الثلاثاء، 03 جمادى الأولى 1446| 2024/11/05
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

  •  سوال و جواب: 
  • کاسمیٹک سرجری کے متعلق حکمِ شرعی کیا ہے؟

 سوال:

امیرِ محترم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،کاسمیٹک سرجری پر حکم شرعی (قانونی حکم ) کیا ہے؟

مراد معالج

 

جواب:

و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

1۔ اگر پلاسٹک سرجری علاج کے غرض سے ہے، جیسے کہ جسم کے کسی حصہ کے مسخ ہونے کی خرابی سے نمٹنے کے لئے جو کسی بیماری یا حادثے یا آگ سے جلنے کی وجہ سے ہو جائے یا پیدائشی نقص کو ہٹانے  کے لیےجیسے کہ کوئی اضافی انگلی کو کاٹنا یا انگلیوں کے آپس میں جڑے ہونے کو الگ کرنا،یا اسی طرحکی کوئی اور سرجری کرنا،  تو یہ جائز ہے۔ اس کا ثبوت ترمذی میں عرفجہ بن اسعدکی روایت ہے کہ جس میں انہوں نے کہا  : 

 

«أُصِيبَ أَنْفِي يَوْمَ الْكُلَابِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَاتَّخَذْتُ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ فَأَنْتَنَ عَلَيَّ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ أَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ »

"میری ناک جاہلیت کے زمانےمیں(اسلام سے پہلے) الکلاب کے دن مسخ  ہو گئی تھی۔لہذا میں نے ورق (چاندی) کی ایک ناک لگوالی جس میں  سے بدبو آنے لگی،اس پر اللہ کے رسولﷺ نے مجھے حکم دیا کے  میں سونے کی ناک بنوالوں۔"

 

ابو عیسیٰ نے اس حدیث کو حسن غریب کہا ہے۔ نسائی نے عرفجۃ بن اسعد سے حدیث روایت کی جس میں انہوں نے  فرمایا: 

 

«أصيب أنفه يوم الكلاب في الجاهلية فاتخذ أنفا من ورق فأنتن عليه فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يتخذ أنفا من ذهب» 

"اس کی ناک جاہلیت کے زمانے (اسلام سے پہلے)الکلاب کے دن مسخ ہو گئی تھی۔لہذا اُس نے ورق (چاندی) کی ایک ناک لگوالی جس میں  سے بدبو آنے لگی، اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے اُس کو حکم دیا کےوہ سونے کی ناک بنوالے"۔

 

البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔"ورق کی ناک" کے معنی  ہیں،چاندی کی ناک ،جس سے پتا چلتا ہے کہ علاج  کے غرض سے پلاسٹک سرجری کرنا جائز ہے۔

 

2- تاہم اگر سرجری بہترنظر آنے اور خوبصورتی کے لئے کی جائے، اور علاج کے غرض سے نہیں، تو یہ جائز نہیں ہے اور اس کے ثبوت مندرجہ ذیل ہیں: 

امام بخاری ؒ نے علقمۃ سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ نے بیان کیا: 

 

«لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ تَعَالَى »

"اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو نقش (ٹیٹو) بنواتی ہیں،جوچہرے کے بال یا بهنوئیں بنوانے کے لئے  بال اُکھڑواتی ہیں،اورجوعورتیں خوبصورت نظر آنے کے لئے اپنے سامنےوالے دانت الگ کرواتی ہیں، یعنی جس  چیز کو اللہ تعالیٰ نے بنایا اسے تبدیل کرواتی ہیں"۔

 

اور مسلم نے اِن  الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :

 

«لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّه» 

"اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُن عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو نقش (ٹیٹو) بنواتی ہیں،جو اپنے چہرے کے بال یا بهنوئیں بنوانے  کے لئے بال اُکھڑواتی ہیں، اور جو عورتیں خوبصورت نظر آنے کے لئے اپنے سامنےوالے دانت الگ کرواتی ہیں، یعنی جس  چیز کو اللہ تعالیٰ نے بنایا اسے تبدیل کرواتی ہیں"۔

 

حدیث سے واضح ہے کہ وہ خواتین جو اپنے سامنے کے دانت خوبصورتی کے لئے علیحدہ کرواتی ہیں وہ گنہگار ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام حرام ہے، اور لفظ "خوبصورتی کے لئے" علت کے طور پر ہے کیونکہ یہ وصف مفہم (reasoned description) ہے۔ ایک خاتون جو خوبصورتی کی خاطر اپنے دانتوں کے بیچ جگہ بنوائے وہ گنہگار ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر یہ خوبصورتی کے لئے نہیں بلکہ علاج کے غرض سے ہے تو یہ جائز ہے۔ لسان العرب میں بیان کیا گیا ہے: "'الفلج' کا مطلب، پیدئشی طور پر سامنے اور اطراف کے دانتوں کا الگ الگ ہوناہے، لیکن اگر یہ مصنوعی طور پر یعنی خود سے کیا جائے تو اسے 'التفلیج' کہتے ہیں۔ اور 'رجل الفلج' کے معنی ایک ایسے مرد کے ہیں کہ جس کے دانت الگ الگ ہوں، اور 'امرأة فلجاء' کے معنی ایک ایسی عورت کے ہیں کہ جس کے دانت الگ الگ ہوں"۔

 

لہٰذا،"المتفلجۃ"کے معنی ایک ایسی عورت کے ہیں کہ جو اپنے دانتوں کو رگڑواتی ہے تاکہ دانت چھوٹے ہوجائیں اور ان کے   درمیان فاصلہ کم ہوجائے، دانت خوبصورت لگیں اور وہ ایک نوجوان لڑکی کی طرح  نظر آنے لگے، یعنی دانتوں میں کوئی خرابی نہ ہو کہ جس کے لئے علاج کی ضرورت ہے بلکہ ظاہری شکل اور خوبصورتی کے لئے دانتوں کو بنوانا، تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس میں نبی ﷺ نے لعنت بھیجی ہے ایسی عورتوں پر جس نے اپنے دانتوں کو خوبصورتی کے لئے جدا کروایا ہو، یعنی وہ مصنوعی خوبصورتی کی خاطر یہ کرتی ہوں۔ تو یہ "خوبصورتی" شرعی وجہ (علت) ہے اس ممانعت میں، لہٰذ اگر یہ موجود نہیں ہو،  یعنی اگر یہ خوبصورتی کے لئے نہیں ہو، تو جائز ہے، یعنی علاج کے غرض سے۔

 

النووی نے خوبصورتی سے متعلق المتفلجات کے بارے میں مسلم کی حدیث کی شرح میں بیان کیاہ ے: "المتفلجات'فا' اور 'جیم'  کے ساتھ ،جس سے مرادمفلجات الاسنان ہے یعنی سامنے اور اطراف کے دانت کو کاٹنا، لفظ 'الفلج' جس کے معنی سامنے اور اطراف کے دانتوں کے درمیان فاصلہ ہے، بزرگ خواتین نوجوان لگنے اور اپنے دانتوں کی خوبصورتی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ فاصلہ عملِ جراحت کے ذریعےکرواتی ہیں، کیونکہ دانتوں کے درمیان یہ خوشگوار فاصلہ نوجوانی میں لڑکیوں میں ہوتا ہے۔۔۔ پس ان کے بیان کے مطابق المتفلجات سے مراد خوبصورتی ہے کہ وہ خوبصورتی کی خاطر یہ کرواتی ہیں اور اس سے پتا چلتا ہے کہ اگر یہ خوبصورتی کے لئے کیا جائے تو یہ حرام ہے۔لیکن اگر علاج کے غرض سے ضرورت ہو یا دانتوں میں خرابی کی وجہ سے یا اسی طرح کچھ، تو یہ جائز ہے، اور اللہ سب سے بہتر جانتا ہے"۔

 

لہذا،شرعی وجہ (علت) "خوبصورتی" ہے، لہٰذا اگر سرجری علاج کے غرض سے انجام دی جائے تو اس کی اجازت ہے، لیکن اگر سرجری بہترنظر آنے اور خوبصورتی کے لئے کی جائے، اور علاج کے غرض سے نہیں، تو یہ جائز نہیں ہے۔ 

میں اس رائے کوترجیح دیتا ہوں اور اللہ سب سے بہتر جانتا ہے اور وہ زیادہ حکمت والا ہے۔

 

آپ کا بھائی،

عطاء بن خلیل ابو رَشتہ

25رجب 1439 ہجری

12 اپریل 2018 

Last modified onمنگل, 19 جون 2018 21:30

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک