الأحد، 22 جمادى الأولى 1446| 2024/11/24
Saat: (M.M.T)
Menu
القائمة الرئيسية
القائمة الرئيسية

بسم الله الرحمن الرحيم

سوال و جواب: عورت کا محرم کے بغیر سفر

انس ایم حرباوی کیلئے

 

سوال:

 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔

میرا سوال عورت کا  محرم کے بغیر سفر کرنے کے حوالے سے ہے۔۔۔

سوال یہ ہے کہ عورت کے سفر کو سفر قرار دینے کی حدود کیا ہیں ،جس کے بعد محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں؟ اگر ہم فلسطین  میں اس کا اندازہ لگانا چاہیں   اور کہیں کہ مثال کے طور پر اگر عورت القدس سے ام رشراش (ایلات) کیلئے سفر کا ارادہ کرے تو اس کا سفر ایک ہی ملک میں ہوگا  جبکہ وہ القدس سے اردن  کے سفر کا ارادہ کرے  تو یہ ام رشراش کی نسبت  قریب ہے ، پھر اس کا اندازہ  کیسے لگایا جائے گا ؟ کیا اس کا اندازہ سرحدوں سے لگایا جائے گا؟ اس کا اندازہ ہم  چیک پوسٹوں سے لگائیں گے یا  کسی مقررہ مسافت جیسے 80کلومیٹر سے؟  اور یہ بات بھی ہے کہ موجودہ دور میں الازہرکے لوگوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن پراعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا ،جو کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں سفر کے لیے عورت  کو محرم کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ  نقل وحمل کے معاملات  بہت آسان ہوگئے ہیں، تو کیا ان کی بات مانی جائے گی یا اس کو رد کیا جائے گا۔۔۔؟

 

اللہ ہمیشہ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

 

جواب:

 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس سے پہلے ہم نے 5نومبر 2018کو مختلف حالات میں عورت کے سفر کے حوالے سے مفصل جواب دیا ہے ،میں اس میں سے آپ کے سوال سے متعلق حصے کو آپ کےلیے نقل کرتاہوں:

 

[۔۔۔۔۔۔۔پہلا: اگر عورت کا سفر پورے دن یعنی دن اور رات پر مشتمل ہو تو اس کے ساتھ محرم کا ہونا لازمی ہے،  اس حوالے سے شرعی دلائل بہت زیادہ ہیں، ہم ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں:

 

۔بخاری نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ  نبی ﷺ نے فرمایا:

 

«لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ»

" اس عورت کےلیے یہ حلال نہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ  ایک دن اور رات کی مدت میں  اپنے محرم کے بغیر سفر کرے"،  اور ابوسعید الخدریؓ کی روایت میں ہے کہ "دو دن"، اسی طرح ابن عمرؓ کی روایت میں" تین دن" ہے۔

 

۔مسلم نے ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ عَلَيْهَا»

" اس عورت کےلیے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے  یہ جائز نہیں کہ وہ  ایک دن اور رات کی مدت میں بغیر محرم کے سفر کرے"، اور ابوسعیدؓ کی ایک روایت میں "دو دن کی مدت" کہا گیاہے، اسی طرح ایک اور روایت میں "تین دن یا اس سے زیادہ" کہا گیا ہے۔

 

۔ترمذی نے روایت کی ہے اور اس کو صحیح حسن حدیث قرار دیا ہے کہ سعید بن ابی سعید نے اپنے والد سے، انہوں نے ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«لَا تُسَافِرُ امْرَأَةٌ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ»

"کوئی عورت ایک دن اور رات کی مدت میں محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتی"۔

 

اس سب سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ:

 

۱۔ سفر کےلیے زمانے کی قید ہے جیسا کہ صحیح نصوص میں ہے کہ  عورت کےلیے مذکورہ مدت یعنی پورا دن (24 گھنٹے)دن اور رات  کا سفر محرم کے بغیر کرنا حرام ہے۔اس کا یہ مطلب ہے کہ  نصوص وقت پر دلالت کرتے ہیں (دن رات) مسافت پر نہیں، اس لیے اگر  عورت بغیر محرم کے ایک ہزار کلومیٹر کا سفر جہاز کے ذریعے کرے اور جا کر واپس آئے،لیکن اتنی مدت نہ رکے تو جائز ہے۔ اس کے برعکس اگر پیدل  بیس کلومیٹر  سفر کرے جس میں ایک دن سے زیادہ مدت یعنی دن رات سے زیادہ مدت لگے تو یہ سفر بغیر محرم کے حرام ہے۔

۔ یوں عورت کے محرم کے بغیر سفر میں اعتبار وقت کا ہے یعنی دن رات مسافت چاہے جتنی بھی ہو،  اگر عورت جائے   اور ایک دن سے پہلے واپس آئے تو یہ سفر محرم کے بغیر جائز ہے۔

 

۲۔ جہاں تک بخاری، مسلم ،ترمذی اور احمد کی روایت میں تین دن  یا تین راتوں یا دو دن  کا ذکرہے، ان سب دلائل کو جمع کرنے سے  یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکمِ شرعی یہ ہے کہ عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کی کم سے کم مدت ایک دن ہے۔۔۔۔

 

یوں  عورت کےلیے ایک دن سے زیادہ  کا سفر  شوہر یا محرم کے بغیر  کرنا حرام ہے،  ہم نے اسی رائے کو اختیار ہے  اور معاشرتی نظام میں اسی کی تبنی کی ہے۔

 

دوسرا: ۔۔۔۔۔۔

۳۔    مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم یہ کہتے ہیں کہ:

 

۔ ہم یہ کہہ ہے ہیں کہ یہ راجح ہے ، یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ہماری رائے ہی قطعی ہے، یہ ایک بات ہے۔۔۔

۔دوسری بات یہ ہے کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ عورت کا ایک دن سے کم سفر محرم کے بغیر کرنا کوئی واجب نہیں بلکہ جائز ہے، اس لیے کوئی عورت چاہے تو ایک پہر کا سفر بھی محرم کے بغیر نہ کرے  بلکہ محرم کے ساتھ کرسکتی ہے، اہم بات یہ ہے کہ ایک دن سے زیادہ کا سفر محرم کے بغیر نہ کرے کیونکہ یہ حرام ہے۔۔۔

 

۔تیسرا حدیث میں سفر کے دوران عورت کے ساتھ محرم کے ہونے کی شرط  اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ  عورت  کی دیکھ بھال اور حفاظت لازمی ہے  وہ محفوظ ہونی چاہیے۔  اس لیے اگر عورت محفوظ نہ ہو تو محرم کے بغیر سفر اس کےلیے جائز نہیں،  اس لیے چاہے غیر محفوظ سفر ایک گھنٹے کا بھی ہو  ، محرم کے بغیر حرام ہے، اس لیے اس کا محفوظ ہونا ایک اور شرط ہے۔۔۔

 

۔چوتھا عورت کےلیے اپنے شوہر یا ولی کی اجازت کے بغیر  سفر جائز نہیں چاہے یہ سفر کتنی ہی کم مدت کےلیے ہو  چاہے اس کے ساتھ محرم موجود بھی ہو،  اس کے حوالے سے شرعی دلائل موجود ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

چوتھا:  منزل مقصود تک رسائی:

 

اگر منزل مقصود ایسے  اسلامی  علاقے میں ہو  جو دار الاسلام نہیں  تو اس کی دو قسمیں ہیں:

 

پہلی: اگر سفر اس کے ملک کے علاقوں میں  ہو اور اس کا ملک وسیع ہو جس پر عورت کے ایک دن اور رات  سفر کے متعلق احادیث لاگو ہوتی ہوں  تو وہ جب منزل مقصود پر پہنچے   گی تو  پھر اگر  وہاں محارم موجود ہوں تو اس کا محرم اس کےلیے  اس کے  محارم کے پاس محفوظ رہائش کا بندوبست کرے گا، لیکن اگر محارم موجود نہ ہوں بلکہ اس کی جاننے والی مسلمان  نیک عورتیں ہوں  جن کے حوالے سے  محرم مطمئن ہو تو محرم ان  مسلمان خواتین کے پاس اس کےلیے محفوظ رہائش کا بندوبست کرے گا،  یعنی اکیلے گھر میں نہیں۔  پھر وہ اپنا  مقصد پورا ہونے تک وہاں رہے گی اور محرم  فون اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع سے اس کے ساتھ  کم از کم ہفتے میں رابطے میں رہے گا۔۔۔ اگر اس کی کوئی ضرورت ہو تو محرم اس کے پاس جائے گا۔۔۔ اگر وہ واپس آرہی ہو اور یہ  سفر ایک دن اور رات   پر مشتمل ہو تو محرم جا کر  اس کو  ساتھ واپس لائے گا ۔۔۔

 

اگر اس جگہ اس کا کوئی محرم یا جاننے والی مسلمان نیک عورتیں نہ ہوں تو  یا تو محرم اس کے پاس رہے گا یا اس کو اپنے ساتھ واپس لائے گا۔

 

دوسرا: اگر سفر ایک اسلامی علاقے سے دوسرے اسلامی علاقے کی طرف ہو اور دونوں علاقے ایک ہی ملک میں ہوں  اور ان دونوں علاقوں کے درمیان اس کا سفر ایک دن اور رات سے زیادہ ہو۔۔۔اس حالت میں جب عورت  اس جگہ پہنچ جائے جہاں کےلیے سفر کرہی تھی  تو یہ جائز ہے کہ محرم  واپس اپنے علاقے میں آجائے اور اس کے ساتھ نہ رہے بشرطیکہ:

 

۔محرم اس کےلیے رہائش فراہم کرے جہاں وہ امن وامان سے رہے،  اپنےمحارم کے ساتھ رہے یا  اپنی جاننے والی مسلمان اور نیک عورتوں کے ساتھ،  یعنی کسی مکان میں اکیلے نہیں۔۔۔محرم  اس کےلیے رہائش کا بندوبست کرنے کے بعد ایک ہفتے تک  وہاں رکے تاکہ  محرم اس کی سلامتی اور  حاضری اور چھٹی کے دنوں میں  رہائش گاہ آنے جانے کے حوالے سے اس کے نقل حرکت کے بارے میں مطمئن ہو،  چونکہ چھٹی  ہفتے میں ہوتی ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ محرم  کے اطمینان کےلیے اس کے پاس رکنا ایک ہفتے سے کم نہیں ہونا چاہیے۔۔۔

 

اس کے ساتھ فون یا دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں رہے گا، جب اس کو معلوم ہو کہ  اس کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو محرم پر فورا اس کے اطمینان کے لیے اس کے پاس جانا واجب ہے۔۔۔ جب و ہ واپس آنا چاہے تو محرم کو چاہیے کہ  اس کو ساتھ لائے اگریہ سفر ایک دن رات کی مدت سے زیادہ ہو۔۔۔

 

اگر وہاں اس کے ساتھ محارم یا قابل اعتماد مسلمان نیک عورتیں نہ ہوں تو محرم اس وقت تک اس کے ساتھ رہے گا جب تک  قابل اعتماد نیک مسلمان عورتوں سے اس کی جان پہچان نہ بنے  اور ان کے ساتھ اس کی رہائش کا بندوبست نہ کرے ، اس کے بعد بھی ایک ہفتے اس کے پاس رکے گا یا پھر دونوں ایک ساتھ واپس آئیں گے۔۔۔

 

۔اگر منزل مقصود غیر اسلامی علاقے میں ہو تو دیکھا جائے گا کہ:

 

۔اگر وہاں اس کے کوئی مرد محارم موجود ہوں  جن کے پاس وہ رہے گی یا اس کے قریب(پڑوس میں) ہوں اور اس کے ساتھ سفر کرنے والے  محرم کو  یہ اطمینان ہو کہ  وہ وہاں   خاص زندگی اور عام زندگی دونوں میں محفوظ ہے،  یا وہاں اس  کی خواتین محارم میں سے کوئی موجود ہو جیسے ماں یا بہن یا چچی جس کے ساتھ وہ رہے گی،  مگر رہائش گاہ کا صرف ان کے قریب ہونا کافی نہیں۔۔۔ان دونوں حالتوں میں اس کے ساتھ سفر کرنے والے محرم کےلیے اس کے محفوظ ہونے کا اطمینان کرنے کے بعد  اس کے ولی الامر یا شوہر کی اجازت سے  اس شرط کے ساتھ واپس آنا جائز ہے کہ اس کے ساتھ  بوقت ضرورت رابطے کے وسائل دستیاب ہوں۔۔۔اس کے بعد جب وہ واپس آنا چاہے،تو  اگر یہ سفر ایک دن اور رات کی مدت والا ہو تو محرم جائے گا اور اس کو ساتھ واپس لائے گا ۔

 

۔ اگر مذکورہ  سہولیات میسر نہ ہوں تو  اس کے اپنے اصلی ٹھکانے واپس آنے تک محرم اس کے ساتھ ہی رہے گا کیونکہ  عورت کی زندگی جس امن اور حفاطت کا تقاضا کرتی  اس کی فراہمی  فرض ہے کیونکہ عورت ایسی عزت و آبرو ہے جس کی حفاطت فرض ہے،  اور یہ سہولیات غیر اسلامی علاقے میں میسر نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ جب اس کے ساتھ محارم ہوں جیسا کہ ہم نے پہلے کہا۔

 

ب۔اگر منزل مقصود جو ایسے مختصر سفر کے بعد آتی ہو جس سفر میں محرم کی ضرورت نہیں اور وہ اس منزل مقصود میں ایک دن یا دو دن یا تین دن وغیرہ،  رہنا چاہے تو اس حالت میں اس پر کیا واجب ہے؟  کیا اس کو محرم کی ضرورت ہے؟

 

جواب یوں ہے:

 

۔ اگر منزل مقصود دار الاسلام ہو، تو چاہے  وہ عورت کا سفر اپنی ہی ولایہ (صوبہ)میں ہو یا اپنی ولایہ  میں نہ ہو   اگر سفر ایک دن اور رات سے کم ہو تو اس کےلیے محرم کے بغیر سفر جائز ہے،  اگر وہ  اسی دن واپس نہ آئے بلکہ وہاں ایک یا دو یا تین دن وغیرہ، تک رہے تو اس کے لیے وہاں اپنے محارم یا ایسی مسلمان نیک عورتوں کے ساتھ رہنا ضروری ہے جو قابل اعتماد ہوں بشرطیکہ اس نے  اپنے ولی یا شوہر سے اس کےلیے پہلے ہی اجازت لی ہو،  اس کے علاوہ نہیں، یعنی وہ کسی مکان میں اکیلے نہیں رہ سکتی۔

 

۔اگر وہاں اس کے محارم  یا  قابل اعتماد مسلمان نیک عورتیں نہ ہوں  جن کے ساتھ رہنے کی ولی یا شوہر نے اجازت دی ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ اسی دن واپس آئے یا  اس کے ساتھ اس کا محرم جائے گا جو اس کےلیے محفوظ رہائش کا بندوبست کرے گا جیسا کہ ہم نے محرم کے ساتھ سفر میں بیان کیا۔

 

۔ اگر منزل مقصود  اسی اسلامی علاقے میں ہو  جس علاقے میں وہ رہتی ہے  مگر وہ علاقہ دارا لاسلام نہیں  اور سفر کی مدت ایک دن اور رات سے کم ہو تو اس کےلیے بغیر محرم کے بغیر سفر کرنا جائز ہے اور اگر وہ اسی دن واپس نہیں آتی بلکہ وہاں ایک دن یا دو دن یا تین دن وغیرہ،تک رہتی ہے تو اس کےلیے یہ ضروری ہے کہ وہ وہاں اپنے محارم کے ساتھ یا ایسی قابل اعتماد مسلمان خواتین کے ساتھ رہے بشرطیکہ اس نے پہلے ہی شوہر یا ولی سے اس کےلیے اجازت لی ہو،  اس کے علاوہ نہیں ،یعنی کسی مکان میں اکیلے نہیں۔

 

اگر وہاں اس کے محارم یا ایسی  قابل اعتماد نیک عورتیں نہ ہوں جن کے ساتھ رہنے کی پیشگی اجازت شوہر یا ولی نے دی ہو  تو اس پر واجب ہے کہ وہ اسی دن واپس آئے یا اس کے ساتھ اس کا محرم سفر کرے  اور وہاں اس کےلیے محفوظ رہائش کا بندو بست کرے جیسا کہ ہم نے محرم کے ساتھ سفر کرنے کی حالت میں بیان کیا۔

 

۔ اگر منزل مقصود  اس اسلامی علاقے میں ہو  جہاں وہ نہیں رہتی اور یہ دار اسلام بھی نہ ہو  اور سفر کی مدت ایک دن اور رات سے کم ہو تو اس کےلیے جائز ہے کہ وہ بغیر محرم کے سفر کرے۔۔۔ مگر چونکہ سفر اس کے علاقے سے دوسرے  علاقے کی طرف ہے اور  ملکی سرحد سے دوسری طرف جانے میں تفتیش ہوتی ہے تو لازم ہے کہ اس کے ساتھ ایک کم از کم ایک قابل اعتماد خاتون ہو،  جس کے سفر کا مقصد بھی وہی ہو جس مقصد کےلیے یہ خاتون سفر کر رہی ہے، دوسرے الفاظ میں  وہ اسی کے ساتھ ہو  یعنی دونوں ایک ہی مقصد کےلیے ایک ساتھ سفر کر رہے ہوں۔۔۔ اگر یہ وہاں ایک یا دو دن رہنا چاہے تو مندرجہ ذیل کے ساتھ وہاں رہنا اس کےلیے جائز ہے:

 

وہاں ان دونوں کے محارم موجود ہوں  اور ہر ایک اپنے اپنے محرم کے ساتھ رہائش اختیار کرے۔  اگر دونوں کے محارم نہ ہوں  تو اگر قابل اعتماد مسلمان عورتیں ہوں تو ان کے ساتھ رہ سکتی ہیں بشرطیکہ  دونوں کے ولیوں یا شوہروں نے  ان قابل اعتماد عورتوں کے ساتھ رہنے کی اجازت دی ہو جیسا کہ اوپر ان شرائط کو بیان کیا گیاہے۔

اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں  یعنی وہاں ان دونوں کے محارم نہ ہوں  نہ ہے قابل اعتماد مسلمان عورتیں ہوں  جن کے ساتھ رہنے کی ولیوں اور شوہروں نے اجازت دی ہو تو دونوں اسی دن واپس آئیں گی۔

 

۔ اگر منزل مقصود غیر اسلامی علاقے میں ہو یعنی کفار کے علاقے میں،  تو اس حالت میں یہ واجب ہے کہ  عورت کے ساتھ اس کا شوہر یا ولی سفر کرے یا کوئی اور محرم  اور یہ سفر اس طویل سفر کی طرح ہے جس میں محرم ضروری ہے۔۔۔

 

پانچواں: منزل مقصود پہنچنے کے بعد عورت کو امن امان اور تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں ہم نے جن دلائل پر اعتماد کیا  ،چاہے  یہ ایسے طویل سفر کے بعد ہو جس میں  محرم کی ضرورت ہو یا  ایسے مختصر سفر کے بعد ہو جس میں محرم کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہ وہ دلائل ہیں جن کا ہم نے پہلے بھی ذکرکیا، جو منزلِ مقصود پر پہنچنے کے حوالے سےہیں، اور میں ان کو دہراتاہوں:

 

( اسی لیے منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد کے احکامات راستے میں  سفر کے دوران کے احکامات سے مختلف ہیں، یہ مسئلہ  یعنی منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد  اور عارضی رہائش اختیار کرنے کے احکامات  عورت کی اس رہائش گاہ کے محفوظ اور پرامن ہونے پر موقوف ہیں،  یعنی اس رہائش گاہ کا محفوظ ہونا جہاں عورت رہائش اختیار کرے گی اور  گھر سے باہر کی نقل وحرکت کا بھی محفوظ ہونا،  اس کا تعلق عورت کے امرواقعہ اور پرامن زندگی گزرانے سے ہے۔ مقدمہ دستور دفعہ112 میں آیا ہے : (  اصل یہ ہے کہ عورت ماں اور گھر کی ذمہ دار ہے، وہ ایسی عزت ہے جس کی حفاظت فرض ہے) ۔اس دفعہ کی تشریح سے یہ واضح ہے کہ  گھر سے نکلنے کےلیے عورت کو شوہر یا ولی سے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔۔۔ اس کی ایک خاص زندگی ہے جس میں وہ  اجنبی مردوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی بلکہ وہ اپنے شوہر یا  محارم  کے ساتھ ہی رہے گی۔۔ عام زندگی میں خلوت اور  شرعی ضرورت کے بغیر اختلاط سے  اس کو منع کیا گیاہے۔۔۔اس کا شرعی لباس "جلباب ہے جو اس کے ستر کو ڈھانپتا ہے اور تبرج سے پاک ہے")

 

اس سب کا تقاضا ہے کہ  اس کو تحفظ اور امن فراہم کیا جائے  کیونکہ اس کی حقیقت  یہ ہے کہ وہ ایسی عزت ہے جس کی حفاظت ضروری ہے اس کو امن اور تحفظ کی فراہمی واجب ہے جس کے لیے حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔۔۔میں اس معاملے میں  جس کو ترجیح دیتا ہوں  وہ یہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ، اس کی تمام شرائط کے ساتھ۔۔۔اللہ ہی زیادہ علم اور حکمت والا ہے۔

 

27 صفر الخیر1440ہجری بمطابق5 نومبر 2018]ختم شد

 

جہاں تک آپ کی جانب سے بعض علما کے اقوال کا ذکرہے (جن میں الازہر کے موجودہ دور کے بعض علما بھی ہیں ہیں جن کو قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا جو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں  سفر کےلیے عورت کو محرم کی ضرورت نہیں  کیونکہ سفر اور نقل حمل  کے امور بہت آسان ہو گئے ہیں انہوں امور کو ذرائع نقل وحمل سے جوڑ دیا  تو کیا ان کی بات کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔۔۔؟)

 

یہ ایسی باتیں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں  ،نہ ہی ان میں کوئی وزن ہے کیونکہ نص واضح ہے ،سفر میں محرم کا ہونا فرض ہے  ۔یہ حکم شرعی  ہے جس کو بلا دلیل کی کہاوتوں سے  باطل نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔

اور اللہ ہی زیادہ علم اور حکمت والا ہے

 

آپ کا بھائی

عطا بن خلیل ابو الرشتہ

14 رجب الحرام 1444 ہجری

بمطابق5 فروری2023ء

Last modified onبدھ, 01 مارچ 2023 05:38

Leave a comment

Make sure you enter the (*) required information where indicated. HTML code is not allowed.

اوپر کی طرف جائیں

دیگر ویب سائٹس

مغرب

سائٹ سیکشنز

مسلم ممالک

مسلم ممالک