الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال کا جواب

عرب ممالک کے ساتھ چینی سربراہ کی ملاقتوں کے اہداف

 

سوال:

 

الجزیرہ نے  9/12/2022کو اپنے وئب سائٹ پر یہ خبر نشر کی کہ، "  جمعہ کے دن سعودی دارالحکومت ریاض میں   خلیج تعاون کونسل  کے سربراہوں اور چین -خلیج  سمٹ کا ۴۳ واں اجلاس ہوا جس میں کئی عرب رہنماؤں کے ساتھ چینی صدر شی جینگ پنگ بھی موجود تھے۔"   سعودیہ  ، خلیجی  اور عرب  ممالک کے ساتھ ریاض میں اس سربراہی اجلاس کے اہداف کیا ہیں؟ کیا یہ چینی طریقہ کارہے کہ وہ اپنا سیاسی اثرو رسوخ بڑھانے کےلیے متعدد طاقتوں پر مشتمل عالمی نظام کی بات کرتاہے اور اپنے  آپ کو  بین الاقوامی طور پر بڑی طاقت کے طور پر ثابت کرنے کی کو شش کرتاہے جو کہ روس کے اس  شدت پسندانہ انداز کے برخلاف ہے جس کے ذریعے روس اپنا اثرو نفوذ  اور متعدد طاقتوں پر مشتمل کامطالبہ کرتا ہے؟ کیا عرب خطے کے حکمران اس کی حمائت کریں گے؟ اور اس معاملے پر امریکہ کا رد عمل کیا ہے؟

 

جواب:

 

ان سوالات کے جوابات کوواضح کرنے کےلیے ہم مندرجہ ذیل باتوں کی وضاحت کرتے ہیں:

۱۔ چینی صدر شی جین پینگ نے 8/12/2022 کو سعودیہ کا دورہ کیا اور اس کے بادشاہ اور ولی عہد ابن سلمان سے ملاقات کی۔ چین کے صدر کا پرتباک استقبال کی گیا اور فریقین نے جامع اقتصادی شراکت کے معاہدے پر دستخط کیا جس میں توانائی اور انفراسٹریکچر کے میدان میں30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی شامل ہے، اور یہ کوشش کی گئی  کہ چین کے"روڈ اینڈ بیلٹ"اسٹریٹیجک منصوبے اور ابن سلمان کے ویژن2030کےمنصوبے،جسےعام طور پر  "انٹرٹینمنٹ" کہا جاتا ہے، کو ایک ساتھ مربوط کیا جائے۔ اسی طرح  خطے کی مارکیٹنگ کےلیے سعودیہ میں چینی مصنوعات کےلیے ایک بڑے مرکز کی بات کی گئی۔ اس کے بعد اگلے دن ریاض میں چین کا خلیجی   ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ اجلاس ہوا، اور اُسی دن  عرب سربراہوں کے ساتھ بھی چین کا اجلاس ہوا جس میں  بہت سارے عرب "رہنماوں" نے شرکت کی جس کے بارے میں چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے"۔۔۔ چین اور عرب دنیا کے درمیان ہونے والی سب سے بڑی سفارتی سرگرمی۔۔۔۔"(بی بی سی 8/12/2022 )۔دونوں سمٹس نے عرب اور چین کے درمیان دوطرفہ اقتصادی شراکت اور تعاون پر زوردیا اور اختتامی بیان میں عام امور کا ذکر کیا گیا جیسےکہ موجودہ عالمی نظام کا احترام،  ملکوں کی خود مختاری کا احترام، طاقت کے استعمال سے گریز، ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات، فلسطینی مسئلے کی مرکزیت اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔   چین -خلیج سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں چین نے ایران پر تنقید کرتے ہوئے پڑوسیوں کے احترام پر زور دیا،اور کل خلیجی ممالک اور چین نے ریاض میں چین اور خلیجی ممالک کے مشترکہ اجلاس کے اختتام پر بیان جاری کیا گیا جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ" متحدہ عرب امارات کی جانب سے تینوں جزیروں کے مسئلے کو پرامن مذاکرات سے حل کرنے کی حمایت کرتے ہیں"، جن کو ایران اپنا حصہ سمجھتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ایران سے"ایٹمی معاہدے کے لیے سنجیدہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا"( المیادین 10/12/2022) ، اس اعلان پرتہران میں چینی سفیر کو طلب کرکے چین کے اس موقف پر احتجاج کیا گیا۔

 

2 ۔ امریکہ کی نئی حکمت عملی کے مطابق  چین ہی دنیا میں امریکی بالادستی کےلیے سب سے بڑا خطرہ ہے،  اور وہ  دنیا پر اپنا مؤثر اثر ورسوخ قائم کرنے کی صلاحیت رکھتاہے،   کیونکہ چین ہی امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، اورعسکری اخراجات کے لحاظ سے بھی وہ دوسری بڑی ریاست ہے۔ لہٰذا امریکہ نے چینی اقدامات پر نظر رکھی ہوئی ہے،  اس کی پیش قدمی کو روکنے کےلیے اقدامات کر رہا ہے، یہاں تک کہ اس کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہاہے جیسا کہ  تائیوان کے بارے میں امریکی صدر کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتاہے۔ امریکہ نے چینی صدر کے اس دورے پر یہ کہہ کر تبصرہ کیا، (وائٹ ہاوس نے بدھ کو  کہا"یہ کوئی تشویش کی بات نہیں" کہ چینی صدر شی جین پینگ نے سعودیہ کا دورہ کیا ہے کیونکہ چین " مشرق وسطی میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے" ۔ امریکی قومی سلامتی کمیٹی میں اسٹریٹیجک رابطوں کے ذمہ دار جان کیربی نے بھی کہا کہ،" ہم جانتے ہیں کہ چین دنیا بھر میں اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہاہے،" انہوں نے یہ بھی کہا کہ، " چینی صدر شی کا دورہ حیران کن نہیں، بالکل بھی حیران کن نہیں کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ جانے کا فیصلہ کیا "۔( سی این این عربی 8/12/2022 )

 

3۔ دوسری طرف چین امریکہ کے عالمی نظام  کی مخالفت سے اجتناب کر رہا ہے، کیونکہ چین وہی کہہ رہا ہے جو امریکہ کہہ رہا ہے، اور یہ چینی صدر کے دورے میں بھی واضح نظر آیا جب  اختتامی بیان میں موجودہ عالمی نظام اور بین الاقوامی قانون  کی پاسداری، ایٹمی ہتھیاروں کی پھیلاؤکو روکنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بات کی گئی۔ درحقیقت ریاض میں چین عرب سربراہی  اجلاس کے اختتامی بیان میں روس پر بلواسطہ انداز میں تنقید کی گئی جب دوسرے ملکوں کی خود مختاری، طاقت کے استعمال سے اجتناب اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کا احترام کرنے کی بات کی گئی، یہ ر وس کی جانب  سے یوکرین پر حملے کی طرف اشارہ تھا۔ اختتامی بیان میں چین کی جانب سے ایران پر تنقید اور دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی تنبیہ درحقیقت  مغربی ممالک اور امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاناہے ۔  ایران کی جانب سے چینی سفیر کو بلا کر احتجاج  کرنا روس، چین، ایران اور شمالی کوریا پر مشتمل"نئے عالمی کیمپ"  کی تشکیل   کی نفی کرتا ہے  بلکہ یہ ثابت کرتاہے کہ یہ کیمپ ایک خیالی بات ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

 

4 ۔ جہاں تک چین اور عرب تعلقات کی بات ہے تو سعودیہ میں سربراہی اجلاس  عالمی سطح پر کسی تبدیلی کی نشانی نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سعودیہ نے چینی صدر کا بہت گرم جوشی سے استقبال کیا جبکہ 2022 میں امریکی صدر بائیڈن کے دورے میں یہ گرم جوشی نظر نہیں آئی تھی،  مگر یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بائیڈن کے ساتھ ریپبلکن پارٹی کے جھگڑے  میں سعودیہ ریپبلکن پارٹی کے ساتھ کھڑا ہے   ، اس سے بڑھ کر یہ کہ امریکی صدر بائڈن نے بھی ابن سلمان کا کوئی احترام نہیں کیا۔ یہ بات بھی  ہے کہ عرب ممالک نے چین کے علاوہ ہندوستان اور جرمنی سے بھی شراکت کے اسی قسم کے معاہدے کیے ہیں  جو کسی بھی لحاظ سے وفاداری اور سیاسی تابعداری میں تبدیلی کا مظہر نہیں ہیں۔

 

5۔ چین اپنی سرحدوں کے اردگرد ہی بڑے سیاسی مسائل میں پھنسا ہوا ہے جیسا کہ تائیوان میں، جس کو وہ اپنا حصہ قرار دیتاہے مگر اب تک اس کو اپنے اندر ضم نہ کر سکا، اسی طرح ویتنام میں، اور کئی ہمسائیہ ممالک کے ساتھ جزائر کے تنازعات ہیں، اس کے قریبی تعلقات اور وفاداری شمالی کوریا تک ہی محدود ہے، اس لیے یقینی بات ہے کہ چین  عرب  خطے میں  اپنے لیے سیاسی وفاداری پیدا کرنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہا ہے، خاص کر جب وہ یہ جانتاہے کہ  عرب حکمرانوں کا امریکہ اور برطانیہ سے تعلق بہت مضبوط ہے۔ اسی لیے چینی صدر کے دور ے میں سربراہی ملاقتوں اور اقتصادی معاہدوں کا سیاسی تابعداری پیدا کرنے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، یہ صرف ممالک کے درمیان کھلے اقتصادی تعلقات کے فروغ تک محدود ہیں،  ان کو صرف اقتصادی نقطہ نظر سے ہی دیکھنا چاہیے، اس میں کوئی سیاسی عزائم نہیں نہ ہی خطے کے حکمرانوں کی سیاسی وفاداری تبدیل کرنےسے اس کا کوئی تعلق ہے۔ مثال کے طور چین کا  ایران پر تنقید کرنا مغرب کی ہاں میں ہاں ملانا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین  ایران پر تنقید کرنے والے مغرب  کے صف سے نکل کر کہیں نہیں جارہا،  نہ ہی چین   ایران کے خلاف  خلیجی ممالک سے مل کر کوئی سیاسی اقدامات کرہاہے۔ اسی طرح اختتامی بیان میں دوسروں کی خود مختاری کا احترام، طاقت کے استعمال سے اجتناب، ہمسائیوں سے اچھے تعلقات کی باتیں کرکے  روس پر  بلواسطہ تنقید کی گئی اوریہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین   یوکرین جنگ کے حوالے سے روس کے ساتھ کوئی اتحاد قائم نہیں کر رہا ہے بلکہ اس نے دنیا کے ساتھ تعلقات میں پرامن سفارتی طریقہ کار اپنایا ہوا ہے۔

 

6۔ چین  صرف اقتصادی لحاظ سے خلیج کے خطے کے قریب ہورہا ہے کیونکہ وہ  بہت ڈر رہا ہے کہ امریکہ اور یورپ،  چین کی صنعت کی پہنچ کو محدود کردیں گے  خاص طور پر مغربی مارکیٹ کو اس کی برآمدات  کو منقطع  کردیں گے۔  آج کل جو بات یورپ میں روسی توانائی کے وسائل پر بھاری انحصار میں سٹریٹیجک خرابی کے حوالے سے ہو رہی ہے، بالکل وہی ہے جو مغرب میں چینی مینوفیکچرنگ اداروں پر زبردست انحصار سے ہو رہی ہے اور اس کے بارے میں مضبوط اشارے سامنے آئے ہیں۔ چنانچہ جرمن وزیرخارجہ بربوک(Baerbock) نے کہا،"روس کے ساتھ جرمن تجربہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ  ہم کسی ایسے ملک پر انحصار نہیں کریں گے جس کے اور ہماری اقدار مشترک نہ ہوں۔کسی ملک پر مکمل اقتصادی انحصار سے سیاسی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔"( المیادین 2/11/2022 )۔ جرمن چانسلر شلز (Schulz) نے بیجنگ سے روانگی کی شام اخبارفرینکفرٹر زیٹنگ (Frankfurter Zeitung) میں لکھے گئے اپنے مضمون میں کہا کہ،"برلن کو چین کے ساتھ نمٹنے کے طریقے کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ یہ ملک مزید کھلے عام "مارکسسٹ-لیننسٹ" سیاسی راستے کی طرف لوٹ رہا ہے۔"  انہوں نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے لکھا کہ جرمن کمپنیوں کو چاہیے کہ  چینی سپلائی پر"خطرناک اعتماد کو کم کرنے" کے اقدامات کریں۔( الشرق الاوسط 4/11/2022)۔اسی تناظر میں اور اسی سے بچنے کےلیے چین حفاظتی اقدامات کر رہا ہے کہ  مغرب کو چینی مال سپلائی کو ختم ہونے سے بچایا جائے اوراس کے ساتھ  وہ نہ ہو جو روسی مال کے ساتھ ہوا خاص کر توانائی کے حوالے سے، اب تک اس حوالے سے چین کے حفاظتی اقدامات  میں سے نمایاں یہ اقدامات ہیں:

 

ا ۔ روس سے خود کو دور رکھنا: یوکرین پر روسی حملہ شروع ہوتے وقت چین کو کچھ امید تھی کہ روسی صدر  شاید یوکرین پر اپنا تسلط قائم کرکے  کوئی بڑا عالمی کردار ادا کریں گے  اس لیے شروع میں چین کی پالیسی مبہم تھی۔ مگر امریکی اور یورپی امداد نے  یوکرین کو ڈٹ جانے کی قوت بخشی اور پھر چین  نے روس سے دور ہونا شروع کیا اور روس پر اشاروں کنایوں میں تنقید شروع کی، اس کا مشاہدہ اکتوبر 2022 میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس کے بعد چینی صدر  شی جین پینگ کی جانب سے  معاملات پر مکمل کنٹرول   اور اپنے مخالفین کو  اپنے سیاسی دفتر سے دور کرنےکے بعد کیا جانے گا۔ اس کے بعد چین سرپھرے روس سے مزیددور ہونے لگا۔ چین اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ امریکہ اور یورپی ممالک چینی مال کو لینا بند کردیں جیسا کہ روسی توانائی کی سپلائی کے ساتھ کیا گیا کہ یورپ نے اس کے لینے پر پابندی عائد کردی گئی ،لہٰذا  چین نے اس بات کو پیش نظر رکھا۔

 

ب۔ مغرب کی ہاں میں ہاں ملانا: چین امریکی عالمی نظام کی پابندی کا اعلان کررہاہے اور ہر اس بات پر تنقید کر رہا ہے جس پر مغرب تنقید کرتاہے جیسے ایران کی جانب سے خلیجی ممالک کے معاملات میں مداخلت پر مغرب تنقید کرتاہے۔  اس طرح چین مغرب کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھی  دنیا کے"مہذب" ممالک میں سے ایک ہے جو بعض ممالک(جیسے روس) کی جارحانہ پالیسیوں کی مخالفت کرتاہے،  ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں  چین کے اس موقف میں مزید وضاحت دیکھنے کو ملے، اور اس حوالے سے چین کی جانب سے تائیوان کے ساتھ کسی قسم کے عسکری تصادم سے اجتناب اور اس مسئلے پر امریکہ سے  کشیدگی میں کمی کا مطالبہ، اور شمالی کوریا کے ایٹمی  مسئلے کو حل کرنے میں مدد کرنے کا مطالبہ کرنا  اہم ہے۔  ان سب اقدامات کا ہدف چینی مصنوعات کی سپلائی روکنے کی   امریکی اور یورپی  پالیسی سے بچنے کوشش ہے۔

 

ج۔ متبادل اقتصادی ذرائع کا بندوبست کرنا:   چین عرب ممالک کی مارکیٹوں کو متبادل کے طور پر دیکھ رہا ہے اگرچہ یہ مغربی مارکیٹ سے کم اہم ہے، یعنی  امریکہ اور یورپ کی جانب سے  چینی سپلائی ختم کرنے یا اس میں کمی کرنے کی صورت میں عرب مارکیٹ کسی حد تک متبادل کا کام کرے گی،لیکن یہ امریکی اور یورپی مارکیٹ کے مقابلے  میں بہت معمولی ہے۔ اگر  اس مارکیٹ کو افریقہ اور لاطینی امریکہ کے مقابلے میں دیکھا جائے تو چینی  معیشت کےلیے دم گھٹنے کے وقت یہ  کسی نہ کسی حد تک سانس لینے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور امریکہ اور یورپ کی جانب سے چین پر انحصار کم کرنے کی صورت میں یہ مارکیٹ چین کے کام آسکتی ہے۔

 

7 ۔ جہاں تک عرب ممالک  کی اقتصادی پہلو کی بات ہے تو   یہ سمٹس، چاہےخلیجی ہوں یاعرب، ان کی حیثیت کچھ یوں ہے:

 

ا۔ ان  عرب ممالک میں دھائیوں کی ناکام حکمرانی کے بعد یہ  حکومتیں سوکھے ہوئے جنگل کی طرح ہوچکے ہیں، اور اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آکر انہیں سنبھالے۔ ان میں سے بعض ممالک اپنے ٹیکسوں کا  آدھا قرضوں کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کی کرنسیاں بہت زیادہ گر گئی ہیں، اور ناکام معاشی پالیسیوں اور مغرب کی حد سے زیادہ غلامی کی وجہ سے کی وجہ سے  یہاں قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں، اور اس صورتحال میں یہاں  بھر پور احتجاج کا خطرہے۔خلیجی ممالک کے علاوہ باقی تمام عرب ممالک شدید معاشی مسائل سے دور چار ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے ان ممالک کے حکمران چین کو ممکنہ معاشی نجات دہندہ سمجھتے ہیں، جس سے مزید قرضے لینے کا امکان ہے تاکہ آئی ایم ایف کے بعض سخت شرائط سے بچا جاسکے۔  چین، اپنے  بڑے بیرونی منصوبوں کے ذریعے،ان ممالک میں  بڑی سرمایہ کاری کرسکتاہے جس کا فائدہ   حکمران طبقے میں پھیلی کرپشن کی وجہ سے یہاں کے حکمرانوں اور ان کے آ لہ کاروں کو ہوگا۔

 

ب۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو اس کے معاشی مسائل نے اس کو اپنے ایجنٹوں پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کردیا ہے، جیسا کہ خیالی اسلحے کے معاہدے  جو ٹرمپ انتظامیہ نے سعودیہ کے ساتھ کیے تھے،  بلکہ وہ تو دوسروں کے ایجنٹوں پر بھی اپنے معاشی فوائدکے حصول کےلیے دباؤڈلتاہے جیسا کہ اس نےاپنے ایجنٹوں کے ذریعے قطر پر دباؤ ڈالا جو کہ برطانوی ایجنٹ ہے یہاں تک کہ قطر کی دولت امریکہ کےلیے سرمایہ  اور امریکی حکمرانوں کےلیے اپنے اقتدار بچانے کا ذریعہ بن گئی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے تو  خطے کے حکمرانوں سے ان کی حفاظت کے بدلے ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ چونکہ ان حکمرانوں کو بڑے مسائل کا سامنا ہے اس لیے امریکہ  خود ان کو  چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا ان کو اس عمل سے منع نہیں کرتا، اور ممکن ہے کہ امریکہ چین  کی معیشت پر بوجھ ڈالنے کی پالیسی کے طور پر  ان سمٹس کے ذریعے خطے میں اپنے ایجنٹوں کو  معاشی امداد دلوا رہا ہے تاکہ  چین کی معاشی ترقی کو روکا جا سکے، یعنی چین -عرب  تعاون اور اقتصادی شراکت  کسی بھی طرح ان حکمرانوں کی سیاسی وفاداری  بدلنےکےلیے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 

8۔  ان سب باتوں سے ان سمٹس کے حوالے سے چینی  اہداف واضح ہوجاتے ہیں جو کہ  مکمل طور پر صرف معاشی اہداف ہیں ، اورچین عرب دنیا میں امریکہ اور برطانیہ کے اثرو رسوخ کا مقابلہ نہیں کر رہا ہے، کیونکہ  اس کے پاس ایسا کرنے کی نہ صلاحیت ہے نہ ارادہ،  بلکہ وہ تو مشرقی ایشیا میں اپنے  اردگرد امریکی سیاسی اثرورسوخ کو اپنے حق میں نہیں کرسکتا۔  چین ان سمٹس  معاہدوں اور اُن اقتصادی شراکت داریوں کے معاہدوں سے جن پر اس نےدستخط کیے ہیں  یہ چاہتا ہے کی اس کی معیشت چلتی رہے چاہے وہ خلیج سےآنے والی توانائی کے حوالے سے ہو یا  اس کی مصنوعات کے لیے عرب ممالک کی مارکیٹ کی شکل میں ہو۔ وہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھا کریہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ مہذب دنیا کا حصہ ہے، اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس کیمپ کا حصہ نہیں جس کو مغر" سرکش ممالک" کا کیمپ کہتا ہے جیسے شمالی کوریا اور ایران۔  وہ ایسی عالمی تنہائی سے بچنا چاہتا ہے جس کا پھندا ٓج روس کا گلہ گھونٹ رہا ہے کہ کل اس کے گلے میں ڈال دیا جائے۔ چین  عرب خطے، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ اقتصادی تعلقات بنانا چاہتا ہے تاکہ  یہ مغربی مارکیٹ کا متبادل ہوں،اور  یہ بندوبست اس وقت کےلیے ہے جب چین پر مغربی دباؤ بڑھ جائے اور مغربی ممالک  چینی مصنوعات کی سپلائی لینے سے انکار کردیں۔  چین ایسی صورتحال  کی تلافی  اور اس میں تخفیف کی پالیسی پر گامزن ہے، اور اسی لیے اس نےروس سے دور رہنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔

 

9۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ان اجلاسوں اور سمٹس کے دوران " عرب حکمرانوں" کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ چین سنکیانگ " مشرقی ترکستان" کے خطے کے مسلمانوں کے خلاف کس قدر وحشیانہ مظالم کر رہا ہے۔یہ حکمران چینی صدر سے"پیار" کی باتیں کرتے رہے، اور اُن جرائم کے حوالے سے چینی صدر سے بات ہی نہیں کی گویا ایسا کچھ نہ ہورہا ہو! یہ عمل اگر کسی چیز پر دلالت کرتاہے تو وہ یہ ہے کہ  ان حکمرانوں نے مسلمانوں کو بے یار ومددگار چھوڑنے میں تمام حدیں پار کر لی ہے اور مسلمانوں کی حالت زار ان کےلیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔  ان سب حکمرانوں کے لیے اہم مسئلہ عوام پر ظلم اور ان سے دشمنی کے باوجود اپنی حکمرانی  کی کرسی بچانا ہے،  جبکہ مسلمانوں کی زندگی سے متعلق ہر مسئلے کے حوالے سے یہ مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔  ان کی بات چیت اور توجہ اقتصادی تعلقات اور بین الاقوامی تجارت پر مرکوز ہے گویا ایغور مسلمانوں پر چینی مظالم  کی بات کسی اور سیارے کی ہے!

 

10۔ آج عرب حکمران بلکہ عالم اسلام کے تمام حکمران خلافت کے انہدام کے بعد سب سے بری حالت میں ہیں، اور یہ وہ حالت ہے جو خبردار کررہی ہے کہ وہ فنا (ختم)ہونے کے قریب ہیں۔  یورپ اور امریکہ، بلکہ چین کے ساتھ بھی  مل کرانہوں نے جو تباہی مچائی ہے وہ اتنی بڑی ہےکہ  وہ اس کا سامنا کرنے میں مشکلات کا شکار ہے جبکہ وہ کوئی ایسی کامیابی حاصل کرنے سے بہت دور ہیں جو ان کے مسلسل حکمرانی کا جواز پیش کرسکے، اور جو چیز ایک حکمران کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کون کم ناکام ہے۔ ۔۔۔ اوران پر اللہ کا غضب اس کے علاوہ ہے، کیونکہ انہوں نے اسلام کو پس پشت ڈال رکھا ہے، اور زمین میں اسلامی طرز زندگی کی واپسی کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف جنگ برپا کر رکھی ہے اور ہر استعماری کافر کے حکم کی پیروی کرتے ہیں گویا کہ  یہ ہوش   میں ہی نہیں ہیں۔

 

﴿أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُون﴾

" یہ مردہ ہیں زندہ نہیں، یہ شعور نہیں رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔"(النحل، 16:21)

 

22 جمادی الاولی 1444 ہجری

  بمطابق 16 دسمبر 2022

Last modified onپیر, 09 جنوری 2023 04:40

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک