بسم الله الرحمن الرحيم
سوال وجواب :
سعودی عرب میں کیا ہو رہا ہے؟ امریکہ اس تمام معاملےمیں کہاں کھڑا ہے ؟
سوال:
مورخہ 19 نومبر 2017 کو، المُدن کی ویب سائٹ نے بتایا کہ سعودی عرب میں جاری انسداد بدعنوانی مہم نے فوجی خدمات کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔”سعودی عرب میں انسداد بدعنوانی مہم سے واقف ایک سعودی اہلکار نے بتایا کہ وزارت دفاع کے 14 ریٹائرڈ افسران اور نیشنل گارڈ کے دو افسران،کو مالی معاہدوں کی بدعنوانی میں ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے” (المُدن: 19/11/2017) ، اور یہ گرفتاریاں 4 نومبر 2017 سے شروع ہوئی جب شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ماتحت انسداد بدعنوانی کی کمیٹی قائم کی جس میں سابق وزراء ، کاروباری رہنماؤں اور ان کے قریبی رفقاء کے اکاؤنٹس منجمد کردیئے گئے۔”رائٹرز ایجنسی نے بتایا ـتحقیقاتی کمیٹی نے بدھ کو پرنس محمد بن نائف، جو کہ سعودی خاندان کے سب سے اہم ارکان میں سے ایک رکن ہیں، کے بینک اکاؤنٹس اور ان کے خاندان کے قریبی اراکین کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کردیا ہے۔ بن نائف سابقہ ولی عہد ہیں جن کی جگہ بادشاہ نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہدمقرر کردیا تھا ، ان کے علاوہ کمیٹی نے 11 امیروں (emirs) کو بھی گرفتار کیا ہے ۔۔۔” (بی بی سی عربی،8 نومبر2017)۔ سعودی عرب میں کیا ہو رہا ہے؟ امریکہ اس تمام معاملےمیں کہاں کھڑا ہے ؟
جواب:
ہم آپ کو سعود خاندان اور ان سے منسلک لوگوں کے متعلق کچھ مختصر معلومات دیں گے تا کہ ہمارا جواب آپ پر واضح ہو سکے اور پھر ہم آپ کے سوال کی جانب متوجہ ہوں گے:
1۔ آل سعود (خاندان سعود) اسلامی ریاست خلافت کے خلاف استعماری کفار کے معاون و مدد گار رہے ہیں۔ انہوں نے 1788 ء میں کویت کے خلاف برطانوی استعمار کی مدد سے حملہ کیا ، 1803-1804 میں مکہ اور مدینہ پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کرلیا۔انہوں نے 1810 میں دمشق پر حملہ کیا،جس کے رہائشیوں نے بہادری سے اس کا دفاع کیا،لیکن پھر انہوں نے حلب اور دیگر شہروں پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے وہابی مذہب کو استعمال کیا، جبکہ انگریز نے انہیں اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کیا۔ لیکن پھر 1818ء میں اسلامی ریاست نے مصرکے گورنر محمد علی کی قیادت میں آل سعود کی بغاوت کو ختم کردیا۔ برطانیہ نے انہیں 1891ء میں مسلط کرنے کی کوشش کی مگر خلافت عثمانيہ نے کامیابی سے ان پر غالبہ حاصل کرلیا۔ برطانیہ انہیں 1901ء میں دوبارہ حرکت میں لیا ،مگراس دفعہ ان کی برطانوی حمایت اور برطانیہ سے رابطے بے نقاب ہوگئے۔ برطانیہ نے خلافت عثمانيہ کی کمزوریوں اور پہلی جنگ عظیم میں اس کی شمولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آل سعودکو نجد اور حجاز کے لوگوں کے خلاف مضبوط کیا جنہوں نے ان کے خلاف طویل عرصے تک جنگیں لڑیں ،یہاں تک کہ آل سعود غالب ہوگئے اور ان کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد برطانوی استعماری ریاست کی مدد سے 1932ء میں اپنی سلطنت کا اعلان کردیا۔
مگر جب امریکیوں نے سلطنت میں تیل دریافت کیا اور ملک کی دولت پر ان کی رال ٹپکنے لگی، تو یہیں سے امریکہ کا ملک میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ کے قیام کی کوششوں کا آغاز ہوا،جس کا ثبوت ان کی 1953ء میں بانی بادشاہ کے مرنے کے بعد شاہی خاندان کےارکان، خاص طور پر تخت کے وارثوں ،عبدالعزیز کے بیٹوں کو امریکہ کے حمایت میں کرلینا تھا، لہذا یہیں سے ملک میں برطانیہ اور امریکہ کے درمیان کشماکش کا آغاز ہوا۔
2۔ اب جبکہ امریکی ایجنٹ سلمان کو کنٹرول حاصل ہوا ہے تو اس نے برطانوی ایجنٹوں اور جو ان کی پیروی کررہے ہیں کو ہٹانا شروع کردیا ہے۔ اس سے پہلے سابق شاہ عبداللہ، برطانیہ سے منسلک تھا، جس نے اپنی موت سے پہلے اقتدار میں برطانوی ایجنٹوں کو جمع کرنے کی کوشش کی تھی، مگر خاندانی روایات نے اسے سلمان بن عبدالعزیز کو ولی عہدمقرر کرنے پر مجبور کردیا تھا تاکہ شاہی خاندان میں استحکام برقرار رہے۔ عبد اللہ جانتا تھا کہ اس کا بھائی امریکیوں کا ایجنٹ ہے ؛اسی وجہ سے، اس نے اپنی زندگی ہی میں ایک نئی حیثیت متعارف کرائی کہ سلمان بن عبدالعزیز کو اپنا ولی عہد بنانے کے ساتھ اپنے دوسرے بھائی مقرن بن عبدالعزیز جو کہ برطانوی ایجنٹ تھا کو ولی عہد کا ولی عہدمقرر کر دیا ، تاکہ برطانیہ کے اثر و رسوخ کو یقینی بنایا جاسکے، کیونکہ اس نے دیکھ لیا تھا کہ سلمان عمر رسیدہ اور بیمار ہے جس کی وجہ سے سلمان کی وفات تک حکومتی معاملات پر مقرن ہی کا اختیار رہے گا اور بعد میں وہ آرام سےحکومت حاصل کرلے گا ، جیسا کہ پہلے بھی ہوا جب شاہ فہد عمر رسیدہ اور بیمار تھا، اور وہ، یعنی عبد اللہ ولی عہد بن گیا اور اختیارات اُسی کے ہاتھ میں تھے، اور جب 2005 ء میں فہد کی وفات ہوئی،تو عبداللہ نے آرام سےاقتدار حاصل کرلیا۔
. لیکن 2015 کے شروع میں عبداللہ کی وفات کے بعد سلمان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو کچھ کیا وہ عبد اللہ کے اندازے میں نہیں تھا؛ سلمان نے “مقرن” کو ہٹا کر محمد بن نائف کو ولی عہد اوراپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہدمقرر کردیا،اور بہت سے لوگوں کو، جو حساس عہدوں میں عبد اللہ کی طرف سے مقرر کیےگئے تھے ، ہٹا دیا،اور21جون2017 تک سلمان نے اپنے بیٹے کو مضبوط بنانے کے بعد محمد بن نائف کو ہٹاکر اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہدمقرر کردیا اور کسی کو اس کا نائب ولی عہدمقرر نہیں کیا۔
3۔ ہم نے شاہ عبداللہ کی وفات اور سلمان کے بادشاہ بننے کے بعد 25 جنوری 2015 کو ایک سوال کے جواب میں ذکر کیا تھا کہ: “موجودہ بادشاہ، سلمان، وزارت ِدفاع سے ہے، لہٰذا یہ امید کی جاتی ہےکہ امریکی اثرو رسوخ سلمان کی حکمرانی پر اثر انداز ہوگا۔ شاہ عبد اللہ کو بھی اس بات کا احساس تھا، اور اسی وجہ سے ا ُس نے سعودی عرب میں ایک نئی روایت قائم کی تھی،یعنی شاہ عبد اللہ نے اپنا ولی عہدہی نہیں بلکہ نائب ولی عہدکوبھی منتخب کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ سلمان بن عبدالعزیز امریکی ایجنٹ ہے،اور عام روایات کے برعکس کہ جس میں صرف بادشاہ ہی اپنا ولی عہد مقرر کرتا ہے شاہ عبداللہ نے مقرن بن عبدالعزیزکو نائب ولی عہد،یعنی سلمان کا ولی عہد خود ہی مقرر کردیا تھا ،تاکہ سلمان بادشاہ بننے کے بعد امریکی ایجنٹوں میں سے کسی کو اپنا ولی عہد نہ مقرر کرسکے”۔ہم نے اسی سوال کے جواب میں ذکر کیا تھا: “مقرِن انگریزوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے لئے جانا جاتا ہے۔اُس نے برطانیہ کےمشہور کرینویل اسکول (Cranwell School) سےگریجویشن کیا ہے۔ ا ُسے سابق شاہ عبداللہ کا اعتماد حاصل تھا، اور وہ اُس کے قریبی ساتھیوں میں سےبھی تھا۔ سلمان بن عبدالعزیز کے بعد امریکہ کے تسلط کے تسلسل کو روکنے کے لئے سابق بادشاہ نے نائب ولی عہد کے عہدے کا اعلان کیا تھا۔شاہ عبداللہ نے اس تقرری کی تصدیق کرتے ہوئے نائب ولی عہد کو ہٹانے پر پابندی کا ایک فرمان جاری کیا تھا”۔لیکن انگریزوں کے انداز ے غلط ثابت ہوئے کیونکہ سلمان نے عہد شکنی کرتے ہوئے، قانون اور روایات کو ایک طرف رکھ دیا اور اپنی مرضی کرتے ہوئے مقرِن کو ہٹایا اور محمد بن نائف کو عارضی طور پر مقرر کیا اور پھر اس کو بھی ہٹا کر اپنے بیٹے محمدکو ولی عہد مقررکر دیا اور اسے مختلف اہم عہدوں کے اختیارات سونپ دیے یہاں تک کہ وہ اکیلا ہی نہایت طاقتور بن گیا ہے۔
4- جیسےہی شاہ سلمان نے 4 نومبر2017 کو اپنے بیٹے، ولی عہد محمد بن سلمان،کےماتحت ایک اعلیٰ سطح انسداد بدعنوانی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ، تو سیکورٹی فورسز نے 11 امیروں اور چار موجودہ وزراء کو گرفتار کرلیا اور فوری طور پر انہیں عہدوں سے برطرف کردیا ۔ یہ سب کچھ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہےکہ یہ کوئی عام واقعات اور انسداد بدعنوانی کے خلاف اقدامات نہیں ہیں ، بلکہ یہ سب تو ایسا ہے جیسے کسی بغاوت کے کچلنے میں ہوتا ہے کہ جس میں فوری طور پر گرفتاریوں اور برطرفیاں اور فرد جرم عائد کی جاتیں ہیں۔ اس کے علاوہ،گرفتار ہونے والوں میں سابق وزراء ، کاروباری رہنما اور ان کے قریبی رفقاء شامل ہیں،جبکہ ان سب کے اکاؤنٹس بھی منجمد کردیئے گئے ہیں۔ یہ تقریباً 1700 بینک اکاؤنٹس ہیں، جن میں “ہر گھنٹے اضافہ ہورہا ہے” (رائٹرز)۔جن لوگوں کے بینک اکاؤنٹس منجمد کیے گئے ہیں ان میں محمد بن نائف کا اکاؤنٹ اور ان کے خاندان کے بہت سےقریبی ارکان کے اکاؤنٹس بھی شامل ہیں۔ یاد رہے محمد بن نائف کو حال ہی میں ولی عہد کے عہدے سے محروم کیا گیا تھا۔ رائٹرز ایجنسی نے رپورٹ کیا ، “سعودی حکام نے کہا ہے کہ جن پر زیادہ شبہ ہے انہی افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جس میں شاہی خاندان کے اراکین اور کاروباری افرادشامل ہیں، اس کے علاوہ منیجرز اور نچلی سطح کے حکام کو بھی شامل کیا ہے”۔ اس طریقہ کار سے بغاوت کے برپا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس مہم کو بڑھا کر اس میں سابق بادشاہ کے بچوں ؛نیشنل گارڈز جو کے فوج کے ساتھ ساتھ طاقت کادوسرا بڑا ادارہ ہے، اس کے وزیر متیب بن عبداللہ، اور اس کے بھائی ترکی بن عبداللہ ،جو کہ ریاض کا سابق امیر تھا ،کو بھی شامل کیا گیا ہے۔متیب بن عبداللہ رائل میلٹری اکیڈمی سینڈھورسٹ برک شائر، انگلینڈ، سے لیفٹیننٹ کے رینک کا گریجویٹ ہے۔یہ ایک برطانوی فوجی اکیڈمی ہے کہ جس سے عام طور پر صرف برطانوی ایجنٹوں کو تربیت اور گریجویشن کرائی جاتی ہے، اور ان سے پہلے یہی سےخلیج کے بہت سے شہزادوں اور اردن کے بادشاہوں اور شہزادوں نے گریجویشن کیا ہے۔ متیب کے بھائی ترکی بن عبداللہ نے برطانوی یونیورسٹی آف ویلز سے فوجی اور اسٹریٹجک سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے،انہیں سلمان نے ریاض کے امیر کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو بدعنوانی کے الزامات کے ذریعے برطانوی ایجنٹوں کو ختم کرنے کا ایک طریقہ مل گیا ہے۔ لہٰذا، اس نے سلمان اور اس کے بیٹےمحمد کو ہدایت دی ہے کہ یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے کیونکہ بہت سی حکومتیں بدعنوانی کا الزام لگا کر اپنے مخالفین کو ہٹا دیتی ہیں۔ ایسا کرنا آسان ہے کیونکہ تقریباً تمام سابقہ اورموجودہ حکومتیں، بدعنوانی، رشوت، عوامی فنڈز کی چوری،اقربا پروری، اور ایسےمنصوبوں کہ جن میں قانون کی خلاف ورزیاں کی گئی ہوں، اپنے اور اپنے قریبی لوگوں کے لئے دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا، عوام کے ساتھ نا انصافی اور اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرنا جیسے معاملات میں ملوث رہی ہیں۔لیکن اس سے زیادہ بدعنوانی کیا ہے کہ اللہ کے قانون کی پیروی نہ کی جائے بلکہ کفر استعماری ممالک کے قوانین کی پیروی کی جائے ؟
5۔ ہمیں اس مہم کے لئے امریکہ کی حمایت نظر آتی ہے اور ان لوگوں کے لئے بھی کہ جنہوں نے اسے سر انجام دیا۔ مورخہ 6 نومبر2017 کو امریکہ کے صدر نے ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ: “مجھے سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ولی عہد پر بہت زیادہ اعتماد ہے، انہیں اچھی طرح پتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں”۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ایک اور ٹویٹ میں کہا، ” کچھ لوگ ،کہ جن سےسختی سے پیش آیا گیا ہے، وہ سالوں سے اپنے ملک کو ‘ نچوڑ ‘ رہے تھے”۔ سعودی پریس ایجنسی نے بتایا کہ “ان سیاسی اور سیکیورٹی واقعات کے دوران مورخہ5 نومبر2017 کو شاہ سلمان اور امریکی صدر کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ہے کہ جس میں مختلف شعبوں اور طریقوں سےدونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال ہوا”۔ رائٹرز نے 4 نومبر2017 کو رپورٹ کیا کہ،” ٹریپ نے شاہ سلمان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ شکر گزار ہوگا کہ اگر ریاض سعودی تیل کمپنی آرامکو (Aramco) کے حصص کو نیویارک سٹاک ایکسچینج پر لسٹ کردے۔جس پر شاہ سلمان نے جواب دیا کہ وہ اس معاملے کا مطالعہ کرے گا”۔ رائٹرز نیوز ایجنسی نے 7 نومبر2017 کو امریکی وزیر خارجہ کے ترجمان ہیتھر ناؤریٹ (Heather Nauert) کے حوالے سے بتایا کہ”ہم سعودی حکام کی ان بدعنوان اہلکار وں پر مقدمات چلانے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے ؛ اور ہمیں توقع ہے کہ حکام ان لوگوں کے ساتھ منصفانہ اور شفاف انداز میں میں کارروائیاں کرینگے”۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ہی اس مہم کے پیچھے کھڑا ہے اور اس کی حمایت کررہا ہے اور امریکہ کی طرف سے ہی ان ناپسندیدہ افراد کے خلاف کاروائیاں ہورہی ہیں کہ جن کی وفاداری پر ا ُس کو شک ہے یا وہ برطانیہ کے ایجنٹ ہیں، جبکہ شاہ سلمان اور اس کا ولی عہد بیٹاتیز رفتاری سے ملک کو امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کررہے ہیں۔
6۔ جو چیز اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ مہم خاص طور پر سیاسی ہے تو وہ یہ ہے کہ کمیٹی نے فوری طور پر حکومت میں موجود اہم افراد، ان کے خاندان والوں اور بادشاہ کے رشتہ داروں کو گرفتار اور ان کے اکاونٹس کو منجمد کرنا شروع کردیا تھا۔۔۔لہٰذا، یہ معاملہ خالص سیاسی ہے، اور اس کا بدعنوانی ختم اور اصلاحات کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے، خاص طور پر جبکہ سلمان اور اس کا بیٹا خود بدعنوانی اور عوامی فنڈز کو ضائع کرنے میں ڈوبے ہوئے ہیں، جس میں 460 بلین ڈالرمفت امریکہ کو عنایت میں دینا بھی شامل ہے۔سعودی پریس ایجنسی کی طرف سے نشر کیے گیے بیان میں نظام کے خلاف کے با اثر قوتوں کے لئے نہایت تلخ لہجہ اپنایا گیا ؛ بیان میں کہا گیا تھا کہ، “کمیٹی کا قیام بعض کمزور کردار کے لوگوں کے لئے تھا جنہوں نے عوام کے مفادات پر خود کو ترجیح دی ،استحصال کرتے ہوئے عوام کا پیسہ چرایا، انہیں نہ اپنے مذہبی ضمیر کا،نہ اخلاقیات کا، اور نہ ہی ملک کا کوئی خیال ہے۔ اپنے اثر و رسوخ اوراختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے دیئے گئے پیسے کو خرد برد کیا، اور اپنے شرمناک اعمال کو چھپانے کےمختلف طریقےاستعمال کئے”۔اور پھر مورخہ4 نومبر2017 کو کمیٹی کے قیام کے فوری بعد گرفتاریاں تیز کردی گئیں۔
7۔ اس کے بعد 5 نومبر کو 2017 خاص طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ ایسر کے علاقے کے ڈپٹی گورنر، شہزادہ منصور بن مقرن ،اپنے چند اہلکاروں کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ جس طرح کے حالات میں یہ واقع ہوا اس نے شک و شبہات کو پیدا کیا ، خاص طور سے اس لئے کیونکہ یہ شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کا بیٹا تھا، جو کہ سابقہ ولی عہد ہے جسے سلمان نے ہٹا یاتھا جب وہ بادشاہ بنا تھا۔گرفتار افراد کی تعداد سینکڑوں سےتجاوز کرگئی ہے۔سعودی اٹارنی جنرل سعودی المجب نے بتایا: “208 افراد کو بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے سلسلے میں طلب کیا گیاتھا ،جس میں سے سات افراد کو ناکافی ثبوت کی بنا پر چھوڑدیا گیا ہے ۔۔۔ابتدائی تحقیقات کے مطابق ، دہائیوں پرمحیط طویل مالی بےضابطگیوں کی جو رقم بنتی ہیں اس کی مقدار تقریباً 100 ارب امریکی ڈالر سے زائد ہوسکتی ہے “(الحیات، 9/11 / 2017)۔
یہ تحقیقات شاہی خاندان کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کے دہائیوں کے ریکارڈ کو نکال نکال کر کی گئی ہے،جس سے اشارہ ملتا ہےکہ یہ مسئلہ ولی عہد محمد بن سلمان کا اقتدار اور حکومت پر اپنا اثر و رسوخ مضبوط کرنے کا بہانہ ہے ورنہ دوسری صورت میں حالات اس کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں اگر اس نے نظام میں اور معاشرے میں غیر معمولی تبدیلیاں نہ کیں، کیونکہ حقیقت میں اس نے ولی عہد کے طور پر خاندانی رواج کے برخلاف اُس وقت تخت کی وراثت حاصل کی ہے کہ جب وہ اُس کا اہل نہیں ہے۔۔۔
8۔ لہٰذا جو کچھ سعودی عرب میں نام نہاد انسداد بدعنوانی کی مہم کے نام پر کیا جارہا ہے وہ دراصل برطانیہ کا اثر و رسوخ ختم کرنے اور بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی روک تھام ہے، تاکہ شاہ سلمان کسی دشواری اورمخالفت کے بغیر محفوظ طریقے سے اقتدار اپنے بیٹے کو منتقل کرسکے، ورنہ دوسری صورت میں یہ ممکن نہ ہوتا تھا۔ سلمان کابیٹا کسی اندرونی تنازعہ کے بغیر امریکہ کے مفادات کی خدمت کرنا چاہتا ہے اور جس کےلئےوہ کسی قریبی رشتہ دار کی بھی مخالفت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ! لہٰذا ملک میں امریکہ کا اثر قائم کرنے کے لیے تمام بیرونی مخالفین، خاص طور پر جن کا تعلق برطانیہ سے ہے، کوہٹایا جارہا ہے۔۔۔ لہٰذا غداری واضح ہے،
﴿وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ﴾
“اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا”(سورة یوسف : 52)۔
9۔ آخر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بات کی تصدیق ہورہی ہے کہ ان تمام حکومتوں میں کوئی بھلائی نہیں ہے : نہ سعودی حکومت میں، نہ ایرانی حکومت میں، اور نہ ہی موجودہ مسلم ممالک میں سے کسی حکومت میں اور نہ ہی ا ُن میں کہ جو اِن کی پیروی کرتے ہیں اورا ُن کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کی یہ حکومتیں صرف کافر استعماری طاقتوں کے احکامات پر عمل کرتی ہیں، ان کا قبضہ برقرار رکھنے اور مسلمانوں کا مال لوُٹنے میں ان کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی پہلی ترجیح ان حکومتوں اور حکمرانوں کو ہٹانا ہونا چاہیے جو کے کفار کے ایجنٹ ہیں۔
﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾
“اور تم ایسے لوگوں کی طرف مت جھکنا جو ظلم کر رہے ہیں ورنہ تمہیں آتشِ (دوزخ) آچھوئے گی اور تمہارے لئے اﷲ کے سوا کوئی مددگار نہ ہوگا پھر تمہاری مدد (بھی) نہیں کی جائے گی”( سورة ھود : 113)۔
ہمیں اس گندگی اور غلاظت فوراً چھٹکارا حاصل کرنا ہے جو کہ ان غلیظ استعماری کفار ممالک نے مسلم علاقوں میں پھیلائی ہوئی ہے، چاہے یہ امریکہ ہو یا برطانیہ یا کوئی اور، کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کفار اسلام اورمسلمانوں سے دشمنی میں ایک ہی ہیں۔۔۔ اور وہ تمام افراد جو براہ راست یا بالواسطہ ان استعماری کفار ممالک کی پیروی کرتے ہیں یا کسی طور اُن کے ساتھ ہیں، اُن کےمنصوبوں کو لاگو کرتے ہیں اور اس سیکولر نظام کو مسلط رکھے ہوئے ہیں تو وہ مجرم ہیں، انہیں ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔
﴿ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ ﴾
“عنقریب مجرموں کو اﷲ کے حضور ذلت رسید ہوگی اور سخت عذاب بھی (ملے گا) اس وجہ سے کہ وہ مکر (اور دھوکہ دہی) کرتے تھے”( سورة الانعام : 124)
ہمارے تمام مسائل کا حل، اور اس کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہے کہ :کفار کی قائم کی گئی ان ایجنٹ حکومتوں کو ختم کیا جائے اور نبوت کے نقش قدم پر خلافت کا قیام کیا جائے۔۔۔۔چاہے شک ڈالنے والے اسے ناممکن گردانے اور کفار کے ساتھی مجرمین اسے مشکل سمجھیں، یقیناً خالص اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خوف اور آپ ﷺ کا طریقہ، انشاءاللہ، دورنظرآنے والے ہدف کو جلد ممکن کردکھائے گا،
﴿وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هُوَ ۖ قُلْ عَسَىٰ أَنْ يَكُونَ قَرِيبًا﴾
“اور وہ کہیں گے: یہ کب ہوگا ؟ فرما دیجئے: امید ہے جلد ہی ہو جائے گا”( سورة الاسراء : 51)۔
پھراللہ سبحانہ و تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگا۔
﴿ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ* بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ﴾
” اور اس وقت اہلِ ایمان خوش ہوں گے * اﷲ کی مدد سے، وہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے، اور وہ غالب ہے مہربان ہے”( سورة الروم :4-5)
2 ربیع الاول 1439 ہجری
20 نومبر 2017