الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

قرض پر زکوۃ

 معن الصر صور کو

 

سوال:

السلام علیکم ،

 میں ایک فلسطینی یونیورسٹی میں کام کرتا ہوں، ہم اکثر زائد وقت (اورٹائم)  لگاتے ہیں مگر اس زائد وقت کے پیسے ہمیں فوراً نہیں ملتے بلکہ اس کو یونیورسٹی اپنے اوپر ہمارے قرضے کے طور پر اپنے پاس جمع کرتی ہے۔  بعض دفعہ ہم میں سے کسی بھی شخص کا بقایا  زکوۃ کے نصاب سے بہت زیادہ ہو جاتا ہے(کئی سال زائد وقت لگانے کی وجہ سے)۔  یہ قرضہ بھی  جامد قرضہ نہیں  بلکہ اس کو وصول کرنا ممکن ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کس وقت وصول ہوگا۔ مثال کے طور پر میں  نے گزشتہ چار سال سے زائد وقت (اورٹائم) کی رقم نہیں لی  اورمجھے معلوم بھی نہیں کہ میں کب یہ رقم وصول کروں گا۔ کیا اس مال پر زکوۃ ہے یا نہیں ؟اگر ہے تو پھر اس رقم کو وصول کرتے وقت ایک ہی بار زکوۃ ادا کی جائے گی ہے یا پھر ہر سال ادا کی جائے گی؟۔

نوٹ: زیادہ تر اساتذہ اس معاملے میں شش و پنج کا شکار ہیں اور شافی جواب کے منتظر ہیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔۔۔۔ ختم شد۔

 

جواب:

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

میں آپ کے سوال سے یہ سمجھا ہوں کہ زائد وقت (اورٹائم) کی اجرت  کا مستحق بننا یونیورسٹی کے ساتھ اتفاق کے بعد ہے یعنی  اس کام کے لیے آپ مقررہ اجرت کے مستحق ہیں جب یہ کام ہو جائے۔ اور اگر وہ یہ اجرت اسی وقت آپ کو نہ دیں تو یہ ان پر آپ کا قرضہ ہے۔۔۔یہ "بونس" کے زمرے میں نہیں آتا یا یہ انعام نہیں کہ آپ  کے اضافی کام پر وہ چاہیں آپ کو تھوڑا کچھ دیں یا زیادہ۔۔۔ اگر میں صحیح سمجھ رہا ہوں  تو آپ کے سوال کا جواب  کتاب ریاست خلافت کے محصولات میں ہے جس کی عبارت یہ ہے:

 

"۔۔۔اگر  کسی شخص کا کوئی قرضہ ہو ،وہ بھی کسی ایسے مالدار شخص پر جو ٹال مٹول نہ کرتا ہو، وہ جب چاہے واپس لے سکتا ہو، تو  سال گزرنے پر اس پر اس کی زکوۃ نکالنا فرض ہے۔ ابن عبید نے عمر بن الخطاب سے روایت کی ہے:  اگر قرض پر سال گزر جائے تو قرض کا بھی حساب کر لو اور اس کا بھی جو تمہارے پاس ہے، پھر ان سب کو جمع کر کے زکوۃ ادا کرو۔ عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ :  اس قرض پر زکوۃ ہے جس کو اگر تم چاہو تو مقروض سے لے سکتے ہو،  جو مالدار ہے اور آپ حیاء یا بناوٹ کی وجہ سے اس کو نہیں کہہ سکتے تو اس پر بھی زکوۃ ہے" اس کو ابو عبید نے روایت کیا ہے۔  اسی طرح ابن عمر سے روایت ہے: جس قرض کے ملنے کی تم امید کرتے ہو اس پر سال گزر جائے تو زکوۃ ہے"۔

 

لیکن اگر قرضہ کسی غریب آدمی پر ہو یا ٹال مٹول کرنے والے مالدار پر ، تو اس پر زکوۃ اس وقت تک نہیں جب تک وہ رقم آپ کے پاس نہ آجائے۔ جب وہ رقم واپس آجائے تو اس پر گزرے گزشتہ سارے سالوں کی زکوۃ نکالے گا۔ مشکوک قرض ( جس کے متعلق یقین نہ ہو کہ واپس ملے گا یا نہیں)کے حوالے سے علی سے روایت ہے: " جب  واپس مل جائے تو گزشتہ سارے سالوں کی زکوۃ ادا کرے" ۔ ابو عبید نے روایت کیا ہے اور اس کو ابن عباس نے بھی روایت کیا ہے:" اگر ملنے کی امید نہیں تو اس پر زکوۃ نہیں  جب ملے تو زکوۃ ہے  اور جیسے ہی ملے تو سارے سالوں کی زکوۃ ادا کریں"۔ کتاب محصولات کی عبارت ختم ہو گئی۔

 

یوں آپ کی اجرت، جس کو یونیورسٹی اپنے پاس رکھتی ہے، آپ کا ان پر قرضہ ہے۔ اس اجرت پر ابھی زکوۃ ادا کرنا واجب نہیں بلکہ جیسے ہی وصول ہو  اس پر زکوۃ ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہی نہیں کہ آپ کو کب دی جائے گی،  یعنی آپ جب چاہیں اس کو یونیورسٹی سے نہیں لے سکتے۔ اگر معاملہ ایسا ہے تو اس کو وصول کرنے کے بعد ہی زکوۃ فرض ہے،  تب مال کے نصاب تک پہنچنے کی وجہ سے آپ کو گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنی پڑے گی، صرف ایک سال کی زکوۃ ادا کرنا کافی نہیں بلکہ نصاب پورا ہونے کے بعد کے تمام سالوں کی زکوۃ ادا کریں گے۔۔۔

 

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ کے مال واولاد میں برکت دے

 

آپ کا بھائی

 عطا بن خلیل ابو الرشتہ

3 ذی القعدہ 1437ہجری

بمطابق6 اگست2016

Last modified onاتوار, 23 اکتوبر 2016 00:43

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک