بسم الله الرحمن الرحيم
سوال کا جواب
آذربائیجان اورآرمینیا کے درمیان چپقلش
سوال:
آذربائیجان کے صدر الھام علییف نے 4 اکتوبر2020 اتوار کی شام کو سرکاری ٹی وی پر اپنے خطاب میں کہا کہ " ایک ہفتے سے جاری لڑائی کو روکنے کےلیے آرمینیا کو ناگورنی کے علاقے قراباغ سے نکلنے کا نظام الاوقات (ٹائم فریم) دینا ہوگا۔۔۔علییف نے اتوار کو جبرائیل شہر پر قبضے کو آرمینیا اور اس کے پشت پناہوں کےلیے سبق قرار دیا، بقول اس کے ان کو اس سے عبرت حاصل کرنا چاہیے"( الجزیرہ 5/10/2020)۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 27 ستمبر2020 کی صبح شدید جنگ چھڑ گئی جس کی 1994 کی دوطرفہ جنگ بندی کے بعد مثال نہیں ملتی۔ اگر چہ وقتافوقتا محدود اور کبھی کبھار وسیع پیمانے پر بھی جھڑپیں ہوتی رھیں جیسا کہ 2016 کو ہوئی مگر ان تمام سابقہ جھڑپوں میں ترکی نے کبھی آذربائیجان کی عسکری مدد نہیں کی۔ مگراس بار ترکی نے آذربائیجان کی مدد کا اعلان کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ترکی کے کچھ خاص اہداف ہیں! وہ اہداف کیا ہیں؟ ترکی نےاس قدر بڑے پیمانے پر مداخلت کیوں کی؟ مینسک ممالک کے گروپ خاص کر اس کی تین قیادتوں(امریکہ، روس فرانس) کا موقف کیا ہے؟ آپ کا شکریہ اور مہربانی۔
جواب:
جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حقیقت جاننے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے:
1۔ 27 ستمبر2020 کوآذربائیجان نے اعلان کیا کہ اس کی سرزمین پر بڑا حملہ کیا گیا ہے۔ آذری وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ، "آرمینیائی حملے سے شہری آبادی کو جانی نقصان کے علاوہ کئی دیہاتوں میں انفراسٹریکچرکو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہوا ہے جوآرمینیائی بمباری کا سامنا کر رہے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ "ان کی فوج نے جوابی کارروائی کی اور محاذ پر آگے بڑھتے ہوئے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا اور بڑے پیمانے پر اسلحہ تباہ کیا ہے جس میں"اوسا" طرز کے روسی اینٹی ائر کرافٹ میزائلوں کی 12شیلڈز بھی شامل ہیں۔۔۔"(الجزیرہ27/9/2020 )۔ آذری پارلیمنٹ نے چند جنگ زدہ شہروں اور علاقوں میں حالت جنگ کی منظوری دی اور جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی۔ دوسری طرف آرمینیا نے حالت جنگ کا اعلان کرتے ہوئے اپنے سرکاری اکاؤنٹ پر شرک پر مبنی صلیب کی تصویر اپلوڈ کی جس میں ایک راہب ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ صلیب اٹھائے ہوا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ میں کود چکے ہیں۔۔۔ آرمینیا کے وزیر اعظم نیکول پاشینیان نے اپنے خطاب میں اپنے ملک کا موقف پیش کرتے ہوئے کہا: "آذربائیجان نے اس کی قوم کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔۔۔یہ بعید از امکان نہیں کہ یہ کشیدگی خطے سے باہر نکل کر عالمی امن کے لیے خطرہ بن جائے۔ ترکی کے اقدام کا جنوبی قفقاز پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، انہوں نے بین الاقوامی برادری سے کہا کہ ترکی کو باکو اور یریفان کے درمیان قراباغ کے 1991 سے جاری تنازعے میں مداخلت سے باز رکھا جائے"(الجزیرہ27/9/2020)۔
2۔آذربائیجان نے یہ ظاہر کیا کہ اس بار یہ جھڑپیں سنجیدہ ہیں اور جنگ فیصلہ کن ہے۔ چنانچہ آذری صدر الھام علییف نے 30 ستمبر2020 کو کہا کہ،"قراباغ کے حوالے سے مذاکرات سنجیدہ نہیں تھے، مزید مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں، انہوں آذربائیجان کی جانب سے اپنے سرزمین کی وحدت کے دفاع کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ آذری فوج نے متنازعہ علاقے میں حالیہ جھڑپوں میں میدان میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور کسی کے لیے آذری فوج کو ان علاقوں سے پسپاکرنا ممکن نہیں جن پر قبضہ کیا ہے۔ آذربائیجان کی جانب سے جنگ بندی کی واحد شرط آرمینیائی فوج کا پیچھے ہٹانا ہے،اگر یریفان جنگ بندی چاہتا ہے تو اس شرط پر عمل کرے" انہوں نے کہا کہ"ہماری ایک ہی شرط ہے: آرمینیائی فوج ہماری سرزمین سے بلاتاخیر غیر مشروط مکمل پسپائی اختیار کر۔ اگر آرمینیائی حکومت کو یہ منظور ہے۔۔۔۔ تو جنگ بندی ہوسکتی ہے اور خون بہنا رک سکتا ہے۔۔۔"(الجزیرہ، رشیاٹوڈے 30/9/2020)۔ وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ اس کوترک حمایت کا یقین ہے، اس کو یہ گمان ہے کہ ترک حمایت سچی ہے اور وہ اس کی زمین آزاد کرائے گا۔۔۔
3۔اس سال 12 جولائی2020 کو بھی جھڑپیں ہوئی تھیں جو تین دن تک جاری رہیں تھیں ، جو دوطرفہ جانی نقصانات کے بعد رک گئیں تھیں۔ یوں ترکی نےپہلی بار دوطرفہ بار فوجی مشقوں میں شرکت کے لیے بری فوج اور فضائیہ کے دستے آذربائیجان بھیج دیے ۔ یہ مشقیں 29 سمتبر2020 کو شروع ہوئیں اوردو ہفتے جاری رہیں۔ ترکی نے یہ ظاہر کیا کہ وہ آذربائیجان کے مسئلے اور آرمینیا کی جانب سے اس کی زمین پر قبضے کو اپنا مسئلہ سمجھتاہے۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ 1994 کی جنگ بندی کے بعد طرفین کے مابین کبھی کبھار جھڑپیں ہوتی رہیں، سب سے آخری جھڑپ جو2016 کے اپریل کے اوائل سے شروع ہوکر 26 اپریل تک جاری رہیں، جنگ بندی کے بعد سب سے شدید جھڑپیں سمجھی جاتی ہیں، مگر ترکی نے آذربائیجان کی حمایت میں کوئی مداخلت نہیں کی البتہ صدر اردوگان نے جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کے حوالے سے تعزیت کی اور آذربائیجان کی حمایت کی بات کی مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا! کیونکہ اس وقت کی صورت حال کا تقاضاتھا کہ امریکی منصوبے کے مطابق روس اور ترکی میں مفاہمت کی ضرورت تھی نہ کہ کسی قسم کے تصادم کی کیونکہ امریکہ نے دونوں کو شام میں اپنے وفادار حکومت کو بچانے اور اسلام کو روکنے کے لیے شامی انقلابیوں کو کچلنے کی ذمہ داری دی تھی۔آذربائیجان کے خلاف آرمن جارحیت روسی آشیر باد سے 1988 میں شروع ہوئی تھی، 1991 میں انہوں نے قراباغ کے علاقے پر قبضے کا اعلان کیا تھا، جہاں انہوں نے خودمختار جمہور ریاست کااعلان کیا اور جنگ 1994 تک جاری رہی جس میں آذربائیجان نے اپنی سرزمین کا 20 سے 24فیصد کھودیا جو کہ قراباغ میں شامل تھی ۔ یہ علاقہ پانچ صوبوں پر مشتمل ہے جس کے پہلو میں ملک کے مغرب میں مزید 5 صوبے ہیں جبکہ آغدام اور فضولی صوبوں کے بڑے علاقے اس کے علاوہ ہیں۔ اس خطے کے تقریباً ایک ملین مسلمانوں کو بے گھر کردیا گیا۔ روسی فوج نے براہ راست مداخلت کی اورآج بھی روس آرمینیا کے پشت پر کھڑا ہے جو کہ آبادی، طاقت اور وسائل، ہر لحاظ سے آذربائیجان سے بہت چھوٹا ملک ہے۔
4۔ترکی امریکی مدار میں گردش کرتے ہوئے آذربائیجان کے مسئلے سے کھیلتاہے اور امریکی اوامر کو عملی جامہ پہناتاہے۔10 اکتوبر 2009 کو ترکی سوئیزرلینڈ کے شہر زیورخ میں آرمینیا کے ساتھ جامع امن معاہدے پر دستخط کرچکاہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان موجود سرحدوں کا اعتراف کیا گیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان سرحدیں کھولنے، سفارتی تعلقات قائم کرنے، سفیروں کے تبادلے، قونصل خانے کھولنے، ہر میدان میں علاقائی اور بین الاقوامی لحاظ سے مکمل تعاون کرنے، علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کو بین الاقوامی قواعد کے مطابق پرامن طریقے سے حل کرنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے، خطے میں جمہوریت کو ترقی دینے، تاریخی مصادر اور دستاویزات میں تحقیق کے لیے بات چیت آگے بڑھانے یعنی آرمینیا کے اجتماعی قتل عام کے دعوں کے سوالات کے جواب دینے کی بات کی گئی ہے۔۔۔یاد رہے کہ اس سے قبل اردوگان آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کے علاقے قرا باغ اور اس کے آس پاس سے مکمل انحلاء تک آرمینیا سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کر رہے تھے۔ یہ معاہدہ امریکی سابق صدر اوباما کے براہ راست مطالبے پر کیا گیا جس نے 6 اپریل2009 کو ترکی کے اپنے دورے کے دوران ترکی سے آرمینیا کے ساتھ اپنے اختلافات ختم کرنے اور تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ کیا جو 1993 میں سرحدیں بند کرنے سے منقطع ہوگئے تھے۔ اردوگان دوڑ پڑا اور آرمینیا کے ساتھ جامع امن کے اس معاہدے پر دستخط کیے اور آذربائیجان کو خاطر میں بھی نہیں لایا نہ ہی آرمینیا کی جانب سے آذربائیجان کی زمین پر قبضے اور نہ ہی بے گھر اور پناہ گزین بننے والے ایک ملین سے زیادہ آذری مسلمانوں کے مسئلے کو خاطر میں لایا ۔۔۔امریکی دفتر خارجہ نے اس معاہدے پر دستخط کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا تھا۔
5۔آذربائیجان نے اس وقت بھی مقبوضہ آذری زمین سے آرمنوں کے نکلنے سے پہلے ترکی کی جانب سے اس معاہدے پر دستخط کرنے پر تنقید کی تھی ۔ آذربائیجان نے ترکی کو اس کا سابقہ وعدے یاد دلایا کہ وہ آرمنوں کے آذری زمین سے نکلنے سے قبل آرمینیا کے ساتھ سرحد نہیں کھولے گا اور نہ ہی اس کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا۔ ایلاف وئب سائٹ نے 10 اکتوبر2009 خبر شائع کی کہ "ترک اور آرمن وزرائے خارجہ نے ہفتے کی شام زیورخ(سوئیزرلینڈ) میں طرفین کے مابین تعلقات کے قیام کے لیے دوطرفہ معاہدے پر دستخط کردیے۔ دستخط کے بعد دونوں وزرائے خارجہ اڈورڈ نالبندین اور احمد داود اوگلو نے ایک دوسرے کے ساتھ طویل مصافحہ کیا۔۔۔ یورپی اور ایشیائی امور کے لیے نائب امریکی سیکریٹری خارجہ ویل گورڈن نے کہا: آج شام(ہفتے کی شام) ہم نے ایک تاریخی واقعے میں شرکت کی"۔۔۔گورڈن کے ساتھ امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن چھ یورپی شہروں کے پانچ روزہ دورے پر لندن پہنچ گئی۔ لندن پہنچنے سے قبل کلنٹن نے زیورخ میں آرمینیا – ترک معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی۔۔۔دوسری طرف اعلیٰ امریکی عہدہ دار نے کہا کہ اوباما اس معاہدے کے حوالے سے"پرجوش" ہے کیونکہ یہ"آگے بڑھنے کی طرف اہم قدم ہے"۔۔۔ جبکہ آذربائیجان نے اتوار کو آرمینیا اور ترکی کے درمیان تعلقات کے بحالی کے معاہدے پر تنقید کی اور خبردار کیا کہ ترک آرمن سرحدوں کو کھولنا جنوبی قفقاز کے امن واستحکام کو تہ بالا کرنے کا سبب بن سکتاہے۔۔۔آذری وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ "آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں سے آرمن فوج کے نکلنے سے قبل آرمینیا اور ترکی کے درمیان تعلقات کی بحالی آذربائیجان کے مفاد میں نہیں اور اس کی وجہ سے ترکی اور آذربائیجان کے درمیان تاریخی برادارانہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں"۔۔۔(ایلاف ہفتہ 10 اکتوبر 2009)۔
6۔اردوگان اور ترکی نے کوئی عملی قدم اٹھانے کی بجائے زبانی جمع خرچ سے آذربائیجان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ ترکی نے معاہدے میں آرمینیا کے قراباغ کے علاقے سے نکلنے کی کوئی شرط ہی نہیں رکھی تھی بلکہ اس کو ویسے ہی قبول کیا تھا! مگر نو سال بعد مارچ 2018 میں روس کے دباؤ اور اس کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے آرمینیا نے رسمی طور پر اس معاہدے کو کالعدم کرنے کا اعلان کردیا۔یوں ترکی کے ذریعے آرمینیاکو روس سے لینے کا موقع امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا، بلکہ روس نے آرمینیا میں اپنے اثرورسوخ کو مزید مضبوط کیا آرمینیا کےگیومری اڈے میں اپنے میزائل ڈیفنس شیلڈ کو مزید مضبوط کردیا۔ اسی طرح جنوری 2015 میں روس نے میگ-29 جہاز پہنچادیے، ہزاروں فوجی ٹینک اور فضائی دفاعی نظام ایس ای 6 اور دور مار میزائل نظام ایس 300نصب کردیے ۔روس آرمینیا کو "یوریشیا اکنامک یونین" کی اپنی مارکیٹ میں شامل کردیا جس پر عمل درآمدیکم جنوری2015 کو ہوا جس میں بیلاروس،قازقستان اور قرغیزستان شامل ہیں۔ یوں یہ ممالک جن میں آرمینیا بھی ہے ہرشعبے میں اشیاء اور خدمات کی آزادی کے نام سے روسی مصنوعات کی منڈی بن گئے اور اس مارکیٹ کی مشترکہ جی ڈی پی 5ٹریلین امریکی ڈالر ہے جس کا بیشتر حصہ روس کے فائدے میں ہے۔
7۔اس سب کے بعد امریکہ نے آذربائیجان میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے اور روسی اثر کو کم کرنے، پھر آرمینیا میں گھسنے کے لیے دوسرے طریقے ڈھونڈنا شروع کیا۔ اسی لیے ترکی کو آذربائیجان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کے ساتھ عسکری تعلقات کو بھی فروع دینے اور آرمینیا پر دباؤ ڈالنے کا کہا تاکہ امریکی اثر و رسوخ کا دروازہ کھولا جاسکے۔ اسی لیے گزشتہ ستمبر کی جھڑپیں شروع ہوئیں یعنی یہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا تاکہ ترکی کے لیے عسکری مداخلت کا موقع پیدا کیا جائے اور وہ تربیت اور مشترکہ مشقوں کے نام پر اپنی فوج بھیج سکے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ جھڑپیں شدت اختیار کرگئیں اور طرفین نے اعلان جنگ کردیا۔ ان جھڑپوں کے فورا بعد ترک صدر نے 27 ستمبر2020 کو ٹوئیٹ کیا کہ، "عالمی برادری نے دہرا معیار اپنایا ہوا ہے اور اس نے آرمن اشتعال انگیزی کے خلاف مطلوبہ اور کافی ردعمل کا اظہار نہیں کرسکا۔ افسوس ہے کہ مینسک گروپ 30 سال سے جاری اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوا ہے۔۔۔۔خطے میں امن آرمن فوج کے 1992 میں قبضہ کیے گئے آذری زمین سے نکلنے سے ہی قائم ہوسکتاہے۔ ترکی اپنے بھائی اور دوست آذربائیجان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے"(ترک نیوز ایجنسی 28/9/2020 )۔ مگر اردوگان اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں! اس نے بھی 2009 میں امریکہ کی خدمت کرتے ہوئے آرمینیا کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے سے آنکھیں چرائی جس معاہدے میں آرمینیا سے آذری زمین سے فوج واپس بلانے کا ذکر ہی نہیں تھا نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ تھا!
8۔آرمینیا نے ترکی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کے نو سال بعد اس سے دستبردار ہوگیا تو امریکہ آرمینیا میں گھس نہ سکا، تب اردوگان نے مذکورہ مقبوضہ زمین سے آرمن فوج کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔ اپنے گہرے دوست، جیسا کہ وہ خود کہتا ہے، پوٹین پر تنقید کی، اورماکرون پر بھی تنقید کی اور کہا ، "میں نے اس معاملے میں روسی صدر پوٹین اور فرانسیسی صدر ماکرون سے بات چیت کی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا"(ترک نیوز ایجنسی 1/10/2020)۔ اردوگان نےاپنے اتحادی اور دوست، جیسا کہ خود کہتا ہے، ٹرمپ پر تنقید نہیں کی، اس پر کیسے تنقید کرے وہی تو پس پردہ بلکہ کھل کر اس کا محرک ہے؟! اگر چہ امریکہ نے سفارتی اسالیب کے ذریعے کھیل کھیلا ہے مگر یہ معاملہ ہر دیدہ وبینا رکھنے والے کےلیے واضح ہے۔۔۔اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے27 ستمبر2020 کی شام کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "امریکہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان شروع ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کو روکنے کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔اس میدان میں ہمارے بڑے اچھے تعلقات موجود ہیں، ہم دیکھیں گے کہ کیا ہم یہ روک سکتے ہیں"(الجزیرہ 27/9/2020 )۔ یعنی وہ جب ان کو روکنے کو ضروری سمجھے گا تب رکوائے گا، اسی لیے اس نے یہ نہیں کہا کہ امریکہ حل نکالنے کے لیے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرے گا اور طرفین پر دباؤ ڈالے گا بلکہ ہلکی پھلکی بات کرتے ہوئے کہا"اگر اس کو روکنا ہمارے لیے ممکن ہو" حلانکہ یہ وہ ریاست ہے جو کسی کام کو روکنا چاہے تو اپنا پورا وزن استعمال کرتی اور مکمل دباؤ ڈالتی ہے! امریکی دفتر خارجہ نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ"وہ اس کشیدگی کی شدید مذمت کرتی ہے اور نائب سیکریٹری خارجہ اسٹیفن بیگون آرمینیا اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ سے تشدد کو روکنے اور مینسک گروپ میں شریک سربراہوں سے تعاون کا مطالبہ کیا ہے تاکہ جلد سے جلد مذاکرات شروع کرنے کے ہدف کو حاصل کیا جائے۔۔۔۔ واشنگٹن اس مسئلے کے پرامن پائیدار حل کےلیے طرفین سے تعاون کا پابندہے"(الجزیرہ قطر، العالم ایران27/9/2020)۔ انہوں نے آرمن اور آذری دونوں سے تشدد کو روکنے کا مطالبہ کیا، کیونکہ امریکہ کا نشانہ دونوں ممالک ہیں جہاں روسی اثرورسوخ کو کمزور کرکے اپنے اثرورسوخ کو بڑھایا جائے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ترکی کے تمام اقدامات امریکی مرضی سے ہیں اور اس نے امریکی اشارے پر ہی آذربائیجان کی طرف حرکت کی ہے، ورنہ اگر ان اقدامات کے پس پردہ محر ک امریکہ نہ ہوتا تو پھر ترک صدر کے ترجمان ابراھیم قالین کا 29 ستمبر2020 کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر روبرٹ اوبرائن کے ساتھ ٹلیفونک گفتگو کی کیا ضرورت تھی جیسا کہ اناتولیہ نیوز ایجنسی نے کہا ہے؟
9۔اردوگان اور اس کے عہدہ داروں نے سلامتی کونسل کی ظالمانہ قراردادوں اور مینسک گروپ کی قراردادوں کو نافذ کرنے کےلیےمذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ جو کہ 1992 میں سلامتی کونسل اور یورپی تعاون اور اس کے قائدین امریکہ روس اور فرانس کی طرف سے ہیں ۔۔۔حلانکہ یہ قرار دادیں آرمینیا کے حق میں ہیں اوراس کے مفاد میں جنگ بندی کے لیے ہیں۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ جان بوجھ کر صورتحال کو گرمایا جارہا ہے تاکہ پھر ایسے سیاسی اور سفارتی اقدامات اٹھائے جائیں جن سے امریکہ جیسے چاہےدباؤ ڈالے۔ بہت ساری جنگیں سیاسی اور سفارتی اقدامات شروع کرنے کے لیے وسیلے کے طور پر کی جاتی ہیں جو کہ امریکہ کے اشارے پر ہوتی ہیں، اسی لیے ہر طرف سے مذاکرات شروع کرنے ، سیاسی حل ڈھونڈنے اور سلامتی کونسل کے قرار دادوں پر عملدرآمدکرنے کی صدائیں آنے لگی ہیں۔ ترک عہدہ داروں کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت میں سلامتی کونسل کے قرار دادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے سیاسی حل کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے مطالبے تسلسل سے ہورہے ہیں۔ وزیر خارجہ جاویش اوگلو نے انقرہ میں آذری سفارتخانے کے دورے کے دوران کہا کہ،"آذربائیجانی سرزمین کی وحدت کے حوالے سے اقوام متحدہ، یورپی کمیشن اور یورپی تعاون تنظیم کی قراردادیں واضح ہیں، اگر ارمینیا نہیں نکلتا تو مسئلہ حل نہیں ہوگا"(الجزیرہ29/9/2020)۔ یاد رہے کہ یہ تمام قراردادیں قراباغ کے بالائی علاقوں کے لیے نہیں بلکہ دوسری اراضی کے حوالے سے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آذربائیجان کے مسئلے کے حوالے سے سازش کی جارہی ہے۔
10۔روس ہی آرمینیا کا پشت پناہ ہے ورنہ یہ آذربائیجان کے مقابلے میں رقبے، آبادی، طاقت اور وسائل ہر لحاظ سے کمزور ہے۔روس ہی آرمینیا کو اسلحہ، امداد اور بقاء کے لیے ضروری ہر چیز فراہم کرتا ہے۔ آرمینیا اجتماعی امن کی اس تنظیم کا رکن ہے جس کا سربراہ روس ہے اور روس کا آرمینیا میں بڑی عسکری موجودگی ہے اس لیے روس کا اس سے دستبردار ہونا بہت مشکل ہے ورنہ اس سمت سے اس کی پشت خالی ہوجائے گی اور یہ شمالی قفقاز تک رسائی کی شروعات ہوں گی جو کہ روسی فیڈریشن کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے آرمینیائی ہم منصب زوھراب مناتسکانیان کے ساتھ ٹی وی چینل سے بات چیت کے دوران "قراباغ میں جارحیت کے حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا"(سپوٹینک 27/9/2020) ، جو کہ روس کی جانب سے آذربائیجان کے خلاف آرمینیا کی مدد کا اشارہ ہے۔ آرمینیا پر تنقید کرنے والے ترکی کو روس کی بھی مذمت کرنی چاہیے جو کہ آذربائیجان کے خلاف آرمینیا کی مدد کررہا کرہا ہے اور وہاں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ روسی مدد کے بغیر آرمینیا آاذربائیجان پر حملے کی جرات ہی نہیں کرسکتا اور دشمن کی مدد کرنے والا دشمن ہوتا ہے۔ مگر ترکی اور اردوگان کے روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور شام کے مسلمانوں کے خلاف اس کے ساتھ اتحاد قائم کرکے بشار اسد حکومت کو بچارہاہے۔ ساتھ یہ امریکہ کا آلہ کار بن کر روس کے ساتھ کھیلنے اور اس کو امریکی مفادات کے لیے استعمال کرنے میں مصروف ہے۔ تاہم روس کا اپنے اہم علاقوں سے دستبردار ہونا آسان نہیں جیسا کہ یوکرین اور جارجیا میں ہوا۔ اسی لیے اس معرکے میں کوئی فیصلہ کن رسہ کشی نہیں ہوگی بلکہ سیاسی اور سفارتی اقدامات ہی روس کو دھوکہ دینے میں زیادہ کامیاب ثابت ہوں گے۔
11۔جہاں تک یہاں فرانس کی موجودگی کی بات ہے یہ مختلف ہے، اس کا یہاں کوئی اثرورسوخ نہیں، یہ اپنے آپ کو بڑی ریاست ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ سلامتی کونسل اور یورپی تعاون کے قراردادوں کے مطابق آذری اور آرمن مسئلے کے حل اور دائمی جنگ بندی کی ضمانت کے لیے1992 میں تشکیل پانے والےمینسک گروپ میں اپنی رکنیت کو بچانا چاہتا ہے۔ یہ ترکی کی راہ میں روکاوٹ بننے کی کوشش کر رہا کیونکہ ترکی امریکی مدار میں گردش کی وجہ سے یورپ بشمول فرانسیسی بالادستی کی راہ میں روڑے اٹکاتاہے۔ ماکرون نے 30 ستمبر2020 کو لاتفیا میں پریس کانفرنس میں کہا کہ مجھے "آذربائیجان کی حمایت میں ترکی بیانات کا علم ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ خطرناک اور جارحانہ ہیں۔ فرانس ترکی کی جانب سے گزشتہ چندگھنٹوں میں جنگ کو بھڑکانے والے پیغامات سے تشویش محسوس کرتا ہے، جن کی وجہ سے آذربائیجان ناگوراقراباغ میں دوبارہ جنگ شروع کرسکتا ہے اور ہم اس کو کبھی قبول نہیں کریں گے"(رائیٹرز 30/9/2020)۔ اس کے جواب میں ترک وزیر خارجہ جاویش اوگلو نے30 ستمبر2020 کہا" فرانس کی آرمینیا کی حمایت آذربائیجان میں آرمینیائی قبضے کی مدد تک پہنچ چکی ہے"(اناتولیہ 30/9/2020) ۔ فرانس اپنے آپ کو ایک متضاد موقف میں ایک"پاک صاف" غیر جانبدار ثالث ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے یہ وہ ملک ہے جو سیاسی داؤ پیچ میں ماہر نہیں ،اس کا موقف ہمیشہ بے نقاب ہوتا ہے جب یہ اس کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں تضاد ظاہر ہوجاتاہے۔ جھڑپوں کے بعد فرانسیسی دفترخاجہ کے ترجمان فون دیر مول نے اپنے بیان میں کہا،"فرانس کو قراباغ وسیع پیمانے پر ہونے والے جھڑپوں اور جانی نقصان پر سخت تشویش ہے، خاص طور پر سویلین اموات پر اور ہم فوری جنگ بندی اور مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔۔۔۔فرانس مینسک گروپ کا رکن ہونے کے ناطے اپنے شرکاء روس اور امریکہ سے اس چپقلش میں بین الاقوامی قانون کے دائرے میں مذاکرات اور حل ڈھونڈنے کی پابندی کا مطالبہ کرتاہے"(سپوٹینک 27/9/2020)۔ساتھ ہی فرانس اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کینہ اور بغض کا اظہار کرتا ہے چاہے یہ اندرونی طور پر آزادیوں اور پھر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں متناقض اور بے نقاب موقف کی شکل میں ہویا خارجی طور پر ہو، وہ آرمن اور دوسرے نصاری کے مسائل کو اپنے نفوذ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے، جن کو دھوکہ دینا آسان ہے، پہلی جنگ عظیم کے دوران بھی ان کو دھوکہ دیا اور ان کو خلافت عثمانیہ کے خلاف بھڑکایا جو صدیوں سے ان کی اچھی طرح پرورش کر رہی تھی۔ فرانس نے ان سے اناتولیہ میں وطن کا وعدہ کیا تو انہوں نے خلافت عثمانیہ سے خیانت کی اور فرانس کی جانب سے بھڑکائے جانے پر ہی بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا۔ اگر ان میں عقل ہوتی تو ان کا مفاد اسلامی ریاست کے زیر سایہ ذمی بن کر امن سے رہنے میں ہی تھا جو ان کے ساتھ انصاف کرتی تھی ان کو استعمال نہیں کرتی تھی جیسا کہ استعماری ملک فرانس نے ان کو استعمال کیا۔
12۔جہاں تک سلامتی کونسل کے ان قرار دادوں کی بات ہے جن پر عمل کرنے کا مطالبہ بعض ممالک بشمول ترکی کرتے ہیں وہ قراردادیں قراباغ کے لیے نہیں جس پر آرمنوں نے قبضہ کرکے جمہوریہ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ پہلی قرارداد 30 اپریل 1993 کو منظور کی گئی جس کی شق نمبر822 میں فوراً اورمستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ۔ آرمن فورسز سے زانگیلان، گورادیز کیلیچدار شہر سمیت کچھ آذری علاقوں سے نکلنے کا مطالبہ کیا گیا مگر مقبوضہ قراباغ اس میں شامل نہیں تھا ۔ اسی سال دوسری قرار دادیں بھی پاس کی گئی جس سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ قرارداد نمبر85329 ستمبر1993 کو منظور کی گئی جس میں گزشتہ قرارداد کی تائید کی گئی اور آگدام اور دوسرے آذری علاقوں پر قبضے کی مذمت کی گئی اور آرمن حکومت سے ان علاقوں سے انخلاء کا مطالبہ کیا گیا اور آرمینیا کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قرارداد نمبر822 پر عمل کے لیےقراباغ پر دباؤ ڈالے۔ اسی سال 14 اکتوبر کو قرارداد نمبر874 کا اجرا کیا گیا جس میں طرفین کے درمیان امن کے عمل کی حمایت کا اعادہ کیا گیا اور فوری اقدامات کے لیے ٹائم فریم دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ آذربائیجان نے اس قرارداد کو مسترد کیا کیونکہ اس میں آذری مقبوضہ سرزمین قراباغ سے آرمینیائی فورسز کے انخلاء کوآرمینیا پر عائد پابندیوں کو ہٹانے سے مشروط کیا گیا تھا۔ آذربائیجان کی حکومت نے شکست خوردہ فریق کی طرح شکایت کی۔ اس ٹائم فریم میں نئے مقبوضہ علاقوں سے فوج کے انخلاء کی بات کی گئی تھی، اسی طرح مواصلات اور نقل وحمل سمیت تمام ان دوسرے مسائل کے سامنے تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کی بات کی گئی جس کا کونسل نے احاطہ نہیں کیا تھا، ان سب کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ 12 نومبر1993 کو یعنی اسی سال قرار داد نمبر884 منظور کی گئی جس میں سابقہ قرار دادوں کی تائید کی گئی اور طرفین کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی خاص کر زنگیلان اور ھورادز شہرمیں۔ اس میں آرمن قابض فوج سے زنگیلان اور گوراسیز شہر سے انخلاء اور آذربائیجان کے کچھ مضبوضہ علاقوں سے نکلنے کا مطالبہ کیا گیا۔۔۔سلامتی کونسل کی تمام قرار دادوں میں قراباغ سے انخلاء کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں۔ ان قرار دادوں میں اس بات کو پیش نظر رکھا گیا کہ آذربائیجان کی سرزمین میں سے کراباغ کے سوا باقی علاقوں سے انخلاء کا ٹائم فریم دینے کی بات کی گئی ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے اور معاہدہ ہوگیا تو یہ علاقہ یعنی قراباغ کے علاقے کی خصوصی حیثیت ہوگی، باقی آذری زمینوں سے انخلاء کے بعد یہ آرمنوں کے ماتحت ہوگا۔ ترکی ان قراردادوں پر عمل کا مطالبہ کرتا ہے جن میں قراباغ سے انخلاء کا کوئی مطالبہ نہیں، جیسا کہ وہ شام میں سلامتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل کا مطالبہ کرتا ہے جن میں حکومت ختم کرنے کا نہیں بلکہ اس کی حفاظت اور لبرل نظام کی بقاء کی بات کی گئی ہے۔ اسی طرح ترکی فلسطین میں دوریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ کرتا ہے جس میں یہود کی جانب سے 80فیصد فلسطین غصب کرنے والے یہودی وجود کا اعتراف کیا گیا ہے۔۔۔یوں قراباغ کا مسئلہ اپنی جگہ ہے اور جنگ بندی آرمینیا کے لیے کامیابی ہے۔ مینسک گروپ نے مسئلے کے حل کی کیفیت کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ مذاکرات کس بنیاد پر ہورہے ہیں سوائے سلامتی کونسل کے قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی باتوں کے، مگر سیاق وسباق، صورتحال اور گول مول باتوں کو دیکھ کر یہ لگ رہاہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ آذربائیجان قراباغ پر آرمن قبضے کو تسلیم کرلے اور اس سے دستبردار ہوجائے اور اس کو اس کے مسلمان باشندوں سے مکمل خالی کرکے ان کی جگہ آرمن کفار نصاری کو بسایا جائے، جس کے مقابلے میں آرمینیا باقی پانچ مقبوضہ صوبوں سے انخلاء کرے جیسے آگدام فضولی کے صوبے یوں یہ مسئلہ اس طرح حل کیا جائے گا۔ جیسا کہ فلسطین میں کیا گیا؛ جہاں یہود اور ان کے پشت بان امریکہ نے تنظیم آزادی فلسطین اور عرب اور اسلامی دنیا کے حکمرانوں سے یہود کی جانب سے 80فیصدفلسطین پر قبضے کو تسلیم کروایا بلکہ ان خائن حکمرانوں نے یہ ان کے حوالے کیا اور پھر 1967 تک قبضہ کیے گئے کے علاوہ یعنی باقی 20فیصد پر مذاکرات ہورہے ہیں، یہ تب ہوا جب انہوں نے جنگ بندی قبول کی اور سلامتی کونسل کے قرارداد نمبر 242، 243 کو قبول کیا جو 5جولائی 1967 کے بعد قبضہ کیے گئے علاقوں سے یہود کے انخلاء کی بات کرتے ہیں اس سے قبل کی نہیں۔
13۔ یوں ترکی کا یہ اہتمام کسی خیر کی نوید نہیں۔ جس مسئلے میں بھی ترکی اور اردوگان مداخلت کرتا ہے وہ حق دار کے خلاف اور امریکہ کے مفاد میں ہوتا ہے جیسا کہ شام میں ہوا۔ ترکی نے اپوزیشن پر دباؤ ڈال کر مسلح گروپوں اور بشار حکومت کے درمیان کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی کروائی جبکہ بشار حکومت نے کبھی بھی اس کی پابندی نہیں کی۔ اسی طرح بشار کے پشت پناہ ایرانی حکومت اور روس نے اس جنگ بندی کا کبھی خیال نہیں رکھا چنانچہ وہ گروپس ایک کے بعد ایک علاقہ واپس بشار کو دیتے ہوئے پیچھے ہٹتے گئے۔ اسی طرح لیبیا میں ہوا جہاں ترکی نے سراج حکومت کی مدد کی اور جس اس کی فوج سرت اور جفرہ کی طرف پیش قدمی کرنے لگی تو ترکی نے فوراً امداد روک کر سراج سے مستقل جنگ بندی اور اور حفتر کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کیا جس کو وہ ناجائز کہتا تھا! اس لیے یہ بعید از امکان نہیں کہ ترکی کی جانب سے آذربائیجان کی مدد اس کے موقف میں نرمی لانے کے لیے اور اس پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہو۔ ترک عہدہ داروں کے بیانا ت اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جہاں ابھی تک ان مذاکرات کے لیے جمود کو توڑنے میں کامیابی نہیں ملی جو مینسک خاص کر امریکہ کی قیادت میں ہوں گے تاکہ آذربائیجان قراباغ کے مسئلے میں پسپائی اختیار کرے، جبکہ اس وقت وہ قراباغ کو بزور قوت قابضوں سے واپس لینے کا عہد کررہا ہے۔ امریکہ، روس اور فرانس کے لہجے اور ان کے آرمن نواز ذرائع ابلاغ سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو آرمینیا کا حصہ قرار دے رہے ہیں اور سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی یہی تین ممالک پیش کرتے ہیں اوردوسرے ممالک ان کی تائید کرتے ہیں۔ اس علاقے میں ایک جمہوریہ تشکیل دی گئی ہے جو بظاہر آرمینیا سے الگ ہے، تاکہ مذاکرات مشکل ہوں اور یہ علاقہ اپنے خود مختار ڈھانچے سے دستبردار نہ ہو تاکہ آرمینیا براہ راست ذمہ دار نہ ہو اور دباؤ ڈالے جانے کی صورت میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ ہو۔ اس مسئلے بلکہ اس کے علاوہ مسائل میں بھی اردوگان کا موقف قابل اعتبار نہیں۔ تیس سال پہلے فریقین کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ترکی نے آذربائیجان کی مدد نہیں کی اوراب بھی اس بات کا خوف ہے کہ یہ حمایت آذربائیجان کو قابو کرکے اس کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ہے!
14۔ آذربائیجان اسلامی سرزمین ہے، اس کے باشندوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے مگر یہاں لبرل ازم نافذ ہے جو کہ کمیونزم کا تسلسل ہے جس میں دین کو ریاست اورمعاشرے سے الگ رکھا جاتاہے۔ اس ملک کو آرمینیا کے ساتھ تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان ؓ کے عہد میں فتح کیا گیا تھا۔ اس لیے اسلامی سرزمین کو امریکہ یا روس سے بچانے اور آزاد کرانےکے لیے ترکی یا ایران پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ ان سے ہی تعاون کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی نجات صرف نبوت کے طرز پر خلافت راشدہ کے قیام میں ہے جس کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی ہے
«إِنَّكُمْ فِي النُّبُوَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكاً عَاضّاً، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»
"تم میں نبوت موجود ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر جب اللہ چاہے گا اس کو اٹھالے گا ۔ پھرنبوت کے طرز پر خلافت ہوگی اور وہ اس وقت تک رہےگی جب تک اللہ چاہے گا، پھر اس کو اٹھالے گا۔ جس کے بعد (کرسی سے) چمٹنے والی حکومت ہوگی اور وہ بھی اس وقت تک رہےگی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا اس کو اٹھا لے گا۔ اس کے بعد جابرانہ حکومتیں ہوگی اور اس وقت تک رہیں گی جب تک اللہ چاہے گا پھر جب اللہ چاہے گا ان کو اٹھالے گا۔ اس کے بعد نبوت کے طرز پر خلافت ہوگی"۔
18 صفر1442ھ
5 اکتوبر2020
Latest from
- عالمی قانون کا انہدام ...اور ان دنیا والوں کی ناامیدی...
- بچوں کو اغوا کرنے اور ان پر تجربات کرنے کی”اسرائیلی“ قبضے کی ایک لمبی داستان موجود ہے
- امریکی قیادت اور نگرانی میں: ایران کی صفوی حکومت اور یہودی وجود...
- شنگھائی تعاون تنظیم امریکن ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے
- استعماری طاقتوں کی تنظیمیں ہماری سلامتی اور خوشحالی کی ضامن نہیں ہو سکتیں