بسم الله الرحمن الرحيم
سوال و جواب
بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم کا استعفیٰ اور ملک سے فرار ہونا
)ترجمہ)
سوال:
5 اگست 2024ء کو بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم کے استعفے کا اعلان کیا گیا۔ وہ عوامی سیکٹر میں ملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے خلاف گزشتہ ماہ کے آغاز سے ہونے والے احتجاجات کے بعد ملک سے فرار ہو گئیں۔گزشتہ ماہ کے وسط سے یہ احتجاجات خونریزی کی صورت اختیار کر گئے، جب حکومتی جماعت کے پیروکاروں اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں رونما ہونے لگیں۔ بالآخر فوج نے اقتدار سنبھالنے کا اعلان کیا اور صدر نے پارلیمنٹ کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے عبوری حکومت کا اعلان کر دیا۔ کیا یہ احتجاج کسی منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے تھے؟ کیا فوج کی مداخلت کسی معاہدے کے تحت تھی؟ کیا یہ معاملہ کسی بین الاقوامی تنازع سے جڑا ہوا ہے؟
جواب:
اوپر دیے گئے سوالات کے جواب کو واضح کرنے کے لیے، ہم درج ذیل امور کا جائزہ لیں گے:
1- بنگلہ دیش ایک اسلامی ملک ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں کے دوران، مسلمانوں نے 1192 عیسوی کے اواخر میں محمد غوری کی مہم کے دوران بنگال کو فتح کیا، جو پورے شمالی ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔۔ بنگلہ دیش، جو دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جس کی آبادی تقریباً 171 ملین نفوس پر مشتمل ہے، جنوبی ایشیا میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں میانمار اور بھارت سے ملتی ہیں۔ اس کی آبادی کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ مسلمان ہے اور ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ برطانیہ کی تقسیم اور حکمرانی کی پالیسی کے تحت، عوامی لیگ جس کی بنیاد مشرقی پاکستان میں تھی، جس کی قیادت برطانوی ایجنٹ شیخ مجیب الرحمن کر رہے تھے، انہوں نے برطانیہ کی حمایت سے 1971ء میں پاکستان کے ساتھ جنگ کے بعد پاکستان سے آزادی کا اعلان کیا۔
2- بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اپنے والد سے ملک کے سابق استعماری حکمران یعنی برطانیہ کی چاکری وراثت میں ملی تھی۔ ان کے والد بنگلہ دیش کے سابق وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان، عوامی لیگ کے رہنما تھے، جنہیں 1975 میں ان کے خاندان کے ساتھ ان افسران نے قتل کر دیا جنہوں نے ان کے خلاف بغاوت کی تھی۔ شیخ حسینہ اس لیے بچ گئیں کیونکہ وہ بغاوت کے دوران بیرون ملک تھیں۔ وہ برطانیہ میں مقیم رہیں، یہاں تک کہ 1981 میں انہیں اپنے ملک واپس آنے اور سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی اجازت ملی۔ انہوں نے پہلی بار 1996ء سے 2001 تک حکومت کی قیادت سنبھالی۔ پھر انہوں نے 2009ء سے لے کر آج تک حکومت سنبھالے رکھی تھی۔ انہیں اس سال کے آغاز میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا سامنا تھا، کیونکہ ان کی پارٹی نے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی، جہاں ان کے کامیاب امیدواروں کی تعداد 300 اراکین میں سے 233 اراکین تک پہنچ گئی، اور اتحادی پارٹی کے 9 ارکان بھی ان کے ساتھ جڑ گئے۔ دوسری جماعتوں نے ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے انہیں دھوکہ دہی پر مبنی انتخابات قرار دیا اور امریکہ نے بھی ان پر تنقید کی۔ تاہم، حسینہ کی حکومت نے باضابطہ طور پر ان کی جیت کا اعتراف کیا!
3- اپنے دورِ حکومت میں، حسینہ نے امریکی ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کی اور فوج، سیاسی حلقوں، عدلیہ، اور دیگر طاقت کے مراکز میں برطانوی اثر و رسوخ کو مظبوط کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپوزیشن پارٹی کی رہنما، بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی صدر، خالدہ ضیاء، کے ساتھ مقابلہ کر رہی تھیں، جنہوں نے امریکہ کی چاکری اپنے شوہر، لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الرحمان سے وراثت میں لی تھی، جو 1977 میں اقتدار میں آئے اور 1981 میں برطانوی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کر دیے گئے۔ ان کی بیوی خالدہ ضیاء نے 1991 سے 1996 اور 2001 سے 2006 تک دو مدتوں کے لیے حکومت سنبھالی۔ بعد میں انہیں کرپشن اور اختیارات کے غلط استعمال کے جرم میں سزا دی گئی۔ حالیہ مظاہروں کے دوران، حسینہ کے 5 اگست 2024 کو ملک سے فرار ہو جانے کے بعد، ان کو اور دیگر قید کیے گئے افراد کو رہا کر دیا گیا۔ اس لیے بنگلہ دیش میں پرانے استعمار، برطانیہ، جس کا مضبوط اثر و رسوخ ہے، اور نئے استعمار، امریکہ، جس نے اپنے ایجنٹ لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الرحمن کے 1977 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے فوج میں ایجنٹوں کو حاصل کرکے اثر و رسوخ پیدا کیا ہے، ان کے درمیان عالمی تنازعہ ہے۔ امریکہ نے سیاسی میدان میں، خاص طور پر جنرل ضیاء کی بیوی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی میں ایجنٹوں کو بھی ڈھونڈ لیا ہے تاہم، برطانوی اثر و رسوخ ہی غالب ہے۔
4- حسینہ اور ان کی حکومت نے ان لوگوں کے خلاف جنگ کا بیڑا اٹھایا جو اسلام کو واپس اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ (حسینہ واجد) سیکولر ہیں، اور ان کی پارٹی بھی سیکولر اور قوم پرست ہے، جبکہ سیاسی طور پر وہ مغربی نوآبادیاتی طاقت کی تابع ہیں، جو اسلام اور اس کی واپسی کی مخالفت کر رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے 22 اکتوبر 2009 کو حزب التحریر پر پابندی لگا دی، کیونکہ یہ خلافت راشدہ کے قیام کے ذریعے اسلام کی واپسی کا مطالبہ کرتی ہے، حالانکہ حزب التحریر ایک سیاسی جماعت ہے جس کا نظریہ اسلام ہے، اور اس کے منہج میں عسکری کارروائیاں شامل نہیں ہین بلکہ یہ سیاسی جدوجہد اور فکری تصادم کے راستے پہ کاربند ہے۔ انہوں نے چار دیگر اسلامی گروپوں پر بھی پابندی عائد کی۔ انہوں نے حزب التحریر اور دیگر جماعتوں کے بہت سے نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا، اور بعض اسلامی رہنماؤں کو پھانسی دے دی۔ رپورٹ کے مطابق، "حسینہ واجد نے 2013 سے جماعت اسلامی کے خلاف اپنے سیاسی صفایا کا آغاز کیا، اس بہانے کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب تھے اور انہوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کو مسترد کیا، جبکہ اصل مقصد اسلامی تحریک سے نجات حاصل کرنا تھا۔ جماعت اسلامی کے جن اہم رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، پھانسی دی گئی، یا جیل میں وفات پا گئے، ان میں سات سینئر رہنما شامل ہیں، جن میں سے پانچ کو پھانسی دی گئی، اور دو سزائے موت سنائے جانے سے پہلے ہی جیل میں وفات پا گئے" (6 اگست 2024، https://alestiklal.net/(۔ حسینہ اسلام اور ان لوگوں کی انتہائی دشمن تھیں جو اسلام کی اقتدار میں واپسی اور مسلمانوں کو ایک ریاست میں متحد کرنے کی بات کرتے تھے۔ حسینہ نے ایک سیکولر پارٹی کی قیادت کی جو ان کے والد نے قائم کی تھی، جنہوں نے1971 میں برطانیہ اور بھارت میں موجود اس کے ایجنٹوں کی مدد سے مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش، کو مغربی پاکستان سے الگ کیا تھا۔
5- بنگلہ دیش نشاۃ ثانیہ نہ ہونے کی وجہ سے اور غیر ملکی سیاسی اور اقتصادی طاقتوں سے جڑا ہوا ہونے کی وجہ سے شدید اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، تقریباً 18 ملین بنگالی نوجوان ملازمتوں کی تلاش میں ہیں، اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد کو بے پناہ بے روزگاری کا سامنا ہے! بنگلہ دیش کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ، جو 15 سے 24 سال کی عمر کے درمیان بے، بے روزگار یا ناخواندہ ہے۔ 5 اگست 2024 کو، بی بی سی نے بنگلہ دیش کی اقتصادی حالت کے بارے میں انٹرویوز کی رپورٹ دی۔ لندن اسکول آف اکنامکس کے وزٹنگ پروفیسر، لطیف صدیقی، نے تصدیق کی کہ بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی اقتصادی طور پر ناگزیر ہے، اور جو کچھ ہوا وہ ہونا ہی تھا، انہوں نے کہا "حسینہ کی حکومت نے حکومت کرنے کا حق اور طاقت، دونوں کو کھو دیا ہے۔ جلد ہی اس کے پاس حکومت کرنے کے لیے وسائل بھی ختم ہو جائیں گے..." یہ قابل ذکر ہے کہ حسینہ کی حکومت نے ملک کی معیشت اور وسائل کو غیر ملکی کمپنیوں، خاص طور پر برطانوی، امریکی، چینی اور بھارتی کمپنیوں، کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ ان سودی قرضوں پر انحصار کر رہی تھیں، جو امریکہ کے زیر اثر، عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک، جیسے اداروں سے غیر منصفانہ شرائط پر حاصل کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ چائنہ کے ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی قرضے لیے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بنگلہ دیش کی صورتحال نازک تھی اور بحران کے دہانے پر تھی۔
6- بنگلہ دیش نے گزشتہ ماہ، 1 جولائی 2024 سے، ملازمتوں کے نظام کے خلاف طلبہ کے احتجاج کی لہر دیکھی۔ احتجاج کا مقصد عوامی سیکٹر میں کوٹہ سسٹم کو ختم کرنا تھا، جو تقریباً 56 فیصد ملازمتیں مخصوص گروہوں کو مختص کرتا ہے۔ وزیرِ اعظم اور ان کے قریبی افراد نے اپنے رشتہ داروں اور حامیوں کو ملازمتیں دینے اور مخالفین کو محروم رکھنے کے لیے اس نظام کا فائدہ اٹھایا۔ ان مخصوص گروہوں میں وہ لوگ، اور ان کے بیٹے بھی، شامل تھے جنہوں نے برطانیہ اور اس کے بھارتی ایجنٹوں کی حمایت سے 1971 میں مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان کے درمیان علیحدگی کی جنگ میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ مل کر غداری کی تھی۔ یہ وہ روزگار کا نظام تھا جس کے خلاف احتجاج شروع ہوا، اور طلباء نے مطالبہ کیا کہ ملازمتیں صرف قابلیت کی بنیاد پر دی جائیں، نہ کہ دیگر بنیادوں پر۔ ان احتجاجات نے کوٹہ سسٹم کو منسوخ کرنے میں اپنا اثر دکھایا، چنانچہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 21 جولائی 2024ء کو اعلان کیا کہ ملازمتوں میں کوٹہ دوبارہ متعارف کرنا غیر قانونی ہے۔ لیکن یہ اقدام مظاہرین کو خاموش کرنے میں ناکام رہا۔ ان مظاہروں میں پہلی موت 16 جولائی 2024 کو ہوئی، جب حسینہ کی جماعت کے طلباء نے ڈھاکہ میں مظاہرین کا لاٹھیوں سے مقابلہ کیا، اور انہوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔
7- ان احتجاجات کو روکنے کے لیے حسینہ کی حکومت نے ملک بھر میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ حسینہ نے احتجاجات میں طلباء سے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور ہر قاتل کو سزا دینے کا عزم کیا۔ تاہم، مظاہرین نے ان کے بیانات کو مسترد کر دیا اور خاص طور پر "آمریت مردہ باد" کے نعرے لگاتے ہوئے ان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، مظاہرین نے بنگلہ دیش میں سرکاری نشریاتی کارپوریشن کے ہیڈکوارٹر اور درجنوں دیگر سرکاری عمارتوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ جبکہ حکومت نے انٹرنیٹ سروسز معطل کر دیں۔ احتجاجات میں مسلسل اضافہ ہونے لگا، اور روزانہ مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ 24 گھنٹے کا کرفیو نافذ کیا گیا اور فوجی دستے تعینات کر دیئے گئے۔ پولیس نے مظاہرین پر براہ راست گولیاں اور آنسو گیس فائر کی، ملک بھر میں کرفیو کا اعلان کیا، اور سکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے فوجی دستے تعینات کیے۔ 19 جولائی 2024ء کی شام تک 105 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع موصول ہو چکی تھی۔ وزیراعظم کے دفتر کے ترجمان نعیم الاسلام خان نے کہا، "حکومت نے کرفیو نافذ کرنے اور سول حکام کی مدد کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے"... (اے ایف پی 19 جولائی 2024)۔ مظاہروں کو دبانے کی کوشش میں مواصلات، نیوز چینلز اور کچھ موبائل فون سروسز کو بند کر دیا گیا۔ مظاہرین نے ایک جیل پر دھاوا بول دیا اور 19 جولائی 2024ء کو سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کرانے کے بعد عمارت کو آگ لگا دی۔ پولیس، حکومتی عہدیداروں اور ڈاکٹروں کے بیانات کی بنیاد پر اے ایف پی کے مطابق، بنگلہ دیش میں مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی کل تعداد 409 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ واقعات بظاہر طلبہ کے اچانک مظاہروں کے طور پر شروع ہوئے، جو کہ ایک ملازمت کے کوٹہ نظام کے خلاف تھے جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں کو ملازمتیں نہیں ملتی تھیں۔ یہ احتجاج صرف طلبہ تک محدود نہیں رہے، بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی اس میں شامل ہوئے، اور ان کی تعداد 400,000 تک پہنچ گئی۔ ان مظاہروں کو حسینہ کے 15 سالہ آمرانہ اقتدار کے لیے ایک بے مثال چیلنج اور خطرہ کے طور پر دیکھا گیا۔
8- سوموار 5 اگست 2024 کو بنگلہ دیش کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل واکر الزمان نے اعلان کیا کہ وہ حسینہ کے استعفیٰ اور فرار کے بعد مکمل ذمہ داری سنبھالیں گے اور ایک عبوری حکومت تشکیل دیں گے۔ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن پر کہا، "میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمام شکایات کو دور کیا جائے گا"۔ انہوں نے کہا، "ملک نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے، معیشت کو نقصان پہنچا ہے، اور بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تشدد کو روکا جائے"۔ (AFP, ، اگست 5 2024)۔ جنرل واکر الزمان ایک انفنٹری آفیسر تھے جنہیں گزشتہ جون میں آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا۔ حسینہ نے ان پر اعتماد کیا کیونکہ ان کے درمیان دور کی رشتہ داری بھی تھی، اور وہ ان کے دفتر میں مشیر کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ ان کے سسر، حسینہ کے پہلے دور حکومت (1996 سے 2001) کے دوران، فوج کے کمانڈر تھے۔ واکر الزمان نے برطانیہ میں فوجی تربیت حاصل کی، اور بنگلہ دیش نیشنل یونیورسٹی اور کنگز کالج لندن سے ڈیفنس سٹڈیز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ حسینہ کے برطانیہ نواز دور حکومت کا ہی ایک حصہ ہیں۔ برطانیہ نے انہیں اقتدار پر قبضہ کرنے اور بنگلہ دیش میں اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کی ہدایت دی۔ انہوں نے حسینہ سے بھی اتفاق کیا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے بحران مزید شدید ہو جاتا اور مزید خون بہتا۔ اس کے بعد، فوج نے مظاہرین کے قریب جانے کی کوشش کی تاکہ صورتحال کو پرسکون کیا جا سکے۔ اقتدار سنبھالنے سے ایک دن پہلے، فوج نے مظاہروں کی اجازت دی اور مظاہرین پر گولیاں چلانے سے روک دیا، تاکہ ان کے قریب آ کر انہیں اس معاملے پر ٹھنڈا کیا جا سکے۔
9- جب فوجی سربراہ، جنرل واکر الزمان، نے اعلان کیا کہ وہ ملک کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں، تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے ایک عبوری حکومت تشکیل دیں گے اور بڑی اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ مذاکرات کریں گے، مگر اس میں عوامی لیگ یعنی حسینہ کی پارٹی ان مذاکرات میں شامل نہیں ہو گی۔ مکاری پر مبنی انگریز کی سیاست کے ذریعے صدراتی انتظامیہ نے امریکہ کو خوش کرنے اور اس راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے، بنگلہ دیش میں 7 اگست 2024 کو اعلان کیا کہ نوبل امن انعام یافتہ، محمد یونس، عبوری حکومت کی سربراہی کریں گے۔ صدراتی بیان میں کہا گیا، "محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ صدر محمد شہاب الدین، سینئر فوجی افسران، اور "طلباء کے خلاف امتیازی گروپ (" (Students Against Discrimination group کے رہنماؤں کے درمیان ایک اجلاس میں کیا گیا"۔ بیان میں مزید کہا گیا، "صدر نے لوگوں سے مدد کی اپیل کی تاکہ وہ بحران پر قابو پا سکیں۔ عبوری حکومت کی فوری تشکیل بحران پر قابو پانے کے لیے ضروری تھی"۔ (اے ایف پی 7 اگست 2024)۔ اس کے بعد، محمد یونس، جو کہ اس وقت یورپ میں موجود تھے اور 84 سال کے ہیں، نے اعلان کیا کہ وہ عبوری حکومت کی صدارت سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔ اس طرح برطانیہ نے اپنے آپ کو تباہی سے بچانے اور اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے کام کیا، جب ان کی ایجنٹ حکمران نے مظاہروں کے دباؤ کے تحت فوجی ہیلی کاپٹر پر بھارت کی طرف فرار اختیار کی۔ تو اس نے حکومت اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا، تاکہ آرمی چیف کنٹرول سنبھال لیں، اور محمد یونس جیسے عمر رسیدہ امریکی ایجنٹ کو اگلے پارلیمانی انتخابات تک، اور ایک نئی منتخب حکومت کی تشکیل تک عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔ اس طرح، برطانیہ نے حسینہ کو ملک سے نکال کر مظاہرین کو خاموش کرنے کی کوشش کی، اور امریکہ کو خوش کرنے کے لیے محمد یونس کو مقرر کیا، جو امریکہ کے وفادار ہیں، کیونکہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے انہیں نوبل انعام کا حقدار قرار دیتے ہوئے ان کی تعریف کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا، "پروفیسر محمد یونس نے 2006 میں نوبل امن انعام جیتا، کیونکہ انہوں نے گرامین بینک کی بنیاد رکھی تھی… اسی طرح امریکی صدر بل کلنٹن نے محمد یونس کو نوبل انعام دینے کی حمایت بھی کی تھی۔ 2002 میں ایک تقریر کے دوران، صدر کلنٹن نے یونس کو ایسے شخص کے طور پر بیان کیا جس کو بہت پہلے نوبل انعام جیت جانا چاہیے تھا" (الجمہوریہ، منگل 6 اگست 2024)۔ حالانکہ حسینہ، یونس کے خلاف لڑ رہی تھی، جس پر ایک بنگلادیشی عدالت نے 1 جنوری 2024 کو دارالحکومت ڈھاکہ میں مزدور قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں اسے چھ ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا، "نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کو بنگلادیش میں مزدور قوانین کی خلاف ورزی پر سزا سنائی گئی ہے، جیسا کہ پبلک پراسیکیوٹر خورشید عالم خان نے پیر کو اے ایف پی، ایجنسی فرانس پریس کو بتایا، اس کیس کے بارے میں ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے"۔ عالم خان نے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ یونس اور ان کے ساتھیوں کو مزدور قوانین کی خلاف ورزی پر سزا سنائی گئی تھی اور انہیں چھ ماہ قید کی سزا دی گئی تھی، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اپیل تک ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ جبکہ 160 بین الاقوامی شخصیات، جن میں سابق امریکی صدر اوباما اور سابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون شامل ہیں، نے ایک مشترکہ کھلا خط شائع کیا، جس میں یونس کے خلاف جاری عدالتی ہراسانی کی مذمت کی گئی اور ان کی سلامتی اور آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا"۔ (الشرق الاوسط، 1 جنوری 2024) اس طرح، محمد یونس کو امریکہ کی منظوری حاصل تھی، اور مکار برطانیہ نے حسینہ کو ہٹا کر مظاہروں کو ٹھنڈا کر دیا... ایک پرانے وفادار کو مقرر کر کے امریکہ کو مطمئن کر دیا گیا۔ اور اس طرح برطانیہ حسینہ کے فرار ہونے سے پہلے کی طرح بنگلہ دیش پر فوجی سربراہ کے ذریعے کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہا!
10- بنگلہ دیش میں جاری عالمی کشمکش کے تناظر میں، وہ ایجنٹ جو کسی نہ کسی طور پر استعماری قوتوں کا ساتھ دیتے ہیں اور کفار استعمار کاروں کے مفادات کی ترویج کرتے ہیں، دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں ناکام رہیں گے۔ دنیا میں ان کی بدکاریوں کی وجہ سے رسوائی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گی اور آخرت میں مجرموں کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾
"جو لوگ جرم کرتے ہیں ان کو اللہ کے ہاں ذلّت اور عذابِ شدید ہوگا اس لیے کہ مکّاریاں کرتے تھے" [سورة الاٴنعَام-124]۔
اگر وہ عقلمند ہوتے تو خاص طور پر اسلامی ممالک میں اپنے جیسے ایجنٹوں کے انجام سے سیکھتے۔ وہ یا تو قید کیے جائیں گے، قتل کیے جائیں گے، یا ذلت کے ساتھ ملک سے بھاگ جائیں گے! وہ اپنے پیش روؤں سے سبق نہیں سیکھتے، بلکہ اندھے پن کے ساتھ اپنی غلطیوں پر ڈٹے رہتے ہیں! وہ اپنے رب کی طرف کیوں نہیں لوٹتے، اس کے دین کو کیوں نہیں مضبوطی سے تھامتے، اور ان لوگوں کی مدد کیوں نہیں کرتے جو اس دین کو قائم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، جو کہ نبوت کے نقش قدم پر خلافت راشدہ کی صورت میں قائم ہوگی، جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی عظیم حدیث میں بشارت دی ہے جو امام احمد اور الطيالسي نے روایت کی ہے،
«ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ»
"پھر نبوت کے نقش قدم پر خلافت قائم ہوگی"؟ یہ لوگ اپنے رب کی طرف کیوں نہیں لوٹتے، اگر ان کے پاس عقل ہوتی؟!
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا:
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾
"جو شخص دل (آگہی) رکھتا ہے یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے اس کے لئے اس میں نصیحت ہے"
[سورة ق-37]۔
11 صفر الخیر1446ھ
بمطابق16/08/2024