الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

 

سوال و جواب:

  • کیا سود(رِبا) صرف چھ اقسام کی اشیاء میں وقوع پزیر ہوتا ہے؟

 

سوال :

السلام علیکم 

ہمیں اپنے ایک بھائی محسن الجدابی، صنعاء یمن،سے ایک سوال موصول ہوا  ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : «أي قرض جر منفعة فهو ربا » "ہر وہ قرض جس سے کوئی فائدہ (منافع) اٹھایا جائے سود ہے"۔ ہمیں حدیث میں وضاحت ملتی ہے کہ سود (ربا) سونے،چاندی اور کچھ اقسام کی اشیاء (کھجور،کشمش،گندم اورجؤ) میں وقوع پزیر ہوتا ہے۔ لہذا، کیا سود (ربا) کاغذ کےنوٹوں میں وقوع پزیر نہیں ہوتا کیونکہ یہ کاغذی نوٹ سونے اور چاندی سے منسلک نہیں ہوتے؟ مثال کے طور پر،کیا کسی شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو ایک ٹن لوہا قرض دے اور پھر لوہے کی واپسی کی درخواست کرے لیکن ایک ٹن کے  بجائے ڈیڑھ ٹن واپس مانگے؟

اللہ آپ کو اجر دے۔

الاالمقتعری

 

جواب :

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

جی ہاں،سود (ربا) صرف چھ اقسام کی چیزوں: کھجور ، گندم،جؤ،نمک،سونا اور چاندی کے علاوہ اور کسی چیز میں وقوع پزیرنہیں ہوتاہے ،مگریہ اس وقت ہے جب یہ معاملہ تجارت(بیع) اور پیشگی فروخت (السَلَمْ) میں ہو ۔لیکن اگر معاملہ قرض کا ہو، تو سود ہر قسم کی چیزوں میں ہو سکتا ہے۔ یہ حرام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو قرض کے طور پر کوئی چیز دے اور واپسی کے لئے زیادہ یا کم کی توقع رکھے، یا کسی مختلف چیز کی توقع رکھے۔ قرض  کایا کوئی بھی چیز جو ادھار لی گئی ہو اس کی واپسی اصل قیمت اور چیزکی اصل  قِسم میں ہونا لازم ہے۔

 

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سود (رِبا) صرف چھ اقسام کی چیزوں میں ہی وقوع پزیر ہوسکتا ہے،تواس کا ثبوت اجماعِ صحابہ اور نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ آپ ﷺنےفرمایا:

«الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير، والتمر بالتمر والملح بالملح، مثلاً بمثل، سواء بسواء، يداً بيد، فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يداً بيد»

"سونے کے بدلے سونا،چاندی کے بدلے چاندی،گندم کے بدلے گندم،جؤ  کے بدلے جؤ ،کھجوروں کے بدلےکھجور اور نمک کے بدلے نمک؛ ایک قسم کی چیز کےلئے وہی قسم، ایک مقدار کے لئے وہی مقدار اور ہاتھ کے ہاتھ(یعنی اُسی وقت)لیکن ان اشیاء  سےمختلف اشیاء کو اپنی مرضی سے فروخت جاسکتا ہے مگر ہاتھ کے ہاتھ(یعنی اُسی وقت)" (مسلم نے عبادة بن صامتؓکے توسط سےروایت کیا ہے)۔ 

 

اجماعِ صحابہ اور حدیث کے مطابق مخصوص چیزیں سود(ربا) کے تابع ہیں؛ لہذا سود(ربا) اِن چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز میں وقوع پزیر نہیں ہوسکتا ہے۔ ان چھ چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کے لین دین کے رِبا ہونے کے بارے میں ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا،سود(ربا) صرف اِن ہی چھ چیزوں میں وقوع پزیر ہوتا ہے یعنی وہ چیزیں جو ایک ہی اصل سے ہوں اور جن کا بیان مندرجہ بالا ذکر کی ہوئی  چھ چیزوں میں سے ہوصرف وہی سود کے وقوع ہونے کے اصول میں شامل ہیں لیکن اِن کے علاوہ اورکوئی چیزمیں نہیں ۔لہٰذا،تجارت اور پیشگی فروخت (السلم) میں سودصرف اِن چھ اقسام کی چیزوں :کھجور ،گندم ،جؤ،نمک ،سونے اور چاندی میں ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ عام نام  ہیں لہٰذا ان کو کسی اور چیز پر قیاس (ایک حکم کو کسی اور حقیقت پر لاگو کرنا) کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن زکوٰة  کے متعلق ایسی احادیث موجود ہیں جن  میں سونے اور چاندی کا ذکر کرنسی کے طور پر کیا گیا ہے، یعنی  اِن کا ذکر نہ صرف عام نام کے طور پر کیا گیا ہے بلکہ کرنسی کے طور پر بھی کیا گیا ہے ،جنہیں ساز و سامان کی قیمتوں اور مزدوری کی اجرت ادا  کرنےکے طور پر استعمال کیاگیا  ہے۔ان نصوص  (احادیث کی عبارتوں) سے، علت یہ نکالی گئی کہ؛ چو نکہ سونے اور چاندی کے اندرکرنسی ہونے  کی خصوصیت ہےلہٰذا کاغذی نوٹوں  کوسونے اور چاندی پرقیاس کیا گیا ہے،کیونکہ ان کاغذی نوٹوں میں بھی کرنسی کے طور پر استعمال ہونے کی علت موجود ہے ۔چنانچہ حکم شرعی کے مطابق ،اِن کاغذی نوٹوں پر سونے و چاندی کے مارکیٹ ریٹ کے حساب  سے زکوٰة لاگو ہوگی ۔علی بن ابی طالب نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

 

 

«إذا كانت لك مئتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء - يعني في الذهب - حتى يكون ذلك عشرون ديناراً، فإذا كانت لك عشرون ديناراً، وحال عليها الحول، ففيها نصف دينار»

"اگر تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پرایک سال مکمل ہو چکا ہو،تو ان پر پانچ درہم زکوة ہے۔تمہیں سونے پر کچھ بھی ادا کرنا نہیں پڑے گا جب تک کے تمہارے پاس بیس دینار نہ ہوں اور اگر اُن پر مکمل ایک سال گزر چکا ہے تو ان پر نصف دینار زکوة ہوگی"(ابو داؤد سےروایت ہے)۔

 

اور جیسا کہ حضرت علی نے فرمایا:

«في كل عشرين ديناراً نصف دينار، وفي كل أربعين ديناراً دينار»

"ہر بیس دینار پر آدھا دینار(زکوٰة )ہے،اور چالیس دینار پر ،ایک دینار ہے"۔

 

اور حضرت علی سےروایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا:

«فهاتوا صدقة الرقّة، في كل أربعين درهماً، درهماً وليس في تسعين ومائة شيء، فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم ۔ ۔»

" رقہ کا صدقہ لاؤ، ہر چالیس درہم  پر ایک درہم ،اور ایک سو  نوے پر کچھ نہیں ،لیکن جب یہ مقدار دو سو پر پہنچ جائے  تو اس  پر پانچ  درہم زکوة لی  جائے گی"(اسے  احمد اور  بخاری نے روایت کیا) ۔

 

اور عبد الرحمن انصاری سے روایت ہے جنہوں نے کہا کہ صدقہ  پررسول اللہ ﷺ کی کتاب اورعمر کی لکھوائی ہوئی تحریر میں درج ہے:

«والورِق لا يؤخذ منه شيء حتى يبلغ مئتي درهم... »

"چاندی سے کچھ نہیں لیا جا سکتا جب تک کہ دو سو درہم تک نہ پہنچ جائے "(اسے  ابو عبید نے  روایت کیا)۔

 

یہ تمام احادیث سونے اور چاندی کے بطور کرنسی اور پیسے کی خصوصیت کی نشاندہی کرتی ہیں ،کیونکہ یہاں رِقہ کی اصطلاح استعمال کی گئی اورحدیث"ہر چالیس کے لئے ایک درہم"میں ان کے بطور کرنسی ہونے کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اورورِق، درہم اور دینار؛ تمام وہ اصطلاحات ہیں جو سونے اور چاندی کے سکّوں کے لئے استعمال کی جاتی تھیں یعنی کرنسی اور قیمت کے معنوں میں۔ احادیث میں ان اصطلاحات کے استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے مراد کرنسی اور قیمت ہے۔اور زکوة، دیت، کفارہ، چور کا ہاتھ کاٹنا اور دیگر احکامات ان دو خصوصیات کے ہونے کی وجہ سے سونے اور چاندی سے منسلک ہیں۔

 

اور چونکہ کاغذی نوٹ پیسے کے طور پر اپنائے گئے ہیں،اشیاء کی قیمت کے طور پر اورفوائد اور خدمات کی ادائیگی کے لیے،اور سونا اور چاندی اور دیگر تمام ساز و سامان کاغذی نوٹوں کی مدد سے خریدا جاتا ہے۔ اورچونکہ یہ کاغذی نوٹ سونے اور چاندی کی کرنسی اور قیمت ہونے کی خصوصیت پر پورا        اُترتے ہیں، اور سونے اور چاندی پر زکوٰۃ کے واجب ہونے کی احادیث میں یہ بھی شامل ہیں۔لہٰذا، زکوۃ ان کاغذی نوٹوں پر بھی فرض ہے جیسا کہ سونے اور چاندی پر فرض ہے اور ان  نوٹوں پر زکوٰۃ سونے اور چاندی کے حساب سے لی جائے گی۔جوبھی کاغذی نوٹوں کی ملکیت رکھتاہے ،اگر اس کے پاس بیس دینار سونے کی قیمت کےبرابر کاغذی نقدی  ہے،یعنی 85 گرام سونے کے برابرجو سونے کانصاب ہے،یا  دو سو درہم یعنی 595 گرام چاندی کے برابر نقدی ہے، جس پر ایک سال گزر چکا  ہو ، تو اس  پرزکوٰةفرض ہے اور وہ اس کے دسویں حصے کا چوتھائی زکوۃ کے طور پر دے گا ۔

سونے پر زکوة سونے میں ادا کی جاتی ہے،اور اُس قابلِ اعتماد کرنسی میں جوا ُس کی نمائندگی کرتی ہو۔ چاندی پر زکوة چاندی میں ادا کی جاتی ہے، اور اُس  قابلِ اعتماد کرنسی میں جو ُاس کی نمائندگی کرتی ہو۔اسیطرح،سونے پر زکوٰۃ چاندی اور کاغذی نوٹوں میں ادا کی جا سکتی ہے جبکہ چاندی پر زکوة سونے اور کاغذی نوٹوں میں بھی ادا کی جاسکتی ہے  کیونکہ یہ تمام پیسے اور قیمتیں ہیں ،لہٰذایہ ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں اور یہ ایک دوسرے کی جگہ پر  ادا  کیے جاسکتے ہیں کیونکہ اس عمل سےمقصد ادا ہوجاتا ہے۔

 

اور چونکہ ان کاغذی نوٹوں پرزکوٰة واجب ہے، اس لئے ان پر دیت،کفارہ، چور کا ہاتھ کاٹنے کے احکامات اور دیگر احکامات بھی لاگو ہونگے ۔لہٰذا سونے اور چاندی پر اُن کے کرنسی کے طور پر استعمال ہونےکی وجہ سےسود  کے احکامات لاگو ہوتے  ہیں نہ کہ اُن کے اشیاء کےطور پر استعمال ہونے کی وجہ  سے،اور اسی لئے کاغذی نوٹوں پرسود کے احکامات اُن کے کرنسی کے طور پر استعمال ہونے کی شرعی علت کی وجہ سے ہیں۔

 

جہاں تک قرض کا تعلق ہے، تو قرض ان چھ اشیاء میں جائز ہے اور ان کے علاوہ دوسری  اشیاء میں بھی جائز ہے جن کی ملکیت جائز ہے یا جن کی ملکیت قانونی طریقے سے تبدیل ہوسکتی ہے ،اور جب تک کہ ان اشیاء کے قرض سےمنافع اُٹھانے کا عمل نہ کیا گیا ہوسود واقع نہیں ہوتا، کیونکہ حارث بن ابی اسامہ نے علی ؓ سے حدیث روایت کرتے ہیں کہ:

«أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن قرض جر منفعة»

"رسولﷺ نے ہ راُس قرض کوممنوعہ قرار دیا ہے کہ جس میں منافع داخل ہو "۔

 

ایک اور روایت میں ہے:

كل قرض جر منفعة فهو رباً

"ہر وہ قرض جس میں منافع داخل ہو سود ہے"۔ 

 

جو چیز اس سے مستثنیٰ ہے وہ قرض کو بغیر اضافے کے احسن انداز سے واپس کرنا ہے، جیسا کہ ابو داؤد نے  ابی رفیع سے روایت کیا کہ:

«استسلف رسول الله بكراً فجاءته إبل الصدقة فأمرني أن أقضي الرجل بكره فقلت لم أجد في الإبل إلا جملاً خياراً رباعياً فقال: أعطه إياه فإن خيار الناس أحسنهم قضاء»

"نبی ﷺنے ایک جوان اونٹ قرض لیا اور پھر ان کے پاس کچھ صدقے کے اونٹ آئے ،تو آپﷺ نے مجھےحکم دیا کہ آدمی کو اس کا جوان اونٹ لوٹا دو ،میں نے آپﷺ کو آگاہ کیا کہ مجھے ایک اچھے خاصے چار سالہ اونٹ کے علاوہ کوئی اونٹ نہیں ملا۔ تو آپﷺ نے فرمایا: اسے یہی دے دو،اور  فرمایا  بے شک وہ  شخص سب سے بہتر  ہے جو قرض لوٹانے میں سب سے بہتر ہے"۔

 

لہٰذا کوئی بھی قرض جو مندرجہ بالا ذکر کی گئی چھ اشیاء یا  دیگر چیزوں پر مشتمل ہو تو اسے مالک کو بغیر کسی "فائدے یا منافع" کے واپس کرنا چاہئے، ورنہ یہ سود ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ جائز نہیں ہے کہ آپ ایک ٹن لوہا قرض لیں اور اسے ڈیڑھ ٹن لوہا واپس لوٹائیں، ورنہ یہ سود(رِبا) ہوگا۔

مجھے امید ہے کہ انشا اللہ ،آپ کو جواب واضح ہوگیا ہوگا۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خليل ابو رَشتہ

14 ربیع الثانی'1439 ہجری

یکم جنوری2018 عیسوی

   

  

 

 

 

Last modified onمنگل, 03 اپریل 2018 00:52

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک