم ہے اور بڑھتا جارہا ہےاور انشاء اللہ بہت جلدہی اپنے نتائج لے کر آئے گا انشاء اللہ العزیز الحکیم
﴿إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا﴾
"بے شک اللہ اپنے فیصلوں کو پورا کرکے رہتا ہے اور اللہ نے ہر چیز کا وقت مقرر کررکھا ہے"(الطلاق:3)
12 رمضان 1438 ہجری
7 جون 2017