الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوالات کے جواب

1۔ حرام مال(سرمایہ) کو ضائع کرنا

2۔ تجارت میں دھوکہ

برائے یوسف ابو اسلام

 

سوالات:

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہمارے امیر،  اللہ آپ کے  درجات  بلند کرے اور آپ کے ہاتھوں اس امت کو فتح نصیب فرمائیں ۔

میں دو سوالات عرض کرنا چاہتا ہوں:

 

پہلا سوال:

 ایک بھائی کا اسٹاک کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: "اگر آپ اسٹاک کے حرام ہونے کے بارے میں جاننے کے بعد اپنی والدہ، جو کہ کافر ہیں، کو اجازت دیں کہ وہ  ایک خاص مدت میں آپ کے  حصص (شیئرز) بیچ دیں تو آپ کو اس مخصوص مدت میں اپنے حصص (شیئرز) کے منافع کو مسلمانوں کے مفادات میں خرچ کرکے معاملے کو ختم کرنا ہوگا۔ اس کی کیا دلیل ہے کہ وہ اس منافع کو مسلمانوں کے مفاد پر لگائے جبکہ شریعت کے رو سے وہ اس پیسوں کا مالک نہیں تھا،   یہ کیسے اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے خرچ کرے؟

 

دوسرا سوال:

میں گھر گھر سبزیاں فروخت کرتا ہوں۔ میں سبزی اس بازار سے خرید کرلاتا ہوں جو مجھ سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور ہے۔ بعض اوقات میں اشیاء تجارت (سبزیوں) میں خرابی یا داغ معلوم کرلیتا ہو۔۔۔ یہ ہماری معاشرتی روایت ہے کہ اگر  رعایتی نرخ پر بیچنے والے یا پرچون پر فروخت کرنے والے کو اگر کسی چیز میں خرابی کی وجہ سے اس چیز کو واپس کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ اس چیزکی قیمت کم کر دیتا ہے ۔ اگر میں اس خرابی والی چیز کو اسی دن واپس کرتا ہوں تو میرے لیے آمدورفت کا خرچہ اس کی قیمت سے زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ تو کیا یہ معاوضہ ہے جو کہ درست اور متاثرہ اشیاء میں فرق کی وجہ سے ہے، کیا خراب چیز کی کم  قیمت  ہمارے لیے لینا جائز ہے؟

 

جواب:

وعلیکم سلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔۔

پہلا جواب: حرام مال کو ضائع کرنے کا جواب یہ ہے:

ایسا لگتا ہے کہ آپ اس میں تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں اور آپ کو لگا کہ ہمارا بیان کہ "تم ضرور اس پانچ مہینے کے اندر ان حصص (شیئرز) کا منافع اسلام اور مسلمانوں کے مفاد پر ضائع (خرچ) کردو"،اس سے آپ سمجھے صدقہ کےطور پر، یعنی آدمی کو اپنا مال مسلمانوں کے مفاد پر خرچ کرنے کا اجر ملتا ہے ۔  یہاں مسئلہ ایسا  نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے کہا "اسے ضائع کردو"۔  جیسا کہ، اگر آپ کے گھر میں کچھ چیزیں آپ کو ناپسند ہوں اور آپ ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو آپ بلاشبہ اسے لے کر صحیح جگہ پر رکھ دیتے  ہیں ، مثلاً جب آپ اس چیز سے جان چھڑاتے ہیں تو اس کو راستے میں نہیں پھینکتے بلکہ  آپ اسے لے کر ایسی جگہ ضائع کرتے ہو جو اس کے لیے موزوں جگہ ہو۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنی ناپسند اشیاء کے لیے ایسی جگہ تلاش کرتے ہیں جس سے کسی کو تکلیف بھی نہ ملے اور اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب جگہ بھی ہو۔ یہ مناسب نہیں کہ آپ ان اضافی اشیاء کو راستے میں پھینک  دیں اور لوگوں کو تکلیف پہنچائیں۔

 

اس وجہ سے ہم نے کہا کہ وہ اس مال کو ضائع کرے یعنی وہ اسے مسلمانوں کے مفادات پر خرچ کرے ایسا نہیں کہ مال کو ایسے ہی ضائع کر دیا جائے مثلا وہ اسے زمین پر پھینک دے یا اس کو کچرے کے ڈبے میں ڈال دے! میرے بھائی یوسف وہ اس منافع کو اسی جگہ خرچ کرے گا جو اس کےلیے انتہائی موزوں جگہ ہو۔لیکن اس کا یہ خرچ کرنا خیرات کرنا نہیں ہوگا کہ جس پر اس کو اجر ملےگا۔ احمد نے اپنے مسند میں عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

… وَالذي نفسي بيده…لَا يَكْسِبُ عَبْدٌ مَالًا مِنْ حَرَامٍ، فَيُنْفِقَ مِنْهُ فَيُبَارَكَ لَهُ فِيهِ، وَلَا يَتَصَدَّقُ بِهِ فَيُقْبَلَ مِنْهُ، وَلَا يَتْرُكُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلَّا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ

"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جو بندہ حرام مال کماتا ہے اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو وہ اس کے لیے برکت کا سبب نہیں، اور نہ ہی اس مال سے اس کا صدقہ قبول ہوگا، اور نہ ہی اسے اس مال کے چھوڑنے کا کوئی فائدہ ہوگا سوائے اس کے لیے جہنم کی آگ میں اضافہ کرنے کے، بےشک اللہ عزوجل برائی کو برائی سے دفع نہیں کرتا بلکہ برائی کو نیکی سے دفع کرتا ہے ، کیونکہ نجاست نجاست کو ختم نہیں کرتی"۔

 

مزید یہ کہ فقہاء سے یہ واضح طور پر منقول ہے کہ ایک بندہ اپنے حرام مال کو شریعت کے مطابق ہی خرچ کرے گا،اور دلیل میں وہ روایت ذکر کی ہے جو کہ ایک انصاری شخص کے متعلق عاصم ابن کلیب سے مروی ہے جو انھوں نے اپنے والد سے نقل کی: ایک انصاری شخص نے کہا کہ "ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں گئے۔میں نے رسول اللہ ﷺ کو قبر پر دیکھا ،آپ ﷺ قبر کھودنے والے کو ہدایت دے رہے تھے:"پائینتی کی طرف کھلی کرو،سرکی طرف کھلی کرو" جب آپ ﷺ واپس ہوئے تو آپ ﷺ کو ایک عورت کی طرف سے بلاوا ملا ۔ تو آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لے آئے،کھانا پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا پھر لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ بڑھائے اور کھانے لگے۔ ہمارے بڑوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ ایک ہی لقمہ منہ مبارک میں چبائے جارہے ہیں(اور نگلتے نہیں) آپ ﷺ نے فرمایا:

 إني أجد لحم شاة أخذت بغير إذن أهلها

"میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ گوشت ایسی بکری کا ہے جسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لیا گیا ہے"

(اس عورت کو بلوایا گیا) تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میں نے بقیع کی طرف آدمی بھیجا کہ میرے لیے  بکری  خرید لائے مگر نہیں ملی۔پھر میں نے اپنے ہمسائے کی طرف بھیجا جس نے ایک بکری خریدرکھی تھی،میں نے کہلوایا کہ اسی قیمت پر بکری مجھے  دیدے مگر وہ  نہیں ملا۔ تب میں نے اس آدمی کی بیوی کو کہلا بھیجا تو اس نے مجھے یہ بکری بھیج دی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

أطعميه الأسارى

" یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو"۔

 

دوسرے فقہاء نے مسلمانوں کے مفادات کی بجائے دیگر جامع الفاظ بیان کئے گئے ہیں ۔ انھوں نے صدقہ کے مصارف پرخرچ کرنے کا کہا کہ اس کو غریبوں میں بانٹنا چاہیے یا مساجد کی تعمیر پر خرچ کرنا چاہیےکیونکہ یہ  صدقہ کرنے کی جگہیں ہیں۔ یہ حنفیوں کی رائے ہے-حاشیہ ابن عابدین (3/223 )، اور المالکیہ کی  یہ رائے ہے جو الجامع لاحکام القرآن للقرطبی میں بیان ہوئی ہے۔

 

بعض علماء کہتے ہیں کہ "اسے اللہ کی راہ یعنی جہاد میں خرچ کرو"۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی ایک رائے یہ بھی ہے جو وہ "مجموع الفتاوٰی"(28/401) میں فرماتے ہیں کہ " اگر کوئی شخص حرام مال حاصل کرے اور وہ اسے اس کے مالک کو نہ پہچاننے کی وجہ سے واپس نہ کرسکے تو وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے ۔  یہ وہ جگہ ہے جہاں اس کو خرچ کیا جاسکتا ہے۔ وہ شخص جس کے بہت زیادہ گناہ ہوں اس کا بہترین کفارہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے اور وہ شخص جو حرام مال سے چھٹکارہ حاصل کرکے توبہ کرنا چاہے  لیکن وہ اس مال کو اس کے مالکان کو واپس نہیں کرسکتا تو اس کو چاہیئے کہ وہ اس مال کو ان کے مالکان کی طرف سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے ، کیونکہ یہ اچھائی کا راستہ ہے جو اس کے لیے جہاد کے اجر کی وجہ سے نجات کا باعث ہے"۔اور اسی طرح اور بھی بہت سی روایات ہیں۔۔۔

 

آپ کے دوسرے سوال کا جواب جو کہ سبزی فروشی کے متعلق تھا: اور آپ کے سوال کا متن کچھ یوں ہے کہ۔۔۔

میں گھر گھر سبزیاں فروخت کرتا ہوں۔ میں سبزی اس بازار سے خرید کرلاتا ہوں جو مجھ سے تقریباً چالیس کلومیٹر دور ہے۔بعض اوقات میں اشیاء تجارت(سبزیوں) میں خرابی یا داغ معلوم کرلیتا ہو۔۔۔ یہ ہماری معاشرتی روایت ہے کہ اگر  رعایتی نرخ پر بیچنے والے  یا پرچون پر فروخت کرنے والے کواگر  کسی چیز میں خرابی کی وجہ سے اس چیز کو واپس کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو  وہ اس  چیزکی قیمت کم کر دیتا ہے ۔ اگر میں اس خرابی والی چیز کو اسی دن واپس کرتا ہوں تو میرے لیے آمدورفت کا خرچہ اس کی قیمت سے زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ تو کیا یہ معاوضہ ہے جو کہ درست اور متاثرہ اشیاء میں فرق کی وجہ سے ہے، کیا خراب چیز کی کم  قیمت  ہمارے لیے لینا جائز ہے؟

 

اس کا جواب وہی ہے جو کہ "اسلام کا نظامِ اقتصاد" کتاب (کے صفحہ 210  انگریزی اور عربی کتاب میں 193) پر وضاحت کی گئی ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ۔۔۔

 

کسی مسلمان کے لیے سامان یا کرنسی میں کسی قسم کی ملاوٹ جائز نہیں، بلکہ اس پر فرض ہے کہ جو کچھ عیب ہیں اس کے بارے میں بتادے۔ اس  میں جو کھوٹ ہیں اس کی بھی وضاحت کرے، زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کے لیے دھوکہ نہ دے، سامان کی قیمت کے لیے کرنسی میں جعل سازی نہ کرے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیا ہے۔ ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر  سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

 

المسلم أخو المسلم، ولا يحل لمسلم باع من أخيه بيعاً فيه عيب إلاّ بيّنه له

" مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ کسی چیز کا عیب چھپا کر اپنے بھائی کو فروخت کرے"۔

 بخاری نے حکیم بن حزامؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

البيّعان بالخيار ما لم يتفرقا، فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما

"خرید وفروخت والوں کو ،جب تک وہ جدا نہیں ہوجاتے، اختیار ہے کہ سودے کو مکمل کریں یا ختم کردیں۔  اگر وہ سچ بولے، صحیح بیان کرے تو ان کی خرید وفروخت میں برکت ہوگی اور اگر چھپائے اور جھوٹ بولے تو ان کی تجارت کی برکت ختم ہوجائے گی"۔

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ليس منا من غش

"جس نے ملاوٹ کی(دھوکہ دیا) وہ ہم میں سے نہیں"

اس کو ابنِ ماجہ اور ابو داؤد نے ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے۔ جس نے عیب چھپا کر اور دھوکہ دہی سے کوئی چیز حاصل کی وہ اس کا مالک نہیں بنے گا، کیونکہ یہ ملکیت کے وسائل میں سے ہی نہیں،بلکہ یہ ان وسائل میں سے ہے جو ممنوع ہیں اور یہ مال حرام ہے اس کو سُحت یعنی(خبیث) کہا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

لا يدخل الجنة لحم نبت من سحت، النار أولى به

"وہ گوشت (یعنی انسانی جسم) جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جو سُحت (حرام مال) سے بنا ہو،اس کے لیے آگ ہی بہتر ہے" اسے احمد نے جابر بن عبد اللہؓ سے نقل کیاہے۔

 

عیب چھپانے کے ذریعے دھوکے کا انکشاف ہوجائے خواہ یہ سامان میں ہو یا کرنسی میں،تو جس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے اس کو اختیار ہے  چاہے تو عقد کوفسخ کردے یا پھر جاری رکھے ، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ خریدار عیب دار سامان کو  اپنے پاس رکھے اور نقصان کا عوض بھی لے یعنی عیب والے اور بے عیب کے درمیان فرق کو لے،ایسا کرنا اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس نقصان (تاوان) کو لینے کا حکم نہیں دیا، بلکہ صرف دو چیزوں کا اختیار دیا ہے، یعنی چاہے چیز رکھ لے یا واپس کردے، جیسا کہ بخاری نے ابو ہریرہ  سے  روایت کی ہے۔

 

اس لیے اگر آپ نے سامان میں خریدنے کے بعد نقص پایا تو آپ کے پاس اختیار ہے کہ یا تو اس کو اس کے مالک کو واپس کردیں اور جو رقم ادا کی ہے وہ واپس وصول کرلیں، اور یا پھر سامان کو  نقص کے ساتھ قبول کرلیں۔ لیکن آپ اس نقص والے مال کومعاوضہ(ہرجانہ) سمیت قبول نہیں کرسکتے جو کہ عیب دار اور بے عیب اشیاء کی قیمتوں میں فرق کی وجہ سے ہے۔ آپ کے اور بازار، جس سے آپ نے اشیاء خریدی ہے، کے درمیان فاصلہ زیادہ ہونے سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے کہ ایک شخص کے پاس دو ہی چیزوں کا اختیار ہے:

 

إن شاء أمسك، وإن شاء ردها

"اگر چاہے وہ چیز رکھ لے یا واپس کردے" جیسا بخاری نے ابوہریرہ  سے روایت کیا ہے۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابورَشتہ

15 شوال 1438 ہجری  بمطابق 9/7/2017 عیسوی 

 

Last modified onجمعرات, 07 ستمبر 2017 18:45

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک