الخميس، 24 جمادى الثانية 1446| 2024/12/26
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

سنتِ نبویﷺ بھی بالکل قرآن کریم کی طرح شرعی دلیل ہے

احمد القیروان کے سوال  کا جواب

 

سوال:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  شیخ عطاء۔ میرا ایک بہت ہی اہم سوال ہے ،کیا رجم(سنگسار) کا حکم قرآن  یا متواتر صحیح احادیث میں آیا ہے ؟ میں نے اس حوالے سے تحقیق کی  مگر یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ حکم  شریعت میں کیوں ہے؟ مثلاً جس طرح (السارق والسارقة فاقطعو ايديهما"چور مرد اور چور عورت کا ہاتھ کاٹ دو" یا (الزاني والزانية فاجلدوا) ْ ْزانی اور زانیہ کو اتنے اتنے  کوڑے مارو وغیرہ ذکر ہیں ، اس طرح رجم کاحکم قرآن میں نہیں۔ کیا ہم شریعت اور اس کے احکامات کی قرآن میں سے پیروی کرتے ہیں یا احادیث میں سے؟  آپ مجھ سے یہ کہیں گے کہ مثال کے طور پر نماز کی حرکات یا وضو کی ترتیب قرآن میں مذکور نہیں  ،جس کا مطلب ہے کہ ہر چیز قرآن میں ہی مذکور  نہیں ہوتی ہے، وغیرہ۔ مگر یہ حکم  ریاضی کے قاعدے ایک جمع ایک مساوی دو کی طرح حتمی ہے۔  یعنی یہ بنیادی اصول ہے کہ جو چیز قرآن میں ہے ہم اس کے مطابق فیصلے کریں گے اور جو قرآن میں نہیں اس کواساسی قانون کی حیثیت سے نہیں لیں گے۔ ہاں تفصیلات میں بحث اور اجتہاد کرسکتے ہیں اور حدیث کو تفصیلات کیلئے لے سکتے ہیں مگر یہ ممکن نہیں کہ حدیث سے اساسی حکم لیا جائے اور اصل کو چھوڑ دیا جائے، شکریہ۔

 

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اول: سوال میں آپ کا یہ کہنا کہ] یہ بنیادی اصول کہ جو چیز قرآن میں ہے ہم اس کے مطابق فیصلے کریں گے اور جو قرآن میں نہیں اس کو نہیں لیں گے[  یہ بات اسلام اور مسلمانوں کے لیے حیران کن ہے۔  مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ سنت نبوی بالکل قرآن ہی کی طرح شرعی دلیل ہے اور مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ سنت نبوی  میں جو کچھ آیا ہے یہ اللہ کی جانب سے وحی ہے اور اس کی پیروی قرآن کی پیروی کی طرح ہی واجب ہے جس میں کوئی تفریق نہیں۔۔۔ صحابہ کرامؓ کے دور سے آج تک مسلمانوں کا یہی موقف ہے۔۔۔ہم نے اس کی وضاحت اپنی کتاب "اسلامی شخصیت" میں: "سنت قرآن کی طرح شرعی دلیل ہے" اور "سنت سے استدلال"  کی بحث میں کی ہے،  اسی طرح کتاب ،اسلامی شخصیت جزو 3 میں "دوسری دلیل:سنت" کی بحث میں کی ہے،  اس کی طرف رجوع کریں، وہ کافی ہے ان شاءاللہ۔  میں اسلامی شخصیت جزو1، میں "سنت قرآن کی طرح ہی شرعی دلیل ہے" کی بحث سے  یہ آپ کے لیے نقل کرتا ہوں:

 

         ( سنت قرآن کی  طرح شرعی دلیل ہے، کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے وحی ہے۔ سنت کو ترک کرکے قرآن تک محدود رہنا کھلم کھلا کفر ہے، یہ اسلام سے خارج لوگوں کی رائے ہے۔ جہاں تک سنت کے اللہ کی طرف سے وحی ہونے کی بات ہے یہ قرآن میں صریح طور پر ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:﴿قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُكُم بِالْوَحْيِ﴾ "کہہ دیجئے  کہ میں صرف  وحی کے  ذریعے تمہیں ڈراتا ہوں" (انبیاء:45)۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے﴿إِن يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ﴾  "میری طرف تو صرف وحی کی جاتی ہے کہ میں تو صرف صاف صاف ڈرانے والا ہوں" (ص:70)۔ اور اللہ نے فرمایا:﴿إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ﴾ "میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتاہوں جو میری طرف کی جاتی ہے"(الاحقاف:9)۔ اور اللہ فرماتاہے:   ﴿قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي﴾ "کہہ دیجئے میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میری طرف کی جاتی ہے"(الاعراف:203)۔ اللہ نے فرمایا: ﴿وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾ "یہ خواہش سے نہیں بولتے یہ جو بھی کہتے ہیں وہ صرف وحی ہے"(النجم:4-3)۔

 

یہ آیات اپنے معانی میں اور اپنے ثبوت میں قطعی ہیں کہ رسول ﷺ جو  کہتے ہیں، جس کے ذریعے ڈراتے ہیں ،جو بولتے ہیں ،وہ صرف وحی ہے، یہ  وحی سے ہی صادر ہے جس میں کسی تاویل کا بھی احتمال نہیں۔ یوں سنت قرآن ہی کی طرح وحی ہے۔

 

         رہی بات سنت کے قرآن کی طرح واجب الاتباع ہونے کی تو یہ بھی قرآن میں صریح طور پر ہے۔اللہ تعالی فرماتاہے:﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا﴾"اورجو کچھ رسول تمہیں دیں لے لو، جس چیز سےبھی منع کریں رُک جاؤ"(الحشر:7)۔اور فرمایا: ﴿مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ﴾" جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی"(النساء:80)۔اور فرمایا:﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ "رسول ﷺکے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو محتاط ہونا چاہیے کہ کہیں وہ فتنے کا شکار ہوجائیں یا ان کو دردناک عذاب گھیر لے"(النور:63)۔اور فرمایا:﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾ "کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ  اللہ اور اس کے رسولﷺ کوئی فیصلہ کریں تو ان کو اپنے امور میں کوئی اختیار ہو"(الاحزاب:36)۔اور فرمایا:﴿فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيماً﴾" تیرے رب کی قسم! یہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ  اپنے اختلافات میں آپ ﷺ کو ثالث نہ بنائیں اور پھر تمہارے فیصلوں کے بارے میں اپنے دل میں ناگواری نہ رکھیں اور سرتسلیم خم نہ کریں"(النساء:65)۔اور فرمایا:﴿أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾"اطاعت کرو  اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی"(النساء:59)۔اور  فرمایا:﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ﴾ "کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو"(آلِ عمران:31)۔

 

یہ تمام آیات رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے واجب ہونے کے حوالے سے واضح اور صریح ہیں یعنی جو بھی آپ ﷺ لے کر آئے ہیں اور آپ ﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔یوں قرآن اور حدیث میں جو کچھ آیا ہے اس کے واجب الاتباع ہونے کے لحاظ سے یہ دونوں شرعی دلیل ہیں، اس موضوع میں حدیث قرآن ہی کی طرح ہے۔ اسی لیے یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے جس سے ہم لیں گے، اس سے سنت کو ترک کرنے کا مفہوم نکلتا ہے۔ بلکہ سنت کو  کتاب سے جوڑنا  اور حدیث  کو بھی قرآن کی طرح شرعی دلیل کے طور پر لینا لازمی ہے،  کسی مسلمان کے منہ سے ایسی بات نہیں نکلنی چاہیے جس سے یہ لگے کہ وہ حدیث کو چھوڑ کر قرآن پر اکتفا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حوالے سے متنبہ کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

«يُوشِكُ أَنْ يَقْعُدَ الرَّجُلُ مِنْكُمْ عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدِّثُ بِحَدِيثِي، فَيَقُولُ: بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ، فَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَلَالًا اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ حَرَامًا حَرَّمْنَاهُ، وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ كَمَا حَرَّمَ اللَّهُ»

" عنقریب تم میں سے ایک شخص اپنے صوفے پر بیٹھ کر میری حدیث کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہے گا: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے،  اس میں جو ہمیں حلال نظر آئے ہم اس کو حلال سمجھیں گے  اس میں جو حرام ہو اس کو حرام کہیں گے، یقینا اللہ کے رسول نے جس چیز کو حرام کیا وہ اللہ کی جانب سے حرام کیے ہوئے کی طرح ہے"۔

 

اس کو حاکم اوربیھقی نے روایت کیا ہے۔  جابرؓ سے مرفوعا ایک روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ بَلَغَهُ عَنِّي حَدِيثٌ فَكَذَّبَ بِهِ، فَقَدْ كَذَّبَ ثَلَاثَةً: اللَّهَ، وَرَسُولَهُ، وَالَّذِي حَدَّثَ بِهِ»

"جس کے پاس میری حدیث پہنچے اور وہ اس کو جھٹلائے اس نے تین چیزوں کو جھٹلایا ،اللہ کو، اس کے رسول ﷺ کو اور اس کو جس نے اس حدیث کو بیان کیا"(مجمع الزوائد میں جابر سے روایت)۔

 

یہی وجہ ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم قرآن سے حدیث کو پرکھیں گے ، اگر حدیث قرآن کے مطابق نہ ہو تواس کو مسترد کریں گے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اس حدیث کو بھی مسترد کیا جائے گا جو قرآن کے لیے تخصیص یا مقید یا اس کےمجمل کے لیے مفصل ہو۔ کیونکہ ایسا لگے گا کہ حدیث قرآن کے مطابق نہیں یا قرآن میں نہیں، جیسے کہ وہ احادیث ہیں جو فروع کو اصول سے ملاتی ہیں۔ حدیث میں ایسے بہت سے احکام ہیں جو قرآن میں مذکورنہیں خاص طور پر بہت سارے تفصیلی احکامات جو قرآن میں نہیں بلکہ صرف حدیث میں آئے ہیں۔

 

لہذا حدیث کو قرآن پر پرکھ کر یہ نہیں کہا جائے گا کہ جو قرآن میں بھی ہے اس کو قبول کیا جائے گا اور جو قرآن میں نہیں اس کو مسترد کیا جائے گا۔  بلکہ اس حوالے سے حکم یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی حدیث ہو جو قرآن کے قطعی معنی سے متناقض ہو  تب اس کو درایتاً یعنی اس کے متن(عبارت) کے اعتبار سے نہیں مانا جائے گا کیونکہ اس کا معنی قرآن سے متصادم ہے۔ اس کی مثال فاطمہ بنت قیس کی روایت ہے جب انھوں نے کہ: »

طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثاً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فَلَمْ يَجْعَلْ لِي سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً«

"مجھے میرے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کےعہد میں تین طلاقیں دیں، میں نبی ﷺ کے پاس گئی  لیکن آپ ﷺ نے میرے لیے کوئی رہائش اور نفقہ لازم نہیں کیا"۔

یہ روایت مسترد ہے کیونکہ  یہ قرآن کی قطعی نص کے خلاف ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ﴾ "ان کو اپنی استطاعت کے مطابق ایسے ہی رہائش دو جیسے تمہاری رہائش ہے" (الطلاق:6)۔ لہٰذا اس حدیث کو مسترد کیا گیا کیونکہ یہ قرآن کی قطعی نص اور قطعی معانی سے متضاد ہے۔  اگر حدیث  قرآن سے متناقض نہ ہو بلکہ ایسے امور پر مشتمل ہو جو قرآن میں نہ ہوں  یا جو قرآن میں ہوں لیکن اس میں اضافہ کرے تب  قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کو بھی لیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہم قرآن پر اکتفا کریں گے کیونکہ اللہ نے  دونوں کا حکم ایک ساتھ دیا ہے اور ان دونوں پر ایک ساتھ اعتقاد فرض ہے) ۔یہاں تک کتاب ْاسلامی شخصیتٗ ٗ جزو اول سے اقتباس ختم ہوگیا۔

 

مذکورہ بالا  سے یہ  واضح ہوگیا کہ  حکم شرعی  بغیر کسی فرق کے سنت ِمطہرہ سے بالکل ایسا ہی اخذ کیا جائے گا، جیسا کہ قرآن کریم سے اخذ کیا جاتا ہے ،  کسی حکم کو اخذ کرنے کے لیے اس کا قرآن ہی میں مذکور ہونا لازمی نہیں،  بلکہ حکم شرعی کو  اس وقت بھی اخذ کیا جاسکتا ہے جب صرف سنت نبوی ﷺمیں اس کا ذکر ہو۔۔۔ شادی شدہ زانی کو سنگسارکرنے کا موضوع سنت کے ذریعے  قرآن کے عموم کی تخصیص کے باب سے ہے، شادی شدہ   زانی کو سنگسار کرنا  آیت کے عموم کی تخصیص ہے، جس کی رو سے زانی کو کوڑے مارنے کا حکم ہے جیسا کہ ذیل میں بیان ہوا ہے۔۔۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ  زانی کو سنگسار کرنے کا حکم فقط سنت ہی دیتی ہے کیونکہ زانی  کی سزا کا حکم قرآن میں بیان کیا گیا ہے،  بالفاظِ دیگر اصلا ًقرآن میں زانی کی سزا دینے کی بات کی گئی ہے، پھر سنت  نے قرآن کی وضاحت کی  اور عموم کی تخصیص کی، اس کو مستثنیٰ کرتے ہوئے بیان کیا کہ   غیر شادی شدہ کی سزا کوڑے اور شادی شدہ کی سزا  مرجانے تک سنگسار کرنا ہے۔۔۔سنت کے ذریعے قرآن کے عموم کی تخصیص  شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کے موضوع تک محدود نہیں بلکہ بہت سے موضوعات اس میں موجود ہیں۔۔۔

 

دوسرا: اس سے پہلے ہم نے 12 محرم 1441 بمطابق11 ستمبر2019کو شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کے موضوع پرسوال کا جواب دیا تھا، میں اس جواب میں سے آپ کے سوالات کے جوابات نقل کرتا ہوں:

 

(آپ نے شادی شدہ زانی کی سزا کے بارے میں سوال کیا ہے کہ کیا یہ فقہ اسلامی میں قطعی ہے؟ کیا یہ حدود میں سے ہے یا حدود میں سے نہیں بلکہ تعزیرات میں سے ہے جیسا کہ موجودہ دور کے بعض علماء کہتے ہیں؟

 

آپ کے سوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے:

 

شادی شدہ زانی کو موت تک سنگسار کرنے کی سزا شرعی احکامات کے باب میں سے ہے  ،یہ عقائدکے باب میں سے نہیں ۔یہ بھی دیگر تمام شرعی احکامات کی طرح ہے  جن میں یہ شرط نہیں کہ  ان پر عمل کرنے کے لیے ان کی دلیل قطعی ہو ، بلکہ ان میں غالب گمان کافی ہے جیسا کہ فقہ کے اصولوں میں معروف ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ   اس پر عمل کرنے کے لیے اس سزا کی دلیل کے قطعی یا غیر قطعی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،  بلکہ اہم یہ ہے کہ شریعت میں اس سزا کی دلیل ثابت ہو،  شریعت میں  بہت سے صحیح دلائل موجود ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں کہ  شادی شدہ زانی  کی سزا موت تک سنگسار کرنا ہے جن  میں شک کی کوئی گنجائش نہیں   ،  جیسا کہ ذیل میں مذکور ہیں۔

 

موجودہ دور کے بعض علماء کے بارے میں یہ ملاحظہ کیا جارہا ہے کہ وہ  شرعی احکامات کو ان کے دلائل سے اخذ کرنے میں درست طریقہ کار استعمال نہیں کرتے،  کیونکہ وہ  شرعی  حکم کو تلاش کرتے وقت  زمانے  کے ساتھ چلنے اور ایسی رائے تک پہنچنے کی کوشش کر تے ہیں جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے معاہدوں  وغیرہ کے نام پر مغربی تہذیب کے ذریعے لوگوں پر مسلط کیے گئے اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔۔۔یہ بات درست نہیں،  کیونکہ  درکار صرف اللہ کا حکم ہے، کوئی اور حکم نہیں،  نہ ہی ایسا حکم درکار ہے جو  دنیا میں رائج قوانین، دستاویزات اور آراء کے موافق ہو۔۔۔فرض تو یہ ہے کہ  حکم شرعی کو اس کے دلائل سے مِن وعَن اَخذ کیا جائے اور اس کو نافذ العمل بنایا جائے ،پھر  دنیا بھر میں اس کو رائج کیا جائے   ۔ یہی حکم بنی نوع انسان کے حق میں بہتر ہے کیونکہ یہ انسان اور دنیا کے خالق کی طرف سے ہے جو کہ جہانوں کے  احوال سے خوب باخبر ہے۔﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ "کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا؟ ،وہ تو مہربان اور باخبر ہے"(الملک:14)۔ ﴿أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾"سنو تخلیق اور حکم اسی کا ہے، پاک ہے جہانوں کا پروردگار"(الاعراف:54)۔

 

  اسی لیے ان لوگوں کے اقوال کو کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہیے ،جو اپنے استنباط میں زمانے کے ساتھ چلنے اور مغربی تہذیب کے موافق بات کرتے ہیں ،چاہے  یہ حالات کے دباؤ سے ایسا کرتے ہوں یا مغربی کفار کو خوش کرنے کےلیے۔۔۔

 

یقیناً شادی شدہ کے حق میں زنا کی سزا یعنی موت تک سنگسار کرنا اور غیر شادی شدہ کے لیے  سو کوڑوں کی سزا ،اسلام میں حدود میں داخل ہے۔ہم نے حد زنا کے احکام ْنظام العقوبات نامی کتاب میں مکمل تفصیل کےساتھ بیان کیے ہیں،مذکورہ کتاب سے 'حد زنا'کے باب میں  آئے کچھ احکامات نقل کیے دیتا ہوں:

(بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورت  کی حد سو کوڑے ہیں،خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، یعنی ان میں کوئی فرق نہیں،اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ﴾"ْزنا کار مرد اورزنا کار عورت ،ہر ایک کو سو کوڑے مارو اورتمہیں الله کے معاملہ میں ان پر ذرا رحم نہ آنا چاہیے"(النور:2)۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ  اللہ کی کتاب جو قطعی و یقینی ہے کو آحاد احادیث کی وجہ سے چھوڑنا جائز نہیں جس میں جھوٹ ممکن ہے،نیز یہ بات سنت کے ذریعے کتاب اللہ کو منسوخ کرنے کا باعث ہے ،جو کہ ناجائز ہے۔

 

عمومی طو رپر تمام اہل علم  یعنی صحابہؓ ، تابعین اور ان کے بعد  تمام زمانوں کے بڑے علماء کہتے ہیں کہ غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور شادی شدہ کو پتھروں سے مار کر سنگسار کیاجائے گا یہاں تک کہ وہ مرجائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ماعز کو رجم کیا تھا۔نیز حضرت جابر  بن عبد اللہؓ سے روایت کی گئی ہے : ((أَنَّ رَجُلًا زَنَى بِامْرَأَةٍ فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ فَجُلِدَ الْحَدَّ، ثُمَّ أُخْبِرَ أَنَّهُ مُحْصَنٌ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ)) " ایک آدمی نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا  پھر اس کو حد زنا یعنی سو کوڑے مارے گئے پھر آپ ﷺ کو بتایا گیا  کہ و ہ شادی شدہ ہے تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور اسے سنگسار کیا گیا"۔

 

ان دلائل میں غور کرنے والا دیکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول : ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ﴾ زنا کار مرد اور زنا کار عورت ، دونوں کو سو کوڑے مارو"(النور:2)۔  اس آیت کریمہ میں زانی اور زانیہ کا لفظ عموم والے الفاظ میں سے ہیں، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی دونوں شامل ہیں۔نیز حدیث میں آیا ہے کہ :(( وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا))"اے اُنیس ! اس عورت کے پاس جاؤ ،اگر اس نے (زنا کا) اقرار کیا تو اسے سنگسار کردو"اور یہ ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ماعز کو اس وقت سنگسار کیا جب آپ ﷺ نے اس  کے شادی شدہ ہونے کے بارے میں پوچھا ، اور غامدیہ عورت کو بھی سنگسار کیا تھا، یہ تمام صحیح احادیث میں ذکر ہے، لہٰذا حدیث آیت میں تخصیص کرتی ہے۔

 

تو ان احادیث نے قرآن کے اس عام حکم کو  غیر شادی شدہ کے ساتھ خاص کردیا اور ان احادیث نے شادی شدہ کو اس آیت سے مستثنیٰ کردیا، چنانچہ احادیث نے اس عام کی تخصیص کی ہے ،اور احادیث نےقرآن (کی آیت) کومنسوخ نہیں کیا۔ قرآن کی سنت کے ساتھ تخصیص جائز ہے  اور متعدد آیات میں وقوع پزیر ہوئی ہے، جن میں حکمِ عام ذکر ہوا ہے اور احادیث نے اس حکم کو خاص کردیا ہے۔

 

اور جس شرعی حکم پر شرعی دلائل  یعنی کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں ، وہ یہ  ہے کہ غیر شادی شدہ کے لیے زنا کی سزا سو کوڑے ہیں ،جیسا کہ قرآن نے بتایا ہے، اور اس کے علاوہ اس کو ایک سال کیلئے علاقہ بدر کیا جائے گا جیسا کہ سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ البتہ علاقہ بدر کرنا جائز ہے، واجب نہیں، اور یہ امام کے سپرد ہے، وہ چاہے تو کوڑوں کے ساتھ ایک سال کے لیے علاقہ بدر کردے ، اور چاہے تو  صرف کوڑے مارے ، نکالے نہیں۔لیکن یہ جائز نہیں کہ اس کو کوڑے مارے بغیر فقط علاقہ بدر کرنے پر اکتفا کرے، کیونکہ اس کی سزا کوڑے ہیں۔ جہاں تک شادی شدہ زانی کی سزا کی بات ہے تو  وہ   رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئےاُسے رجم کرنا ہے یہاں تک کہ وہ مرجائے، کیونکہ سنگسار کرنے کے بارے میں وارد احادیث کتاب اللہ کی تخصیص کرتی ہیں۔ شادی شدہ آدمی کی سزا میں  کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کو جمع کرنا جائز ہے، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے اسے کوڑے مارے جائیں پھر سنگسار کیا جائے اور صرف سنگسار کرنا بھی جائز ہے ، یعنی کوڑے نہ مارے جائیں،لیکن یہ جائز نہیں کہ  اسے صرف کوڑے مارے جائیں کیونکہ اس کی فرض سزا رجم یاسنگسار کرنا ہے۔

 

جہاں تک شادی شدہ کی سزا کی دلیل ہے تو اس کے بارے میں بہت زیادہ احادیث آئی ہیں:

((فعن أبي هريرة وزيد بن خالد أنهما قالا إن رجلاً من الأعراب أتى رسول الله ﷺ فقال: «يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ لِي بِكِتَابِ اللَّهِ، وَقَالَ الْخَصْمُ الْآخَرُ وَهُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ: نَعَمْ، فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَائْذَنْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: قُلْ، قَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفاً عَلَى هَذَا فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، وَإِنِّي أُخْبِرْتُ أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَوَلِيدَةٍ، فَسَأَلْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ فَأَخْبَرُونِي أَنَّمَا عَلَى ابْنِي جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْوَلِيدَةُ وَالْغَنَمُ رَدٌّ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ - لِرَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ - إِلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا، قَالَ: فَغَدَا عَلَيْهَا فَاعْتَرَفَتْ فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَرُجِمَتْ۔ والعسيف الأجير ))

"ابو ہریرہؓ  اور زید بن خالد  سے روایت ہے  وہ کہتے ہیں کہ  ایک دیہاتی شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا او ر کہا:    یار سول اللہﷺ میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے لیے کتاب اللہ کے ذریعے فیصلہ کیجیے،ایک اور شخص  نے،جو اس کا فریق تھا، اور اس دیہاتی سے زیادہ سمجھ دار تھا ،اُس نے کہا : ہاں ،آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے ذریعے فیصلہ کیجیے اورمجھے بات کرنے کی اجازت بھی دیں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہو، وہ کہنے لگا:  اس نے میرے بیٹے کو ملازمت پر رکھا ہوا تھا،  میرے بیٹے  نے اس کی بیوی سے زنا کیا، مجھے بتایا گیا  کہ میرے بیٹے پر رجم ہے، تو میں نے بچوں سمیت سو بکریاں اس جرم کے بدلے اس کو دیدیں، پھر اہل علم سے پوچھا تو اُنہوں  نے کہا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور علاقے سے نکالے جانے کی سزا ہے، اور اس کی بیوی پر سنگسار کرنا ہے۔  تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، میں  ضرورتمہارے درمیان   اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، بکریاں اپنے بچوں سمیت واپس کی جائیں، اور تیرے بیٹے پر سو کوڑے ہیں اور ایک سال کے لیےعلاقہ بدر کیا جانا۔ اور اے اُنَیس! (قبیلہ بنو اسلم کا ایک آدمی ) تم اِس آدمی کی بیوی کے پاس جاؤ اور اسے سنگسار کردو۔ حدیث کے راوی کہتے ہیں کہ پھر انیس اس کے پاس چلے گئے اور اس عورت نے اقرار کر لیا،پس رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور وہ سنگسار کی گئی "۔ اور حدیث میں عسیف لفظ کے معنی  مزدور اور بیگار کے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیا،کوڑے نہیں مارے۔  اسی طرح شعبی سے روایت ہے کہ((أَنَّ عَلِيّاً رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ رَجَمَ الْمَرْأَةَ ضَرَبَهَا يَوْمَ الْخَمِيسِ، وَرَجَمَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَقَالَ: جَلَدْتُهَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَرَجَمْتُهَا بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ)) "علی ؓ نے جب عورت کو سنگسار کیاتھا تو اسے جمعرات کےدن کوڑے مارے اور جمعے کے دن سنگسار کردیا۔ اور کہا: میں نے کتاب اللہ کی وجہ سے اس کو کوڑے مارے اور سنت رسول اللہ ﷺ کی وجہ سے اس کو سنگسار کردیا"۔ عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :((خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ، وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ))" مجھ سے لے لو ، مجھ سے لےلو۔اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے فیصلہ فرمادیا ،غیر شادی شدہ غیر شادی شدہ سے زنا کرے تو اس کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کے لیے علاقہ بدر کیا جانا ہے، اور شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو سزا سو کوڑے اور سنگسار کرنا ہے"۔         تو رسول اللہ  ﷺ  فرماتے    ہیں کہ   شادی شدہ کی سزا کوڑے اور سنگساری کرنا ہے، حضرت علیؓ نے بھی شادی شدہ کو کوڑے مارے اور سنگسار بھی کیا۔جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ماعز بن مالک کو سنگسار کیا، جابرؓ نے کوڑے ذکر نہیں کیے، اور بخاری میں  سلیمان بن بریدہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبی ﷺ نے غامدیہ کو سنگسار کیا،کوڑوں کا ذکر نہیں کیا۔مسلم نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جھینہ کی ایک عورت کے بارے میں حکم دیا، اسے اس کے کپڑوں میں باندھا گیا اور سنگسار کیا گیا لیکن کوڑوں کا ذکر نہیں ہے۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شادی شدہ کو سنگسار تو کیا مگر کوڑے نہیں مارے، یہ فرمایا کہ :((الثيب بالثيب جلد مائة والرجم))"شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو سزا سو کوڑے اور سنگساری ہے"۔ یہ اس بات  پر دلالت کرتا ہے کہ رجم واجب ہے، کوڑے مارنا جائز ہے، اور یہ خلیفہ کی صوابدید پر چھوڑ ا جائے گا۔

 

شادی شدہ کی حدمیں کوڑے اور سنگساری دونوں کو جمع کیا جاتا ہے جو احادیث کو جمع کرنے کی بنیاد پر ہے۔ یہاں یہ نہ کہا جائے کہ سمرہ کی حدیث کہ آنحضرت ﷺ نے ماعز کو کوڑے نہیں مارے، بلکہ صرف سنگساری پر اکتفا کیا، لہٰذا یہ عبادہ بن صامتؓ کی حدیث کے لیے ناسخ ہے ،جس میں کہا گیا،((الثيب بالثيب جلد مائة والرجم))"شادی شدہ شادی شدہ سے زنا کرے تو سزا سو کوڑے اور سنگساری ہے"، تو یہ نہ کہا جائے کیونکہ کوئی ایسی بات ثابت نہیں کہ  ماعز کی حدیث عبادہ کی حدیث کے بعد آئی ہے،اور جب مؤخر ہونا ثابت نہیں تو ماعز کی حدیث جس میں کوڑوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، کوڑے لگانے کو باطل نہیں کرتی اور یہ عبادہؓ کی حدیث کے لیے ناسخ نہیں ،چنانچہ  دونوں حدیثوں  میں سے کسی ایک کا دوسر ے سے مقدم ہونا ثابت نہیں،تو ایک دوسرے کے لیے ناسخ یا ایک کو دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہوگی، تاہم اتنی بات ہے کہ  جس حدیث میں سنگساری پر اضافہ کا ذکر آیا ہے تو وہ جائز سمجھا جائے گا ، نہ کہ واجب، کیونکہ واجب امر سنگسار کرنا ہے، اس سے زائد میں امام کو اختیار دیا گیا ہے،جو کہ احادیث کو جمع کرنے کی بنیاد پر ہے)۔کتاب "نظام العقوبات" سے اقتباس ختم ہوا۔

 

خلاصہ : یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کی سزا مرجانے تک سنگساری ہے ،اس پر رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ صحیح  احادیث دلالت کرتی ہیں، جن کو صحیحین(مسلم و بخاری) اور دیگر کتب احادیث میں روایت کیا گیا ہے،یہ سزا حدود میں داخل ہے، تعزیر کے باب میں سے نہیں ۔۔۔ یہاں تک سابقہ سوال کے جواب سے اقتباس ختم ہوا۔

 

آخر میں یہ کہوں گا کہ آپ نے تو اپنے سوال کا جواب خود دے ہی دیا ہے،آپ سوال میں کہتے ہیں کہ:(آپ مجھ سے یہ کہیں گے کہ مثال کے طور پر نماز کی حرکات یا وضو کی ترتیب قرآن میں مذکور نہیں  ،جس کا مطلب ہے کہ ہر چیز قرآن میں ہی مذکور  نہیں ہوتی ہے، وغیرہ۔ مگر یہ حکم  ریاضی کے قاعدے ایک جمع ایک مساوی دو کی طرح حتمی ہے ۔  یعنی یہ بنیادی اصول ہے کہ جو چیز قرآن میں ہے ہم اس کے مطابق فیصلے کریں گے اور جو قرآن میں نہیں اس کواساسی قانون کی حیثیت سے نہیں لیں گے۔ ہاں تفصیلات میں بحث اور اجتہاد کرسکتے ہیں اور حدیث کو تفصیلات کیلئے لے سکتے ہیں مگر یہ ممکن نہیں کہ اصل کو چھوڑ کرحدیث سے اساسی حکم لیا جائے،)   تو آپ کے نزدیک سنت سے نماز کی ادائیگی کی کیفیت لینا جائز ہےاور یہ کہتے ہو کہ یہ 1+1=2 کی طرح اٹل ہے!

 

جبکہ آپ کا یہ اصول شادی شدہ زانی کے بارے میں سنت سے استدلال پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے،جیسے نماز کے بارے میں ہے کہ ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ﴾"نماز قائم کرو"،  لیکن یہ مجمل آیا ہے،اس کا بیان وہ احادیث کرتی ہیں  جو نماز کی کیفیت کو بیان کرتی ہیں ،اگرچہ  رکوع ، سجدہ اور قرآت میں مجتہدین  کا اختلاف ہوا ہے۔تو نماز کے معاملے میں یہ احادیث مجمل کے لیے بیان واقع ہوئی ہیں۔ اسی طرح آیت ﴿وَالزَّانِيَةُ وَالزَّانِي﴾"زنا کرنے والا مرد اور عورت۔۔۔"...عام ہے، کیونکہ زانی اور زانیہ کے الفاظ عام میں سے ہیں، اب جو احادیث شادی شدہ زانی سے متعلق ہیں ،ان احادیث نے اس عموم میں تخصیص پیدا کردی جس میں کوڑوں کا ذکر ہے۔ تخصیص ایسے کی کہ اس آیت کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کردیا، لہٰذا یہاں عام کی تخصیص کا مسئلہ ہے ۔ اگر آپ نے اصول پڑھے ہیں تو آپ  کو وہاں ضروریہ بات ملے گی  کہ مجمل کا بیان اور عام کی تخصیص یا مطلق کی تقییدوغیرہ ،سب کتاب و سنت کی اقسام میں سے ہے ، جن سے متعلق لازم ہے کہ صرف شرعی طریقے سے ہی استدلال کیا جائے۔

 

اس بنا پر نماز والی مجمل  آیت  کےبیان اور زنا کے بارے میں وارد عام آیت کی تخصیص کے درمیان فرق کرنا  نہ تو درست ہے اور نہ جائز ہے ،البتہ فقہ کے اصولوں سے کامل آگاہی نہ  ہو تو الگ بات ہے۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ درست تر ین  امر کی طرف آپ کی رہنمائی کرے اور یہ کہ آپ فقہ کے اصولوں کو سمجھنے میں اپنی قوت صرف کریں تاکہ آپ  سوال کریں تو اسی کے میدان میں کریں،نہ کہ یہ کسی اور تناظر میں ہو۔ امید ہے کہ اس ساری تفصیل کے بعد آپ کے لیےمعاملہ واضح ہوچکا ہو گا۔

 

آپ کا بھائی

عطاء بن خلیل ابو الرشتہ

 

2 جمادی الثانی1442ھ

بمطابق15 جنوری 2021ء

Last modified onمنگل, 13 اپریل 2021 00:32

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک